بیت المقدس

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

اس محترم سرزمین کوعربی میں ’’بیت المقدس‘‘ یا’’القدس‘‘بھی کہتے ہیں یعنی ’’پاکیزہ گھر‘‘جہاں سے برکت و طہارت وپاکیزگی حاصل کی جاسکتی ہے، یورپی زبانوں میں اس شہرکو’’یروشلم‘‘کہتے ہیں اورپہلی صدی قبل مسیح میں جب رومیوں نے اس شہر کوفتح کیاتواس کانام’’ایلیا‘‘رکھا۔ پس یہ تینوں نام قدیم وجدیدکتب میں تفصیل سے ملتے ہیں۔ اس شہرمیں ’’ہیکل سلیمانی‘‘نامی ایک عمارت کاپتہ ملتاہے۔ اس عمارت کے بارے میں نام سے ہی پتہ چلتاہے کہ یہ عبادت گاہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیرکی تھی، جس سے منسوب دیوار گریہ یہودیوں کامقدس مقام ہے۔ بی بی پاک مریم علیہاالسلام سے حضرت عیسی علیہ السلام تک کی ساری تاریخ کی امین بھی یہی جگہ ہے، بیت اللہم یہیں پر واقع ہے جویہاں کی دوسری اہم عمارت ہے جسے حضرت عیسی علیہ السلام کی جائے پیدائش سمجھا جاتا ہے۔ مسجداقصی نامی اس شہرکی تیسری اہم عمارت ہے۔

قرآن مجیدمیں بھی اس مسجدکانام نامی ذکرکیاگیاہے۔ گنبدصخرانامی عمارت چوتھی اہم جگہ ہے جوبیت المقدس میں مسجداقصی کے وسط میں چبوترے کی شکل میں واقع ہے جہاں سے محسن انسانیت ﷺنے آسمانوں کی طرف معراج کاسفرشروع کیاتھا۔ بیت المقدس جس پہاڑی پروقع ہے اسے ’’کوہ صہیون‘‘کہتے ہیں۔ یہودیوں کی انتہاپسند تنظیم ’’تحریک صہیونیت‘‘اسی پہاڑی سے منسوب ہے۔ مسجداقصی کے ساتھ قبرستان ہے جو جنت البقیع کے بعد دوسرا بابرکت قبرستان سمجھاجاتاہے۔ اس شہرمیں جبل زیتون کے بارے میں یہودیوں کاعقیدہ ہے کہ یہاں دفن ہونے والوں کواﷲتعالی بخش دے گا۔ یہودیوں کی کتاب طالمودکے مطابق اسی شہرکی مٹی سے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی گئی تھی۔ انجیل کے مطابق اسی شہرکے ’’کوہ موریا‘‘پرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسحق کی قربانی دی تھی۔ چنانچہ دنیاکے تینوں بڑے بڑے مذاہب کواس شہر سے نسبت خاص ہے اور اس شہر کی توہین کسی کے لیے بھی ناقابل برداشت ہے۔ یہ خطہ زمین بحیرہ روم اور بحیرہ مردارکے درمیان پہاڑی سلسلہ کوہ الخلیل(یاکوہ یہودہ) پر مشرق وسطی کی سطح مرتفع میں واقع ہے۔

قدیم انبیاء علیھم السلام کے ساتھ اس شہر کا ذکر بتکرار ملتاہے۔ اس شہر میں بلامبالغہ ہزاروں انبیاء علیھم السلام کی بعثت ہوئی۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد قابل ذکراوراوللعزم جس نبی کا ذکر ملتاہے ان کانام حضرت نوح علیہ السلام ہے۔ مورخین کے مطابق موجودہ کل انسانیت حضرت نوح علیہ السلام کی نسل سے ہے کیونکہ کشتی نوح میں سوار باقی کسی فرد کی نسل نہ چل پائی۔ اسی لیے حضرت نوح علیہ السلام کو ’’آدم ثانی‘‘بھی کہاجاتاہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قریبی نسل سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جنم لیا، انہوں نے اپنے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کے ساتھ جب ہجرت کی تووہاں سے بیت المقدس شہر کام پہلی دفعہ سننے کو ملتاہے۔ اس زمانے میں، ظاہر ہے، یہ اتنا بڑاشہر تونہ ہوگالیکن چونکہ انبیاء علیھم السلام صرف اﷲتعالی کے حکم سے ہی ہجرت کرتے ہیں اس لیے یہ شہر خالصتاََ اﷲتعالی ہی کے حکم سے آباد کیاگیا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عراق سے فلسطین میں جو ہجرت کی تو غالب گمان یہی ہے کہ ان کا مسکن یہی شہر رہاہوگاکیونکہ فلسطین کے ہی ایک دوسرے شہر’’راملہ‘‘میں ان کا مدفن ہے۔ فلسطین کے ساتھ ہی بستی لوط تھی جو عذاب کے بعد زمین میں دھنس گئی اور جوارکاسمندر اس پر چڑھ دوڑااور اب اس سمندرکو’’ بحیرہ لوط‘‘ کہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تاسیس ہونے والے اس شہر میں، ان کے پوتے حضرت یعقوب علیہ السلام نے وحی الہی کے حکم پرایک مسجد کی داغ بیل ڈالی۔ یہ مسجد ’’بیت المقدس‘‘کے نام سے مشہور ہوئی اس لیے کہ اس زمانے میں یہ مسجد برکت وتقدیس کامنبع سمجھی جاتی تھی۔ اس مسجدکی نسبت سے بعد کے زمانوں میں اس سارے شہر کوہی’’ بیت المقدس‘‘کے نام سے جانا جانے لگا۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کی حیات مبارکہ ہی میں بنی اسرائیل حضرت یوسف علیہ السلام کی حکمرانی میں مصر میں ہجرت کر گئے تھے۔ مصرمیں قیام بنی اسرائیل کاعرصہ کم و بیش پانچ صدیوں پر محیط ہے۔ ان میں سے چارسوتیس۴۳۰ سالوں تک تو فرعون کی بدترین غلامی ان پر مسلط رہی، اس سے قبل حضرت یوسف علیہ السلام کازمانہ اور اس کے بعد حضرت موسی علیہ السلام کازمانہ ملا جلاکر کوئی پانچ سوسال بنتے ہیں۔ فرعون سے آزادی کے بعد یہ قوم قتال سے انکار کے باعث چالیس سالوں تک صحرائے سینامیں بھٹکتی رہی۔

1450ق م میں حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں بنی اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد چار سوسالوں پر محیط جدوجہد ہے جس کے نتیجے میں بیت المقدس پر بنی اسرائیل کو مکمل سیاسی و سماجی غلبہ حاصل ہو سکا۔ یہ طالوت بادشاہ کادورتھاجس کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام اور پھران کے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں بیت المقدس پھر سے پوری آب و تاب اور شان و شوکت کے ساتھ آبادہوگیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کواﷲتعالی نے ایک مسجد بنانے کا حکم دیاتھا، انہوں نے ’’ارنان یبوسی‘‘نامی شخص سے زمین کاایک ٹکڑاخریدا۔ وقت نے مہلت نہ دی توحضرت داؤد علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کو مسجد کاسارانقشہ سمجھایااورداعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام (961ق م)نے جنات کے ذریعے یہاں پر ایک بڑی پرشکوہ عبادت گاہ تعمیر کی جسے ’’ہیکل سلیمانی‘‘کہاجاتاہے۔ یہ معبد اپنے زمانے کی شاہکارعمارت تھی اور بڑی بڑی محرابوں نے اس کا حسن دوبالا کر دیاتھا۔ اس معبد میں سوختنی قربانیوں کے لیے ایک مذبح خانہ بھی تعمیرکیاگیاتھا۔ اس مسجد کو اس وقت کی شریعت میں مثابۃ للناس کامقام حاصل تھا جو شریعت محمدی میں مسجدحرام کوآج حاصل ہے۔ یہ عمارت’’ہیکل سلیمانی‘‘صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ سیاسی وسماجی مرکزیت کی بھی حامل تھی جو یہودیوں کے دورعروج کی ایک علامت سمجھی جاتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کابیٹا’’رجعام‘‘اتنی بڑی ریاست کو سنبھالنے میں ناکام رہااور اس زمانے میں یہودی دومملکتوں میں تقسیم ہوگئے۔ ’’یہودہ‘‘اور ’’اسرائیل‘‘کے درمیان جنگیں بھی ہوتی رہیں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کے ساڑھے تین سوسال بعد جب بنی اسرائیل میں شرک اوربدعات داخل ہوگئیں اور وہ اپنا منصب و مقام بھول کراﷲتعالی کے پیغام کو پس پشت ڈال بیٹھے توان بداعمالیوں کے نتیجے میں بیت المقدس ایک بار پھر شاہ بابل ’’بخت نصر(586ق م)‘‘کے ہاتھوں لٹ گیا، یہ ’’یرمیاہ ‘‘نبی علیہ السلام کازمانہ تھا۔ اس بادشاہ نے نبیوں کے آبادکردہ مقدس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادسی اور کل عمارتیں گراکران پرتیل چھڑک کر ملبے کونذرآتش کردیااور شہربھرکی گلیاں خون سے نہاگئیں۔ ہیکل سلیمانی کاخزانہ، تبرکات اور اس کے قیمتی ظروف بھی چرالیے گئے۔ اس بادشاہ نے اسی پر بس نہیں کیابلکہ بچے کھچے یہودیوں کو غلام بناکر اپنے ساتھ ہانکتاہوالے گیا۔ اس بربادی کے بعد حضرت عزیزعلیہ السلام کاگزرہوا توانہوں نے اﷲتعالی سے سوال کیاکہ یہ شہر پھرکیسے آباد ہوسکے گا؟؟؟اﷲتعالی نے انہیں سوسالہ معجزاتی موت کے بعد دوبارہ زندہ کیاتووہ یہ دیکھ کرحیران رہ گئے کہ بیت المقدس کی رونقیں ایک بار پھرسے بحال ہو چکی تھیں۔ اوربخت نصرکی سترسالہ غلامی کے بعد بنی اسرائیل پھر سے بیت المقدس پہنچ چکے تھے۔ یہودیوں نے بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی کو دوبارہ سے تعمیر کرلیاتھا۔ یہ تعمیرثانی 515ق م میں مکمل ہوئی تھی، لیکن معیارتعمیراورتزئین و آرائش کے لحاظ سے اس کا گزشتہ عمارت کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ اسی لیے اس عمارت کو ’’ہیکل سلیمانی‘‘کی بجائے ’’زرباہلی ہیکل‘‘کانام دیا گیا۔ ان دونوں عمارتوں میں قدر مشترک صرف اشتراک مقام تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی تیار کردہ عمارت اپناوجود کھوچکی تھی اوریہودیوں کی غلامی کے دوران اس جگہ پر کھیتی باڑی ہوتی رہی اور ہل چلتے رہے۔ چنانچہ آج جس ’’دیوار گریہ‘‘کو ہیکل سلیمانی کاحصہ قراردیاجاتاہے وہ کذب و افتراکے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔

’’زرباہلی ہیکل‘‘نامی عمارت بھی ساڑھے چارسوسالوں تک قائم رہی، اگرچہ اس دوران اس پر متعددبے حرمتی کے حملے ہوئے اور یہ عمارت کئی بارتکرار تعمیرکے مرحلوں سے گزرتی رہی۔ 169ق م میں یہ عمارت رومی بادشاہ کے ہاتھوں تباہ ہوگئی، اس بادشاہ نے یہاں ’’زیوس‘‘نامی دیوتاکا مندرقائم کیااور اس کے نام پر خنزیر کی قربانی بھی کی۔ 165ق م میں یہودیوں نے’’مکابی‘‘کی قیادت میں اپنی عبادت گاہ کو واگزار کرایا۔ لیکن بہت جلد63ق م میں ایک حملے میں ’’زرباہلی ہیکل ‘‘کاایک بہت بڑاحصہ پھرتباہ ہوگیا۔ رومیوں نے یہودیوں کو نیم خود مختاری دی تویہودیوں کے ایک بادشاہ’’ہیرودیس‘‘(37ق م۔ 4ء)نے زرباہلی ہیکل کی تعمیر نوکی۔ اس بار یہودیوں نے کھل کر اس معبدکی خدمت کی اور کئی سالوں تک اس کی تعمیرجدیدکاکام جاری رہا۔ بعض مورخین اس مدت کو نصف صدی تک بھی شمار کرتے ہیں۔ بہرحال اس کے نتیجے میں صدیوں بعد اس عبادت گاہ کی کچھ شکل بحال ہوئی، اس کی چاردیواری کو بہت وسیع کردیاگیاتھااور زمین سے بھی اس کی بلندی میں کافی اضافہ کردیاگیاتھا۔

یہودیوں کی مسلسل بداعمالیاں ان کے لیے وبال جان بن گئی تھیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ یہودیوں کااجماعی رویہ ان کے لیے قدرت کے عظیم انتقام کاباعث بن گیا۔ 66ء میں یہودیوں نے رومیوں کے خلاف بغاوت کی جس کو کچلنے کے لیے رومی جرنیل ’’ٹایٹس‘‘نے بیت المقدس پر حملہ کیاایک بار پھر بیت المقدس اور’’زرباہلی ہیکل ‘‘ کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ اس نے یہود کاقتل عام کیااورشہر کو تباہ و بربادکرکے ملبے کاڈھیربنادیا۔ بچ جانے والے یہودیوں کو بیت المقدس سے جلا وطن کردیاگیااور اس شہر میں ان کے داخلے تک پر پابندی عائد کر دی گئی، اس فاتح نے شہرکے مشرق سے مغرب تک ہل چلوادیے اور گزشتہ تاریخ کانام و نشان تک مٹادیا۔ بعد کے ادوار میں صرف مقدس ایام کے دوران یہودیوں کو شہر میں داخلے کی اجازت ملتی تھی جس کے دوران وہ ’’زرباہلی ہیکل‘‘کے بچے کھچے کھنڈرات کی زیارت کرلیاکرتے تھے۔ اس حملے کے بعد وہ دیوار بچ گئی تھی جس کے پاس جاکر یہود اپنے شاندارماضی کویاد کرتے اور گریہ وزاری کیاکرتے تھے، جسے آہستہ آہستہ دیوار گریہ کانام دے دیاگیا۔ 136ء میں رومی بادشاہ’’ہیڈرین‘‘نے بیت المقدس کودوبارہ آبادکیا، اس بادشاہ نے اس شہر کانام تبدیل کرکے ’’ایلیا‘‘رکھ دیااور ہیکل کی جگہ ’’جیوپیٹر‘‘نامی دیوتاکاعظیم الشان مندر تعمیرکردیا۔ 315ء میں قسطنطین اعظم رومی بادشاہ نے ایمان قبول کیااور حضرت عیسی کاپیروکاربن گیاتب سے ’’جیوپیٹر‘‘دیوتاکے مندرکی جگہ بیت المقدس میں کلیساکی تعمیر شروع ہوئی اوراس کلیسا کانام ’’کلیسائے نشور‘‘رکھاگیا۔ اس طرح سے آج کے مسیحیوں نے بھی اس شہر کواپنا مذہبی وطن گردانا۔ لیکن تین سوسالوں کے بعد یہاں ایرانیوں کاقبضہ ہوگیاجوطلوع اسلام تک قائم تھا۔

638ء میں مسلمانوں کے حکمراں اور خلیفہ راشدحضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالی عنہ کو اسلامی افواج نے پیغام بھیجاکہ بیت المقدس کے عمائدین جنگ کرنے کی بجائے آپ سے ملناچاہتے ہیں۔ حضرت عمر اپنے کل دوراقتدارمیں پہلی اور آخری مرتبہ حجازمقدس سے باہر نکلے۔ بیت المقدس کی مذہبی قیادت اسقف اعظم’’سفرونیس (Sophronips )نے چندنشانیاں دیکھ کربغیرجنگ کے شہر کی چابیاں بذات خودامیرالمومنین حضرت عمرکے حوالے کردیں۔ آپ صحابہ کرام کے ساتھ اس مقدس شہر میں تشریف لائے۔ اس وقت مقام صخراپر، جہاں سے آپﷺنے معراج کاسفرشروع کیاتھا، مٹی اور گردوغبارجماہواتھا۔ حضرت عمراور اصحاب رسول نے صفائی کی، حضرت بلال رضی اﷲتعالی عنہ نے آذان دی اورحضرت عمر رضی ناﷲ تعالی عنہ نے وہاں نماز کی امامت کی۔ بعد میں لکڑی کی ایک مستطیل مسجدبنائی گئی جو عمارت کے جنوبی حصے میں نصب کردی گئی۔ 688ھ میں عبدالملک بن مروان نے مقام صخراپرایک گنبدتعمیرکردیاجو’’گنبدصخرا‘‘کہلاتاہے۔ اسی مسلمان حکمران نے لکڑی کی مذکورہ مستطیل مسجد کووسعت دے کر ایک بڑی مسجد تعمیرکردی جو ’’مسجد اقصی‘‘کے نام سے مشہور ہوئی۔ گویا حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک خداکی عبادت کے لیے جومعبدتعمیرکیاتھاصدیوں کے بعد آج پھروہ اپنے مقصد تاسیس کو پوراکرپارہاتھا۔ 1078ء میں جب پوپ کی طاقت کاطوطی بولتاتھا پوپ ’’اربن ثانی‘‘کی قیادت میں مسیحیوں کاٹڈی دل لشکرجس کے گھوڑے گھٹنوں گھٹنوں تک مسلمانوں کے خون میں ڈوب کر چل رہے تھے بیت المقدس میں داخل ہوااور مسلمانوں کے محرمات کو صلیبی لباس پہنادیا۔ مسجدکو کلیسامیں تبدیل کردیا، گنبدصخراپر صلیب لگادی اور مسجدکے حجروں میں مورتیاں نصب کردیں اوران میں لہوولعب اور انہیں رہائشی مقاصد کے لیے استعمال شروع کردیا۔

88سالوں کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کوواگزارکرایا، مسجداقصی کواپنی حالت میں لوٹایاگیا۔ مسلمانوں نے ایک ہفتہ تک پوری مسجد کو پانی اور عرق گلاب سے غسل دیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنے شہر’’حلب‘‘میں ایک نادر ممبر بنواکر مسجدمیں نصب کروایاجس سے مسجد کی رونق دوبالا ہو گئی۔ اوراس فاتح نے تمام اہل مذاہب کے لیے اس شہرکے دروازے کھول دیے۔
اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد سے بیت المقدس ایک بار پھرصہیونیت کے خونین پنجوں میں آگیااور تب سے آج دن تک قتل و غارت گری، سفاکی و درندگی اور خون آشام صباح و مساء اس شہر کامقدر بن گیاہے۔ یہودیوں نے اس شہر پر فتح حاصل کرنے کے بعد مسجداقصی میں راگ رنگ اور شراب و شباب و کباب کی محفلیں بھی گرم کیں۔ عبادت گاہ کی بے حرمتی کی اور15اگست 1967کو مسجدمیں نصب ایوبی ممبرکو نذر آتش کر دیا۔ اس سانحے پر عالم اسلام کے کل فرزندان توحید کی چینخیں نکل گئیں۔ مسجداقصی کے کئی حصوں پر حملہ کرکے انہیں شہید کیاجاتارہایاوہاں آگ بھڑکاکر جلایاجاتارہا۔ یہودیوں نے بیت المقدس کے پرامن باسیوں کوان کے مسکن سے بے دخل کیا، سالوں تک فلسطینی مہاجرین کیمپوں میں کسمپرسی کی سی زندگی گزارتے رہے۔ دنیاچیختی چلاتی رہی لیکن رمضان جیسے مہینے میں اور جمعۃ المبارک کی نمازوں میں مسلمانوں پر بندوقوں کے دہانے کھول کر ان کی لاشوں کے پشتوں کے پشتے لگادیناآئے روز کا کھیل بناہوا ہے۔ اسرائیل کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح مسجداقصی کو شہیدکر دیاجائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودیوں کے مطابق اس مسجد کے نیچے ہیکل سلیمانی کی باقیات موجود ہیں۔ حالانکہ مکمل ترین تاریخی شواہد اس دعوی کی شدت سے نفی کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ مسجداقصی کی شہادت کامقصد یہودیوں کی صرف مسلمان دشمنی ہے۔ اسرائیل نے پوری دنیاکی مخالفت کے باوجود اپنادارالحکومت تل ابیب سے بیت المقدس میں منتقل کیا۔ پوری دنیاکے سفارت خانے اب بھی تل ابیب میں موجود ہیں کیونکہ تمام عالمی قوانین اور کل عالمی برادری بیت المقدس کو فلسطینیوں کامقام گردانتی ہے۔ لیکن اسرائیل نے پوری ڈھٹائی سے یہاں اپنی وفاقی حکومت کے مراکز منتقل کررکھے ہیں۔ ابھی ماضی میں صرف امریکہ نے اپنا سفارت خانہ بیت المقدس میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ اس فیصلے کے خلاف پوری اسلامی و غیراسلامی دنیا میں شدیدترین ردعمل سامنے آرہاہے۔ لگتاہے کہ اسرائیل کے خاتمے پر پہلی ضرب خود امریکہ ہی لگانا چاہتاہے۔

سلام ہو فلسطینیوں پر جن کی تیسری نسل بیت المقدس کی حفاظت کے لیے قربانیوں کی تاریخ رقم کررہی ہے۔ پتھروں سے ٹینکوں کامقابلہ صرف قوت ایمانی ہی سے ممکن ہے۔ حماس کی فلسطینی تحریک نے جہاد فلسطین میں چابک کاکام کیااور فلسطینیوں کو اپنی اصل یعنی قرآن و سنت کی طرف پلٹاکر لے آئے۔ 1948ء میں برطانیہ نے جب اسرائیل کے قیام کااعلان کیاتو بیت المقدس اس ناجائز ریاست کاحصہ نہیں تھا۔ اقوام متحدہ نے فلسطین کی تقسیم کاجو منصوبہ منظورکیاتھااس میں بیت المقدس کو بین الاقوامی تصرف میں رہنے کی سفارش کی گئی تھی۔ فلسطینی عوام نے ان سارے منصوبوں کوپاؤں کی ٹھوکرپررکھااور مجاہدین اسلام نے صہیونیت کے خلاف عسکری وجمہوری جدوجہدجاری رکھی۔

فلسطینی مسلمان اپنے پورے وطن کے ایک ایک چپے کو یہودی غاصبین و قابضین سے پاک کراناچاہتے ہیں۔ 1967ء میں جب اسرائیل نے بیت المقدس کواپناحصہ قراردیاتو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس فیصلے کی اجماعی طورپر مخالفت کی۔ اوسلو معاہدہ1993میں اسرائیل اور فلسطینی نے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کیاتواس کے بعد بھی بیت المقدس کے بارے میں اسرائیلی موقف میں کوئی نرمی نہیں آئی اورتمام امن مزاکرات اسرائیلی ہٹ دھرمی کی نذرہوگئے۔ یہ تمام حقائق بتاتے ہیں یہودیوں پر کسی طرح کی نرمی سے بات منوانا ناممکن ہے۔ اقوام متحدہ کی ساری پابندیاں مسلمانوں کے لیے ہیں اورسارے لاڈ اور پیار اسرائیل کے لیے ہیں۔ تف ہے مسلمانوں کے ان حکمرانوں پر کہ اﷲتعالی نے جن سے جہاد کرنے کاحکم دیاہے وہ ان سے مزاکرات کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے وضاحت کے ساتھ کہ دیاہوا ہے کہ یہودو نصاری تمہارے دوست نہیں ہوسکتے۔ پس جو حکمران یہودونصاری کے دوست ہیں وہ مسلمانوں کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے۔

اس وقت کل امت ایک طرف ہے اور مسلمانوں کے حکمران دوسری طرف ہیں، سوائے ایک آدھ کے۔ گویا امت بمقابلہ حکمران ہے۔ سامراج نے مصنوعی سہاروں سے اس غدارقیادت کوامت مسلمہ پر مسلط کیاہواہے۔ بہت جلد پکنے والالا واسیکولرازم اور سرمایادارانہ نظام کو بھی اسی طرح اکھاڑ پھینکے گاجس طرح کیمونزم کی حامل ریاست USSRکواس دنیاکے نقشے سے حرف غلط کی مٹادیاتھا، انشااﷲ تعالی۔

تبصرے بند ہیں۔