بجھے جاتے ہیں منظر ایرے غیرے 

عبدالکریم شاد

بجھے جاتے ہیں منظر ایرے غیرے

چلے آتے ہیں وہ زلفیں بکھیرے

یہ حسن و ناز, یہ انداز تیرے

انھیں افسوس! دیکھیں ایرے غیرے

شریفوں کے نہیں اچھے بسیرے

محل بنوائے جاتے ہیں لٹیرے

مرے دل کے ہر اک گوشے میں جاناں!

تمھاری یادوں نے ڈالے ہیں ڈیرے

اگر رشتہ محبت کا نہیں تھا

تو پھر کیا درمیاں تھا تیرے میرے

عجب ہے حاکموں کا حال الٹا

چراغوں کے تلے دیکھے اندھیرے

ملے ہم اجنبی کی طرح ان سے

مقدر نے یہ کیسے وقت پھیرے

نکلنا شاد مشکل ہو گیا ہے

ہر اک جانب ہیں ارمانوں کے گھیرے

تبصرے بند ہیں۔