مولانا سیدابوالحسن علی ندوی کا نثری بیانیہ

حقانی القاسمی

مولاناکی شخصیت صاحبقرانی تھی۔ وہ ایک درئہ یکتاتھے، گوہرنایاب، جس نے سمرقند وبخارا، دمشق و بغداد، اسکندریہ وقاہرہ، شیراز واصفہان کی مٹی سے جنم نہیں لیاتھا بلکہ ہندوستان کی مٹی سے جنم لیا جس کے سپوتوں نے عرب کی مقدس سرزمین میں جنم لینے والے دانشوروں کی بھی فکری قیادت کی۔
مولاناابوالحسن علی ندوی اس کی ایک تابندہ مثال تھے۔ وہ پوری دنیا میںہند کی تہذیبی، لسانی اور ثقافتی شناخت کاایک نمایاں حوالہ تھے۔ ربّ ذوالجلال نے انھیں قلب متقلب مع الحق اورلسان متحلی بالصدق ودیعت فرمایاتھا، اس لیے وہ ہمیشہ سچے شبد لکھتے رہے اور بولتے رہے۔ ان کی کسی بھی تحریر یا تقریر میں مداہنت کاکوئی شائبہ تک نہیں۔ ان کی ہر ایک کتاب ایک خزانۂ عامرہ اور بیش قیمت تحفہ ہے کہ دنیا کی کوئی قیمتی سے قیمتی شئے اس کی متبادل نہیں ہوسکتی۔
مولانانجیب الطرفین تھے۔ اصلاً حسنی وحسینی سید اور اس خانوادے کے چشم وچراغ جس نے ہندوستان کی فکری عظمتوں اور علمی رفعتوں سے ایک جہاں کو آشنا کرایا، جس نے اس سرزمین کے شمس و قمر کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر عالم عرب سے متعارف کرایا اور ایک ایسی سوانحی لغت تیار کی جس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ ان کے والد مبرور ومغفور مولانا عبدالحئی حسنی 8ضخیم جلدوں پر محیط ’نزہۃ الخواطر‘ کو علمی تاریخ اوران کے تذکرہ ’گل رعنا‘ کو کوئی بھی ادبی تاریخ فراموش نہیں کرسکتی۔
سیدابوالحسن علی ندوی اپنے والد مبرور کی علمی وادبی روایت کے سچے امین اور وارث تھے۔ انھوں نے بھی ہندوستانی علوم وفنون میںاپنے والد مغفور کی طرح اضافے کیے اور پوری دنیا کو ایسی ایسی کتابیںدیں کہ دنیا آج بھی مولانا کی شخصیت پرغبطہ کرتی ہے۔ دینی علوم ومعارف کا وہ کون سا پہلو ہے جو مولانا کی نظر سے مخفی رہا ہو۔ تصوف، تاریخ، تہذیب، ثقافت، ادب، عصری اسلامی موضوعات ،کون سا ایسا موضوع ہے جس پر مولانا نے نہیں لکھا اور اس کا حق نہیںادا کیا۔
’تاریخ دعوت وعزیمت‘ اپنی نوعیت کی ایک ایسی ہی کتاب ہے جسے لکھنے کے لیے صدیوں کی ریاضت چاہیے، مگر مولانا نے اس طرح کی بہت سی کتابیں لکھیں اور ان کتابوں نے بہتوں کی ذہنی دنیا کو بدل ڈالا۔’سیرت احمدشہید‘ ہو یا ’المرتضیٰ‘، ’پاجاسراغ زندگی‘ ہو یا ’کاروانِ زندگی‘ یہ ایسی کتابیں ہیں جنھیں وقت کی تناسخی گردشیں کبھی نہیں مٹا سکتیں۔ ’کرالغداۃ‘ اور ’مرالعشی‘ بھی اس کی رونق کوماند نہیں کرسکتے۔
علی میاں، عربی زبان وادب کے صاحب طرزادیب تھے اوران کی عظمت کانقش عرب کے بڑے بڑے فصحا وبلغا کے ذہنوں پر قائم ہے۔ سیدقطب ہوں یا انورالجندی، علی طنطاوی ہوں یا یوسف القرضاوی، شکیب ارسلان ہوں یا ناصرالدین البانی، شکری فیصل ہوں یا شیخ عبدالعزیز رفاعی، سبھی علی میاں کی فصاحت وبلاغت لسانی کے اسیرہیں۔
مولاناعلی میاں اردو کے بھی ایک صاحب طرز انشا پرداز تھے۔ وہ کون سی صنف ہے جس میں مولانا ابوالحسن ندوی نے اشہب قلم نہیں دوڑائے۔ کون سا ایسا موضوع ہے جسے ان کا قلم چھوکر نہ گزرا۔ انھوں نے سفرنامے لکھے تو ایسے کہ ابن بطوطہ اور ابن جبیر کی یادتازہ ہوجائے اورخاکے لکھے توایسے کہ کیا کوئی اردو کا سقراط اور بقراط لکھے گا اورخودنوشت لکھی تو ایسی کہ پڑھنے والے کے دل میں ویسی ہی زندگی جینے کی تمنا جاگ اٹھی۔
مولاناعلی میاں، نام نہاد ماہرین اقبالیات سے کہیں زیادہ بڑے اقبال شناس تھے۔ اقبالیات کے ضمن میں ان کا جوکارنامہ ہے وہ لازوال ہے۔ اقبال کے افکار کی تفہیم صحیح معنوں میں وہی کرسکتاہے جس کے ذہن کی جڑوں میں اسلامی فکری روایت بھی شامل ہو۔ جو اسلام کے متحرک، انقلابی عناصر کو سمجھتاہو۔ جس نے اسلام کا کلی طور پر مطالعہ کیا ہو۔ علامہ اقبال کی فکری شخصیت کو مولانا نے ہی صحیح تناظر میں سمجھا اور عرب دنیا کے سامنے ان کے افکار اس طرح پیش کیے کہ عالم عرب بھی علامہ اقبال کا والہ وشیدا ہوگیا، پھر عبدالوہاب عزام اور صاوی علی شعلان نے اقبال شناسی کے دائرے کو اتنی وسعت بخشی کہ عرب کی فضا اقبال کے نغموں سے گونجنے لگی۔ از ساحل نیل تا بخاک کاشغراقبال کے مسجدقرطبہ کی سمفنی گونجتی رہی۔ مرحوم رشید احمد صدیقی نے مولانا کی اقبال شناسی کا اعتراف کرتے ہوئے کس قدر بلیغ رمز استعمال کیا ہے:
’مولانا پہلے عالم دین ہیں جس نے موجودہ صدی کی اردو شاعری کے سب سے بڑے نمائندے اورعظیم شاعر اقبال کی شخصیت اور شاعری کا مطالعہ غیر معمولی شوق اور بصیرت سے کیا ہے، ورنہ بیشترعلما ہرجدید کو بالعموم مشتبہ، ورنہ بڑی احتیاط سے دیکھنے کی طرف مائل رہے ہیں۔‘
دراصل اقبال کی شاہین یعنی انقلاب وتحرک کے استعارہ کو مولانا نے ہی اس کی مکمل معنویت کے ساتھ سمجھا اور اپنی تحریروں میں پیش کیا۔ ان کی ہر تصنیف میں یہ شاہین زیریں سطح پر ضرور موجود ہوتاہے۔ ’نقوشِ اقبال‘ ایک ایسی کتاب ہے جو اقبالیات پرمحض ایک اضافہ نہیں بلکہ اقبال شناسی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اقبال کے جملہ فکری عناصر کی تفہیم کا حق انھوں نے ادا کردیا اور ایسا مولانا ہی کرسکتے تھے کہ وہ مواہب لدنیہ سے معمور تھے۔
علامہ اقبال کی طرح مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی بھی مغربی طوفان کے لیے ایک چٹان کی مانند تھے۔ مولانا کی شخصیت میں مشرقی تہذیب، ثقافت اور علوم کی جڑیں بہت مضبوط تھیں اور انھیں مشرقی تہذیب وثقافت کی رفعت اور عظمت پراتنایقین تھا کہ مغرب کودرخوراعتنا نہیں سمجھتے تھے۔ مغربیت اورمادّیت پرستی کے خلاف مولانا نے قلمی جہاد ہی نہیں بلکہ عملی جہاد بھی شروع کردیا تھا۔ مولانا جانتے تھے کہ مغربی تہذیب کی یلغار، مشرق کے فکری ایوانوں کوتہس نہس کردے گی، اس لیے انھوں نے مکملمزاحمت اور مقاومت کے ساتھ مغربی تہذیب کے خلاف لکھا اور عالم عرب کو بھی اس تہذیب کے دلدل سے نکالا۔
مولانا کاادبی ذوق انتہائی شستہ اور شائستہ تھا۔ ادب کا باضابطہ مطالعہ ان کے روزمرہ کے معمول میں شامل تھا۔ ان کی تحریروں میں میر،غالب، مومن، فیض، جگر کے اشعار چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مولانا کے اظہار وبیان کی جمالیات میں دراصل بہت کچھ حصہ عالمی ادبیات سے آشنائی کا بھی ہے۔ وہ اس نثری اسلوب کے موئد ہیں جو اسلوب ’ہندوستان میں جنم لینے والے پہلے یونانی مفکر علامہ شبلی نعمانی‘ کا تھا۔ ان کے الفاظ میں شوکت وجلال اور رعنائی وجمال کا بہت ہی خوبصورت وصال نظر آتا ہے۔ ان کی تحریر صرف جادو نہیں جگاتی بلکہ ذہنوں کے بنددریچوں کو بھی واکرتی ہے۔ ان کی تحریر میں فکشن کے سارے تشکیلی وترکیبی عناصر موجود ہیں۔ اگر میں انھیں اردو کا ایک بڑا ’فکشن رائٹر‘ کہوں تو شایدغلط نہ ہو۔ ان کے باطن میں ایک بہت بڑا افسانہ نگارچھپابیٹھا تھا اور وہ اپنی ہر تحریر میں بڑی خوبصورت منظرنگاری کرتے تھے۔ماضی کے واقعات کی بعینہٖ ایسی تصویر کھنچتے تھے جیسے وہ خود اس واقعے کے چشم دیدگواہ رہے ہوں۔ اپنی ایک تحریر میں میدان عرفات کا نقشہ کھینچتے ہوئے انھوں نے جو منظرنگاری کی ہے، اس سے ان کی قوتِ متخیّلہ اورلسانی ادراک کا تواندازہ ہوتا ہی ہے، ساتھ ہی قرأت کے عمل سے گزرتے ہوئے قاری عصرحاضر سے اس خیرالقرون میں پہنچ جاتاہے جس میں اس واقعہ کا ظہورہواتھا۔ ان کے اظہار و بیان کی جمالیات کا ایک نمونہ دیکھئے:
’اسی طرح سے میدانِ عرفات کا تصور کیجیے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار کفن بردوش انسانوں کا مجمع ہے۔ لبیک کی صداؤں اورحجاج کی دعاؤں سے فضا گونج رہی ہے۔ خدا کی شان بے نیازی اور عظمت وجبروت کا نقشہ سامنے ہے۔ انسانوں کے اس جنگل میں ایک برہنہ سر، احرام پوش ایسا بھی (فداہ امی وامی) ہے جس کے کاندھوں پرساری انسانیت کا بارہے، جو ہردیکھنے والے سے زیادہ خدا کی عظمت وجلال کا مشاہدہ کررہاہے اور ہر جاننے والے سے زیادہ انسانوں کی درماندگی، بے حقیقتی اوربے بسی سے واقف ہے۔ اس پرتاثیر اورپرہیبت فضا میں اس کی آواز بلندہوتی ہے اورسننے والے سنتے ہیں:
اے اللہ! تومیری سنتا ہے اورمیری جگہ کو دیکھتا ہے اورمیرے پوشیدہ اورظاہر کو جانتاہے۔ تجھ سے میری کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی۔ میں مصیبت زدہ ہوں، محتاج ہوں، فریادی ہوں، پناہ جو ہوں، پریشان ہوں، ہراساں ہوں، اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے والا ہوں۔ تیرے آگے سوال کرتا ہوں، جیسے بے کس سوال کرتے ہیں۔ تیرے آگے گڑگڑاتا ہوں جیسے گنہگار ذلیل وخوار گڑگڑاتا ہے اورتجھ سے طلب کرتاہوں، جیسے خوف زدہ آفت رسیدہ طلب کرتاہے اور جیسے وہ شخص طلب کرتاہے جس کی گردن تیرے سامنے جھکی ہو اور اس کے آنسو بہہ رہے ہوںاورتن بدن سے وہ تیرے آگے فروتنی کیے ہو اور وہ اپنی ناک تیرے سامنے رگڑرہاہو۔ اے اللہ! تو مجھے اپنے سے دعا مانگنے میں ناکام نہ رکھ اور میرے حق میں بڑا مہربان اوررحم کرنے والاہوجا۔ اے سب مانگے جانے والوں سے بہتر، اے سب دینے والوں سے اچھے۔
کیاخدا کی کبریائی اور عظمت اوراپنی توانائی اوربے نوائی، فقرواحتجاج، عجز و مسکنت کے اظہار و اقرار کے لیے اور رحمت خداوندی کو جوش میں لانے کے لیے ان سے زیادہ پراثر، پرخلوص اور دل نشیں الفاظ انسان کے کلام میں مل سکتے ہیں اور اپنے دل کی کیفیت اور عجز ومسکنت کا نقشہ اس سے بہتر کھینچا جاسکتاہے؟ یہ الفاظ تودریائے رحمت میں تلاطم پیدا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ آج بھی ان کوادا کرتے ہوئے دل امڈآتا ہے۔ آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں اوررحمت خداوندی صاف متوجہ معلوم ہوتی ہے۔ رحمۃ للعالمینؐ پر اللہ کی ہزاروںرحمتیں ہوں کہ ایسی پرکیف اور اثر آفریں دعا امت کو سکھا گئے اور باب رحمت پر اس طرح دستک دینابتاگئے۔‘
یہ سلسبیلی نثر ہے۔ زلال سے زیادہ شیریں اور مٹھاس اس قدر کہ طبرزد اور کعب الغزال بھی رشک کرنے لگیں۔ محولہ بالا عبارت میں اتنی مقناطیسی کشش ہے کہ انسان کے پورے ذہنی وجود کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور سچ کہوں تو مولانا کی ہر تحریر ہی ایسی ہوتی ہے۔ رات کے اندھیروں میں سورج کی طرح چمکتی ہے اوردن کے اجالوں میں شجرسایہ دار بن جاتی ہے۔ مجھے ایسی آگ اورایسی روشنی بہت کم مذہبی تحریروں میں نظر آتی ہے۔ ان کی تحریر ہرمومن کے قلب میں قندیل روشن کرتی ہے، گو کہ ان کے اسلوب تحریر کے بارے میں اردو کے ایک بڑے نقاد ظ۔انصاری مرحوم کا کہنا ہے کہ مولانا کے یہاں wordingزیادہ ہے، بے جاطوالت ہے اور یہ بات صحیح بھی ہے، مگرخاکسار کاخیال ہے کہ ’ایضاح المطالب‘ کے لیے ہی انھوں نے ایسے اسلوب کو اختیارکیاہوگا۔ ان کا جو اصلاحی مشن ہے،اس کے لیے یہی اسلوب شاید موزوں ہے، اس لیے مولانا کی تحریر میں اگرگہر کے بجائے خزف زیرے بھی نظرآئیں توہم جیسوں کے لیے وہ شذرات الذہب ہیں۔ ان کی تحریر میں جو دلکشی اور رعنائی ہوتی ہے، اس پر سبھی فدا ہیں۔ ان کے بیان میں بلاغت، سلاست اور فصاحت ہوتی ہے اور اس میں علوم ومعارف کادریا بھی موجزن رہتاہے۔

تبصرے بند ہیں۔