بکتے رہتے ہیں جانے کیا کیا کچھ:  ہندوستان کے ’ہوا ہوائی‘ مشاہیر

اے رحمان

 آج سے تقریباً پینتیس چھتیس سال قبل انگریزی میگزین ’انڈیا ٹوڈے‘ نے ایک نہایت دلچسپ فیچر شائع کیا تھا جس کا عنوان تھا  The Windbags of India۔ انگریزی میں لفظ windbag  (لغوی معنی :ہوا سے بھرا یعنی خالی تھیلا) ایسے شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے جو بیزار کن طریقے سے بولتا ہو، بیزار کن موضوعات پر بولتا ہو اور۔ ۔ ۔ بس بولتا ہو، یعنی جس کی تقریر (یا تحریر) سے کوئی کار آمد معنی یا پیغام برآمد نہ ہوتا ہو۔ ( اردو میں اِس لفظ کا کوئی قطعی متبادل نہیں ہے۔ بعض لغات میں اس کا ترجمہ ’بکواسی‘  ’باتونی‘ اور’ پُر پیچ باتیں کرنے والا‘ کیا گیا ہے لیکن نہ صرف یہ کہ وہ تسلّی بخش نہیں بلکہ کسی حد تک ناگوار سا بھی ہے، لہذٰا میں نےwindbag  کا آزاد ترجمہ کرتے ہوئے ’ہوا ہوائی‘ لفظ استعمال کر لیا ہے) مذکورہ فیچر میں اُس وقت کے ایسے تمام سیاسی رہنماؤں، صحافیوں، قلم کاروں اور چند دیگر شعبہ ہائے زندگی کے مشہور اشخاص کی فہرست تھی جنہیں بجا طور پر  windbag کہا جا سکتا تھا۔ ہر سیاسی شخصیت، صحافی اور ادیب (انگریزی ) کے مختصر تعارف کے بعد اس کی تحریر یا تقریر کی ان صفات کا بیان تھا جن کی بنا پر موصوف یا موصوفہ کو  windbag کے خطاب سے سرفراز کیا گیا تھا۔ فہرست میں شامل نام معمولی نہیں تھے بلکہ ہر  میدان کی قد آور، مشہور اور جیّدشخصیات کی شناخت کرتے تھے۔ مگر یہی اُس دور کی آزاد، بے باک اور باضمیر صحافت کا معیار تھا جو اب قصّۂ پارینہ بن چکا ہے۔ مجھے یاد ہے مشہور صحافی خوشونت سنگھ نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے  windbags  کے زمرے میں سائنس داں حضرات کو بھی شامل کر لیا تھا کیونکہ اُن ہی دنوں بمبئی کے ایک اخبار میں خبر چھپی کہ بعض سائنس داں انسانی جسم سے خارج ہونے یا کی جانی والی ہوا (ریاح) پر تحقیق کر کے یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس میں کون کون سی گیسز شامل ہوتی ہیں اور آیا انسانی ریاح آتشگیریعنی inflammable  ہوتی ہے ؟ خوشونت نے اپنے مخصوص ظالمانہ مزاحیہ انداز ِ تحریر میں اخراج ِ ریاح پر ایک نہایت پر لطف مضمون لکھ ڈالا۔ مجھے خوشونت سنگھ سے دوستی نہیں تو غیر رسمی اور بے تکلّف ملاقاتوں کا شرف حاصل رہا ہے۔ ایک ایسی ہی ذاتی ملاقات کے دوران انہوں نے مجھے سٹیج اور اشتہاری فلم سازی سے متعلّق مشہور و معروف شخصیت الیق پدمسی کا ایک قہقہہ آور واقعہ سنایا( جسے بعد کو انہوں نے ہندوستان ٹائمز کے اپنے ایک اداریئے میں رقم بھی کیا تھا) جو میں قارئین کی تفریح ِطبع کے لئے نقل کئے دیتا ہوں۔ ہوا یوں کہ ایک مرتبہ پدمسی نے شیکسپیٔر کا مقبول ڈرامہ رومیٔو جولیٹ سٹیج کیا۔ ڈرامے کے اختتامیہ منظر میں جب رومیٔو خود کُشی کر لیتا ہے  اور اس کی موت سے غمزدہ جولیٔٹ بھی اپنے دل میں خنجر اتار لیتی ہے عین اسی وقت اخراج ِ ریاح کی بلند بانگ آواز پورے ہال میں گونج اٹھی۔ آواز کیونکہ مائیک سے نشر ہوئی تھی اس واسطے تماشبین تو بری الذمّہ ٹھہرے لیکن سٹیج پر اس وقت صرف دو افراد تھے: رومیٔو اور جولیٹ لہذٰا پریس نے اس کی رپورٹنگ شرارتاً اس عنوان سے کی ’’ رومیٔو یا جولٔیٹ؟ ‘‘۔ واپس موضوع پر جاتے ہیں۔ اُن دنوں کے  تمام windbags  یعنی ہوا ہوائی تو ظاہر ہے اب تک رخصت ہو چکے لیکن خیال آیا کہ دور ِ حاضر کے ہوا ہوائیوں پر بھی نظر ڈالی جائے جن کی ایسی بھر مار ہے کہ سبھی کا  نام بنام ذکر تو ناممکن ہے، اور محض چند کا نام لینا ان کے ساتھ نا انصافی ہو گی، لہذٰا  ایک عمومی جائزہ ہی کافی سمجھا۔

 پہلے سیاسی رہنماؤں کو لیجئے:۲۰۱۴ اور حالیہ ۲۰۱۹ کے عام انتخابات سے پیشتر وزیر ِ اعظم مودی نے جو دھواں دھار تقاریر کیں اور ان میں (خصوصاً ۲۰۱۴ سے قبل) جو فلک شگاف وعدے فرمائے ان کا انجام دیکھ کر عوام نے موصوف کو سوشل میڈیا پر ’پھینکُو‘ کے خطاب سے سرفراز کیاتھا۔ ان کا دلچسپ، دلکش، متاثر کُن لیکن بے لگام اور خالی از خلوص انداز ِ تقریر انہیں ہوا ہوائی کے حیطۂ تعریف میں لاتا ہے۔ بی۔ جے۔ پی کے دوسرے چھوٹے بڑے رہنماؤں (مثال کے طور پر ارون جیٹلی اور سبرا منیم سوامی ) کی تحریر و تقریر کا بھی نہ اور ہوتا ہے نہ چھور۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسری سیاسی جماعتوں جیسے کانگریس وغیرہ کے لیڈران پر معنی تقاریر کرتے ہیں۔ زیادہ تر سیاسی مباحث اور تقاریر نظریئے اور آیئڈیالوجی سے محروم نظر آئیں گی۔ اور سیاسی گفتگو یا تقریر اگر کسی مخصوص آئیڈیالوجی کو پیش نہیں کرتی یا اس پر مبنی نہیں ہے تو وہ محض یاوہ گوئی ہے۔ ویسے بھی ہمارے یہاں اب سیاسی کلامیہ پورے طور پر مخالف جماعت یا رہنما کی تنقیص اور اپنی توصیف نیز نفرت آمیز اور نفرت انگیز بیانات تک محدود ہے۔

 ادیب اور قلم کاروں کا معاملہ یہ ہے کہ حیرت خیز طور پر ہندی اور دیگر علاقائی زبانوں سے کہیں زیادہ ادب انگریزی زبان میں تخلیق کیا جا رہا ہے۔ اس میں میں نے  شاعری اور فکشن ہی نہیں بلکہ سیاسی، سائنسی، معاشی، اور معاشرتی موضوعات پر شائع ہونے والی کتابوں کو بھی شامل کیا ہے۔ لیکن اگر اس تمام لٹریچر کے معیار کو باریک بینی اور ایمانداری سے جانچا پرکھا جائے تو مایوسی ہاتھ لگتی ہے۔ زیادہ تر کتابیں اس کاغذ جتنی بھی وقعت اور قیمت نہیں رکھتیں جس پر طبع ہو کر وہ شائع کی جاتی ہیں کیونکہ فاضل مصنفّین نہ صرف یہ کہ انٹرنیٹ بلکہ متعلّقہ مضامین پر انگلینڈ اور امریکہ میں شائع شدہ کتابوں سے ’استفادہ‘ کر کے یا براہ ِراست ان کا چربہ اڑا کر کتاب تالیف کر لیتے ہیں اور اسے تصنیف کا نام دے کر  مصنّف اور وہ بھی انگریزی مصنّف بن کر ہوا ہوائی کرتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر کئی ایسے افراد سے واقف ہوں جو شستہ کیا قواعد کی رو سے’ صحیح ‘انگریزی بھی نہیں لکھ سکتے اور کئی انگریزی کتابوں کے نہ صرف مصنّف ہیں بلکہ اخباروں اور ٹیلی ویژن پر بڑے طمطراق سے ہوا ہوائی یعنی انٹرویو دیتے نظر آتے ہیں۔ اردو اور ہندی میں جس قسم اور معیار کا ادب تخلیق کیا جا رہا ہے وہ ایک الگ ہی کہانی ہے جسے آئندہ مفصّل طور پر بیان کروں گا۔ مختصراً یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ بیشتر نام نہاد اردو ہندی ادیب ایسے ہوا ہوائی تھیلے ہیں جن کی تخلیقات سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوتا۔

 اب بات آتی ہے صحافت کی جس کے معاملات افسوسناک حد تک خراب ہو چکے ہیں۔ میں نے جس زمانے کے ذکر سے بات شروع کی اور جو زمانہ ہم نے دیکھا ہے ان وقتوں میں بی۔ جی۔ ورگیز، اشونی سرین، پربھا جگن ناتھن، دلیپ ہیرو، پریم بھاٹیہ، چترا سبرامنیم، فرزند احمد، ونود مہتہ اور مدھو جین (یہ صرف مشتے نمونہ از خروارے نام ہیں )جیسے انگریزی صحافیوں نے ہندوستانی صحافت کو وہ درجہ عطا کیا کہ انگلینڈ اور امریکہ کی صحافت اس کے آگے ہیچ تھی، جس کا اعتراف بھی کیا گیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے حکومت کے گھوڑوں گدھوں کی لگامیں اس طور کھینچ کر رکھیں کہ ایوان ِ اقتدار میں ان کے محض ناموں سے زلزلے آ جاتے تھے۔ یہاں یہ بات پیش ِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ ملک میں درجنوں آئینی اور دیگر زبانیں ہوتے ہوئے بھی انگریزی زبان اور انگریزی صحافت کو نہ صرف اہمیت بلکہ سیاسی تفوّق حاصل رہا جو  موجودہ دور میں الیکٹرنک میڈیا یعنی ٹی۔ وی چینلوں کے وجود میں آ جانے سے قریب الختم ہے کیونکہ ان ٹی۔ وی چینلوں کو عوام الناس تک براہ ِ راست رسائی حاصل ہے اور یہی ان کی طاقت اور فوقیت کا سرچشمہ ہے۔ جہاں تک پرنٹ میڈیا یعنی انگریزی اخبارات کی بچی کچی اہمیت اور آواز کا تعلّق ہے تو جہد للبقا کے زیر ِ اثر بیشتر اخبارات اقتدار کی لکیر پیٹنے پر مجبور ہیں اور جو با ضمیر اور نسبتاً آزاد ہیں بھی تو ’بڑے‘ اور با اثر (بمعنی حکومت نواز) اخبارات نیز ٹی۔ وی۔ چینلوں کے نقّار خانے میں ان کی طوطی بے آواز رہ جاتی ہے۔ اس میدان میں ایک دو کو چھوڑ کر تمام ٹی۔ وی چینل پورے طور پر ہوا ہوائی کہے جا سکتے ہیں۔

 اردو صحافت کو بھی کسی زمانے میں بہت اہمیت حاصل رہی ہے اور جدّو جہد ِ آزادی میں اردو صحافت نے جو کردار ادا کیا ہے اس کا مماثل دنیائے صحافت میں مشکل سے ہی نظر آئے گا۔ لیکن میں یہ مضمون اردو میں لکھ رہا ہوں جو ایک اردو اخبار میں شائع ہو گا اس لئے حفظ ِ ماتقدم کے طور پر موجودہ اردو صحافت پر میں اپنے تاثرات اور خیالات محفوظ رکھنا ہی بہتر سمجھتا ہوں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔