راستے پیار کے سنسان ہیں، منزل ویران

مقصود اعظم فاضلی

راستے پیار کے سنسان ہیں، منزل ویران
ہے اس آباد خرابے میں مرا دل ویران

لے گئی موج سمندر کی بہا کر کس کو
کس لئے آج نظر آتا ہے ساحل ویران

قدرداں جمع جہاں ہوتے تھے علم و فن کے
ہائے افسوس وہ اب ہوگئی محفل ویران

جس میں ہے یاد تری بس ہے وہی دل آباد
جو تری یاد سے خالی ہے وہ ہے دل ویران

عشق میں قیس نے ویرانے کو آباد کیا
اور لیلیٰ کا ہوا حجلہء محمل ویران

باپ کے سائے سے محروم ہے بیٹا اعظم
ماں کی آغوش ہے آباد مگر دل ویران

تبصرے بند ہیں۔