بھاجپا کی پریشانیاں

محمد شمشاد

2019کے عام انتخاب سے قبل اپوزیشن کے درمیان جیسے جیسے اتحادو یکجہتی کی صورت پیدا ہورہی ہے ویسے ویسے بھاجپا کے اندر پریشانیاں بڑھتی جا رہی ہیں شاید بھاجپا کیلئے اس سے مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوگا یہی وجہ ہے کہ بھاجپا اپنے اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کے لئے اپنی حکمت عملی میں بدلائو لانے کی کوشش کر رہی ہے۔

شیوسینا کا اعلان جنگ

بھاجپا کی پرانی ساتھی شیو سینا نے اپنا رخ صاف کرتے ہوئے ا علان کرچکی ہے کہ وہ آئندہ عام انتخاب میں این ڈی اے سے الگ ہو کراپنے طور پر لڑیگی شیو سینا اس بات کو مانتی ہے کہ جب مرکزمیں مودی کی قیادت میں این ڈی اے کی حکومت تشکیل دی گئی تو اس حکومت میں اسے جو مقام ملنا چاہئے تھا وہ مقام اسے نہیں مل سکا۔

لیکن بھاجپا بھی اس بات کو اچھی طرح سے جانتی ہے کہ موجودہ دور میں جس طرح سے مرکزی حکومت کے تئیں لوگوں میں یقین کم ہورہا ہے اسے دیکھتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو این ڈی اے میں ساتھ رکھنا لازمی ہے حالانکہ ملک کی سیاست میں مودی مخالف  خیمے جس طرح سے متحد ہو ر ہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے شیو سینا اپنے فیصلہ کو واپس لے گی اس کی امید نظر نہیں آتی لیکن سیاست میں کہا جاتا ہے کہ کون کب کس کروٹ لے گابہر حال آخری وقت میں حالات کو دیکھ کر فیصلہ لینے والا زیادہ فائدے میں رہتا ہے۔

بھاجپا کے دلت ممبر پارلیا منٹ کی ناراضگی

اتر پردیش کے دلت سماج کے زیادہ ترممبر پارلیامنٹ جن کا تعلق بھاجپا سے ہے اس وقت ناراض چل رہے ہیں بلکہ ان میں کچھ ممبران پا ر لیمنٹ اپنی ہی حکومت کے خلاف محاذ کھولتے ہوئے وزیراعظم کو خط لکھ چکے ہیں اس محاذ میں بھاجپا ممبران پارلیا منٹ میں ساوتر ی بائی پھو لے، چھوٹے لال ، ڈاکٹر یشونت سنگھ اور اشوک کماردوہرے شامل ہیں انہیں وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ اور بھاجپا حکومت طرز عمل سے شکایت ہے ڈاکٹر یشونت سنگھ اور اشوک کماردوہرے نے خط میں کہا ہے کہ ملک بھر میں اور خاص طور سے اترپردیش میں دلت اور قبا ئلیوں کو احتجاج کرنے کے بعد پولس جھوٹے معاملے میں پھنسا رہی ہے اس سے انکے درمیان عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے ان کی شکا یت ہے کہ مودی جی کی اس چار سالہ دور حکومت میں ان دلتوں اور قبائلیوں کے لئے کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے جس کے وجہ کر ان جیسے نمائندوں کو اپنے اپنے حلقوں میں پریشانیوں کا سامنا کر نا پڑرہا ہے اب دہلی کے ممبر پارلیا منٹ ادت راج بھی بھاجپا کے مخالفت میں آواز اٹھانے لگے ہیں۔

حا لا نکہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسی دلت ممبر پارلیا منٹ نے کھل کر اپنی بات کہی ہے دلت کے خلاف ہو رہے ظلم و ستم کے خلاف بھاجپا کی اس تیز طرارخاتون رہنماسادھوی ساوتری بائی دھولے نے ہندوستانی آئین اور ریزرویشن بچاؤریلی کر کے پارٹی کو مشکل میں بھی ڈال دیا ہے ملک بھر میں اسوقت دلت برادری کے اندر غصہ کا ماحول ہے سپریم کورٹ کی جانب سے ایس سی۔ ایس ٹی ایکٹ کو لے کر دیئے گئے فیصلہ کے بعد ہوئے احتجاج و مظاہرے کے بعد ایک ایسا ماحول بن رہا ہے جس میں مرکزی حکومت کو ہی گھیرا جا رہا ہے کانگریس سمیت تمام اپوزیشن کی جانب سے اس معاملے پر لا پرواہی برتنے اور مضبوطی سے اپنا موقف عدالت میں نہیں رکھنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے اب یہ ناراضگی نہ صرف بھاجپا کے اندر پائی جاتی ہے بلکہ یہ ناراضگی این ڈی اے ممبران پارلیامنٹ کے اندر بھی پائی جارہی ہے اور اسی وجہ کر ان تمام ممبران پارلیامنٹ نے حکومت سے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کا مطالبہ کیا تھا مودی حکومت نے ایسا بھی کیا تا کہ اسکا مینڈیٹ کھسک نہ پائے لیکنبھاجپا کی مودی حکومت اپنا موقف عدالت میں مضبوطی کے ساتھ نہیں رکھ سکی جس کے وجہ کر تمام ممبران پارلیا منٹ کو پریشان ہونا لازمی ہے یہی وجہ ہے کہ چار سال تک خاموش رہنے کے بعد اب وہ کھل کر اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔

دلت مسئلے پر اپوزیشن کی جانب سے حملے کا سامنا کر رہی بھاجپا اتر پردیش میں دلت سماج کے اپنے ممبران کے عدم اطمینان کا سامنا کر رہی ہے ریاست میں اگلے لوک سبھا انتخاب میں کسی بھی پارٹی کے لئے دلتوں اور قبائلیوں کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ملک بھر میں دلت سیاست کو لے کر جنگ چھڑ چکی ہے اور بھاجپا پر ریزرویشن ختم کرنے کے لئے سازش کا الزام لگا یا جارہا ہے تاکہ دلت مخالف ثابت کر کے اسے بیک فٹ پر ڈھکیلا جا رہا ہے اڑیسہ میں ریزرویشن کو لے کر امیت شاہ کا بیان ہو یا پھر دلت کے گھر جا کر کھانا کھانے کا ڈرامہ ہو یہ بھاجپا کی دلتوں کو اپنے ساتھ کرنے کی حکمت عملی کا صرف ایک حصہ ہو سکتا ہے لیکن مخالفین کے ساتھ ساتھ بھاجپا کے اپنے ہی دلت رہنمائوں اور ممبران پارلیا منٹ کی ناراضگی اس حکمت عملی کو آگ پر گھی ڈالنے کا کام کرنے کے لئے کافی ہے۔

امیت شاہ اور مودی کی بڑ بولے پن

امیت شاہ کانگریس کے صدر راہل گاندھی کو اب راہل بابا کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے مذاق اڑاتے ہیں جبکہ انہیں شاید یہ پتہ نہیں کہ ایک بابا کو انکی پارٹی نے زبردستی اترپردیش کے لوگوں پر وزیراعلی کے طور پر تھوپ دیا ہے لیکن یوگی سے نہ انکے لوگ یعنی بھاجپا ممبران اور ہندتوا دہشت گرد سنبھل پارہے ہیں اور نہ ہی ریاست کے افسران ،اب بھاجپا ہی کے لوگ بتائیں یوگی جی کس کام اور کھیت کے مولی ہیں اور شیوراج چوہان نے مدھیہ پردیش کے پانچ باباؤں کو ایک وزیر کے عہدے کا درجہ دے دیا ہے تو ہریانہ کی بھاجپا حکومت نے عیاش اور بدعنوان بابا کو جیل جانے کیلئے پرائویٹ ہلیکوپٹر کا انتظام کیا تھا اور سیکڑوں کرپٹ و بدعنوان بابا ان کی پارٹی کے سرپرستی میں جی رہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ان کی پارٹی میں نقلی ،کرپٹ وبدعنوان باباؤں کی بڑی قدر کی جاتی ہے۔

امیت شاہ مزید کہتے ہیں کہ سیلاب آنے پر سانپ، نیولا، بلی ، کتا، چیتا، شیر بھی پیڑ وں پر چڑھ جاتے ہیں کیوں کہ نیچے پانی کے سیلاب کا ڈر ہوتا ہے اس وقت ملک بھر میں مودی جی کا سیلاب آیا ہوا ہے اس کے خوف سے شانپ، نیولا ، کتے ، بلی  اکٹھا ہوکر الیکشن لڑیں گے شاید امیت شاہ کو پتہ نہیں ہوگا کہ سیلاب صرف قیامت لاتی ہے ملک اور اس دیش میں رہنے والوں کوبرباد کرتی ہے ویسے ہی جیسے مودی شاہ کی جوڑی نے نوٹ بندی ، جی ایس ٹی، منہگائی اور فرقہ پرستی کا ذہر کے ذریعہ لا دیا ہے اور انکے کارناموں سے بھارت کا کسان، بے روز گار نوجوان، دلت ، قبائلی،پسماندہ لوگ ، دوکاندارو صنعت کار، سب کے سب پریشان ہیں اور بربادی کے دہانے پر آچکے ہیں۔

امیت شاہ اور مودی جی خود کو سیلاب مانتے ہیں تو یہ کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ انکے اس سیلاب دور حکومت میں بھارت اور بھارت کے لوگ ترقی کریں گے تو پھر عوام کو ہر میدان میں ترقی کی جگہ بربادی ہی ملے گی چاہے اس بدحالی کی صورت جو بھی ہو سماجی انتشار ہو یا سیاسی زوال ہو یااقتصادی بدالی بہر حال ہر طرف بدحالی انتشار اور زوال کی صورت ہی نظر آئیگی اور اگر امیت شاہ خود کو طوفان اور سیلاب ہی مانتے ہیں تو یہ نہ بھولیں سیلاب کچھ ہی وقت کے لئے آتا ہے ہم سب بھارت واسی بھائی چارے کی باندھ بنا کر اسے روک دیں گے۔

یہ بات صحیح ہے کہ سماجوادی پارٹی اور بہوجن پارٹی کا ملن سانپ اور نیولا کا ملن جیسا ہے لیکن اس یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ بھاجپا و مودی کی یہ حکومت ۴۴ پارٹیوں کی اتحاد سے چل رہی ہے اور ان میں زیادہ تر بغاوت کا تیور رکھتے ہیں بھاجپا خود کو دیش بھکت کہتی ہے لیکن اس اکا لی دل کے ساتھ اسکے رشتہ ہیں جس نے حکومت سے فوجی بغاوت کی تھی اتنا ہی نہیں جس پی ڈی پی نے کشمیر کو لیکر شروع سے ہی افضل گرو کی حمایت کی ہے آج اسکے ساتھ کشمیر میں حکومت کر رہی ہے جو آج بھی افضل گرو کو اپنا گرو مانتی ہے نیتش کمار جو کچھ ماہ قبل لالو کے ساتھ تھے تو مودی اور امیت شاہ انہیں ہر منٹ کوسا کرتے تھے لیکن ابھی وہی نیتش کمار کی گنگان ہورہی ہے۔

امیت کو یاد ہوگا کہ انہوں نے ہی کرناٹک کی ایک ریلی میں یہ اعلان کے تھا کہ نریندر مودی ایس شی ،ایس ٹی اور غریبوں کا بھلا نہیں چاہتی ہے وہ اس ملک کو برباد کر دینگے اسکے علاوہ انہوں نے ہی کہا تھا کہ اگر کرپشن اور بدعنوانی کے معاملے میں کمپٹیشن کرایا جائے تو اس میں یدو رپا کا نام اول پوزشن میں ہوگا یہ یدو رپا کون ہیں کرناٹک میں بھاجپا کے وزیراعلی کنڈیڈیٹ ہیں اب امیت شاہ خود بتائیں وہ آج کل ہوش میں ہیں یا نہیں وہ بھجپا کی قبر کھود رہے ہیں یا مودی جی کے لئے قبرستان کا راستہ صاف کر رہے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔