بھگوا دہشت گردی کا ایک اور شکار

نازش ہماقاسمی

کیا ہمارا ہندوستان اب ایک جمہوری ملک ہے ؟کیا یہاں تمام مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ یکساں سلوک ہورہا ہے؟ کیا یہاں قانون کی بالادستی قائم ہے؟اگر  ان سارے سوالوں کاجواب ہاں میں ہے :توپھر بتائیے کہ کیسے ؟ اب تک تو ان باتوں کا احساس ہوتا رہا ہے کہ شاید یہاں کچھ ایسی طاقتیں ہیں جو ہمارے تہذیبی ورثہ کو خراب کرنے کے در پر ہیں ، کچھ لوگ ہیں جنہیں ہندوستان کا دستور نہیں بلکہ کچھ اور ہی مطلوب ہے، لیکن اب تو یقین ہوگیا ہے کہ یہاں ایسا ہی ہے،یہاں قانون کی بالادستی ضرور ہے لیکن کہاں اور کیسے اس کی وضاحت کی اب مزیدکوئی ضرورت نہیں رہ گئی ہے،جو فیصلہ عدالت میں ہونا چاہیے، جن چیزوں پر لگام پولس کو کسنا چاہیے،جن جرائم سے انتظامیہ کو نمٹنا چاہیے اب ایسے کام جنونی بھیڑئیے انسانیت سے کوسوں دور بھگوائی انجام دے رہے ہیں ۔

ہفتہ کو راجستھان کے ضلع الور میں پیش آئے واقعہ نے پھر سے ہندوستانی جمہوریت پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے، یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے،اس سے قبل بے شمار واقعات ہوچکے ہیں ،راجستھان میں ہی عورتوں کے ساتھ بیف کے نام پر غنڈہ گردی ہوچکی ہے،گجرات میں دلتوں کو مارا گیا تھا،اترپردیش کا دادری واقعہ کیسے فراموش کردیا جائے جس میں ایک ہندوستانی بی ایس ایف جوان کے بوڑھے باپ کو مار مار کر موت کی آغوش میں سلادیا گیا تھا،ظلم و ستم کی یہ داستان طویل سے طویل تر ہوتی جارہی ہے اور عدلیہ کسی بھی قسم کی روک تھام کیلئے تیار نہیں ہے،آخر ایسا کیوں ہوا؟

جب ایک آدمی قانون کے دائرہ میں رہ کرکاروبار کررہا ہے،سارے کاغذات اس کے پاس موجود ہیں ، ساتھ میں ایک ہندو ڈرائیور بھی ہے، چند لوگوں کی بھیڑ اچانک ان پر ٹوٹ پڑتی ہے جو خود کو گئو رکشک کہتے ہیں ،اگر وہ واقعتا گئو رکشک ہی تھے اور صرف اسی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا تو پھر پہلو خان کے ساتھ موجود ہندو ڈرائیور کو کیوں چھوڑ دیا گیا،کیوں اسے پہلے جانے دیا گیا،کیوں صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا؟ اس سے یہ بات تو صاف ہے کہ معاملہ صرف گائے کی رکھوالی کا نہیں ہے،اگر ایسا ہوتا تو وہ غیر مسلم ڈرائیور بھی زد پر ہوتا، اس کا چھوڑ دیا جانا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ گائے کی آڑ میں نشانہ صرف اور صرف مسلمانوں کو ہی بنایا گیا ہے، جان بوجھ کر ان پر جان لیوا حملہ کیا گیا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور عدلیہ اس سلسلہ میں کیا کاروائی کرتی ہے،کیا ایسی تجارت جو قانون کی نظر میں جائز ہو اور قانون نے جس کی اجازت بھی دی ہو اب مسلمانوں کیلئے غیر قانونی بن گئی ہے۔ چلیے اگر اسے غیر قانونی مان بھی لیں تو ماتا کے رکشک ان دلالوں کو کیوں نہیں موت کے گھاٹ اتارتے جو ماوں کا سودا کرتے ہیں .

پہلو خان کے معاملے میں حکومتی عہدیداران کا بیان تو بڑا عجيب سا ہے، راجستھان کے وزیر داخلہ گلاب چندر کٹیار اور مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے سرے سے ہی اس معاملہ کو جھوٹا قرار دے دیا ہے، مرکزی وزیر کے کہنے کے مطابق ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہی نہیں ہے،جب کہ ریاستی وزیر نے اسے گائے اسمگلنگ کہا ہے ۔حالانکہ پہلو خان اور اس کے دیگر ساتھیوں کے پاس سارے ثبوت موجود تھے کہ ہم باضابطہ قانون کے دائرہ میں رہ کر تجارت کرتے ہیں ،جب حکومتی عہدیداران جھوٹ بولیں گے تب رعایا کا کیا ہوگا ؟کون ان کا پرسان حال ہوگا؟ ان کے دکھ کا مداوا کیسے کیا جائے گا؟وہ اپنی فریاد لے کر کس کے پاس جائیں گے؟کہاں سے انہیں انصاف ملے گا؟کس سے انصاف کی امید لگائے بیٹھیں گے؟ملک کا قومی دھارا ایک ایسے راستہ پر گامزن ہوچکا ہے جس میں عموماً سارے افراد اور خصوصاً نوجوانوں کے اذہان میں نفرت کے بیج کو بویا جاچکا ہے،اب یہاں باتیں تو ترقی اور وکاس کی ہوتی ہیں لیکن کام فرقہ واریت کے انجام دیئے جاریے ہیں ،اور یہ کام ایسا سیاسی طبقہ انجام دے رہا ہے جس کیلئے حکومت اور عہدہ سے زیادہ پیاری اور کوئی چیز نہیں ہے،جو مذہب کی بات تو کرتے ہیں لیکن اس سے کوسوں دور ہیں ، جو اپنے مفادات کی خاطر ایک ریاست میں بیف پر پابندی لگاتے ہیں اور دوسری ریاست میں حکومت حاصل کرنے کیلئے بیف مہیا کرا نے کی بات کرتے ہیں ،لیکن عوام ہے کہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے، انہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ اگر ہم اسی طرح کا ماحول بنائے رکھیں گے،أمن و شانتی کا دامن چھوڑ دیں گے تو نقصان کس کا ہوگا.

ملک کے حالات اسی طرح برقرار رہی‍ں یا پھر اس سے بھی بدتر ہوئے تو نقصان سب کا ہوگا، ایسا نہیں ہے کہ اگر ملک میں آگ لگے گی تو گھر صرف مسلمانوں کے جلیں گے،نقصان صرف مسلمانوں کا ہوگا، اس زد میں غیر مسلموں کا غریب طبقہ بھی آئے گا،جن کی برہمن نواز طبقہ کو کوئی پرواہ نہیں ہوگی،کیونکہ ہندو راشٹر کا سیدھا اور صاف مطلب برہمن ازم ہے، اس کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ہے،ممکن ہے کہ دلتوں کے نام نہاد لیڈران کو روٹی کا کوئی ٹکڑا پھینک کر دے دیا جائے،لیکن یہ غیر ممکن ہے کہ دلتوں کو شریک کرلیا جائے،کیونکہ یہ تو زمانہ قدیم سے چھوت اچھوت کی چکی میں پستے ہوئے آئے ہیں اور آئندہ بھی پستے رہیں گے،دلتوں کے ایک مراٹھی لیڈر نے کہا تھا کہ ہم تو اس ملک میں برہمن کے غلام دو چار سو سال سے نہیں بلکہ دو چار ہزار سال سے بنے ہوئے ہیں اور اب ہمیں ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم اس غلامی سے خود کو آزاد کرائیں ۔گائے کے نام پر اب تک پورے ملک میں جہاں بھی واویلا مچایا گیا ہے یا پھر کسی کو زد و کوب کیا گیا ہے تو وہ یا تو دلت تھے یا پھر مسلمان،ان دونوں کے علاوہ اور کوئی ہے ہی نہیں جس پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑے جائیں ،ان دونوں قوموں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کی بات نہیں سنی جاتی ہے یا پھر کچھ دن شور و غل کے بعد سب کچھ تھم جاتا ہے۔ روہت ویمولا کی موت پر اتنا ہنگامہ کیا گیا لیکن حکمراں طبقہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی،نجيب اچانک یونیورسٹی سے غائب ہوجاتا ہے اور اب تک پولس اسے تلاش کرنے میں ناکام ہے.

یہ ناکامی ہے یا پھر ناکام بنانے کی سازش ،یہاں ایک ایسا کھیل شروع ہوگیا ہے جس میں مسلمان اور دلت دونوں پریشان ہیں اگر حکومت پر دباؤ نہیں بنایا گیا تو الور کے بعد پھر کسی کا انتظار کیجئے، پہلو خان کے بعد ضروری نہیں کہ کوئی مسلمان ہی نشانہ بنایا جائے کوئی دلت بھی ہوسکتا ہے،عدالت اپنا کام کرے لیکن جب عدالت سے باہر عدالت کو گمراہ کرنے کے اسباب پیدا کئے جاچکے ہیں پھر عدالت کہاں تک اپنا کام بحسن و خوبی انجام دے پائے گی،جن کی بنیاد اور جن پر بھروسہ کرکے عدالت اپنا کام کرتی ہے وہی جرم کے خوگروں کے رکھشک ہیں ۔۔۔!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔