بھوک

ایم اے صابری

(جگن ناتھ مشرا کالج مظفرپور)

فرزانہ ابھی پانچ ہی برس کی تھی کہ اس کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ وقت اور حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے والد شوکت صاحب نے دوسری شادی کر لی جو پیشے سے ایک وکیل تھے۔ اب فرزانہ کی پرورش کا ذمہ اس کی سوتیلی ماں کے سر آ گرا مگر وہ فرزانہ کی دیکھ بھال کرنے میں بالکل بھی ایمانداری سے کام نہیں لیتی تھی نتیجہ کبھی کبھار ننھی فرزانہ بھوکی ہی سو جایا کرتی تھی شکوت صاحب بھی سب کچھ بھول کر اپنی وکالت میں مشغول رہنے لگے اور یہاں سوتیلی ماں کے ظلم و ستم سہتے سہتے ننھی فرزانہ بالکل کھوکھلی ہو چکی تھی وقت گزرتا گیا۔ ایک روز شوکت صاحب کے گھر  نئے مہمان کی آمد ہوئی۔ مہمان فرزانہ کا سوتیلا بھائی تھا اس کی ولادت کی خوشی میں پورے گھر کو روشن کیا گیا۔ اس کے گھر پر تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں شہر کے معزز افراد اور محلے کے لوگ بھی شریک ہوئے سب کے تن پر اچھے لباس تھے مگر ننھی فرزانہ پھٹے کپڑے میں تھی۔

شوکت صاحب مہمانوں کی خاطر داری میں مصروف تھے۔ بے چاری فرزانہ گھر کے ایک گوشے میں بیٹھ کر اپنی ماں کی تصویر دیکھتی اور کہتی امی جب آپ تھیں تو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا کرتی تھیں میرے تن پر کپڑے بالکل صاف رہا کرتے تھے اب کپڑے بھی خود دھوتی ہوں کھانا بھی خود ہی کھانا پڑتا ہے امی آپ مجھے چھوڑ کر کہاں چلی گئیں؟ کیا آپ کو نہیں دکھتا کہ نئی امی مجھے بالکل بھی پیار نہیں کرتی ہیں جب آپ تھیں تو ابو بھی مجھے سینے سے لگا کر پیار کرتے تھے اب تو وہ میری خیریت تک دریافت نہیں کرتے ہیں۔ امی جان آپ لوٹ کر کیوں نہیں آتیں؟ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلیں۔ ماں کی تصویر سے لپٹ کر ننھی فرزانہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی اور ادھر سبھی لوگ بچے کی آمد کی خوشیاں منا رہے تھے کسی کو ننھی فرزانہ کی پروا نہ تھی حتیٰ کے شوکت صاحب کو بھی نہیں۔ بہرحال اب سبھی کھانے سے فارغ ہوکر اپنے گھر کو لوٹ چکے تھے فرزانہ کل کی طرح آج کی شب بھی اپنی ماں کی تصویر سے لپٹ کر بھوکی ہی سو  چکی تھی۔ صبح ہوتے ہی رونق کی آواز بجلی جیسی کڑکی ارے فرزانہ کہاں مر گئی۔۔۔۔۔۔ "ابھی آئی امی” فرزانہ نے کہا۔۔۔۔ مری ہوئی ماں کی بدبخت بیٹی گھر کون صاف کرے گا۔۔۔۔ غصہ نہ کریں امی ابھی صاف کیے دیتی ہوں۔

فرزانہ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے گھر کی صفائی کرنے لگی ابھی آدھے گھر کی بھی صفائی نہیں ہوئی تھی کہ رونق پھر گرج کر ارے فرزانہ ایک گھر کی صفائی کرنے میں اتنا وقت لگاتی ہے کام چور کہیں کی ایک بھی کام ڈھنگ سے نہیں کرتی ہے چل جلدی کر ورنہ تیری کھال ادھیڑ دوں گی ابھی سارے برتن بھی صاف کرنے ہیں کل رات سے بھوک سے یہ کیفیت تھی کہ ننھی فرزانہ کا چلنا تک دشوار تھا مگر سوتیلی ماں کے خوف سے بمشکل گھر کی صفائی مکمکل کر پائی۔ اب ذرا کچھ کھا لوں تب برتن صاف کروں گی اس نے دل میں سوچا جیسے ہی باورچی خانے میں قدم رکھا تو وہاں کھانے کو کوئی چیز نہ تھی بھوک سے ننھی فرزانہ کی حالت بالکل نازک ہوتی جا رہی تھی۔ اس نے رونق سے کہا امی بہت بھوک لگی ہے کچھ کھانے کو دجیے۔ رونق غصے میں ارے مری ہوئی ماں کی کمبخت بیٹی کام کرنے سے پہلے ہی تجھے بھوک لگ جاتی ہے۔ اتنا کہہ کر انہوں نے دو چار تھپڑ رسید کر دیے فرزانہ کے وہ ننھے رخسار جس پر کبھی اس کی ماں پیار سے بوسہ لیتی تھی پہلی بار اس کے رخسار پر سخت تھپڑ مارا گیا بے چاری کی آنکھوں سے موتی کی مانند آنسو ٹپک رہے تھے روتے روتے اس نے سارے برتنوں کی صفائی کر دی مگر بھوک مٹانے کو روٹی اب بھی میسر نہ ہو سکی تھی شوکت صاحب ناشتے سے فارغ ہوکر ایک مقدمے کے سلسلے میں نکل رہے تھے تبھی فرزانہ نے پکارا ابو لیکن وہ بے نیاز ہوکر وہاں سے گزر گئے۔

 اب بھوک پوری طرح  ننھی فرزانہ پر غالب ہو رہی تھی چنانچہ   اس نے پھر کہا امی کچھ کھانے کو دے دیجیے۔ رونق پھر دو تھپڑ رسید کرتے ہوئے بولی چل ہٹ دور ہو جا میری نظروں سے آج نہ دوں گی تجھے کھانا۔ صبح سے دوپہر ہو گئی پھر بھی بے چاری کو کھانا نہ ملا۔ بھوک کا غلبہ دور کرنے کی خاطر اسے پانی کا سہارا لینا پڑتا تھا دوپہر سے شام اور شام سے رات ہو گئی مگر اب بھی فرزانہ کو روٹی میسر نہ ہوئی دو بار کھانا مانگنے کے سبب ننھی فرزانہ کو مار کھانی پڑی تھی اب وہ قوت اس بچی میں نہ تھی کہ پھر اپنی سوتیلی ماں سے کھانا مانگتی سبھی رات کا کھانا کھا کر سو چکے تھے جب صبح سب کی آنکھیں کھلیں تو پوری بستی میں ہنگامہ ہو گیا کہ ایک قبر پر چھوٹی بچی کی لاش ملی ہے لوگوں نے جاکر جب اس بچی کو دیکھا تو حیران رہ گئے

وہ لاش فرزانہ کی تھی، جس نے پھوک سے تنگ آکر اپنی ماں کی قبر پر دم توڑ دیا تھا۔

تبصرے بند ہیں۔