بہوگناجی کو جو ملا، وہ ان کا حق تھا

حفیظ نعمانی

سیاسی شجرہ سیدھا تو یہ ہے کہ موتی لال نہرو، جواہر لال نہرو، اندرا گاندھی، فیروز گاندھی، راجیو گاندھی اور اب راہل گاندھی اور اب جو بی جے پی ایک بیٹے اور ایک بیٹی کے ذریعہ ہیم وتی نندن بہوگنا کو کمل کا پھول بنا رہی ہے یہ انصاف نہیں ہے۔ کانگریس میں جو بہت زیادہ اور کھلے ہوئے سیکولر لیڈر ہوئے ہیں ان میں بہوگنا جی کو ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔ مولانا حمید الحسن صاحب قبلہ نے جتنا کچھ کہا ہے وہ بہت کم ہے۔ ہمارا پریس کی وجہ سے ملنا بھی بہت ہوا اور تعلق بھی بہت رہا۔ گومتی ندی کا جو شمالی پشتہ بنا تھا اس میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کی کافی زمین اس وعدہ پر لے لی گئی تھی کہ ان کو مکارم نگر کی طرف کی اس سے کہیں زیادہ زمین دی جائے گی۔ یہ بہوگناجی ہی تھے جنہوں نے مولانا علی میاں کے ایک یاد دہانی کے خط پر سب کو ہلا دیا اور خود آکر ماہر انجینئروں کو ساتھ لاکر نقصان کی حسب وعدہ تلافی کی۔

ہم اس واقعہ کو نہیں بھول سکتے کہ وہ وزیراعلیٰ تھے اور چودھری چرن سنگھ حزب مخالف لیڈر۔ راجیہ سبھا کے الیکشن کا اعلان ہوا تو سوشلسٹ لیڈر راج نرائن کو چودھری صاحب نے راجیہ سبھا کا ٹکٹ دیا چند دن کے بعد معلوم ہوا کہ کوئی بڑا صنعتکار آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنے آیا ہے۔ راج نرائن نے چودھری صاحب سے کہا کہ یہ جو آزاد اُمیدوار آیا ہے اسے اندرا گاندھی نے بھیجا ہے اور اسے ایک کروڑ روپئے میں بھی خریدنا پڑے تو یہ میرے ووٹ خریدے گا۔ چودھری صاحب نے بہت اطمینان دلایا مگر نیتاجی نہیں مانے۔ چودھری صاحب نے بہوگنا جی سے کہا کہ راج نرائن کے لئے کھلے ووٹ کی اجازت دے دی جائے۔ بہوگنا جی نے ہر طرح کا اطمینان دلایا لیکن نہ نیتا جی مانے اور نہ چودھری صاحب آخرکار بہوگناجی نے اجازت دے دی اور راج نرائن کو کھلے ووٹ دیئے گئے اور وہ جیت گئے۔

یہ اندرا گاندھی کی سیاست تھی کہ انہوں نے بہوگنا جی کو اشاروں میں بھی نہیں بتایا تھا کہ وہ راج نرائن کو ہرانا چاہتی ہیں۔ یہ ان کا وہی مرض تھا جو ان کے باپ جواہر لال نہرو کا تھا کہ وہ بھی جن لیڈروں سے ڈرتے تھے ان کو پارلیمنٹ میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے جیسے آچاریہ کرپلانی، ڈاکٹر لوہیا، جے پرکاش نارائن۔ اندراجی بھی راج نرائن کو برداشت کرنے پر تیار نہیں تھیں۔
ایک مہینہ کے بعد بہوگناجی دہلی گئے وہاں وزیراعظم سے ملنے گئے اور ایک گھنٹہ تک اُترپردیش کے مسائل پر بات کرتے رہے، رسمی چائے وائے بھی ہوئی اور جب رخصت ہونے لگے تو اندراجی نے کہا کہ دھون سے ملتے جائیے گا۔ وہ مسکراتے ہوئے دھون کے پاس گئے اور کہا کیا حکم ہے؟ ’’یہ ان کا انداز تھا‘‘ دھون نے کہا کہ استعفیٰ دیتے جائیے گا۔ بہوگناجی نے کہا کیا کہہ رہے ہو۔ میں ایک گھنٹہ ان کے پاس بیٹھ کر آرہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مگر مجھ سے کہہ دیا تھا کہ جانے سے پہلے استعفیٰ لے لینا۔ بہوگنا جی نے کہا کہ میں خود بات کرتا ہوں دھون نے جواب دیا کہ وہ میٹنگ میں گئیں۔ اس کے بعد بہوگناجی تین دن دہلی میں رُکے رہے لکھنؤ سے بابو ترلوکی سنگھ کو اور دوسرے لیڈروں کو بلاکر معاملہ کو ختم کرانا چاہا لیکن وہ اپنے فیصلہ پر قائم رہیں۔ اور بعد میں معلوم ہوا کہ صرف یہ اس کی سزا ہے کہ راج نرائن کو کھلا ووٹ دینے کی اجازت کیوں دی؟
سیکولرازم اور کانگریس سے ان کی محبت کا یہ حال تھا کہ اس کے باوجود وہ کانگریس میں ہی رہے۔ وہ وزیراعلیٰ کے علاوہ صدر اور مرکزی کانگریس کے جنرل سکریٹری بھی رہے لیکن سادگی کا یہ عالم تھا کہ بعد میں دوستوں سے کہتے تھے کہ میرے لئے کوئی کرایہ کا مکان ہی لے دو۔ ایمرجنسی کے جواب میں 1977 ء میں جب جنتا پارتی بنی تب انہوں نے بابو جگ جیون رام اور نندنی ست پتی کے ساتھ کانگریس چھوڑی۔ اور جب جنتا پارٹی بکھر گئی تو پھر راجیو گاندھی اور سنجے گاندھی ماموں ماموں کہہ کر ان کو پھر لے گئے اور پھر کانگریس میں چلے گئے ان کے بجائے دوسرا لیڈر ہوتا تو اندرا گاندھی کی صورت نہ دیکھتا۔

لکھنؤ میں ایک اُردو کے صحافی عہد نو نام کا ایک ہفتہ وار اخبار نکالتے تھے اقبال صدیقی اس کے مالک اور ایڈیٹر تھے۔ بہوگنا جی کو بس یہ معلوم ہوا کہ کثیر العیال ہیں اور اس اخبار کے علاوہ کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اقبال صدیقی ان سے ملے ان کا انٹرویو چھاپا۔ ان کی کارکردگی سے متعلق خبریں چھاپیں غرض کہ ان کے قریب آگئے۔ اس کے بعد وہ کسی نہ کسی بہانے ان کی مدد کرتے رہے اور صحافیوں کو جو سہولتیں سرکاری طور پر ملتی ہیں وہ سب ان کو بھی دلوائیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی بیٹی ریتا بہوگنا جوشی ان کے ہی نقش قدم پر چل رہی تھیں۔ لیکن یہ اندرا گاندھی کے خوف کا اثر ہے جو اولاد میں آیا ہے کہ پارٹی ان کی غلطیوں کی وجہ سے الیکشن ہارے اور وہ ذمہ داری صوبائی صدر پر ڈال کر اسے ہٹادیں۔ اترپردیش کانگریس کا گڑھ تھا فسادات میں جو حکومت کا رویہ رہا اس کی بناء پر کانگریس سے مسلمان کٹتے چلے گئے اور ایسا وقت آیا کہ کانگریس گالی بن گئی اور اس کا نتیجہ ہے کہ دوبار بی جے پی کی حکومت بنی تین بار ملائم سنگھ کی حکومت بنی اور مایاوتی نے حکومت کی اور ہر مرتبہ کانگریس نے ایک صدر کو قربان کردیا۔ اُتراکھنڈ کے حالات سے میدان کے لوگ زیادہ واقف نہیں ہوتے بہوگنا جی کے بیٹے کی غلطی تھی یا وہاں بھی وہی تھا جس کی بناء پر ان کے بیٹے نے بی جے پی میں پناہ لی۔ بہرحال وہ اسی قابل تھے کہ ان کے نام کا ڈاک ٹکٹ جاری کیا جائے اور ان کی 100 سالہ برسی منائی جائے اب یہ دنیا بنانے اور چلانے والے کی طاقت ہے کہ اس نے ان مخالفوں سے یہ کام کرالیا جن کو بہوگنا جی نے زندگی میں ایک بار بھی قریب نہیں آنے دیا۔ اب اگر ان کو بی جے پی نے لے لیا تو کوئی کیا کرسکتا ہے وہ تو اولاد کے ذریعہ ہی شاستری جی کو اور پنت جی کو بھی اپنا بنا چکے ہیں۔

بی جے پی کا جائزہ لیا جائے تو اس میں جتنے آر ایس ایس کی شاکھاؤں سے آئے ہیں اس سے بہت زیادہ کانگریس، سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور دوسری علاقائی پارٹیوں سے آئے ہیں بی جے پی کا دسترخوان بہت کشادہ ہے ان کے یہاں یہ نہیں پوچھا جاتا کہ کیا کرتے اور کیا سوچتے ہو یہ ایسے ہی ہے جیسے دھرم تبدیل کرکے ہندو ہوجائے وہ کچھ بھی کھائے کچھ بھی کرے ہندو ہی رہے گا ایسے ہی جو بی جے پی میں آگیا وہ اب جب تک چاہے رہے اس پر کوئی پابندی نہیں لگے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. Muzaffar Hasan کہتے ہیں

    بہت خوب جناب!
    ہمارے بزرگ صحافی عبد الحفیظ نعمانی صاحب نے تو کانگریس لیڈر آنجہانی ہیم وتی نندن بہو گنا کے بارے میں پوری کہا نی لکھی، لیکن آپ نے اس مضمون میں ماحولیات دوست مانے جانے والے سندر لال بہوگنا کی تصویر ڈال کر سارا گڑ ، گوبر کردیا۔پتہ نہیں اس سہو کے لئے نعمانی صاحب نے آپ لو گو ں کی کتنی صلوا تیں سنائیں۔ویسے ایسی غلطی عام طور اردو اخباروں میں ہو تی رہتی ہے، وجہ آپ سمجھ ہی سکتے ہیں کہ آٹو رکشہ ڈرائیور کو بس چلانے دیدیجئے گا تو ،انجام ایسا ہی ہو گا۔اب اردو اخباروں کے ساتھ اردو ویب سائٹس پر بھی یہی روگ دیکھنے کو مل رہاہے۔دوسرا روگ بھی کم سنگین نہیں ہے جسے ہم آج اردو صحافت مان رہے ہیں وہ یا تو داڑھی ، ٹوپی والی مسلمانی اختیار کر چکی ہے یا پھر مسلمانو ں کوبھاجپا، آر ایس ایس سے خو فزدہ کرنے والی قلم بھا نجوتحریر اور اوپر سے دعویٰ یہ کہ اصلاح معا شرہ اور شریعت بچاؤ۔شریعت مسلمانوں سے ہے یا مسلمانوں سے شر یعت ہے اس سوال کا جواب دینے کی بجائے آئے دن اسلام خطرے میں ہے کا نعرہ، الاماں والحفیظ۔سائنس،میتھ اور جدید تعلیم کو تو امام غزالی صاحب کےحکم کے مطابق ’علماء‘ نےدین اسلام کا مخالف مان ہی لیاہے پھر بھی ایم پی،ایم ایل اے، وزیر بننے کی تمنا کے خلاف کو ئی فتویٰ نہیں ،فتویٰ تو ڈاکٹر انجنئیر، سا ئنسدںاور بلڈر بننے کے خلاف بھی نہیں ہے، اگر فتویٰ دیا تو پھر موٹی، موٹی زکوٰۃ۔صدقات کی رقم کن سے ملے گی! معاف کیجئے گا بات تھوڑی تلخ ہو گئی۔فقط والسلام۔
    مظفر حسن۔ایڈیٹر
    روزنامہ جدید بھارت،
    4-cسر سید عالیہ ولا۔جامعہ نگر کڈرو، رانچی۔ جھارکھنڈ

تبصرے بند ہیں۔