بھاجپا مکت اتر پردیش کا نعرہ لے کر اُتری کانگریس

حفیظ نعمانی
کل کی شام اور رات ہر اس آدمی کے لئے دلچسپ رہی ہوگی جسکا تعلق سیاست سے ہو یا صحافت سے۔ دوپہر میں ایک اعلان کیا گیا تھا کہ آج رات تک بتادیا جائیگا کہ وزیر اعلیٰ کے لئے کانگریس کا چہرہ کون سا ہوگا؟ جبکہ ایک ہفتہ سے یہ اشارے دئے جارہے تھے کہ دہلی کی سابق وزیر اعلیٰ مسز شیلا دکشت کوکانگریس اترپردیش کی وزیر اعلیٰ بنانا چاہتی ہے۔  خداخدا کرکے شام ہوئی اور اس سے زیادہ شور شرابہ میں شیلاجی کا اعلان کیا گیا جتنے شور اور جو ش سے مسٹر راج ببر کی صدارت کا اعلان کیا گیا تھا۔  اسی کے ساتھ اعلان کیا گیا کہ شری پرمود تیواری کو یہ عہدہ دیا گیا ہے اورسنجے گاندھی کے پرانے دوست سنجے سنگھ کو وہ عہدہ دیا گیا ہے۔
صدر کی حیثیت سے جب راج ببر کا اعلان کیا گیا تھا تو چار نائب صدر بھی بنائے گئے تھے جن میں ایک عمرا ن مسعود کا نام بھی ہے۔  اور جب ٹی وی پر عمران مسعود کانام آیا تو نیوز ریڈر بوٹی بوٹی کہنا نہیں بھولے۔  اور شاید یہ ایک جملہ پوری سیاسی زندگی میں انکے اوپر اسلئے چپکا رہے گا کیوں کہ وہ مسلمان ہیں۔  اور رام زادے یا حرام زادے یا جو ذاکر نائک کی گردن کاٹ کر لائے وہ 50لاکھ لے۔  اس لئے نہیں دہرائے جائیں گے کہ وہ ہندو ناری ہی نہیں بلکہ سادھوی بھی ہیں اور وزیر بھی۔
بات یہ کہنا تھی کہ کل کی شام اور رات کانگریس کے دفتر وں میں ایسی تھی جیسے الیکشن ہوچکے اور بھاری اکثریت سے کانگریس جیت چکی۔  صرف بات وزیر اعلیٰ کی تھی سو شیلا جی کو بنا دیاگیا۔  اور کل صبح اتر پر دیش کے کروڑوں لوگ آنکھ کھولیں گے تو وہ ایس پی کی حکومت میں نہیں کانگریس کی حکومت میں کھولیں گے۔ ہم قسم کھاکر کہتے ہیں کہ کسی طرح کا کوئی تعلق نہ ہونے کے باوجود ہمیں شرم آرہی تھی کہ یہ وہ کانگریس ہے جسکی 150سال کی تاریخ ہے۔  اور جوکبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کسی صوبہ یا ملک میں اسکے علاوہ بھی کسی کی حکومت ہو سکتی ہے ؟۔  خوش قسمت تھے پنڈت نہر و کہ انھوں نے جب آخری سانس لی تب بھی کشمیر سے کنہیاکماری تک انکی ہی حکومت تھی۔  اور اس اعتبار سے بد نصیب تھیں اندرا گاندھی کہ 1971 میں جب یونس سلیم صاحب علی گڑھ سے الیکشن لڑرہے تھے تو وہاں جن سنگھ نے انکو جیتتا ہوا دیکھ کر فساد کر ادیا۔  اور تین سیٹوں کا الیکشن دس دن بڑھا دیا گیا۔  اسکے بعد ہر کسی کی زبان پر تھا کہ اب اندرا جی کو بلایا جائے ورنہ ہم ہا ر جائیں گے۔  اور جب یونس سلیم صاحب نے فون کیا تو انھوں نے مری ہوئی آواز میں کہا کہ میں تو خود آنا چاہتی تھی لیکن مجھے وریندر ورما نہیں آنے دے رہا۔  اسوقت چرن سنگھ وزیر اعلیٰ تھے اور وریندر ورما ہوم منسٹر۔  انھوں نے کہدیا تھا کہ ہم حفاظت کی ذمہ داری نہیں لے سکتے۔
کل رات این ڈی ٹی وی انڈیا کے پروگرام نیوز پوائنٹ میں وگیان پرکاش کے بجائے سینئر رپورٹر منورنجن بھارتی بیٹھے تھے۔  اور ایک لیڈر کانگریس کے اور ایک دوسری پارٹی کے تھے۔  بھارتی نے کانگریس کے لیڈر سے معلوم کیا کہ وہ جو آپ غلام نبی آزاد اور راج ببر کی کھچڑی پکا رہے ہیں جس میں پرینکا گاندھی کا تڑکا لگانے کا ارادہ ہے۔  اسکے ذائقہ کی تلاش میں آپکو کتنی لمبی لائن کی امید ہے ؟ تو انکا جواب تھا کہ اگلی حکومت کانگریس کی ہوگی اور جب دوسروں نے معلوم کیا تو ایک صاحب کا جواب تھا کہ آج اسکے 29ایم ایل اے ہیں اگر اس الیکشن میں 50ہو جائیں تو یہ کانگریس کی بہت بڑی کامیابی ہے۔  اور دوسرے صاحب نے فرمایا کہ اتر پردیش میں اس بار کسی کی اکثریت نہیں آئے گی۔  اگر کانگریس 60سیٹیں جیت لے تو وہ کنگ میکر ہوگی اور کسی کے ساتھ ملکر حکومت بنائے گی۔
کانگریس کے الیکشن انچارج غلام بنی آزاد صاحب ایک نمائندہ سے بات کررہے تھے اس نے کہا تھا کہ کانگریس نے تو اپنی ساری طاقت جھونک دی۔  اب اس کے علاوہ اسکے پاس صرف راہل اور سونیا ہیں۔  وہ ہر حال میں ہوتے ہی ہیں۔  جسکے جواب میں آزاد صاحب نے انتہائی سنجیدگی سے کہا کہ ہم سرکار بنانے کے لئے الیکشن لڑرہے ہیں۔  اور سرکار بنانے کے لئے جس طرح الیکشن لڑا جاتا ہے اسی طرح لڑ رہے ہیں۔  اب اسکے بعد اگر کوئی سوچے کہ دوسری پارٹیوں میں سے کوئی سرکار بنانے کے لئے نہیں لڑرہا۔  یا کیا 25سال سے کانگریس نے اتر پردیش میں جتنے الیکشن لڑے وہ غیر سنجیدہ تھے اور تفریح کے لئے لڑے جاتے تھے۔  ؟ تو کیا جواب ہوگا۔
بہر حال نتیجہ جو بھی ہو یہ بہت اچھی بات ہے کہ کانگریس پر جو مودی کی ہیبت طاری ہوگئی تھی وہ اُس دباؤ سے باہر آتی نظر آرہی ہے۔  اور جو2014میں مودی صاحب نے اپنی انتخابی مہم حیدرآباد سے شروع کی تھی اور کانگریس مکت بھارت کا پہلا نعرہ وہیں دیا تھا۔  اور پھر اسکے بعد پورے ملک میں انھوں نے سب سے زیادہ زور اس نعرہ کو دیا۔  لیکن اب ایسا معلوم ہورہا ہے کہ اتر اکھنڈ اور اب8مہینہ کے بعد اترانچل میں کانگریس کا جو بھوت نکل کر باہر آیا ہے۔  اس نے کانگریسیوں کو یہ حوصلہ دیدیا کہ وہ بھاجپا مکت اتر پردیش کے نعرہ کے ساتھ ریاستی الیکشن میں اتریں اور نریندر مودی کو دفاع کی پوزیشن میں لے آئیں۔  اس وقت بی جے پی کے پاس صرف پیسہ ہے جسکے بل پر اس نے 2014کے الیکشن میں نہ جانے کتنے مسلمانوں کو خریدا۔  اور اب کانگریس کے کھڑے ہوجانے کی وجہ سے۔ وہ ہر مسلم پارٹی کو 5گنا اور ہر امیدوار کو دو گنا روپیہ دے گی۔  اس لئے کہ یہ آواز یں بھی آرہی ہیں کہ مظفر نگر اور راجیہ سبھا جیسے معاملات میں ملائم سنگھ کے رویہ سے جو مسلمان ناراض ہیں انکے لئے اب دوسرا ٹھکانہ یا انکی دوسری پسند صرف مایاوتی ہی نہیں کانگریس بھی پوری تیاری کے ساتھ سامنے آگئی ہے۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ راجیہ سبھا میں ایک بھی مسلمان کو نہ لینا اور رام جیٹھ ملانی امر سنگھ اوربینی پرساد ورما کو اس حال میں لینا کہ وہ 4برس کی دشمنی کے بعد چند دن پہلے ہی آئے ہیں۔  اور جن مسلمانوں نے 225سیٹوں کا تحفہ دیا اور ہر قدم پر ساتھ دیا ان میں صرف کونسل کے لئے ایک نام اور وہ بھی بقل نواب کا لیا ؟ کیا یہ اشارہ نہیں دیتا کہ اب اگر مسلمان ووٹ نہیں دینا چاہتے ہیں تو نہ دیں ؟
جب سیاسی گلیاروں میں ہر زبان پر کانگریس شیلا اور پرینکا ہوں تو روش کمار کیسے خاموش رہ سکتے تھے؟ انہوں نے بھی حیرت کے ساتھ کہا کہ یہ ایک فیشن چلا ہے کہ جو کوئی بڑا آدمی کہیں جاتا ہے تو وہ وہاں کی مٹی سے اپنا رشتہ نکال لیتا ہے۔  نریندر مودی جب نامزدگی کرانے بنارس گئے توا نھوں نے کہا کہ نہ میں خودآیا ہوں نہ کسی نے بھیجا ہے۔  مجھے تو ماں گنگا نے بلایا ہے۔  اور اسکے چند دن کے بعد ماں گنگا کے ہونٹوں پر جمی گندی مٹی بھی مودی جی نے پھڑوے سے ہٹائی۔  اور ایک دو ر دراز کے نظر انداز کئے ہوئے گاؤں کو گود بھی لے لیا۔  اب دوسال ہوگئے نہ انہیں ماں گنگا کی آواز آرہی ہے اور نہ گو د لئے گاؤں کی جو میک اپ خراب ہونے کی وجہ سے اور گندہ لگنے لگا۔
اب شیلا جی دہلی سے آئی ہیں تو ایک ہفتہ میں 15بار کہہ چکی ہیں کہ میں اتر پردیش کی بہو ہوں۔  اور اناؤ کی بہو ہوں۔  جبکہ دہلی میں کبھی انہوں نے اسکا ذکر نہیں کیا۔  اس وقت کانگریس کے پاس اتنے چہرے ہیں کہ کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا کہ سب سے چمکدارچہرہ کونسا ہے ؟ ابتک جب کبھی مانجھی کی بات ہوتی تھی تو صرف ایک نام پرینکا گاندھی کا آتا تھا لیکن وہ اب بھی ہے مگر دوسرے چہروں میں شاید اس لئے دب گیا ہے کہ جیسے عمران مسعود کے نام کے ساتھ بوٹی بوٹی لگا ہوا ہے۔  اسی طرح پرینکا کے ساتھ رابرٹ لگا ہوا ہے جن پر لگے ہوئے بدترین الزامات کی تحقیقات ایک جج کررہے ہیں جسکا نتیجہ ہر حال میں الیکشن سے پہلے شری مودی لکھوائیں گے۔  اور اگر جج صاحب نے آنا کانی کی تو وہ حلق میں ہاتھ ڈال کر نکال لیں گے۔  اور اگر وہ مودی کی خواہش کے مطابق نکلا تو اسکے آنے کے بعد کس کس چہر ہ کی چمک دھندلی ہوجائے گی ؟  یہ سیاست کی الف بے والا بھی جانتا ہے۔  بہر حال 2017کا الیکشن 2014کے الیکشن سے بڑا نہیں تو چھوٹا بھی نہیں ہوگا۔   جسکا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جو کام کانگریس نے آٹھ مہینہ پہلے کرلیا وہ 3مہینہ پہلے بھی نہیں ہوتا تھا۔  اور ایک مسلم پارٹی کئی لاکھ روپے جو اشتہار میں خرچ کر چکی ہے اتنے پیسوں میں تو پارٹیاں پورا الیکشن لڑلیا کرتی تھیں۔  اور خبروں کے مطابق امت شاہ پوری تیاری کے ساتھ پورے اتر پردیش میں رواں دواں ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔