حقانی کا ہے ’اندازِ بیاں‘اور

فاروق اعظم قاسمی

دنیا میں بہت سے سخن ور ، سخن دان ،سخن شناس اور ادیب و شاعر و نقاد ہیں لیکن حقانی القاسمی کا ہے ’اندازِ بیاں ‘ اور۔ در اصل پتھر کا سینہ چاک کر،نکلنے والے سبز انکور کانام حقانی القاسمی ہے۔ حقانی القاسمی جہادِ زندگانی ہی میں فتحیابی کے قائل ہیں۔ انھیں پھول سے انس کم اور کانٹوں سے لگائو زیادہ ہے۔ کیوں کہ ہر لمحہ پھول کو مرجھانے کا خوف بھی ہے اور انجماد اس کا خاصہ بھی جب کہ کانٹے کو ذبول کا خوف بھی نہیں ہے اور وہ متحرک زندگی کا استعارہ بھی ہے۔
حقانی القاسمی کوکیا نام دیا جائے ؟ جب ان کے فن اور حذاقت کی بلندیوں کی طر ف نگاہ کریں تو انھیں اردو ادب کا سکندر کہنے کو جی چاہتا ہے لیکن دوسری جانب جب ان کے سراپا پر نظر پڑتی ہے تو درویشِ زمانہ کے کئی نام ذہن میں گڈ مڈ ہونے لگتے ہیں۔
بلا شبہ حقانی القاسمی کے افکا ر کی جدت اور انداز ِ نگارش کی انفرادیت کے پیشِ نظران کے اسلوب کو ’ حقانی اسلوب‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ایک بارپھر حقانی القاسمی کے ذہن و دماغ سے ادب کی ایک تازہ کونپل پھوٹی ہے جو انداز بیاں کی شکل میں ہمارے روبرو ہے۔اس میں بنتِ حوا کی آب بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی۔ ااس سلسلے میں حقانی القاسمی کا اندازِ بیاں ملاحظہ فرمائیں: ’’ عورتوں کی آپ بیتیاں پڑھتے ہوئے بالکل ایک نئی دنیا روبرو ہوتی ہے جس میں حزن ہے، کسک ہے، درد ہے، دکھ ہے، تنہائی ہے ، اداسی ہے ، اضطراب ہے، افسردگی ہے،احتجاج ہے، مزاحمت ہے۔ ‘‘ (ص: 16) اس بات سے مکمل اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ حوا کی بیٹیاں کچھ اپنی معصومیت کی بنا پر اور کچھ مردوں کی بے مردانگی کے باعث ظلم کا شکار ہوتی رہی ہیں۔ کبھی کبھی اس کی معکوس صورت بھی نظر آجاتی ہے۔ تاہم ظلم ظلم ہے ، ظلم اور ظالم کی طرفداری نہیں کی جا سکتی چاہے جو بھی ہو۔حقانی القاسمی اپنے اداریے ’ جنوں زاویہ‘ میں لکھتے ہیں : ’’ میرے جنون اور عورت کی زندگی کا بہت گہرا رشتہ ہے۔ میرا جنون جس طرح اذیتوں سے گزرتا رہتا ہے ، عورت کی زندگی بھی اسی طرح کے آزار سے عبارت ہے ‘‘۔(ص : 11)حقانی صاحب کا یہ خیال بالکل درست ہے کیوں کہ باغِ بہشت سے اخراج کی سزا تو آدم و حوا دونوں کو ہی ملی تھی۔ اس لیے میرے خیال میں آدم و حوا کا ڈوژن اور تقسیم صحیح نہیں۔ ظلم بہر حال ظلم ہے انسان کے جس عضو پر بھی ڈھایا جائے وہ مظلوم ہے اور جس ہاتھ نے بھی ظلم ڈھایا وہ ظالم ہے۔ سماج کے ہر ذمہ دار شہری پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ظلم کرنے سے رکے اور خود پر ظلم ہونے سے ظالم کو روکے۔
بقول منٹوجس طرح ’’ زندگی ایک طویل موت کا نام ہے ‘‘ اسی طرح یہ بھی حق ہے کہ اس ڈگر سے ہر نفس کو گزرنا ہے۔ زندگی اگر ایک ہی دھارے پربہتی رہے تو وہ بے مزا ہو جاتی ہے لیکن جب آبشاروں کی روپ میں اس کا گزر نشیب و فراز ، ا ٓڑی ترچھی ، دھوپ چھائوں اور کھردری راہوں سے ہو کر کسی انسان کے لب سے مس کرتی ہے تو اس کی ٹھنڈک ، آسودگی اور شیرینی کا احساس ہی دیگر ہوتا ہے۔ زندگی ہے تواس کے سارے لوازمات بھی ہیں لیکن یہی کھردراپن جب سرمئی حروف و الفاظ کا روپ دھار لیتا ہے تو وہی کبھی داستان ، تو کبھی ناول ، کبھی افسانہ و ڈراما بن جاتا ہے اور اگر مزید ہمت سے کام لیا جائے تو سوانح اور آپ بیتی کی صورت بھی اختیار کر لیتا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بہت سے داخلی و خارجی اسباب کی بنا پر اس سلسلے میں خواتین پیچھے بھی رہیں اور یہ بھی کڑوا سچ ہے کہ کبھی دانستہ بھی انھیں پیچھے رکھا گیا لیکن زمانہ اب متغیر ہو چکا ہے اور حق تلفیوں کی برفیلی چٹان دھیرے دھیرے پگھل رہی ہے۔
’انداز بیاں‘ کئی معنوں میں معاصر رسائل سے ممتاز نظر آتا ہے۔ اردو کے مجلاتی ادب میں یک موضوعی مجلہ اندازِ بیاں کو حقانی القاسمی کا اجتہاد کہنا زیادہ مناسبِ حال معلوم ہوتا ہے کیوں کہ اس نوعیت کا مجلہ دوردور تک نہ گزشتہ عہد میں دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی عصرِ موجود میں۔ ’’ خواتین کی خود نوشت ‘‘ سے اس سلسلے کا آغاز بھی اپنے آپ میں ایک مثالی قدم ہے۔ اندازِ بیاں کی ابتدا مدیر کی اپنی ’پیاری اماں ‘کے نام انتساب سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد دنیا بھرکے چھیالیس شجرِ سایہ دار کا ایک خوب صورت ’’باغ شفقت‘‘ تیار کیا گیا ہے پھر معاً بعد ’’ شجرِ محبت ‘‘ میں بھی طرح طرح کے چھیالیس پھل پھول سجائے گئے ہیں۔ اس کے بعد دو کم چھیالیس تازہ شاخوں کی ایک قلم ’’ شاخِ الفت‘‘ بھی باندھی گئی ہے۔ یہ محض ناموں کی فہرست نہیں در اصل اسے اردو ادب کے ماضی و حال اور مستقبل کا استعارہ سمجھنا چاہیے۔ مجلے کے مشمولات ’’ دریچے‘‘ کے بعد تیرہ صفحات کا طویل اداریہ ’’ جنوں زاویہ‘‘ درج ہے۔ چھ ابواب کے تحت کل 24 مضامین شاملِ مجلہ ہیں۔ پہلا باب خود نوشت اور خواتین کی خود نوشت کے روایت و فن پر مشتمل ہے ، بقیہ ابواب خواتین کی لکھی مختلف آپ بیتیوں پر الگ الگ تنقیدی و تجزیاتی مضامین ہیں۔مضمون نگاروں میں نئے پرانے دونوں چراغ روشن ہیں۔ مضامین کی ترتیب میں جناب ِمدیر کے پیشِ نظر کون سا نکتہ رہا یہ ذرا مبہم ہے۔ اخیر میں ’’ خوشبو محبتوں کی‘‘ کے ضمن میں مختلف اشخاص کے برقی خطوط اور فیس بک پیغامات مندرج ہیں۔
ملکی اور عالمی سطح پر مختلف شعبہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے اپنی خود نوشتیں لکھیں اور بہت سی نے لکھنا چاہی لیکن محروم رہیں۔ حقانی القاسمی نے اداریے میں سرسری ہی سہی سیاست و سماج ، رقص و فلم ، اور قانون و تعلیم سے وابستہ خواتین کی آپ بیتیوں کا الگ الگ جائزہ لیا ہے یہاں تک کہ خواتین کی منظوم خودنوشت اور معذور خواتین کی آپ بیتیوں تک کا سراغ لگایا ہے۔ جنابِ مدیر نے دو خود نوشتوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے اور ادا جعفری کی آپ بیتی ’’ جو رہی سو بے خبری رہی ‘‘ پر ایک باضابطہ مضمون تحریر کیا ہے۔یہاں حقانی القاسمی نے نسائی تحریک کے مثبت و منفی پہلو کو بھی اجاگر کیا ہے اور مغرب و مشرق کی آپ بیتیوں کے بیچ واضح فرق کو بھی بیان کیا ہے۔ اشارت و کنایت کے ذریعے ہی سہی ادا جعفری نے اپنے گرد و پیش کے احوال کے ساتھ عالمی سطح پر خواتین کے ساتھ ہو رہی نا انصافیوں کی گرہیں کھولی ہیں۔ حقانی صاحب ادا جعفری کی اس کتاب کا جائزہ لینے کے بعد اخیر میں کتابِ مذکور کی ایک خوبی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ اس خود نوشت کی خوبی کہی جا سکتی ہے کہ یہ ایک Feminist نہیں بلکہ Humanist کے نقظہ ٔ نطر سے لکھی گئی ہے ‘‘۔ (231)
آٹھ مضامین قدرے مختصر اور بقیہ مفصل ہیں۔ ان میں شبانہ سلیم کا مضمون ’’ خواتین کی خود نوشت سوانح عمریاں ‘‘ ، محمد احمد سبزواری کا ’’ خواتین کی خود نوشت ‘‘ ، ابرار اجراوی کا ’’ عربی زبان میں خود نوشت ‘‘ ، صادقہ نواب سحر کا ’’ مراٹھی میں خود نوشت ‘‘ اورراشد اشرف کا ’’ پاک و ہند کی خواتین خودنوشتیں ‘‘ خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ ان مضامین سے خواتین خود نوشت کے فن پر بھر پور روشنی پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ مضامین بھی لائقِ مطالعہ ہیں۔
کسی میدان میں بھی انسان کی کوئی کوشش حرفِ آخر نہیں ہوتی۔ ایک شخص کے فکر سے دوسرے کو اختلاف و اتفاق کا حق بھی اس کی آزادی کا ایک حصہ ہے تاہم ’ اندازِ بیاں ‘ اپنی نوعیت کا ایک شاہکار ادبی و تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی روشنی و خوشبودور تک اور دیر تک باقی رہے گی۔ تمام اہلِ قلم سمیت جناب مدیر حقانی القاسمی سزاوارِ شکریہ اور مستحقِ مبارکبادہیں۔

تبصرے بند ہیں۔