بڑی مدت سے جاگے ہوئے کو نیند آئی

30/ڈسمبر کی شام یہ روح فرسا خبر کانوں سے ٹکرائی کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہٗ کے شاگرد رشید، مادرعلمی دارالعلوم دیوبند کے قدیم ترین استاذ ، بلکہ استاذ الاساتذہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق صاحب اعظمی 89 سال کی عمر میں دارفانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کرگئے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون

مختصر سوانحی خاکہ:
آپ کی پیدائش 1928 میں ہندوستان کے مردم خیز علاقے اعظم گڑھ میں ہوئی ، اپنے علاقہ میں ابتدائی تعلیم پانے کے بعد دارالعلوم مئو سے عربی ہفتم تک تعلیم حاصل کی، پھر تکمیل دورہ کے لئے دارالعلوم دیوبند کا رخ فرمایا اور وقت کے اساطین علم سے استفادہ کے بعد سند فضیلت حاصل کی، مختلف جگہوں پر تدریسی خدمات انجام دی، درس نظامی کی اہم ترین کتابیں اور حدیث کی بنیادی کتب آپ کے زیر درس رہیں، 1982 میں ارباب شوریٰ کی ایماء پرآپ کو دارالعلوم دیوبند میں بہ حیثیت مدرس بلایا گیا اور تادم آخر آپ نےاس فریضہ کو بحسن وخوبی انجام دیا۔
آپ کی پوری زندگی ریاضت ومجاہدے سے عبارت تھی، کم ہمتی کو کبھی آپ نے راہ نہ دی، کبھی کسی عہدہ کی طلب رہی نہ دادوتحسین کی پرواہ، بے لوث ومخلصانہ خدمات کے ذریعہ ایسے ان منٹ نقوش چھوڑے کہ رہتی دنیا تک آپ کو یادرکھا جائے گا۔
بالیقین حضرت شیخ ثانی کا شمار ان خدارسیدہ افراد میں ہوتا ہے ؛ جن کا وجودباوجود خود اس دور میں رحمتوں کے نزول کا سبب اور زمانہ کے لئے نعمت عظمیٰ سمجھاجاتا ہے ۔
آپ اسلاف واکابر کے علوم ومعارف کے پاسبان اور ان کی فکر وتڑپ کے پاسدار تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو جہاں تبحر علمی سے نوازا تھا وہیں سوز ِجگر اور خلوص وللہیت کی قیمتی دولت بھی وافر مقدار میں عطا فرمائی تھی ، مزاج میں غیرمعمولی سادگی اور بے تکلفی تھی، حتیٰ کہ یہ شعر آپ کے حجرہ میں ہر وقت آویزاں رہتا تھا:

ہم غریبوں کی یہی ہے کائنات
بوریا حاضر ہے شاہوں کے لئے
دارالعلوم دیوبند جیسے عظیم ادارے میں تقریبا 32سال تک بخاری شریف پڑھانا اور پورے سوز وگداز کے ساتھ آدم گری اور مردم سازی کا کام انجام دینا یقیناً آپ کاوصف خاص اور طرہ امتیاز ہے۔
آپ کا درس معلومات افزاء اور نہایت پر تاثیر ہوتا؛ جس میں آپ علم وحکمت کی باتیں بیان فرماتے اور دلوں میں الفاظ حدیث کے ساتھ عظمت حدیث اور محبت رسول ﷺ بھی پیوست فرماتے جاتے۔
اوصاف وخصائل:
حضرت شیخ نوراللہ مرقدہٗ جہاں نہایت خوش مزاج اور ظریف الطبع تھے وہیں اس سے کہیں زیادہ رقیق القلب اور کثیر البکاء تھے ،ختم بخاری شریف کے موقع پر کی جانے والی رقت آمیز دعا کا منظر تو آج بھی آنکھوں میں گھوم رہا ہے ۔
آپ دارالعلوم کے روح پرور اور نورانی ماحول میں مستجاب الدعوات کے نام سے مشہور تھے ، کوئی بھی انفرادی یا اجتماعی مسئلہ درپیش ہوتا توہر کوئی آپ ہی کا رخ کرتا ،دعا کی درخواست کرتا ،آپ دعا فرمادیتے اور مسئلہ حل ہوجاتا ۔

وقت کے بلند پایہ شیخ الحدیث ہونے کے باجود ضیافت ومہمان نوازی تو آپ کی گھٹی میں شامل تھی ، شناساتوشنا سا کوئی عام مہمان بھی ملاقات کے لئے آتا تو کم از کم ایک وقت کے کھانے کے لئے ضرور مدعوکیاجاتا ۔
جو محبوب خدا کا ہے وہ محبوب خدا ہوگا:
حضرت والا کا بخاری شریف سے عشق دیدنی تھا ، متعدد اعذار وامراض میں بھی آپ نے درس حدیث کو دنیا کی ہر شئی پر ترجیح دی ، عمر کے اخیر مراحل میں بھی وہیل چیر کے ذریعہ دورہ حدیث تشریف لاتے اور دنیا بھر سے آئے ہوئے ہزارہا تشنگان علوم کو جام معرفت پلاتے۔
حضرت شیخ الحدیث اب ہمارے درمیان نہیں رہے مگر نضراللہ امرأالخ کے مطابق حدیث رسول سے بے انتہاوارفتگی اور ولد صالح یدعولہ کے مصداق لاکھوں تلامذہ آپ کے مغفرت اور عنداللہ قبولیت کے لئے کافی ہے ۔
بلاشبہ حضرت شیخ الحدیث کا انتقال ایک عہد کا خاتمہ ہے جنہوں نے نصف صدی سے زائدعرصہ تک دارالعلوم میں علم حدیث کی بلند پایہ خدمات انجام دی اور اپنی مستقل تاریخ رقم کی۔
آپ کے پسماندگان میں2صاحبزادے اور 3صاحبزادیاں ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ دیگر متعلقین کو بھی صبر جمیل عطافرمائے اور دارالعلوم کو آپ کا نعم البدل نصیب فرمائے۔(آمین)

چراغ لاکھ ہیں لیکن کسی کے اٹھتے ہی
برائے نام بھی محفل میں روشنی نہ رہی

تبصرے بند ہیں۔