بہار کے مسلمان اور نتیش کمار

ریاض فردوسی

تاریخ گواہ ہے کہ اپنے آپ کو خود مسلمانوں نے جتنا نقصان پہنچایا اتنا نقصان مسلمانوں کے دشمنوں نے بھی مسلمانوں کو نہیں پہنچایا۔ شاہی دور ہو یا جمہوری طور ہو ہر دور مسلمان عمائدین یا جو مسلمانوں کے خیر خواہ ہیں ان کو نقصان پہنچانے، ان کو بدنام کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں ہیں۔ ہندوستان بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔ سو، دیڑھ سو سال تک نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ پہلی جنگی آزادی کی ناکامی کے بعد جو بھی مسلمان یا نیک صفت انسان چاہے وہ کوئی ہو، مسلمانوں کی بہی خواہ بن کے اُٹھے اس کے راستے میں مشکلات کھڑی کی گئیں۔ اس کے خلاف فتوے تک لگائے گئے۔ ان کو طرح طرح سے بدنام کرنے کی سازشیں کی گئیں۔ اور ہماری جذباتی قوم جس کو مصلحت کا مطلب بھی معلوم نہیں، وہ ابھی بھی بھیڑ اور بھیڑے میں فرق محسوس نہ کر سکی۔ آپ سے یہودی اور نصاریٰ ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آ جانے کے، پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو اللہ کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اور نہ مددگار۔ (سورہ۔ البقرہ۔ آیت۔ 120)

اس آیت ایک واضح ہوتی ہے کہ یہ ہمار ے کبھی بہتر نہیں سونچ سکتے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ منورہ ہجرت کی تو ان سے مصلحت کی۔ وقتیہ طور پر۔ ہمیں گزشتہ کء سالوں سے بھاجپا اور دیگر مسلم دشمن پارٹیوں سے ڈرایاگیاکہ یہ ہماری دشمن ہیں، اس ڈر سے ہمیں اپنے وجود کی طرف دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا،کہ ہم کیا تھے؟ اور کیاہو گئے ہیں ؟

ہمیں ہلاکو کی تاریخ یاد نہیں کہ جب اس نے بے دریغ لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ کیا ہم اسکے قتل عام کے بعد ختم ہو گئے۔ ہم کوئی یہودی ہیں کہ ہولوکاسٹ کا ماتم زندگی بھر کرتے رہیں ؟ہم کوئی پنجابی ہیں کہ 1984 کا نوحہ زندگی بھر گاتے رہیں۔ ہم ان ظلموں کی ہمیشہ مذمت کرتے ہیں، یہ وہ ظلم ہوا ہے جو انسانیت درندگی کی ذلالت کی انتہا تھی۔ ان سے ہمیں بھی ہمدردی ہے لیکن ہم مسلمان ہیں۔ ہمیں زندہ رہنا آتا ہے۔ ہمیں حالات کا مقابلہ کرنا آتا ہے۔ ہمیں اپنے وجود کی لڑائی لڑنا آتا ہیں۔ نہ ہمیں فرعون سے ڈر تھا۔ نہ نمرود سے،نہ ابوجہل سے ڈرے،نہ روس سے نہ امریکہ سے۔ نہ صہونیوں سے۔

جہاں میں مرد مومن مانند خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے،ادھر ڈوبے ادھر نکلے

محترم وزیر اعلیٰ بہار شروع سے ہی مسلمانوں کے خیر خواہ رہے ہیں۔ اپنی بے باک رائے،اور سادہ لوح طبیعت ان کی امتیازی شان ہے۔ دوسرے ہمارے زخموں کے بارے میں صرف شور کرتے ہیں، وہی یہ ان کا علاج۔ دوسرے ہمارے بے بسی اور لاچاری کا صرف ذکر کرتے ہیں، یہ ان کا حل۔ دوسرے ہماری بدحالی کا صرف رونا روتے ہیں، یہ ان کا مکمل اور مستحکم ایک معیاری حل۔ دوسروں کے لئے ہم صرف ووٹ بینک ہیں، لیکن وزیر اعلیٰ کے لئے انسان۔ ۔ ہم تو صرف کٹھپتلی تھے،وزیر اعلیٰ نے ہمیں اپنے وجود کا احساس کرایا۔ وزیر اعلیٰ اپنے کاموں کا شور نہیں کرتے وہ کام کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں، دوسرے انکے کام میں عیب تلاشنا اپنا فرض۔ ہمارے جھوٹے خیر خواہوں کی مثال یوں ہے۔ کوئی پرساں نہ ہوا حالِ پریشاں کو مرے، زخم دیکھے بھی گئے درد کو سراہا بھی گیا۔ جو زبان سے خیر خواہی کرے وہ اچھا اور جو خاموشی سے مدد کرے وہ برا۔ واہ رے میری قوم!

تیش کمار صاحب نے بینکوں کے کام کاج پر بھی سوال اٹھائے۔ انہوں نے کہا ’’بینک چھوٹے لوگوں سے قرض وصول کرنے میں تو طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن ان طاقت ور لوگوں کا کیا جو قرض لے کر بھاگ جاتے ہیں ؟ یہ حیرانی کی بات ہے کہ بینک کے اعلی افسران کو بھی اس کی بھنک نہیں لگتی۔ بینکنگ نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور میں کوئی تنقید نہیں کر رہا ہوں بس حقیقت بیان کر رہا ہوں۔

وزیر اعلی صاحب نے نوٹ بندی کے متعلق اپنی بے باک رائے رکھی’’میں پہلے نوٹ بندی کا حامی تھا لیکن اس سے کتنے لوگوں کو فائدہ ہوا ہے؟ کچھ لوگ اپنی رقم ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر کے لے گئے‘‘۔

وزیر اعلی سوسل سائٹ پر بھی چھائے ہوئے ہیں۔ باجپا حکومت کے چار سال پورے ہونے پر اپنے ٹویٹ میں کہا،‘میں امید کرتا ہوں کہ مرکزی حکومت عوام کی توقعات پر پورا اترے گی۔ ’یہ حیران کرنے والا ٹویٹ ہے۔ اس میں کامیابیاں گنانے کے بدلے وزیر اعلی صاحب نے یہ پیغام دیاکہ بچے ہوئے ایک سال میں کام بھی کافی بچے ہوئے ہیں۔

بابا صاحب امبیڈکر جینتی کے موقع پر وزیر اعلی پٹنہ میں منعقدہ پروگرام کے دوران کہاکہ ریاست میں سبھی درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کو مہا دلتوں کے طرز پر تمام سہولیات ملیگی۔ انہوں نے کہاکہ ریزرویشن نہ تو کبھی ختم ہوگا اور نہ ہی اسے ختم کرنے کی ہمت کسی بھی پارٹی میں ہے۔

یوم اردو کی تقریب کے موقع پروزیر اعلی نے کہا کہ اردو ایک خوبصورت اور نہایت ہیں شیریں زبان ہے اردو سبھی کو سیکھنا چاہیے۔ کوئی بھی زبان کسی بھی مذہب یا فرقے کی نہیں ہوسکتی، یہ غلط ہے کہ اردو زبان کسی مذہب یا مخصوص فرقے کی زبان ہے بلکہ یہ ایک بھارتی زبان ہے۔

وزیر اعلی نے چند سہولتوں کا بھی اعلان کیا،سرکاری مدارس میں پڑھنے والے سبھی طلباء کو اسکالرشپ دی جائے گی اور مدرسوں میں اور بھی سہولیات مہیا کرائی جائیں گی۔

اقلیتی نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ اقلیتی نوجوانوں کے لیے انٹرپرائز کی امداد کے لیے مقررہ سالانہ بجٹ میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔

اردو اساتذہ کی بحالی کے تمام رکاوٹوں کو دور کرکے اسکولوں میں اردو اساتذہ کی تقرری جلد از جلد کی جائے گی۔
ہمیں اپنے خیر خواہوں کو پہچاننا ہے۔ چاہے وہ کوئی ہو۔ یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہمیں وکاس پرش چاہیئے یا پریوار پرش

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔