بجھے جاتے ہیں منظر ایرے غیرے
عبدالکریم شاد
بجھے جاتے ہیں منظر ایرے غیرے
چلے آتے ہیں وہ زلفیں بکھیرے
…
یہ حسن و ناز, یہ انداز تیرے
انھیں افسوس! دیکھیں ایرے غیرے
…
شریفوں کے نہیں اچھے بسیرے
محل بنوائے جاتے ہیں لٹیرے
…
مرے دل کے ہر اک گوشے میں جاناں!
تمھاری یادوں نے ڈالے ہیں ڈیرے
…
اگر رشتہ محبت کا نہیں تھا
تو پھر کیا درمیاں تھا تیرے میرے
…
عجب ہے حاکموں کا حال الٹا
چراغوں کے تلے دیکھے اندھیرے
…
ملے ہم اجنبی کی طرح ان سے
مقدر نے یہ کیسے وقت پھیرے
…
نکلنا شاد مشکل ہو گیا ہے
ہر اک جانب ہیں ارمانوں کے گھیرے
تبصرے بند ہیں۔