بڑے بھائی نے اپنا فرض ادا کردیا

حفیظ نعمانی

تین دن کی غیرحاضری کا کسے کسے جواب دیں، ہر بار محبت کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ لکھنے والا بیمار ہوگیا۔ جبکہ زندگی میں اور بھی نہ جانے کتنے مسائل ایسے ہیں جو ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈال دیتے ہیں۔ اور یہ میں کس سے کہوں کہ یہ محبت ہی میری کمر تھامے ہوئے ہے ورنہ یہ عمر ایسی نہیں ہے کہ اپنے پیاروں کی محبت میں تلوار لے کر نکلا جائے۔

ان تین دنوں میں قدرت نے وہ دکھایا جو پروردگار بار بار زبان سے نکلوا رہا تھا کہ اہل خانہ ہی نہیں تعلق والے بھی پریشان تھے کہ دیکھئے کیا ہو؟ اور یہ ٹوٹا پھوٹا آپ کا بھائی سب سے ایک ہی بات کہتا رہا کہ تخریب میں جو کشش ہوتی ہے وہ تعمیر میں نہیں ہوتی۔ جب نعرہ لگتا تھا کہ ہندوؤں کی غلامی کی یہ نشانی کلنک ہے اور لعنت ہے ہم پر جو اس ڈھانچہ کو نہیں گراپاتے تو بت پرستوں کا خون جوش مارنے لگتا تھا۔ اور یہی جوش تھا جس نے مسجد پر چڑھائی کرادی اور کالے ہندو گورے ہندو ایک آواز ہوگئے تو فوج اور پولیس کے ہوتے ہوئے مسجد شہید کردی گئی۔

اب آواز تھی کہ مندر وہیں بنائیں گے تو مسلمانوں سے زیادہ ہندو تقسیم ہوگئے اودھو ٹھاکرے کو مہاراشٹر میں بی جے پی کو ہرانا تھا ڈاکٹر پروین توگڑیا کو وزیراعظم پر حملہ کرنا تھا اور آدتیہ ناتھ یوگی کو اپنی بدنامیوں پر نیک نامی کا پردہ ڈالنا تھا اور نریندر مودی اور امت شاہ کو یہ دکھانا تھا کہ سپریم کورٹ کے احترام میں وہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ ان سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ بات وہ ہوگئی جو جنوری میں کپل سبل نے کہی تھی کہ اس مقدمہ کو 2019 ء کے الیکشن کے بعد پرسکون فضا میں سن لیا جائے۔

اس عرصہ میں سب نے اپنی اپنی بولی سنائی لیکن ایک بات بہت ہی نامناسب کہی گئی۔ یہ 25 تاریخ کی بات ہے جب اجودھیا میں مذہبی ووٹوں کی جنگ ہورہی تھی اس وقت راجستھان کی سابق ریاست الور میں وزیراعظم تقریر کررہے تھے۔ اور موضوع تھا کہ رام مندر میں کون رُکاوٹ ڈال رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس مندر کی تعمیر میں روڑے اٹکا رہی ہے۔ اس نے سپریم کورٹ کے ججوں کو ڈرانے اور دھمکانے کا کام شروع کردیا ہے۔ قارئین کرام نے بھی ڈرانے اور دھمکانے کے دونوں لفظ سنے ہوں گے۔ اور کون باشعور ایسا ہے جو ڈرانے اور دھمکانے کے لئے جو الفاظ اور جو لہجہ اختیار کیا جاتا ہے اس سے واقف نہ ہو۔ وزیراعظم کا اشارہ جنوری 2018 ء یعنی دس مہینے پہلے کپل سبل کے اس بیان کی طرف تھا جو انہوں نے سنی وقف بورڈ کے وکیل کی حیثیت سے دیا تھا اور کہا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔ بابری مسجد اور رام مندر کے اس مقدمہ کی سماعت 2019 ء کے الیکشن کے بعد اگر ہو تو اس پر الیکشن کی کشمکش کا اثر نہیں ہوگا۔ اس بیان میں وہ کون الفاظ ہیں جو کسی فرقہ یا جماعت یا حکومت کو ڈرانے اور دھمکانے میں ہر جگہ استعمال ہوتے ہیں۔ اور جو کپل سبل صاحب نے گذارش کی ایسی معروضات اور گذارشات شاید ہی کوئی وکیل ہو جس نے نہ کی ہوں؟ وزیراعظم نے یہ تو سوچا ہوتا کہ ان کی پارٹی کے لوگ کیا ان کے بارے میں یہ نہیں سوچیں گے کہ پانچ ریاستوں کے الیکشن میں نظر آنے والی ناکامیوں سے ہمارا لیڈر اتنا ڈر گیا کہ ہلکی سی آواز سن کر ڈر رہا ہے کہ ڈانٹ دیا اور صرف مشورہ دینے کو سمجھ رہا ہے کہ دھمکا دیا؟ یہ وہ نریندر مودی ہیں جو تقریر کا مطلب صرف گرجنا اور برسنا سمجھتے تھے اب انہیں کیا ہوگیا کہ انہوں نے کپل سبل پر صرف ڈرانے دھمکانے کا ہی نہیں یہ بھی اعتراض کیا کہ وہ کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ ہیں۔ اور راہل گاندھی نے وزیراعظم کو خوف کے ماحول سے نکالنے کے لئے کپل سبل سے کہہ دیا کہ کسی کی طرف سے بھی اس مقدمہ میں نہ جائیں۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مودی جی کپل سبل کی قابلیت سے بھی ڈر گئے کہ وہ ان کے وکیل کو ہرا دے گا۔

وزیراعظم کی ایسی اور اس سے بھی غیرمعیاری باتوں کو بار بار سن کر شہرت کے اعتبار سے بردبار غیرجانبدار اور سابق ہونے کے باوجود سب کے محترم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے وزیراعظم نریندر مودی کو مشورہ دیا ہے کہ اپنی تقریروں میں صبر کا مظاہرہ کریں۔ یہ بات انہوں نے اس وقت کہی جب ان سے سیاست دانوں کی گفتگو کی سطح میں گراوٹ کے بارے میں ان کی رائے معلوم کرنا چاہی۔ انہوں نے محبت بھرے انداز میں کہا کہ وزیراعظم اپنے عہدہ کے وقار کو برقرار رکھیں وہ جب ان ریاستوں میں جاتے ہیں جہاں بی جے پی حکومت نہیں ہے تو ان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس زبان کا استعمال نہ کریں جس کا موجودہ دَور میں ہورہا ہے۔

اگر ملک کو ایک بڑا گھر سمجھ لیا جائے تو اس گھر کے بزرگ سردار منموہن سنگھ بھی ہیں ان کے ہاتھ میں اقتدار اس وقت نہیں ہے لیکن دس برس وہ وزیراعظم رہے ہیں اور وہ جو ایک چھوٹے بھائی کو نصیحت کررہے ہیں وہ کوئی نئی نہیں ہے۔ وہ جب وزیراعظم تھے تو ان کا کہنا ہے کہ ہم نے ریاستوں میں کبھی تفریق نہیں کی مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ اس کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ ہم نے انہیں وہی عزت دی جس کے وہ حقدار تھے۔ وزیراعظم مودی کو بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ سبھی ہندوستانیوں کے وزیراعظم ہیں سب کے ساتھ ان کا رویہ وزیراعظم کی ذمہ داری کے مطابق ہونا ہی چاہئے۔

ان دنوں ہونے والے انتخابات میں ان کی تقریروں پر اس کا اثر صاف محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نقصان کو محسوس کرلیا ہے۔ لیکن وہ جو اُن کے مزاج کی ضد ہے وہ انہیں تسلیم نہیں کرنے دیتی۔ کل ہم شام کو خبریں ٹی وی پر سن اور دیکھ رہے تھے تو آخر میں اب ہر نیوز چینل فلم کی خبریں بھی دینے لگے ہیں۔ این ڈی ٹی وی چینل نے دکھایا کہ فلموں کے انتہائی مشہور اور مقبول مانے جانے والے عامر خاں اپنی تازہ فلم کی ناکامی پر قوم سے معافی مانگ رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ آج تک کی بننے والی فلموں میں سب سے زیادہ یعنی 300 کروڑ روپئے میں بننے والی یہ فلم جس میں انہوں نے اور سب سے مقبول امیتابھ بچن نے مل کر کام کیا تھا اور توقع تھی کہ یہ مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دے گی اسے عوام نے ناپسند کردیا۔ عامرخاں نے کہا کہ ناکامی کا جو بھی سبب ہو سب کا ذمہ دار میں ہوں اس لئے جن لوگوں نے اسے پسند کیا جو بہت کم ہیں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور جن کو مایوسی ہوئی ان سے معافی مانگتا ہوں۔ عامرخاں وزیراعظم مودی سے عمر میں بہت چھوٹے ہیں اور فلمی دنیا میں نہ جانے کتنی فلمیں یہ سوچ کر بنی ہوں گی کہ یہ کھڑکیاں توڑ دے گی اور وہ بنانے والوں کو توڑ گئی لیکن آج تک ہم نے نہ کہیں پڑھا نہ سنا نہ دیکھا کہ فلم بنانے والے نے عوام سے معافی مانگی ہو، اگر مودی جی نے یہ نہ دیکھا ہو تو ان سے محبت کرنے والے انہیں دکھادیں اس لئے کہ عامر خاں کے اس قدم نے انہیں بہت اونچا کردیا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔