بڑا پریوار دکھی پریوار

حفیظ نعمانی

مشہور صحافی رجت شرما کا ٹی وی چینل انڈیا ٹی وی 22 برس سے ایک پروگرام ہفتہ اور اتوار کو رات کے 10 بجے سے 11 بجے تک ’آپ کی عدالت‘ پیش کرتا ہے۔ شاید و باید اب بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے اسٹوڈیو سے ہٹ کر کسی دوسرے شہر کے دوسرے ہال میں اسے پیش کرتا ہے۔ کل لکھنو میں ہوٹل تاج میں پیش کیا گیا۔ ابتدا کے 25 منٹ تو محسوس ہوا کہ جیسے اسے رجت شرما نے ہی اس لیے پیش کیا ہے کہ وہ ان کے کچھ ایسے جواب سنوائیں جس سے آنے والے الیکشن میں بی جے پی کو فائدہ ہوجائے۔ لیکن بعد میں پورے پروگرام سے اندازہ ہوا کہ یہ پروگرام وزیر اعلی اکھلیش یادو نے اپنے خرچ پر کرایا ہے اور وہ اس پروگرام کے ذریعہ پورے اتر پردیش کو خصوصاً اور پورے ملک کو عموماً یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ آج تک کسی حکومت نے پانچ سال میں وہ نہیں کیا جو جواں سال اکھلیش یادو نے کر دکھایا۔

رجت شرما ہر طرف سے گھماکر یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ وہ جو آپ کے پریوار نے ’بڑا پریوار دکھی پریوار‘ کا نمونہ پیش کیا ہے اس سے پارٹی کو کتنا نقصان ہوا؟ اور وزیر اعلی اکھلیش یادو یہ کہہ رہے تھے کہ پریوار میں کوئی تنازعہ ہے ہی نہیں۔ پورا پریوار نیتا جی کے پیچھے کھڑا ہے اور وہ جس کو جو بنادیں گے اسے سب قبول کرلیں گے۔

وزیر اعلیٰ کروڑوں روپے اشتہار پر خرچ کر رہے ہیں۔ اور یہ سب سے مہنگا اشتہار تھا جو انہوں نے دکھایا لیکن عام آدمی کو جو پیغام گیا ہے وہ یہ ہے کہ سماج وادی پارٹی، پارٹی نہیں ہے بلکہ یادو پریوار ہے جو تین خانوں میں بٹا ہوا ہے۔ بڑا طبقہ شری ملائم سنگھ کے ساتھ ہے چھوٹا وزیر اعلیٰ کے ساتھ اور اس سے ذراچھوٹا چچا شیوپال یادو کے پاس۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب اکھلیش یادو نے شیو پال سے سارے محکمے چھین کر انہیں بے عزرت کردیا تو سیکڑوں جوان ان کے گھر پر نعرے لگا رہے تھے کہ شیوپال تم سنگھرش کرو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔

وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کے اس فیصلہ کے بعد ملائم سنگھ کی وہ رگ پھڑکی جو پہلی بیوی کی اولاد کے لیے پھڑکتی ہے اور انہوں نے اکھلیش یادو سے نہ صرف وہ سارے محکمے شیوپال کو دلوائے بلکہ وہ جو یوپی کے صدر کا محکمہ بھی ان کے پاس تھا وہ ان سےلے کر اپنے چھوٹے بھائی شیوپال کو دے دیا۔ اکھلیش نے جو چچا کے ساتھ کیا وہ بے شک بہت بڑی بات تھی پر نیتا جی نے جو بیٹے کے ساتھ کیا وہ اس سے بھی بڑی بات تھی اور جب دو گھنٹہ کی آرپار کی بات ہوئی تو فیصلہ اس پر ہوا کہ پارلیمنٹر بورڈ کا صدر اکھلیش کو بنا دیا گیا لیکن ایک ہفتہ کی اس جنگ میں کبھی ذکر نہیں آیا کہ پارلیمنٹری بورڈ کا صدر پہلے کون تھا؟ اور پریوار کی پوری لڑائی میں نہ اس بورڈ کا ذکر آیا نہ ورکنگ کمیٹی کا اور نہ صوبائی صدر کا صرف سب سے بڑے نیتا، چچا اور بھتیجے کے گرد کہانی گھومتی رہی۔

ہمیں یاد نہیں کہ کسی وزیر اعظم یا وزیر اعلی نے وہ کیا ہو جو اتر پردیش کے وزیر اعلی نے کیا کہ جس وزیر کے حلقہ میں پارلیمنٹ کے امیدوار نے وزیر کی شکایت کی کہ اس نے مدد نہیں کی یا مخالفت کی اس سے محکمے لے کر وہ محکمے دے دیے جو نام کے محکمہ ہیں جیسے مچھلی پالنا یا فیملی پلاننگ وغیرہ اور جب اس نے معافی مانگ لی تو اچھا محکمہ دے دیا۔ یا مختار انصاری کی پارٹی کا سماج وادی سے رشتہ جوڑنے کی کوشش کی تو اسے نکال باہر کیا۔ پھر بات آئی گئی ہوگئی تو اسے چار دن میں پھر واپس لے لیا۔ اپنے چچا سے سارے محکمے واپس لے لیے۔ پھر جب نیتا جی نے آنکھیں دکھائی تو سب واپس کردیے۔ دو وزیروں کو ایسے نکال دیا جیسے گھر سے آوارہ کتوں کو نکالتے ہیں اور چار دن کے بعد پھر حلف دکھا کر لے لیا۔ گورنر صاحب بھی سوچتے ہوں گے کہ یہ کیسی حکومت ہے کہ کبھی جائو اور آجائو حلف واپس لے لو اور پھر حلف دلا دو کراتی نہیں تھکتی؟۔

ایک بات سب کو ماننا پڑے گی کہ اکھلیش یادو نے بہت کام کیے ہیں ریلوے کے رزرویشن کی مجبوری ایسی ہوگئی کہ اگر اچانک گھر کے چند افراد کو دہلی جانا پڑھے یا وہاں سے لکھنو آنا پڑے تو کار سے آٹھ دس گھنٹے میں یہ سفر ہوسکتا ہے۔ آگرہ دہلی کے درمیان تو گاڑی اڑتی ہے اور آگرہ سےلکھنو کے درمیان بھی کہیں رفتار کم نہیں کرنا پڑتی۔ کل آپ کی عدالت میں وزیر اعلی نے کہا کہ بنارس میں 24 گھنٹے بجلی آرہی ہے اور ہماری معلومات کی حد تک اتنی تو نہیں لیکن پہلے مقابلہ مین حالت بہت اچھی ہے۔

سابق وزیر اعلی مس مایاوتی نے چند دن پہلے کہا تھا کہ اگر اب ہماری پارٹی نے حکومت بنائی تو ہم پارک نہیں بنائیں گے۔ یہ ایک طرح کی غلطی تسلیم کرنا ہے کہ سیکڑوں کروڑ کے ہاتھی اور مورتیاں اور پارک بناکر انہوں نے عوام کا روپیہ برباد کردیا ہے۔ لیکن اکھلیش یادو نے ایک بات کے بارے میں بھی نہیں کہا کہ اگر ہم نے دوبارہ حکومت بنائی تو یہ کام نہیں کریں گے۔

انہوں نے اقلیتوں کے بارے میں جو کہا ہم اس سے اتفاق نہیں کریں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ نہ انہوں نے پولیس میں بھرتی کی ہے اور نہ کریں گے۔ لیکن اتنا تو کرسکتے ہیں کہ مسلمانوں کو لائسنس دیدیں۔ جاٹوں اور یادو کے ہر گھر میں بندوق ہے اور ہمارے بیٹھے جو لاکھوں روپے انکم ٹیکس اور دوسرے ٹیکس دیتے ہیں انہیں لائسنس دینے میں اتنا وقت لگا دیا جیسے وہ ڈاکہ ڈالنے جارہے ہیں مظفر نگر ہو یا بجنور اگر مسلمانوں کے پاس بھی بندوق ہوتی تو وہ نہ ہوتا جو ہوا اس کے باوجود اقلیتوں کی مالی مدد کرنے کا احسان جتانا مناسب نہیں ہے۔

2012 میں مسلمانوں نے جو کیا اکھلیش حکومت نے اس کا بدلہ نہیں دیا اب 2017 میں جب ان کے مخالف اعمالنامہ پیش کریں گے تو ان کو جواب دینا مشکل ہوجائے گا جو اب تک ان کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ بجنور میں نامزد رپورٹ ہے اور پولیس سب جانتی ہے کہ کون کہاں چھپا ہے؟ اگر ثابت کرنا ہے کہ وہ مسلمانوں کا احسان مانتے ہیں تو گرفتاری بھی جلد کریں اور جیل بھیجنے سے پہلے وہ کریں جس سے سبق مل جائے۔ اور جتنے مسلمانوں نے بندوق کے لائسنس کی درخواست دے رکھی ہے اور اگر ان کا ریکارڈخراب نہ ہو تو چار مہینوں کے اندر سب کو لائسنس دلادیں۔ بندوق کا استعمال صرف یہ نہیں ہے کہ گولی کا جواب گولی سے دیا جائے بلکہ یہ بھی ہے کہ جس گھر میں بندوق ہوتی ہے وہاں گولی مارنے سے پہلے سوبار سوچنا پڑتا ہے۔ یہ مطالبہ خیرات نہیں حق ہے اورحق مانگنا ہر شہری کا حق ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔