نقش دائم: ایک مختصر جائزہ

راشد انور راشد

علی گڑھ کے سول لائنس کا علاقہ بظاہر چھوٹا سا علاقہ ہے لیکن یہاں بڑی بڑی شخصیتیں قیام کرتی ہیں، یونیورسٹی سے وابستہ زیادہ تر حضرات اسی علاقے میں رہنا پسند کرتے ہیں، علی گڑھ کو ان معنوں میں بھی امتیاز حاصل ہے کہ مختلف علوم و فنون کے ماہرین استفادے کے لئے ہمہ وقت موجود رہتے ہیں، علی گڑھ چونکہ فاصلوں کا شہر نہیں ہے لہذا کسی بھی بڑی شخصیت سے ملنا یہاں مسئلہ کبھی نہیں رہا، یہاں نابغہ روزگار شخصیتیں اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے نئی نسل کو فیض یاب کرتی رہتی ہیں لیکن یہ زمانہ اختصاص  کا ہے لہذا  مخصوص مضامین سے وابستہ لوگ ان شخصیات سے استفادہ کر سکتے ہیں، یہاں میں اپنی گفتگو ادب کے حوالے سے جاری رکھنا چاہوں گا، دوسرے شعبوں سے وابستہ حضرات بھی اگر شعر و ادب سے دلچسپی رکھتے ہیں تو ان سے کبھی نہ کبھی ملاقات کا موقع مل ہی جاتا ہے اور شخصیت پر کشش ہو تو قربت بھی لازمی طور پر بڑھتی چلی جاتی ہے۔

جب نقش دائم کا مطالعہ میں نے  شروع کیاتو اس بات سے آگاہی ہوئی کہ سید ظہیر احمد زیدی اے۔ایم۔یو سٹی اسکول میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے اور دودھ پور کے علاقے میں رہتے تھے،مجھے اپنے آپ پرحیرت ہوئی کہ مجھے ان سے کبھی نہ کبھی ملاقات کا موقع کیوں نہیں مل پایا، جب تفصیلات سے آگاہی ہوئی تو معلوم ہوا کہ ظہیر احمد زیدی صاحب ایک کامیا ب زندگی گزار کر ۲۰۰۲ء میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے تھے اور سرسید کی زمین سے میری وابستگی ۲۰۰۳ء میں ہوئی تھی بہر حال ان سے نہ مل پانے کا افسوس ہے البتہ نقش دائم کی صورت میں ان کے روحانی اور ادبی کلام کے ذریعے ان سے حظ حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔

نقش دائم باقیات کی شکل میں سید ظہیر احمد زیدی کا ایک خوبصورت انتخاب ہے جسے ان کے فرزند سید محمد

 جاوید زیدی نے بڑے سلیقے سے ترتیب دے کر شائع کیا ہے، حرف اول کے تحت جاوید احمد زیدی اپنے والد محترم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ۔ ۔۔۔۔

 انہوں نے قلندرانہ مزاج پایا تھا اور توکل اور استغنا انکی فطرت میں داخل تھا، علم دین کے مختلف شعبوں میں وہ ید طولی رکھتے تھے، زبان و ادب اور شعر و سخن میں بھی دسترس حاصل تھی لیکن کبھی اس کو فل ٹائم ہونے نہ دیاالبتہ تصوف کی چاشنی سے لڑکپن سے ہی لگائو تھا جو آگے چل کر ان کے دل میں شعلہء جوالہ بن گئی یہی وجہ ہے کہ انکی شاعری میں تصوف کی پرچھائیاں رقصاں نظر آتی ہیں۔

سید ظہیر احمد زیدی اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی زبانوں میں بھی ماہرانہ قدرت رکھتے تھے اور اس کا اظہار انہوں نے تینوں زبانوں میں عارفانہ اور ادبی کلام کی صورت میں کیا ہے، ان کے کلام کا مطالعہ کیا جائے تو زبان و بیان کے اعتبار سے وہ ایک کہنہ مشق شاعر معلوم ہوتے ہیں، سید اکرم حسین ترمذی انکی شاعری کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ۔

انکی شاعری، شاعری برائے شاعری نہیں ہے انہوں نے زمانے کے مزاج اور زندگی کے نشیب و فراز کو بہت قریب سے دیکھا تھا، ان کے کلام میں ان کے مزاج کی بو قلمونی اور زمانے کی نیرنگی کا انوکھا امتزاج ملتا ہے، انکی شاعری میں درد دل اور غم زمانہ کچھ اس طرح گھل مل گئے ہیں جیسے قوس و قزح کے رنگ یا پھوٹتی شفق کی نیرنگی۔

احوال و آثار، کی صورت میں سید ظہیر احمد زیدی کی زندگی اور ان کے شب و روز کا جائزہ مختلف لوگوں نے پیش کیا ہے اور ان کے مطالعے سے درج بالا دونوں اقتسابات کی تصدیق ہوتی ہے۔ سید ظہیر احمد زیدی کے عربی اور فارسی کلام کا انتخاب بھی اس مجموعے میں شامل ہے لیکن سردست میں انکی اردو شاعری کے متعلق چند باتیں کہنا چاہوں گا۔

اردو کلام میں غزلوں اور نظموں کے ساتھ ساتھ نعتیہ کلام اور منقبت بھی شامل ہے جن کے مطالعے سے زبان و بیان پر انکی دسترس کا اندازہ ہوتا ہے، غزلوں اور نظموں میں ان کے پیر و مرشد اقبال رہے ہیں اقبال کی پیروی بہت شعراء نے کی ہے لیکن اقبال کا سحر شعراء پر اس طرح حاوی ہو جاتا ہے کہ انفرادی شناخت گم ہو جاتی ہے، اقبال کے علاوہ ان کے غزلیہ اشعار میں فانی اور اصغر کا رنگ بھی دیکھنے کو ملتا ہے

زیدی صاحب کل وقتی شاعر نہیں تھے، اپنے ادبی شناخت کے استحکام میں انہوں نے سنجیدگی سے توجہ نہیں دی، اگر شعر وادب انکی بنیاد ی ترجیحات کا حصہ ہوتا تو ان کے اندر وہ صلاحیتیں تھیں کہ وہ اپنی شناخت قائم کر سکتے تھے۔انکی غزلوں کے اشعار ملاحظہ ہوں:

عقل ہے خام کار ابھی شوق ہے ناتمام ابھی

ہونا ہے ضبط غم کے ساتھ مو ت سے ہم کلام ابھی

 جذبہء جستجو بڑھا شوق بھی استوار کر

ذوق سجود بندگی تیرا ہے نا تمام ابھی

اضطراب شوق کہتا ہے ابھی چلتے رہو

دے رہی ہے دعوت ختم سفر منزل مجھے

ہر قدم پر ایک کعبہ ہر قدم پر ایک دیر

بے خودیء عشق میں کعبہ ہے کیا بت خانہ کیا

منتشر ہے کس قدر شیرازہ نظم حیات

اپنی بربادی کا تو نے خود ہی ساماں کر دیا

 غزلوں کے ان متفرق اشعار سے اندازہ  لگایا جا سکتا ہے کہ ظہیر احمد زیدی اقبال سے کس قدر متاثر تھے، نظموں میں بھی اقبال ہی ان کے ذہن پر حاوی دکھائی دیتے ہیں، مخصوص الفاظ کے استعمال اور مضمون کے انتخاب سے بھی میری باتوں کی تصدیق ہوتی ہے۔

کہاں وہ زاغ و زغن کو ملا مقام بلند

کہ مستعار ہے رفعت سے بازوئے شہباز

یہ مجلسیں یہ حکایات شعر و افسانہ

ہیں انقلاب زمانہ کے کس قدر غماز

خرد کے نام سے نفرت سی ہوتی جاتی ہے

جنوں زمانے کو سکھلائے گا نئے انداز

یہاں اس بات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ نظم کا کوئی عنوان مجموعے میں درج نہیں ہے، بہت سی نظموں میں غزل کا انداز شامل ہے، جہاں تک ان کے نعتیہ کلام کا تعلق ہے تو اسمیں انہوں نے محتاط رویہ اختیا ر کیا ہے۔

مجموعی طور پر نقش دائم کا مطالعہ قاری پر مثبت اثرات نقش کرتا ہے۔ظہیر احمد زیدی باقاعدہ شاعر نہیں تھے اور نہ ہی شاعری میں ان کا زیادہ وقت گزرتا تھا لیکن جتنی بھی شاعری ان کے قلم سے وجود میں آئی وہ انہیں پختہ شاعر ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔