بیوی کا نفقہ

تحریر: مولانا شمس پیر زادہؒ… ترتیب: عبدالعزیز

اسلام نے عورت پر کمانے کی ذمہ داری نہیں ڈالی؛ بلکہ مرد پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ وہ عورت پر خرچ کرے۔
’’مرد عورتوں پر قوام ہیں اس بنا پر کہ مرد اپنا مال (ان پر) خرچ کرتے ہیں‘‘ (النسا:34)۔
اور بیوی کے نفقہ کا واجب ہونا قرآن کریم کی متعدد آیات سے واضح ہے: ’’صاحب حیثیت اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے اور جس کو رزق کم دیا گیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے‘‘ (الطّلاق:2)۔
’’اور مائیں اپنے بچوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں۔ یہ حکم اس شخص کیلئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے؛ اور بچہ کے باپ کو معروف طریقہ سے ان کو کھانا اور کپڑا دینا ہوگا‘‘ (البقرہ:233)۔
ایک جگہ فرمایا: مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ (المائدہ:89)۔ ’’اوسط درجہ کا کھانا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو‘‘۔
اور حدیث میں آتا ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطبہ دیا اس میں عورتوں کے تعلق سے یہ ہدایت بھی شامل ہے: ’’تم پر ان کو معروف کے مطابق کھانا کھلانے اور کپڑا پہنانے کی ذمہ داری ہے‘‘ (مسلم، کتاب الحج)۔
ایک اور حدیث میں اس کی ترغیب دی گئی ہے: ’’جب ایک مسلمان اپنے اہل پر خرچ کرتا ہے اور اس پر اجر کا امیدوار ہوتا ہے تو اس کیلئے وہ صدقہ ہوجاتا ہے‘‘ (البخاری، کتاب النّفقات)۔
’’تم اللہ کی رضا جوئی کیلئے جو خرچ بھی کروگے اس پر تمہیں اجر ملے گا، یہاں تک کہ تم اپنی بیوی کے منہ میں جو لقمہ ڈالو گے اس پر بھی تمہیں اجر ملے گا‘‘ (البخاری، کتاب الایمان)۔
نفقہ ہر حال میں واجب: بیوی خواہ امیر ہو یا غریب، ہر حال میں اس کا نفقہ شوہر کے ذمہ ہے؛ کیونکہ شریعت نے مطلقاً ان کا نفقہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسے استاذ ابو زہرہ لکھتے ہیں: ’’اس لئے نفقہ واجب ہے خواہ بیوی غنی ہو‘‘ (غنیۃ الاحول الشخصیۃ:269)۔
مسلم پرسنل لاء میں بھی یہ صراحت موجود ہے :
"The wife is entitled to maintenance from her husband though she may have the maeans to maintain herself.” (Muslim Law by Tyabji P.258)
’’بیوی اپنے شوہر سے نفقہ پانے کی مستحق ہے، اگر چہ وہ اپنے اوپر خرچ کے وسائل رکھتی ہو‘‘ (مسلم لاء: طیب جی ۔ ص:258)۔
البتہ اگر وہ ’ناشزہ‘ یعنی نافرمان ہو اور شوہر کا گھر چھوڑ کر چلی گئی ہو تو جمہور فقہاء کے نزدیک اس کا نفقہ شوہر پر واجب نہیں ہوگا لیکن امام ابن حزم ظاہری کے نزدیک اس صورت میں بھی واجب ہوگا اور یہی بات صحیح ہے کیونکہ نافرمان ہونے کی وجہ سے اس کا کھانا پینا تو بند نہیں کیا جاسکتا اور کیا عجب کہ نافرمانی کے باجود نفقہ ادا کرنے کی صورت میں بیوی کو غیرت محسوس ہو اور وہ شوہر کے گھر واپس لوٹ آئے۔
اگر عورت مرد کے ظلم کی وجہ سے شوہر کا گھر چھوڑ کر میکے چلی گئی ہو تو اس صورت میں بھی شوہر کو نفقہ ادا کرنا چاہئے اور مسلم پرسنل لاء میں بھی یہ صراحت موجود ہے:
"or she leaves the husband’s house on account of his cruelty.” (Muhammedan Law by Mulla P.300)
’’اگر شوہر کا گھر اس کے ظلم کی وجہ سے چھوڑتی ہے تو مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ نفقہ ادا کرے‘‘ (محمڈن لاء: ملا- ص300)۔
اگر عورت شوہر کی اجازت سے کہیں ملازمت کرتی ہے تو اس صورت میں بھی اس کا نفقہ شوہر کے ذمہ ہوگا؛ البتہ اگر وہ شوہر کی اجازت کے بغیر ملازمت کرتی ہو تو اس کا نفقہ واجب نہیں ہوگا۔
’’بیوی کا اگر کوئی پیشہ ہے یا وہ ملازمہ ہے جس کی وجہ سے اسے گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے اور کچھ وقت کیلئے اسے شوہر سے دور رہنا پڑتا ہے اور شوہر کے روکنے کے باوجود وہ اس کام سے نہیں رکتی تو اس کا نفقہ شوہر کے ذمہ نہیں ہے؛ کیونکہ اس صورت میں اسے پوری طرح گھر میں رکا ہوا نہیں رہنا پڑتا اور شوہر کی اطاعت نہ کرنا بغیر کسی حقیقی سبب کے ہے؛ البتہ اگر شوہر اسے گھر سے باہر کام کرنے سے نہ روکے تو پھر اس کا نفقہ شوہر کے ذمہ ہوگا کیونکہ عورت کی گھر میں موجودگی میں کمی اس کی رضامندی سے ہے‘‘ (الاحوال الشّخصیۃ: ڈاکٹر احمد الغندور، کویت-ص247-248)۔
اگر عورت کو شوہر نے طلاق دی ہے تو عدت تک اسے نفقہ دینا ہوگا خواہ طلاق رجعی ہو یا بائن (یعنی غیر رجعی)۔
قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے: ’’ان کو (عدت کے دوران) اسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو جیسی کچھ حیثیت ہو۔ ان کو تنگ کرنے کیلئے نہ ستاؤ؛ اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر خرچ کرو یہاں تک کہ ان کا وضع حمل ہوجائے‘‘ (الطّلاق:6)۔
یعنی مطلقہ عورتوں کو عدت تک اپنے ہی گھر میں رہنے دو اور اپنی حیثیت کے مطابق انھیں اچھی جگہ رکھو۔ ایسا نہ ہو کہ اچھی جگہ ہونے کے باوجود انھیں گھٹیا جگہ پر چھوڑ دو۔ عدت کے دوران انھیں تکلیف دیکر تنگ کرنا تاکہ وہ شوہر کا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں ہر گز روا نہیں۔ مطلقہ اگر حاملہ ہے تو اس کا وضع حمل ہونے تک اس کے نفقہ کی ذمہ داری شوہر پر ہے، کیونکہ عدت ختم ہونے سے پہلے عورت دوسرا نکاح کرنے کیلئے آزاد نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اس کی رہائش اور اس کے خرچ کا ذمہ دار کوں ہوگا؟
تیسری طلاق کی صورت میں بھی عدت تک رہائش اور نفقہ کی ذمہ داری کا شوہر پر عائد ہونا حضرت عمرؓ کی اس حدیث سے بھی واضح ہے جس کو امام مسلم نے روایت کیا ہے اور جس میں حضرت عمرؓ نے فاطمہ بنت قیس کو جواب دیا تھا اور سورہ طلاق کی آیت: لاتخرجوہن من بیوتہن ولا یخرجن … سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’ہم اللہ کی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ایک عورت کے کہنے پر نہیں چھوڑیں گے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس نے حدیث کو محفوظ رکھا یا اس سے بھول ہوئی۔ مطلقہ (بائنہ) کیلئے (رہائش) بھی ہے اور نفقہ بھی‘‘۔ (مسلم کتاب الطّلاق)
عدتِ وفات میں اگر عورت حاملہ ہے تو وضع حمل تک اس کا نفقہ شوہر کے ترکہ میں سے ادا کیا جائے گاکیونکہ سورۂ طلاق کی آیت 6 میں حاملہ عورتوں پر خرچ کرنے کا مطلقاً حکم دیا گیا ہے۔
’فقہ السنہ‘ میں ہے : ’’یہ آیت حاملہ کے نفقہ کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ خواہ وہ رجعی طلاق کی عدت میں ہو یا بائن طلاق کی عدت میں یا عدت وفات میں ہو‘‘ (فقہ السنہ سید سابق: ج 2، ص 182)۔
اور اگر عورت حاملہ نہیں ہے تو اسے چار ماہ دس دن شوہر کے گھر پر عدت گزارنی ہوگی، اس صورت میں فقہاء نفقہ کے قائل نہیں ہیں لیکن کوئی وجہ نہیں کہ اس کا نفقہ شوہر کے ترکہ سے ادا نہ کیا جائے کیونکہ وفات پانے والے شوہروں کو ایک سال تک بیوی کے نفقہ اور گھر سے ان کو نہ نکالنے کی وصیت کرنے کی ہدایت سورۂ بقرہ آیت 240 میں دی گئی ہے۔
نفقہ میں کیا کیا چیزیں شامل ہیں؟ نفقہ میں بیوی کا کھانا پینا، لباس ، رہائش کیلئے مکان اور دوسری وہ چیزیں جو زندگی بسر کرنے کیلئے ضروری ہیں شامل ہیں؛ مثلاً بستر، تیل، صابن وغیرہ نظافت کی چیزیں، علاوہ ازیں دوائیں علاج معالجہ موجودہ تمدن کی ناگزیر ضرورتیں ہیں۔
قرآن کریم میں عورتوں کے ساتھ معروف (بھلا) سلوک کرنے اور اپنی حیثیت کے مطابق ان کو کھلانے اور پہنانے کی ہدایت دی گئی ہے اور حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تاکیدی حکم دیا کہ ’’عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک کرو‘‘ (البخاری، کتاب احادیث الانبیاء)۔
لہٰذا وہ تمام چیزیں جو بیوی کیلئے ضروری ہیں مہیا کی جانی چاہئیں اور اس معاملہ میں اعتدال کی راہ اختیار کرنی چاہئے۔ نہ تو اسراف کیا جائے اور نہ بخیل اور نہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کیا جائے کہ زیر بار ہونا پڑے۔ پھر عرف کا بھی اعتبار ہوتا ہے، اس لئے کیا چیزیں ضروری ہیں اور کیا نہیں اس کیلئے موجودہ عرف کا لحاظ کیا جائے۔ کویت کے عائلی قانون کی دفعہ 75میں درج ہے: ’’نفقہ میں کھانا، کپڑا، رہائش اور علاج اور خدمت جیسی عرف کے مطابق چیزیں شامل ہیں‘‘ (الاحوال الشخصیہ، الدکتور احمد الغندور۔ ص:666)
دواؤں اور علاج معالجہ سے موجودہ زمانہ میں ہر گز صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ چیزیں اب زندگی کا جزو بن گئی ہیں، لہٰذا یہ کیسے گوارا کیا جاسکتا ہے کہ بیوی بیمار پڑے اور شوہر اس کے علاج کی کوئی فکر نہ کرے؟ اگر کوئی شوہر ایسا کرتا ہے تو اسے بے پرواہی اور غیر ذمہ دارانہ برتاؤ ہی کہا جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام بیوی کے ساتھ برتاؤ کے معاملہ میں ضابطہ کی خانہ پری کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان الفت اور محبت پیدا ہو، اس لئے شوہر دینے کے معاملہ میں وسعت قلب کا ثبوت دے اور بیوی شوہر کو خوش رکھنے کی پوری کوشش کرے اور جو خدمت اس سے بن پڑے اس سے دریغ نہ کرے۔
اگر شوہر بخیل ہے اور بیوی بچوں کی ضرورتیں پوری نہیں کرتا تو بیوی کیلئے یہ جائز ہے کہ شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر بقدر کفایت خرچ کرے۔ حدیث میں آتا ہے:
’’ہند بنت عتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! ابو سفیان بخیل شخص ہے تو کیا اس میں حرج ہے کہ اس کے مال میں سے اپنے بال بچوں کو کھلایا پلایا کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ایسا نہ کرو مگر معروف طریقہ پر کرسکتی ہو‘‘ (البخاری، کتاب النّفقات) ۔
معروف کی حد تک خرچ کیا جاسکتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ جس خرچ کو مناسب کہا جاسکے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حصہ میں جب فے کا مال آیا تو اپنی ازواج کو سال بھر کی خوراک عطا کرتے رہے: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنی نضیر کے کھجور کے درختوں کو فروخت کر دیا کرتے تھے اور اپنی ازواج کیلئے سال بھر کی خوراک کے بقدر روک لیا کرتے تھے‘‘ (البخاری، النفقات)۔
نفقہ ادا نہ کرنے پر قانونی چارہ جوئی: نفقہ عورت کا قانونی حق بھی ہے، لہٰذا اگر کوئی مرد اس کو معلق رکھتا ہے اور اس کا نفقہ ادا نہیں کرتا تو وہ قانونی چارہ جوئی کرسکتی ہے، (Family Court) میں مقدمہ پیش کیا جاسکتا ہے ، نفقہ کی رقم طے کرکے ماہ بماہ ادائیگی کا حکم شوہر کو دے گا۔ اگر شوہر نے طلاق دی ہے تو عدت تک نفقہ ادا کرنا شوہر کی قانونی ذمہ داری ہے۔
رہائش کیلئے مکان: مرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جہاں رہتا ہے وہاں اپنی بیوی کو بھی رکھے۔ قرآن کریم میں حکم دیا گیا ہے کہ ’’ان کو ایسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو، اپنی حیثیت کے مطابق اور ان کو تکلیف دے کر تنگ نہ کرو‘‘ (الطّلاق:6)۔
اس آیت سے واضح ہوا کہ شوہر کو چاہئے کہ بیوی کو اپنے ساتھ اسی گھر میں رکھے جس گھر میں وہ رہتا ہے۔ رہائش کا یہ انتظام شوہر اپنی حیثیت کے مطابق کرے۔ اگر اللہ نے کشادگی بخشی ہے تو ایسی مکان میں رکھے جہاں سہولتیں ہوں اور اطمینان کے ساتھ زندگی گزاری جاسکے۔ موجودہ تمدن میں فلیٹ (Flat) ضروریاتِ زندگی میں شامل ہوگئے ہیں کیونکہ ضروری سہولتیں فلیٹ ہی سے حاصل ہوتی ہیں، لیکن اگر شوہر کے معاشی حالات اچھے نہیں ہیں تو ایک کمرہ بھی کافی ہوسکتا ہے بشرطیکہ اس میں شوہر اور بیوی کے سوا کسی کا دخل نہ ہو۔ عورت کو اپنی مرضی کے مطابق رہنے کی آزادی ہونی چاہئے۔ اس پر صرف شوہر کا حکم چلے گا ورنہ اس کیلئے تکلیف دہ صورت ہوسکتی ہے جبکہ مذکورہ آیت میں عورتوں کو تکلیف دینے اور تنگ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
ہمارے معاشرے میں شوہر اور بیوی کے درمیان ناچاقی کے جو واقعات بہ کثرت پیش آرہے ہیں، اس کی بہت بڑی وجہ رہائش کا نامعقول انتظام اور شوہر کا بیوی کو اپنے ماں باپ اور بہنوں کے ماتحت کر دینا ہے۔ ساس اور بہو کے جھگڑے جن سے بہت کم گھر خالی ہوں گے انہی طور طریقوں کا نتیجہ ہیں۔ مرد کو اپنے والدین کے ساتھ یقینا سلوک کرنا چاہئے اور وہ جس مدد کے مستحق ہوں ان کی مدد بھی کرنا چاہئے لیکن اپنی بیوی کو ان کے ماتحت کرنے کا حکم شریعت نے کہاں دیا ہے؟ اور یہ حکم کہاں دیا ہے کہ سب کا باورچی خانہ ایک ہو؟ اور سب سے زیادہ افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ جس کمرہ میں مرد کے والدین رہتے ہیں اسی کمرہ میں وہ بیوی کو شادی کرکے لاتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کمرہ میں دوسرے رشتہ دار بھی رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ نہ صرف باہمی تعلقات خراب ہوجاتے ہیں اور لڑنے جھگڑنے کا ماحول بن جاتا ہے بلکہ اخلاقی خرابیاں بھی پیدا ہوجاتی ہیں۔ شرم و غیرت کو زبردست ٹھیس لگتی ہے۔ اب اگر ان معاشرتی خرابیوں کو دور کرنا ہے تو رہائش کے اس ڈھانچہ کو لازماً بدلنا ہوگا اور جو شخص بیوی کیلئے علاحدہ کمرہ کا انتظام نہ کرسکتا ہو اس کو اس وقت تک شادی نہیں کرنا چاہئے جب تک کہ یہ لازمی چیز اسے حاصل نہ ہوجائے کیونکہ شادی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورت کو بیاہ کر کے لایا جائے اور اسے پریشانیوں میں ڈالا جائے۔
قرآن کریم میں حکم دیا گیا ہے کہ ’’اور جو لوگ نکاح کی مقدرت نہ رکھتے ہوں وہ پاک دامنی اختیار کریں، یہاں تک کہ اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کردے‘‘ (النور: 32)۔
سورہ نور میں نابالغ بچوں کو بھی اس بات کا پابند بنانے کی ہدایت دی گئی ہے کہ وہ تین اوقات میں یعنی نماز فجر سے پہلے، دوپہر کو جو قیلولہ کا وقت ہوتا ہے اور نماز عشاء کے بعد اجازت لے کر ماں باپ کے کمرہ میں داخل ہوں۔ قرآن نے ان اوقات کو ’ثَلاَثَ عَوْرَاتِ لَّکُمْ‘ کہا ہے؛ یعنی یہ اوقات پردے کے ہیں۔ اس سے واضح ہو کہ مرد عورت کیلئے خلوت کا انتظام ضروری ہے اور خلوت کے اوقات میں کسی کو بھی یہاں تک کہ نابالغ بچوں کو بھی بغیر اجازت اندر داخل نہیں ہونا چاہئے۔
کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں احناف کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ ’’جہاں تک رہائش کا تعلق ہے تو شوہر پر واجب ہے کہ وہ ایسے مکان میں بیوی کو رکھے جو دونوں کے حسب حال ہو اور شوہر کے رشتہ دار اور اس کے بچے وہاں نہ رہتے ہوں، بجز اس کے کہ چھوٹا طفل ہو جو مباشرت کو نہ سمجھتا ہو۔ ایسے طفل کے رہنے سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی‘‘ (الفقہ علی المذاہب الاربعہ، ج4، ص556)۔
استاذ ابو زہرہ لکھتے ہیں: ’’اسی طرح مکان کا شوہر کے رشتہ داروں سے خالی ہونا ضروری ہے جبکہ ان کے رہنے سے عورت کو تکلیف ہوتی ہو‘‘ (الاحوال الشخصیہ، ص283)۔
ڈاکٹر احمد الغندوراستاذ شریعت جامعہ کویت میں لکھتے ہیں: ’’رہائش گاہ کا شوہر کے رشتہ داروں سے خالی ہونا ضروری ہے‘‘ (الاحوال الشخصیہ، ص25)
کویت کے عائلی قانون کی دفعہ 86میں کہا گیا ہے: ’’یہ بات واضح ہے کہ شوہر اپنے چھوٹے غیر ممیز بچوں کو اپنی بیوی کے ساتھ رکھنے کیلئے مجبور ہے اور ان کے اس کے ساتھ رہنے میں بیوی کیلئے تکلیف کا کوئی احتمال نہیں ہے‘‘۔
اور آگے کہا گیا ہے : ’’جس نے کسی عورت سے شادی کی اور اسے اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں کے ساتھ رکھا اور بیوی نے تکلیف کی تو شوہر بیوی کو ان کے ساتھ رہنے کیلئے مجبورنہیں کرسکتا‘‘ (الاحوال الشخصیہ، الغندور۔ ص751)۔
واضح رہے کہ ایک ساتھ رکھنے کی گنجائش اسی صورت میں ہوسکتی ہے جبکہ کمرے الگ الگ ہوں۔ بیوی کی شب باشی کے کمرہ میں کسی کو نہیں رکھا جاسکتا بجز اطفال کے۔
شام کے عائلی قانون کی دفعہ 69 میں کہا گیا ہے: ’’شوہر کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں میں سے کسی کو اپنی بیوی کے ساتھ رکھے، سوائے اپنے چھوٹے غیر ممیز بچہ کے جبکہ اس کے رشتہ داروں سے بیوی کو تکلیف پہنچتی ہو‘‘۔
ڈاکٹر تنزیل الرحمن لکھتے ہیں: ’’مرد پر واجب ہے کہ وہ عورت کو علاحدہ مکان میں رکھے یا مکان کے کسی علاحدہ حصے میں جس کا راستہ علاحدہ ہو‘‘ (مجموعہ قوانین اسلام، اسلام۔ ج 1، ص308)۔

تبصرے بند ہیں۔