غیرمسلموں کے مذہبی تہواروں میں شرکت

مولانا محمد کلیم اللہ حنفی

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اتحاد و اتفاق اور رواداری کی آڑ میں اسلام کی حدیں پار کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے اور’’نظریہ ضرورت‘‘کے پیش نظر غیرمسلموں کے مذہبی تہواروں میں شرکت کرنا ، اْن کے مذہبی شعائر کی تعظیم کرنا اور ان کی رسومات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیناوطن عزیز پاکستان کے اسلامی آئین کے تقدس کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔
ہمارے یہاں سیاست کی دکانوں کو چمکانے کے نت نئے طریقے رواج پا رہے ہیں۔کبھی تو اس اسلامی ،فلاحی، جمہوری اورآزادعظیم مملکت خداداد پاکستان کے سیاست دان غیر مسلم اقلیتوں کے غم میں ‘برابر’ کے شریک ہونے کے لیے’’فاتحہ خوانی اور دعا ئے مغفرت ‘‘کا اہتمام کرتے ہیں اور کبھی ان کی خوشیوں میں بھی ‘ برابر’کے شریک ہونے کیلیے ان کی تمام مذہبی عبادات کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں۔
ابھی چند دن پہلے پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعلیٰ سندھ جناب مراد علی شاہ ، محترمہ شیریں رحمان اور پارٹی کے دیگر عہدیداروں کے ہمراہ ہندووں کی ایک مذہبی تقریب دیوالی میں شرکت کی ہے،جس میں ہندووں کے خاص مذہبی رسوم کو بھی ادا کیا۔اس سے قبل بھی بلاول بھٹو صاحب ہندوؤں کی ہولی میں شریک ہوئے ، بلکہ موصوف کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ’’بھارت میں مسلمان صدر بن سکتا ہے تو پاکستان میں ہندو کیوں نہیں بن سکتا؟‘‘بلاول صاحب کی یہ روش قیام پاکستان کے لیے جان و مال کی قربانیاں دینے والوں اور ان کی نسلوں کے ساتھ کھلم کھلا تمسخر ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی بہت ضروری ہے کہ اسلام کی تعلیمات میں غیر مسلموں سے اچھے برتاؤ کا تاکیدی حکم موجود ہے، اسلامی ریاست میں ان کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کو ضروری قرار دیا گیا ہے ، ان کے دْکھ درد میں ہمدردی اور خیرخواہی کاسبق بھی مذہب اسلام ہی دیتا ہے ، ان کی معاشی و معاشرتی ضروریات کو مکمل کرنا بھی اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔لیکن ان سب کے باوجود حدِ اعتدال کو ضروری قرار دیا گیا ہے، ان کی مذہبی تقریبات میں شرکت کرنے سے سختی سے روک دیا گیا ہے۔
چنانچہ قرآن کریم کی سورۃ فرقان آیت نمبر 72میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:والذین لا یشھدون الزور۔ مفہوم آیت یہ ہے کہ مومن وہ ہیں جو غلط محفلوں میں شریک نہیں ہوتے۔ اس کی تفسیر میں امت محمدیہ کے بہت سے جلیل القدر مفسرین نے لکھا ہے کہ زْور سے مراد غیر مسلموں کے تہوار ہیں۔ یہاں اس بات کو بھی اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے کہ جب ایسی محافل اور تقریبات میں محض شرکت سے ہی خدا تعالیٰ نے منع کر دیا ہے تو غیرمسلموں کے مخصوص مذہبی رسومات کو ادا کرنے کی کس طرح گنجائش نکل سکتی ہے ؟؟
اس کے ساتھ ساتھ سنن ابی داؤد و دیگر کتب حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان موجود ہے کہ جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے۔ ایک دوسری حدیث میں اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کو دوسرے انداز میں یوں سمجھایا ہے کہ وہ ہم میں سے نہیں جو غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کرے۔اس معاملے کی حساسیت کا اندازہ خود لگائیے جب کفار کے ساتھ عادات میں مشابہت اختیار کرنے میں اتنی بڑی وعید ہے ، توعبادات اور مذہبی شعائر میں مشابہت اختیار کرنے میں کتنی بڑی وعید ہوگی؟؟
خلیفہ راشد امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا فرمان موجود ہے:’’عجمیوں کی زبان(جو اپنے ساتھ غیر اسلامی تہذیب اور کلچر لائے)مت سیکھو اور مشرکوں کے معبد خانوں میں ان کے تہوار کے دن مت جاؤ، کیونکہ ان پر اللہ کی ناراضگی نازل ہوتی ہے۔‘‘اندازہ کیجیے جب غیر مسلموں کی عبادت گاہوں میں ویسے جانا بھی اس لیے منع ہے کہ وہاں اللہ کی ناراضگی نازل ہوتی ہے تو بھلا یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ خود کفار کے شعائر میں شریک ہوکر اللہ کی ناراضگی کو مول لیا جائے۔ بعض علماء نے تو یہاں تک کہا کہ بعض مرتبہ اللہ کی ناراضگی سے آدمی کا ایمان سلب ہو جاتا ہے !!
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : جو شخص عجمیوں(غیر مسلموں )کی نقالی میں نوروز اور مہرجان(مذہبی تہوار)کا دن مناتا ہے اورآخر عمر تک اپنے اس کام کو کسی طور درست بھی سمجھتا ہے تو وہ قیامت کے د ن غیر مسلموں کے ساتھ ہی اٹھایا جائے گا۔بلکہ اگر آپ اہل اسلام کی تاریخ پر نگاہ رکھتے ہیں توآپ کو یہ ضرور نظر آئے گا کہ خلیفہ راشد امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب، جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ ساتھ دیگر تمام مسلم حکمرانوں کی طرف سے غیر مسلموں کے لیے یہ بات لازمی تھی کہ اپنے تہوار مسلمانوں کے درمیان اعلانیہ طور پر نہیں منائیں گے بلکہ اپنے گھروں میں رہ کر اپنے مذہبی تہوار منائیں گے۔
پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اس میں غیر مسلموں کو اپنی مذہبی عبادات کی ادائیگی کرنے کی اجازت تو ہے لیکن ایک خاص طریقے سے۔ افسوس تو اسلامی مملکت کے ان سیاست دانو ں پر ہے جو ووٹ کی ایک پرچی کے لیے اسلامی احکامات اور پاکستان کے اسلامی آئین کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔