"اردو کی ترویج و ترقی میں مدارس عربیہ کا کرادر”

خصوصی خطبہ

زیر اہتمام کاروان اردو قطر

رپورٹ : ڈاکٹر  نشاط احمد صدیقی

14/ اکتوبر 2016 کو رات 8 بجے ایئرپورٹ سے قریب  واقع ماذا ہوٹل کے کشادہ ہال میں ایک ادبی اجلاس اور مشاعرے کا انعقاد ہوا۔ اس پر وقار ادبی تقریب میں دوحہ کی ممتاز شخصیتیں، شعر وادب سے محبت کرنے والے حضرات اور سرگرم عمل اردو تنظیموں (بزم اردو قطر، مجلس فروغ اردو ادب، حلقہء ادب اسلامیِ، انجمن محبان اردو ہند اور گزرگاہ خیال) سے وابستہ شعرا، ادب دوست  اورذمےداران شریک ہوے۔ اہم صحافتی اداروں سے وابستہ، معروف سماجی اور ثقافتی شخصیت جناب شاداب احمد خان نے تقریب کی صدارت فرمائی، نیپال سے تشریف لائے ہوئے معزز مہمان، سراج العلوم جھنڈا نگر کے ناظم اعلی، ملک نیپال سے رابطہ عالم اسلامی کے نمائندہ رکن،  ماہنامہ ” السراج” کے مدیر مسئول، نیپال اور ہندوستان کی ایک اہم دینی و دعوتی  شخصیت مولانا شمیم احمد ندوی نے مہمان خصوصی کی نشست کو رونق بخشی اور دوحہ کے ادبی و ثقافتی حلقوں کی معروف شخصیت جناب محمد عبد القادر (آصف) نے مہمان اعزازی کی حیثیت سے شرکت فرمائی۔

کاروان اردو قطر کے جنرل سکریٹری جناب شاہد خاں نے اسٹیج پر موجود شخصیات، شعرا اور سامعین کا استقبال کیا اور صدر اجلاس و مہمانان خصوصی و اعزازی کا تفصیلی تعارف کرایا۔ جس کے بعد جناب عبد الرحیم صاحب کی تلاوت کلام پاک سے تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا۔

اجلاس کے پہلے حصے میں تقریب کے مہمان خصوصی جناب مولانا شمیم احمد ندوی نے "اردو کی ترویج و ترقی میں مدارس عربیہ کا کرادر” کے عنوان پر خصوصی خطبہ پیش کیا۔ اگرچہ یہ ایک برجستہ خطاب تھا لیکن موصوف نے موضوع کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا اور اردو زبان کے متعدد ادوار اور مختلف مراحل میں مدارس عربیہ اور ان سے وابستہ لوگوں کی خدمات پر بھرپور روشنی ڈالی۔ اس خطبہ کے بعض اہم اور فکر انگیز نکات حسب ذیل تھے :

  1. نیپال اور ہندوستان بلکہ بر صغیر میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کی قابل ذکر تعداد بستی ہے وہاں کسی نہ کسی سطح کا، بڑا، متوسط درجہ کا یا مکتب کی شکل میں مدرسہ ضرور موجود ہے، ان مدارس نے مسلمانوں کے دین واخلاق اور ثقافت و شناخت کے تحفظ میں جو کردار ادا کیا ہے اس کا ذکر ایک طرف، اس کے علاوہ ان مدارس کا ایک بڑا کردار برصغیر میں اردو زبان کی ترویج و اشاعت سے عبارت ہے، ان مدارس نے زبان کی بنیاد پر مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرویا ہے۔ چنانچہ شمالی ہند کے دور دراز علاقہ کا مسلمان اگر جنوبی ہند کے کسی افتادہ مقام پر جا نکلے تو وہ وہاں کی مقامی زبان ( تمل، تیلگو، ملیالم، کنڑ) وغیرہ سے ناواقف ہونے کےبا وجود کسی نہ کسی مسلمان سے اردو میں بات چیت ضرور کر سکے گا۔ اردو کو یہ وسیع لسانی پلیٹ فارم اور ریڈرشپ ان اسلامی مدارس کے طفیل ہی حاصل ہوئی ہے۔
  2. مدارس اور ان کے نظام سے فیض یافتہ علماء کا تذکرہ کرتے ہوئے معزز مہمان نے فرمایا کہ مولانا سید ابو الاعلی مودودی، مولانا ابو الحسن علی ندوی اور دیگر علمائے کرام اگرچہ سکہ بند ادیب نہ تھے، ان کی تحریروں کا راست مقصد اگرچہ دعوت و اصلاح اور تبلیغ و اشاعت اسلام تھا لیکن اس کے باوجود ان کی تحریروں اور تقریروں میں زبان و ادب کے اعلی نمونے موجود ہیں۔
  3. زبان کے فروغ کا ایک بڑا ذریعہ صحافت ہے، اس میدان میں بھی مدارس کا کردار بہت اہم ہے، ہر قابل ذکر بڑے مدرسہ سے اردو زبان میں کوئی نہ کوئی ماہنامہ ، پندرہ روزہ یا ہفت روزہ ترجمان ضرور نکلتا ہے، نیپال جیسے پسماندہ ملک سے جہاں مسلمانوں کی آبادی صرف پانچ فیصد ہے اور وہ دیگر قوموں سے زیادہ پسماندہ بھی ہیں، تقریبا 6 جرائد شائع ہوتے ہیں، اور آپ کو حیرت ہوگی کہ یہ سارے جرائد مختلف مدارس اور اسلامی مراکز کے زیر اہتمام شائع ہوتے ہیں۔
  4. اردو کے بیشتر شعرا اور ادبا کا تعلق کسی نہ کسی شکل میں مکتب اور مدرسے رہا ہے۔

مہمان خصوصی کے اس پرمغز خصوصی خطبے کے بعد مشاعرے کا دور شروع ہوا جس کی نظامت کاروان اردو قطر کے صدر جناب عتیق انظر صاحب نے کی اور دوحہ کے نمائندہ شعرا (عتیق انظر، شاد اکولوی، فرتاش سید، عزیز نبیل، افتخار راغب، احمد اشفاق، منصور اعظمی، قیصر مسعود، وزیر احمد وزیر اور راشد عالم راشد) نے اپنے بہترین کلام سے لوگوں کی ضیافت طبع کا سامان مہیا کیا۔ جناب عتیق انظر نے مولانا کے خطبہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہندوستان میں انگریزوں کی آمد سے پہلے یہاں کا تعلیمی نظام مدارس ہی پر منحصر تھا اس لئے فطری طور پر اردو زبان و ادب کی نشوونما اور فروغ میں علما اور مدارس سے وابستہ شخصیات کے کردار سے  انکار توممکن ہی نہیں ہے ابتدائی زمانے سے لے کر آج تک علماء مدارس کا ایک اٹوٹ سلسلہ ہے جو آسمان آردو پرروشن ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں ۔  ان میں شاعر بھی ہیں ادیب بھی ہیں اور نقاد بھی۔شعری نشست کا سلسلہ رات  کے تقریبا گیارہ بجے تک چلتا رہا ، لیں شعرا کے منتخب  کلام سے قارئین بھی محظوظ ہوں:

راشد عالم راشد :

کیسے یہ حالات بہتر ہوگئے
غم سے تپ کر وہ منور ہو گئے
قافلے کو کون لوٹے گا بھلا
لوٹنے والے ہی رہبر ہو گئے

ان سے مل کر بات کی راشد نے جب

سارے کینے دل کےباہر ہو گئے

ایک حادثہ ہوا ان کو کچھ پتا نہیں
لے کے دل چلے گئے جیسے کچھ ہوا نہیں

ہاتھ رکھ کے نبض پرکہتے ہیں کہ کیا ہوا

درد دل بڑھا گئے ، درد کی دوا نہیں

آنکھ بند ہم ہیں گم اک حسیں جہان میں

یادوں کی کسک ہے بس اور کچھ سوا نہیں

وزیر احمد وزیر:

میرے غم کی بھی ترجمانی ہو

شرط یہ ہے تری زبانی ہو

کیوں یہ دھڑکے کسی کے سینے میں

دل پہ اپنی بھی حکمرانی ہو

سیر اب گلستاں کی کون کرے

جانے کس گل کو بدگمانی ہو

سہ چکے وقت کی اسیری بہت

اب تو بدمست زندگانی ہو

یہ اور بات کہ ہم رو بہ رو ہوئے بھی نہیں

کئے بغیر ترا تذکرہ رہے بھی نہیں

یہ کیسی زندگی ہم کو عطا ہوئی یا رب

سکوں سے جی نہ سکے چین سے مرے بھی نہیں

نہ تو ملا نہ ترا عکس پا لیا ہم نے

ترے جنوں میں کسی اور کے ہوئے بھی نہیں

قیصر مسعود:

احساس مرگ و زیست سے میں سرفراز ہوں

انساں مجھے عزیز ہے انساں نواز ہوں

ہوتا ہےتیرےشہر میں پتھر کا کاروبا ر

لیکن میں بدنصیب ہوں آئینہ ساز ہوں

اس جہاں یا اس جہاں کے لوگ ہیں

کیا خبر ہم کس مکاں کے لوگ ہیں

صد مبارک آپ کو یہ فصل گل

ہم تو بس عہد خزاں کے لوگ ہیں

بس ترے مہمان ہیں دوچار دن

اے زمیں ! ہم آسماں کے لوگ ہیں

جو لوگ اعتبار کے قابل نہیں رہے

شامل ہے ان میں تو بھی مری جان معذرت

تو نے تو یار مجھ کو فرشتہ سمجھ لیا

میں ہوں گناہگا ر سا انسان معذرت

تو کاروبار عشق میں شامل تھا میرے ساتھ

سو ہو گیا ہے تیرا بھی نقصان معذرت

تجھ سے جو تلخ لہجے میں کل گفتگو ہوئی

سو رات بھر رہا ہوں پریشان معذرت

منصور اعظمی :

حکمران وقت گر نمرود ہو شداد ہو

کس طرح پھر دل کسی کا شاد ہو آباد ہو

میں وہ طائر ہوں کہ لے کر جال بھی اڑ جاؤں گا

ڈال کر پھندہ دکھانا تم اگر صیاد ہو

احمد اشفاق :

کیا بچا میری کائنات میں ہے

ایک دل تھا سو اس کی بات میں ہے

زد میں ہے کون دیکھنا ہے یہ

لو دیے کی ہوا کے ہاتھ میں ہے

لوگ چہرہ چھپائے پھرتے ہیں

آئینہ جانے کس کے ہاتھ میں ہے

بے خطر ہوں سفر میں سرگرداں

ہاتھ کس کا یہ میرے ہاتھ میں ہے

میں کہاں ہوں مجھے پتہ ہی نہیں

تو بھی عرصہ ہوا ملا ہی نہیں

مسئلے مشترک ہمارے ہیں

مشترک کوئی رہنما ہی نہیں

چاروں سمتیں اداس بیٹھی ہیں

شہر میں جب کہ کچھ ہوا ہی نہیں

افتخار راغب:

پیکرِ مہر و وفا روحِ غزل یعنی تُو
مِل گیا عشق کو اِک حُسن محل یعنی تُو

غمِ دل ہو غمِ جاناں کہ غمِ دوراں ہو
سب مسائل کا مِرے ایک ہی حل یعنی تُو

گنگناتے ہی جسے روح مچل اُٹھتی ہے
میرے لب پر ہے ہمیشہ وہ غزل یعنی تُو

دفعتاً چھیڑ کے خود تارِ ربابِ الفت
میرے اندر کوئی جاتا ہے مچل یعنی تُو

پیاس کی زد میں محبت کا شجر یعنی میں
جس پہ برسا نہ کبھی پریت کا جل یعنی تُو

ڈھونڈ کر لاﺅں کوئی تجھ سا کہاں سے آخر
ایک ہی شخص ہے بس تیرا بدل یعنی تُو

قلبِ راغبؔ  میں عجب شان سے ہے جلوہ فگن
دلربائی کا حسیں تاج محل یعنی تُو

عزیز نبیل :

وہ دکھ نصیب ہوئے خود کفیل ہونے میں

کہ عمر کٹ گئی اپنی دلیل ہونے میں

سر صحرائے جاں ہم چاک دامانی بھی کرتے ہیں

ضرورت آپڑے تو ریت کو پانی بھی کرتے ہیں

کبھی دریا اٹھا لاتے ہیں اپنی ٹوٹی کشتی میں

کبھی اک قطرہ شبنم سے طغیانی بھی کرتے ہیں

ہمیشہ آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پہ رکھتے ہیں

مگر یہ یاد رکھئے گا کہ من مانی بھی کرتے ہیں

یہ کیا قاتل ہیں،  پہلے قتل کرتے ہیں محبت کا

پھر اس کے بعد اظہار پشیمانی بھی کرتے ہیں

میاں تم دوست بن کر جو ہمارے ساتھ کرتے ہو

وہی سب کچھ ہمارے دشمن جانی بھی کرتے ہیں

وہی جو رشتہ ہے کشتی کا سطح آب کے ساتھ

وہی ہے میرا تعلق بھی اپنے خواب کے ساتھ

یہیں کہیں تو چمکتی تھی اک طلسمی جھیل

یہیں کہیں تومیں ڈوبا تھا اپنے خواب کے ساتھ

سنبھل کے چلنا ، یہ تعبیر کی سڑک ہے میاں

بندھی ہوئی کئی آنکھیں ہیں ایک خواب کے ساتھ

فرتاش سید:

ہاں کبھی روح کو نخچیر نہیں کر سکتا

تجھ زباں نے جو کیا تیر نہیں کر سکتا

چاند ہوتا تو یہ ممکن تھا مگر چاند نہیں

سو میں اس شخص کو تسخیر نہیں کرسکتا

میں کہاں اور یہ آیات خدو خال کہاں

مصحف حسن میں تفسیر نہیں کر سکتا

عجیب مست قلندر ہے مار دے گا مجھے

وہ شخص جو مرے اندر ہے مار دے گا مجھے

کسی کے بس میں نہیں ہے کہ مجھ کو مار سکے

مگر جو دل میں مرے  ڈرہے  مار دے گا مجھے

خیام ،آگ،لہو،شام ، ریگ، دریا ، پیاس

جو میری آنکھ میں منظر ہے ، مار دے گا مجھے

گلی کا پتھر تھا، مجھ میں آیا بگاڑ ایسا

میں ٹھوکریں کھا کے ہو گیا ہوں پہاڑ ایسا

نہ سر اٹھا پائے کوئی بھونچال مجھ میں اے وقت

میں نرم مٹی ہوں سو مجھے تو لتاڑ ایسا

خدا خبر دل میں کوئی آسیب ہے کہ اس میں

کوئی نہ آیا گیا ، پڑا ہے اجاڑ ایسا

چہار جانب پڑے ہیں پرزے نگاہ و دل کے

ہمارا اس عشق نے کیا ہے کباڑ ایسا

میں بھول بیٹھا ہوں ہنسنا ، فرتاش بھول بیٹھا

ہوا ہے خوشیوں کا بند مجھ پر کواڑ ایسا

شاد اکولوی:

اک ظلم کی سوغات بتا ہے کتنی

یہ تیری سیہ  رات بتا ہے کتنی

مظلوم کی اک آہ جلا کر رکھ دے

ظالم تری اوقات بتا ہے کتنی

کسی بھی قوم کو جب وہ عذاب دیتا ہے

تو پہلے مستی چنگ و رباب دیتا ہے

تغیرات جہاں میں ہوئے تو غم کیسا

کہ ہر جمود کو وہ انقلاب دیتا ہے

لطف مے کچھ بھی نہیں، آب و ہوا کچھ بھی نہیں

زندگی میں تری چاہت کے سوا کچھ بھی نہیں

چاند بے داغ نہیں تجھ سا مری جان غزل

تری زلفوں کےمقابل یہ گھٹا کچھ بھی نہیں

دردو غم ، رنج و الم ، بغض و حسد، حرص و ہوس

اس کہانی میں مری جان نیا کچھ بھی نہیں

بحر و بر ، شمس و قمر ، ارض و سما، آب و ہوا

شاد اک کن کے اشارے کے سوا کچھ بھی نہیں

عتیق انظر :

میں اپنے سر سبھی الزام لوں گا

مگر ہر دم اسی کا نام لوں گا

میں جس کے واسطے جاں دے رہاں ہوں

اسی کے ہاتھ سے انعام لوں گا

تم ایماں کے عوض دنیا خریدو

میں اس کمتر کو سستے دام لوں گا

خفا ہوتا ہےتوہو جائے سورج

میں  دل کی روشنی سے کام لوں گا

اب اس کا ساتھ نبھانے کا مجھ میں یارا نئیں

مگر ہےیوں بھی کہ اس کے بنا  گزارا نئیں

کیا ہے عشق تو ساحل کے خواب مت دیکھو

یہ بحر ایسا ہے جس کا کوئی کنارا نئیں

میں رک گیا، اسے دیکھا بھی دور تک لیکن

وہ دل کا سخت تھا اتنا مجھے پکارا نئیں

عدو کی جیت کا اعلان مت کرو لوگو

بدن ہے چور مگر حوصلہ میں ہار انئیں

میں قرض اتاروں گا اک دن تری محبت کا

لباس مٹی کا میں نے ابھی اتارا نئیں

میں جس زمیں کےلیے جان دیتا ہوں انظر

اسی زمین پر میرا کوئی اجارا نئیں

            عتیق انظر صاحب کےساتھ ہی آج کی تقریب میں پڑھنے والے شعرا کی فہرست مکمل ہوئی ، جس کے بعد اسٹیج پر رونق افروز شخصیات کو اظہار تاثرات کی دعوت دی گئی۔ سب سے پہلے مہمان اعزازی جناب عبد القادر آصف صاحب نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ، آپ نے کاروان اردو قطر کے جنرل سکریٹری جناب شاہد خاں صاحب کا شکریہ ادا کیا اور اس تقریب میں شرکت پر اپنی مسرت کا اظہار فرمایا۔

مہمان خصوصی جناب مولانا شمیم احمد ندوی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ آ ج کی تقریب میں شرکت میرے لئے ایک خوشگوار اتفاق ہے ، سچ یہ ہے کہ جتنی اچھی شاعری مجھے یہاں سننے کو ملی اس کی مجھے توقع نہیں تھی ،سامعین نے بھی جس خوش ذوقی اور ادب نوازی کا ثبوت پیش کیا اس کےلئے وہ مبارکباد اور ستائش کے مستحق ہیں، اور اب میں دعوے کےساتھ کہ سکتا ہوں کہ اردو زبان و ادب کے مستقبل سے کسی ناامیدی کی ضرورت نہیں ہے ۔

آج کی تقریب کے صدر جناب شاداب احمد خان نے فرمایا کہ بدقسمتی سے اردو زبان سے میں واقف نہیں ہوں اور جامعہ میں تعلیم حاصل کرنے کےباوجود میں اردونہیں سیکھ سکا ، آج کی محفل میں شرکت کا مجھے یہ بڑا فائدہ ہو گا کہ اب میں زیادہ سنجیدگی سے اردو سیکھنے کی کوشش کروں گا۔ میں کاروان اردو قطر کے تمام ذمہ داروں کاشکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے یہاں بلا کر مجھے اس خوبصورت محفل کا حصہ بنایا، میں آیندہ بھی اس طرح کی مجلسوں میں شریک ہوتا رہوں گا اور جو تعاون بھی مجھ سے ہو سکے گا اسے پیش کر کےخوشی محسوس کروں گا۔

تبصرے بند ہیں۔