غیرمسلمین کے تہواروں میں مبارکبادی یا شرکت کے احکام

ترتیب: ذوالفقار علی فلاحی

        ہرزمانہ میں معاشرہ تکثیری معاشرہ رہا ہے، جہاں مسلم و غیر مسلم سب ایک ساتھ رہتے رہے ہیں، سب کے اپنے عقائد اور اپنی تہذیبیں ہیں، جن میں کچھ خالص الٰہی احکام پر مبنی رہیں تو کچھ میں الٰہی احکام کے ساتھ وقت کے گزرنے کے ساتھ اس ملت نے اپنی بدعات  و خواہشات کو داخل کردیا، اور بہت سوں نے تو اپنے خود ساختہ رسوم ورواج کو ہی دین اور دینی تہذیب بناڈالا، ذیل کی تحریر میں ایسے معاشرہ میں مسلمانوں کا ان غیر مسلم عبادات، تہواروں اور تہذیبوں کے بارے میں کیا طرز عمل رہا ہے اور ہونا چاہئے جیسی باتوں کی قرآن وسنت کی روشنی میں مدلل وضاحت کی گئی ہے، امید ہے ہم مسلمانوں کے لئے یہ باتیں مشعل راہ ہوں گی۔

        تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عیسائیوں کے کرسمس یادیگرغیرمسلمین کے مذہبی تہواروں پر مبارکباد دینا حرام ہے، جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ” أحکام أھل الذمۃ ” میں نقل کیا ہے: "کفریہ شعائر پر تہنیت دینا حرام ہے، اور اس پر سب کا اتفاق ہے، مثال کے طور پر ان کے تہواروں اور روزوں کے بارے میں مبارکباد دیتے ہوئے کہنا: "آپ کو عید مبارک ہو” یایہ کہ "اس عید پر آپ خوش رہیں ” وغیرہ، اس طرح کی مبارکباددینے سے کہنے والا کفر سے تو بچ جاتا ہے لیکن یہ کام حرام ضرور ہے، بالکل اسی طرح حرام ہے جیسے صلیب کو سجدہ کرنے پر اْسے مبارکباد  دی جائے، بلکہ یہ اللہ کے ہاں شراب نوشی، قتل اور زنا وغیرہ سے بھی بڑا گناہ ہے، بہت سے ایسے لوگ جن کے ہاں دین کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے ان کے ہاں اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں، اور انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کتنا برا کام کر رہا ہے، چنانچہ جس شخص نے بھی کسی کو گناہ، بدعت، یا کفریہ کام پر مبارکباد دی وہ یقینا اللہ کی ناراضگی مول لے رہا ہے۔ ‘‘

        چنانچہ کفار کو ان کے مذہبی تہواروں میں مبارکبا د دینا حرام ہے، اور حرمت کی شدت ابن قیم رحمہ اللہ نے ذکر کردی ہے کہ حرام اس لئے ہے کہ اس میں ان کے کفریہ اعمال کا اقرار شامل ہے، اور کفار کے لئے اس عمل پر اظہار رضا مندی بھی، اگرچہ مبارکباد دینے والا اس کفریہ کام کو اپنے لئے جائز نہیں سمجھتا، لیکن پھر بھی ایک مسلمان کیلئے حرام ہے کہ وہ کفریہ شعائر پر اپنی رضا مندی کا اظہار کرے یا کسی کو ان کاموں پر مبارکباد دے، کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کیلئے اس عمل کو قطعی طور پر پسند نہیں کیا، جیسا کہ فرمانِ باری تعالی ہے: ان تکفروا فان اللہ غنی عنکم ولایرضی لعبادہ الکفر وان تشکروایرضہ لکم(سورہ زمر:7)۔ ترجمہ:اگر تم کفر کرو تو بیشک اللہ تعالی تمہارا محتاج نہیں، اور (حقیقت یہ ہے کہ)وہ اپنے بندوں کے لئے کفر کو پسند نہیں کرتا، اور اگر تم اس کا شکر ادا کرو تو یہ تمہارے لئے اس کے ہاں پسندیدہ عمل ہے۔

        اسی طرح فرمایا: الیوم أکملت لکم دینکم وأتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً (المائدہ:3)۔ ترجمہ: آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کردیا، اور تم پر اپنی نعمتیں مکمل کردیں، اور تمہارئے لئے اسلام کو بطورِ دین پسند کر لیا۔ (المائدہ: 3)

        لہذا غیرمسلمین کو ان کے تہواروں کے موقع پر مبارکباد دینا حرام ہے، چاہے کوئی ملازمت کا ساتھی ہو یا کلاس کا ساتھی ہو یا کوئی اور۔ اگر وہ ہمیں اپنے تہواروں پر مبارکباد دیں تو ہم اس کا جواب نہیں دیں گے، کیونکہ یہ ہمارے تہوار نہیں ہیں، اور اس لئے بھی کہ ان تہواروں کو اللہ تعالی پسند نہیں کرتا، کیونکہ یا تو یہ تہوار ان کے مذہب میں خود ساختہ ہیں یا پھر ان کے دین میں تو شامل ہیں لیکن محمد ﷺپر ساری مخلوق کے لئے نازل ہونے والے اسلام نے ان کی حیثیت کو منسوخ کردیا ہے، اور اسی بارے میں فرمایا: ومن یبتغ غیر الاسلام دیناً فلن یقبل منہ وہو فی الآخرۃ من الخاسرین (آل عمران :85)۔ ترجمہ:اور جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کوئی دین تلاش کرے گا ؛ اسے کسی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔

        چنانچہ ایک مسلمان کے لئے اس قسم کی تقاریب پر ان کی دعوت قبول کرنا حرام ہے، کیونکہ ان کی تقریب میں شامل ہونا اْنہیں مبارکباد دینے سے بھی بڑا گناہ ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کے لئے یہ بھی حرام ہے کہ وہ ان تہواروں پر کفار سے مشابہت کرتے ہوئے تقاریب کا اہتمام کریں، یا تحائف کا تبادلہ کریں، یا مٹھائیاں تقسیم کریں، یا کھانے کی ڈشیں بنائیں، یا عام تعطیل کا اہتمام کریں، کیونکہ نبیﷺکے فرمان کا مفہوم ہے:’’ جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ اْنہی میں سے ہے۔ ‘‘

        شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب اقتضاء  الصراط المستقیم، مخالفۃ أصحاب الجحیم میں کہتے ہیں :  ’’کفار کے چند ایک تہواروں میں ہی مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے ان کے باطل پر ہوتے ہوئے بھی دلوں میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے، اور بسا اوقات ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ سے ان کے دل میں فرصت سے فائدہ اٹھانے اور کمزور ایمان لوگوں کو پھسلانے کا موقع مل جائے، ۔ ‘‘

        مذکورہ بالا کاموں میں سے جس نے بھی کوئی کام کیاوہ گنہگار ہے، چاہے اس نے اپنا موقف نہ ظاہرکرتے ہوئے، یا دلی محبت کی وجہ سے، یا حیاء کرتے ہوئے یا کسی اور بھی سبب سے کیا ہو، اس کے گناہ گار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے دین الہی کے بارے میں بلاوجہ نرمی سے کام لیا ہے، جو کہ غیرمسلمین کے لئے نفسیاتی قوت اور دینی فخر کا باعث بنا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مسلمانوں کی اپنے دین کی وجہ سے عزت افزائی فرمائے، اور انہیں اس پر ثابت قدم رہنے کی توفیق دے، اور انہیں اپنے دشمنوں پر غلبہ عطا فرمائے، بیشک وہ طاقتور اور غالب ہے۔ ( مجموع فتاوی ورسائل شیخ ابن عثیمین 3/369 )

         یہ بات سب کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کی عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ کوئی عید نہیں ہے، اور ہفت روزہ عید جمعہ کا دن ہے، چنانچہ ان کے علاوہ کوئی بھی جشن، تہوار اسلام میں منع ہے، چنانچہ کوئی بھی اضافی جشن و تہوار دو حال سے خالی نہیں ہیں :

۱۔ بدعت: یہ اس صورت میں ہوگا کہ اس جشن اور تہوار کو قربِ الہی کے لئے منایا جائے، مثلاً: عید میلاد النبی، محرم یا رجب کی تہوار دغیرہ،

۲۔ کفار سے مشابہت: جب اس جشن یا تہوار کو رسم و رواج کے طور پر منایا جائے عبادت کے طور پر مت منایا جائے؛ چونکہ خود ساختہ تہوار منانا اہل کتاب کا شیوہ ہے، اور ہمیں ان کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے، پھر جب عام تہوارمنانا ان سے مشابہت ہے تو اہل کتاب کے ساتھ مخصوص تہوارمنانا اور ان میں شرکت کرنا کیسا ہوگا!!

        کرسمس یا دیگر غیر اسلامی تہواروں کے موقع سے گھروں کو غباروں یا قمقموں یا زینت کی چیزوں سے مزین کرنا کفار کی عید میں کھلم کھلاشرکت کا اظہار ہے، جب کہ ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ ان ایام کو جشن، زیب و زینت، اور کھانے پینے کے لئے خاص نہ کرے، ورنہ وہ بھی کفار کے تہوار میں شریک سمجھا جائے گا، اور یہ کام حرام ہے، جس کی حرمت میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔

        شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا عیسائیوں کے تہواروں میں شرکت کے بارے میں تفصیلی جواب درج ذیل ہے:’’آپ سے کچھ مسلمانوں کی طرف سے نوروز کے دن عیسائیوں کے لئے کھانا بنانا، رسمِ "غطاس” (عیسائیوں کے ہاں مقدس جگہ پر نہانے کی رسم)  "جمعرات کی دال” (مخصوص جمعرات کو تیار کیا جانے والا اناج کا کھانا) "مقدس ہفتے کا دن” (عید الفصح کے بعد عیسائیوں کے ہاں ہفتے کا مقدس دن) وغیرہ منانا اور ان تہواروں کے لئے معاون اشیاء کی خرید و فروخت کرنے کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا یہ کام کرنامسلمانوں کیلئے جائز ہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا: کسی بھی مسلمان کے لئے عیسائیوں کے مخصوص اعمال میں ان کی مشابہت کرنا جائز نہیں ہے، مثلا ان جیسے کھانے بنانا، لباس پہننا، نہانا، آگ جلانا، شمعیں روشن کرنا، عام تعطیل کرنا وغیرہ سب منع ہیں، کھانے کی دعوت کرنا، تحائف دینا، اور ان تہواروں کے لئے معاون بننے والی اشیاء فروخت کرنا بھی جائز نہیں ہے، بلکہ بچوں کو ان کی عید کے دنوں میں انہی جیسے کھیل کود کی اجازت دینا، اور زیب و زینت اختیار کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

        خلاصہ یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کے لئے عیسائیوں کے کسی بھی تہوار اور شعار کو اپنانا جائز نہیں ہے، بلکہ ان کی عید کے دن مسلمانوں کے ہاں عام دنوں کی طرح گزارے جائیں، مسلمان ان کے امتیازی امور نہیں اپنا سکتے، گزشتہ امور کو مسلمانوں کی طرف سے اپنانے کے بارے میں حرمت کا حکم تمام علمائے کرام کا متفقہ حکم ہے۔ بلکہ کچھ علمائے کرام کا کہنا ہے کہ ان کاموں کے کرنے سے انسان کافر بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ ان کاموں کی وجہ سے کفریہ شعائر کی تعظیم ہوتی ہے، اور کچھ علماء کا کہنا ہے کہ : جو شخص ان کی عید کے دن جانور ذبح کرے گویا کہ اس نے سورذبح کیا۔

        عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: جو شخص عجمیوں کے پیچھے لگ کر نوروز، اور مہرجان کا دن مناتا ہے، اور مرتے دم تک ان کی مشابہت اختیار کرتا ہے تو وہ قیامت کے د ن انہی کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔

        سنن ابو داود میں ثابت بن ضحاک کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکے زمانے میں ایک شخص نے "بوانہ” جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی، وہ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: "میں نے "بوانہ” جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے”تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا: کیا وہاں پر جاہلیت کے دور میں کسی بت کی پوچا تو نہیں ہوتی تھی؟ اس نے کہا: "نہیں ” آپ ﷺنے استفسار فرمایا: کیا وہاں پر کوئی ان کا تہوار تو نہیں لگتا تھا؟ اس نے کہا: "نہیں ” تو آپ ﷺنے فرمایا:جاؤ اپنی نذر پوری کرو، اور ایسی کوئی نذر پوری نہیں کی جاتی جس میں اللہ کی نافرمانی ہو، اور ایسی چیز کی نذر بھی پوری نہیں کی جاسکتی جو ابن آدم کی ملکیت میں نہ ہو۔

        حالانکہ نذر پوری کرنا واجب ہے لیکن اس کے باوجود نبی ﷺنے اس آدمی کو اس وقت تک نذر پوری کرنے کی اجازت نہیں دی جب تک اس نے یہ نہیں بتلا دیا کہ وہاں پر کفار کا کوئی تہوار منعقد نہیں ہوتا تھا، اور آپﷺ نے یہ بھی بتلا دیا کہ : ایسی کوئی نذر پوری نہیں کی جاتی جس میں اللہ کی نافرمانی ہو۔ چنانچہ ان کے تہوار والی جگہ پر اللہ کے لئے ذبح کرنا معصیت ہے تو ان کے تہوار میں بنفسِ نفیس شرکت کتنا بڑا گناہ ہوگا؟

        بلکہ امیر المؤمنین عمر ؓبن خطاب اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ ساتھ دیگر تمام مسلم حکمرانوں کی طرف سے غیر مسلموں پر لازمی تھا کہ اپنے تہوار مسلمانوں کے درمیان اعلانیہ نہیں منائیں گے، بلکہ اپنے گھروں کے اندراپنے مذہبی تہوار منائیں گے، اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کا یہ حال ہونا چاہئے تھا لیکن اگر خود مسلمان ایسا کرنے لگ جائیں تو پھر کیا حال ہوگا؟ امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہاں تک فرمایا: "عجمیوں کی زبان مت سیکھو، اور مشرکوں کے عبادت خانوں میں ان کے تہوار کے دن مت جاؤ، کیونکہ ان پر اللہ کی ناراضگی نازل ہوتی ہے۔ ”  اگر مشرکوں کے عبادت خانوں میں سیر و سیاحت یا کسی اور غرض سے بھی جانا منع ہے کہ وہاں اللہ کی ناراضگی نازل ہوتی ہے، تو اس شخص کا کیا حال ہو گا جو خود کفار کے شعائر میں سے اللہ کی ناراضگی کا باعث بننے والا عمل سر انجام دیتا ہے؟!

        بہت سے سلف صالحین نے قرآن مجید کی آیت والذین لا یشھدون الزوریعنی مؤمن وہ ہیں جو غلط محفلوں میں شرکت نہیں کرتے، کی تفسیر میں کہا ہے کہ یہاں "زْور” سے مراد کفار کے تہوار ہیں، اگر کفار  کی محفلوں میں کوئی عمل سر انجام نہ دینا ہو، صرف حاضری پر یہ بات ہے، تو کفار کے مخصوص اعمال کرنے پر کتنی بڑی بات ہوگی؟!

         نبی ﷺسے سنن ابو داود میں ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا: جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے۔ اور ایک حدیث میں الفاظ یوں ہیں :وہ ہم میں سے نہیں جو دوسروں (غیر مسلموں ) کی مشابہت اختیار کرے۔ یہ حدیث درجہ کے اعتبار سے جید ہے؛ چنانچہ کفار کے ساتھ عادات میں مشابہت اختیار کرنے میں اتنی بڑی وعید ہے، تو اس سے بڑھ کر عبادات میں مشابہت اختیار کرنے میں کتنی بڑی وعید ہوگی؟!”(الفتاوی الکبریـ (2/ 487)، مجموع الفتاوی (25/ 329)

تبصرے بند ہیں۔