بیوی کا اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لکھنا

مفتی محمد عارف باللہ القاسمی

نام کی تبدیلی کی گنجائش ہے، احادیث میں مذکور ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بعض صحابہ اور صحابیات کے نام تبدیل کرائے، اس لئے بنیادی طور پر ایک عورت یا مرد زندگی کے کسی مرحلہ میں اپنے نام میں کسی قسم کی تبدیلی کرتے ہیں تو شریعت میں اس کی گنجائش ہے۔

 ادھرچند سالوں سے شادی کے بعد شوہر کے نام کو اپنے نام کا آخری جزء بنانے کا جو رواج شروع ہوا ہے، اس پر بعض گوشوں سے تنقیدیں ہورہی ہیں ،بعض لوگ آیت قرآنی: اُدْعُوْہُمْ لِآبَائِھِمْ اور حدیث: مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، وَهُوَ يَعْلَمُ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ (بخاری: ۴۳۲۶) سے استدلال کرکے اسے ناجائز قرار دے رہے ہیں ،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ استدلال درست نہیں ہے ؛ کیونکہ مذکورہ قرآن آیت اور حدیث میں اپنی ولدیت غیر کی طرف کرنے سے منع کیا گیا ہے، اور بیوی اپنے شوہر کا نام ولدیت کے طور پر نہیں ملاتی، اس لیے آیت وحدیث سے استدلال کرکے اس کو ناجائز کہنا تودرست نہیں ہے۔

 حقیقت میں یہ نام کی تبدیلی کا مسئلہ ہے، جس میں شرعاً کوئی مضائقہ معلوم نہیں ہوتاہے، اسی لئے متعدد مفتیان کرام نے اس کے جواز کا فتوی دیا ہے، لیکن اس کے عوامل وعواقب کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے اس پرمزیدگہرائی سے غور کیا جائے۔

اس کے بارے میں غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیز پہلے پہل مغربی ممالک میں شروع ہوئی کہ شوہر کے خاندانی نام کو عورت کے نام کا حصہ بنایا جائے، اور یہ چیز جب رواج پکڑتی چلی گئی تو پھر مختلف ممالک کو اس کے حوالے سے قانون سازی کرکے اس کے اصول وضوابط متعین کرنے پڑے، جن پر آج بھی ان ممالک میں عمل ہوتا ہے، تفصیلات ویکیپیڈیا پر موجود ہیں ، اور پھر وہیں سے چلتے ہوئے یہ چیز اپنے مسلم معاشرہ میں تعلیم جدید کے ساتھ آئی۔

نام میں کی جانے والی تبدیلیوں میں غور کرنے سے ایک شکل یہ معلوم ہوتی ہےکہ عورت کے نام کے اخیر میں شوہر کا خاندانی نام شامل کیا جائے، جیسے مثال کے طور پر کوئی خاندان اپنے نام کے اخیر میں ’’ صدیقی‘‘ لکھتا ہے، تو عورت کے نام کے اخیر میں بھی صدیقی شامل کردیا جائے، جبکہ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے نسب وخاندان کے اعتبار سے ’’ صدیقی ‘‘ نہ ہو، بلکہ ’’ سید، خان، انصاری،چودھری، تیلی،جاٹ ‘‘وغیرہ وغیرہ ہو، اس صورت میں شرعی اعتبار سے رکاوٹ معلوم ہوتی ہے؛ کیونکہ شریعت کا مزاج نسب کا تحفظ ہے اور اس عمل سے کہیں نہ کہیں اس میں خلل پیدا ہوگا، مثلا: عورت سید تھی، لیکن وہ نسبت کے عام ہونے کےبعد اس امتیاز سے محروم ہوجائے اور ان مسائل میں غلطی ہوجائے جہاں سید کا امتیاز ملحوظ شریعت ہے، جیسے کہ زکوۃ کے مسئلہ میں ہے، یہ اور بات ہے کہ عجمیوں میں نسبی القاب کی زیادہ اہمیت نہیں ہے؛ کیونکہ عام طورپر ان میں سلسلۂ نسب محفوظ نہیں ہے، لیکن پھر بھی ابھی کی یہ تبدیلی بعد میں کسی اشتباہ کا سبب بن سکتی ہے۔

 بعض علاقوں میں خاندانی نسبت کے لئے کچھ خصوصی الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں اور ان کو نسبی تعارف میں اہمیت بھی دی جاتی ہے، جیسے خاندان کے ہر فرد کے نام کے شروع میں ایک خاص لفظ : ’’سی ‘‘، ’’پی کے‘‘،  ’’پی  ایم ‘‘ وغیرہ ہوتا ہے، اب اس خاندان کے کسی گھر میں کسی دوسرے خاندان کی لڑکی آتی ہے، اب اس کے نام میں بھی اس خاص لفظ کو شامل کیا جائے، تو یہ کہیں نہ کہیں غلط خاندانی تعارف ہوگا، اور اس سے اشتباہ والتباس ہوگا، اور ہر سننے والے کو معلوم ہوگا کہ یہ خاتون اسی خاندان کی ہے۔

نام کی ایک تبدیلی جو زیادہ مروج ہے وہ یہ ہے کہ عورت کے نام کے پہلے حصہ کو باقی رکھ کر دوسرا حصہ شوہر کا نام بنادیا جاتا ہے، مثلا: کسی لڑکی کا نام ’’ فاطمہ کوثر‘‘ تھا، اس کی شادی’’ تنویر عالم‘‘ سےہوئی تواس کا نام ’’فاطمہ تنویر‘‘ کردیا جائے، بظاہر اس میں کوئی شرعی ممانعت نہیں نظر آتی ہے، لیکن بعض دلائل سےمعلوم ہوتا ہے کہ اس سے اجتناب بہتر بلکہ ضروری ہے :

(۱) عورتوں کو تعارف کے طور پر شوہر سے منسوب کرنا تو مسلمانوں میں بلکہ انسانیت کی تاریخ میں شروع سے مروج ہے، جس کے لئے زوجیت کی نسبت سے عورت ذکر جاتی تھی، مثلا عربی میں :’’زبنب امرأ ۃ ابن مسعود‘‘یا صرف امرأ ۃ نوح، امرأ ۃ لوط وغیرہ، اور اردو زبان میں ’’فلاں کی بیوی‘‘وغیرہ۔ لیکن نام کے الفاظ میں تبدیلی کی مثال مسلم معاشرتی تاریخ میں نہیں ملتی، البتہ یہ مغربی ممالک کی ایجاد اور وہاں کا فیشن ہے، اور ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسلام میں بہت سی چیزیں اصلاً درست اور مباح ہونے کے باوجود باطل اقوام کی مشابہت کی وجہ سے ممنوع ہیں ؛ کیونکہ شرعی اصولوں میں ممانعت کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد ’’تشبہ بالکفار‘‘ بھی ہے، اور مسلمانوں کو عادات اور عبادات دونوں میں مشابہت سے بچنے کی تعلیم دی گئی ہے، جس کی واضح مثال عاشورہ کے روزہ میں دس محرم الحرام کے روزہ کے ساتھ نو یا گیارہ کے روزہ کی تعلیم ہے، اور رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مسلمانوں کو ٹوپی کے اوپر عمامہ باندھنے کی تلقین ہے، موجودہ دور میں محرم وصفر میں خالص سیاہ لباس پہننے کی ممانعت کا فتوی بھی بوجہ مشابہت ہی ہے۔

(۲) بہت سی مرتبہ اس سے یہ نقصان بھی ہوسکتا ہے بلکہ بہت سی خواتین کو ہو تا بھی ہے کہ خوشگوار ماحول میں تو نام کے اخیر میں شوہر کا نام شامل کرلیا، اور اس کے بعد کئی دستاویز پاسپورٹ وغیرہ اسی کے مطابق بن گئے، لیکن شوہر کی موت یا آپسی تلخیوں نے دونوں کو ایک دوسرے سے جدا ہونے پر مجبور کردیا، اب متعارف حلقہ میں اس نام سے شہرت، قانونی کاغذات اور پاسپوڑٹ وغیرہ میں اس نام کا اندراج ان کے لئے بڑی مصیبت بن جاتی ہے، اور بڑی رقم خرچ کرکے اس تبدیلی کی کوشش کرنی پڑتی ہے، جو بہت سے چیزوں میں کامیاب ہوتی ہے تو بہت سے چیزوں میں ناکامی ملتی ہے۔ یاد رکھئے جو چیز مستقبل میں فساد یا نقصان اور ضررو حرج کا ذریعہ بن سکتی ہو شریعت اس کو ناپسند کرتی ہے، اور اس سے روکتی ہے۔

(۳) اور اگر زوجین کے مابین دوری اور تلخی نہ بھی ہو توبھی اس سے ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کے کاغذات میں ناموافقت ہوجاتی ہے، اوریہ بسا اوقات بڑی مشکلات کا سبب بنتی ہے،جس کی ایک مثال آسام میں حالیہ دنوں میں شہریت کا مسئلہ ہے کہ لسٹ سے نام غائب ہونے کی صورت دوبارہ اندارج بہت سے افراد کے لئے اس لئے مشکل بنا کہ ان کے مطلوبہ کاغذات میں نام وغیرہ میں مطابقت نہیں تھی۔ اور عموما عورتیں اس مسئلہ میں زیادہ حساس نہیں ہوتی ہے کہ اہتمام سے ہر جگہ پرانے نام کے لکھانے کا اہتمام کریں ، بلکہ بہت سے گاؤں میں ایسا ہوتا کہ افراد گھر پر آکر نام پوچھ کر لکھ لیتے ہیں ، اب اس وقت وہاں موجود افراد جو جانتے ہیں وہی لکھاتے ہیں ، اور ایسے ہزاروں واقعات ہیں کہ معتبر کاغذات میں الگ نام ہے اور عمومی سروے یا گھر گھر کے اندراج میں کچھ اور لکھدیا گیا جو بعد میں پریشانی کا باعث بنا۔

(۴) جب کوئی چیز رواج پکڑ لیتی ہے کہ تو اس کا نقصان اور منفی اثر ان لوگوں پر ظاہر ہوتا ہے جنہیں وہ چیز پسند نہیں ، ہمارے معاشرہ میں جہاں بعض لڑکیاں یہ تبدیلی کرتی ہیں اور جن کی وجہ سے یہ رواج بڑھ رہا ہے، وہیں بہت سی لڑکیاں نام کی تبدیلی کو پسند نہیں کرتیں ، یا تو وہ اس مسئلہ میں حساس ہوتی ہیں ، یا انہیں اپنے اصل نام کےجوڑ اور الفاظ بہت پسند ہوتے ہیں ، اور واقعی بعض ناموں کے جوڑ بہت اچھے ہوتے ہیں جن میں دوسرےکسی اور لفظ کا جوڑ معنوی اعتبار سے نامناسب ہوتاہے، جیسے عطیہ رحمان، ہبہ رحمان، عابدہ رحمان، قانتہ رحمان، واصفہ قدوس، وغیرہ۔ ان ناموں میں رحمان یا قدوس کی جگہ پر کوئی دوسرا لفظ معنی میں بگار پیدا کرتا ہے، لیکن مروج فیشن کی وجہ سے بسااوقات ان کے سامنے بھی یہ مطالبہ رہتا ہے کہ وہ اس طرح کی تبدیلی کو اختیار کریں ، اور جب ان کی طرف سے انکار ہوتا ہے تو پھر شوہر کے ساتھ ان کی محبت ووفاشعاری پر سوالیہ نشان لگتا ہے، اور یہ سوالیہ نشان بسااوقات باہمی اختلاف وشقاق کا سبب بنتے ہیں ۔ اس بنیاد پر بھی اس تبدیلی کا رواج ناپسندیدہ ہے اور اس طرح کی تبدیلی کرنا درحقیقت اس رواج کو فروغ دینا ہے ؛ کیونکہ جب کوئی چیز معاشرہ کے چند افراد اختیار کرتے ہیں تو وہ اس کے خاموش داعی بنتے ہیں اور انہیں کے ذریعہ ان کے قریبی افراد تک وہ رواج پہونچتا ہے اوربالآخر پورا معاشرہ اس کی زد میں آتا ہے، پھر کوئی اس سے مزے لیتا ہے تو کوئی اس کی سزا پاتا ہے۔

 اس لئے اپنی بہنوں سے گزارش ہے کہ اس شوق سے بچیں اور آپ کے والدین نےآپ کے لئے جو نام بوقت ولادت منتخب کیا ہے اسے اپنا مقدر نام تصور کریں اور اسی سے اپنا تعارف رکھیں ،اور یاد رکھیں کہ محض نام کی تبدیلی شوہر سے محبت وفاداری کی سچی علامت نہیں ہے، بلکہ اطاعت وفرماں برداری، حسن خلقی، نرم گفتاری، شوہر کےمزاج وذوق اورراحت وآرام کا خیال، اس کے مال کی حفاظت، گھر یلو کام کاج کی بخوشی انجام دہی، بچوں کی اچھی تربیت ایک وفاشعار عورت کا شیوہ ہے اور یہی سچی محبت اور وفاداری ہے۔

تبصرے بند ہیں۔