بیکل اتساہی: فکر و فن

ڈاکٹر فیاض احمد علیگ

سنا ہے مومن و غالب نہ میر جیسا تھا

ہمارے گاؤں کا شاعر نظیر جیسا تھا

 بساط شہر سخن دسترس نہیں تھی اس کے

مگر وہ بادشاہ محمد فقیر جیسا تھا

چھڑے گی دیر و حرم میں یہ بحث میرے بعد

کہیں گے لوگ کہ بیکل کبیر جیسا تھا

بیکل اتساہی بیسویں صدی کے اس عظیم شاعر اور مہان کوی کا نام ہے جس نے اردو غزل اور گیت میں نظیر و کبیر کی پیروی کرتے ہوئے ہندوستانی زبان، تہذیب اور سنسکار کو نہ صرف زندہ کیا بلکہ اردو زبان و ادب کو ایک نئی جہت، ایک نئی شناخت ایک نیا رنگ و آہنگ عطا کیا۔ ان کی پوری شاعری امیر خسرو، کبیر،  نظیر، تلسی اور رس کھان جیسے عظیم اساتذہ فن کانمونہ ہے ان کی غزلوں میں میرا کا سوز، خسرو کا ساز، نظیر کا رنگ، کبیر کا سر تو رس کھان کی تال رچی بسی ہوئی ہے۔

ہے بولی کھڑی اپنی ہندی کو سنوارا شاد کیا

اردو کے سنہرے لفظوں سے ہر دل کا نگرآباد کیا

میرا ہے اپنی ماں جیسی رس کھان ہمارا ہے

لیکن جو ہمارا کھاتے رہے نٹ کھٹ وہ کرشن کنہیا ہے

بیکل اتساہی کا اصل نام محمد شفیع خاں لودی تھا۔ وہ یکم جون ۱۹۲۸ء کو گاؤں رموا پور تحصیل اترولہ ضلع بلرامپور کے ایک زمین دار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام لودھی محمد صغر خاں اور والدہ کا بسم اللہ بی بی تھا۔ (۱) بیکل کو ان کے گاؤں کے لوگ پیار سے بھلن میاں کہتے تھے۔ (۲)

بیکل نے صرف انٹرنیٹ تک ہی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی لیکن ذاتی محنت اورمستقل مطالعہ کی بدولت عربی، فارسی، اردو ہندی اور سنسکرت میں بھی مہارت حاصل کرلی تھی۔ طبیعت موزوں ہونے اور خداد شعری ذوق کی بدولت پندرہ سولہ برس کی عمر میں ہی شعر گوئی کا چسکہ لگ گیا اور عشق و محبت سے عرفان اور آگہی کی منزلیں طے کرتے ہوئے شاعری کی تمام مروجہ اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ غزل، نظم، گیت، حمد، نعت، مناجات، سلام، منقبت، قلبائے، برتیے، دوہے، ماہئے، اور ہائیکو وغیرہ جیسی اصناف سخن کو نئی لفظیات، تراکیب اور اسلوب سے نئی شناخت عطا کی۔

شفیع خاں لودی سے بیکل وارثی اور پھر بیکل اتساہی بننے کے دو واقعات بہت مشہور ہیں جن کو ہر بیکل شناس نے نقل کیاہے۔ بیکل وارثی بننے کا واقعہ یہ ہے کہ دیوی شریف کے پیا وارث علی شاہ کے مزار پر ۱۹۴۵ء میں زیارت کے دوران شاہ حافظ پیارے میاں کا ایک مقولہ ہے ’’بے دم گتا بے کل آیا‘‘ اس واقعہ سے متاثر ہوکر محمد شفیع خاں لودی نے اپنا نام ’’بیکل وارثی‘‘ رکھا۔ (۳)

مذکورہ مقالہ میں ’’بے دم‘‘ اور ’’بے کل‘‘ سے کون مراد ہے اس کا تو پتہ نہیں لیکن بیکل شناسوں کے مطابق اس مقولہ نے ہی شفیع خاں لودی کو ’’بے کل‘‘ کردیا اور وارث پیا سے بے پناہ عقیدت و محبت کے باعث وارثی کے نسبت کے ساتھ شفیع خاں لودی ’’بیکل وارثی‘‘ ہوگئے۔ لیکن وارث میاں کی محبت اور عقیدت کی ڈور چند سالوں میں ہی کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ گئی اور پنڈت جواہر لال نہرو کے ایک تعریفی جملے نے ان کی ساری عقدت کو ایک پل میں دھراشاہی کردیا۔ ۱۹۵۲ء میں گونڈہ میں ایک انتخابی پروگرام میں بیکل کی نظم ’’کسان بھارت کا‘‘ سن کر پنڈت کایہ کہنا کہ ’’یہ ہمارا اتساہی شاعر ہے‘‘ بیکل کی عقیدت کو متزلزل کر گیا اور اسی دن وہ ’’بیکل وارثی‘‘ سے ’’بیکل اتساہی ہوگئے۔ شفیع خاں لودی سے بیکل اتساہی تک کے شعر کو بیان کرتے ہوئے ظفر احمد نظامی لکھتے ہیں :

’’انہوں نے تخلیق کا کرب سہا۔ ۱۹۴۴ء میں پہلا شعر کہا۔ پہلی نظم’’بسنت‘‘ پر کہی جو زبان زد خاص و عام رہی۔ دیوی شریف کی روحانیت میں چھن گئے۔ شفیع لودی سے بیکل وارثی بن گئے۔ نہرو جی نے شعر و ادب کا راہی بنادیا۔ بیکل وارثی سے بیکل اتساہی بنادیا‘‘۔ (۴)

اس طرح بیکل وارث میاکی بسنت سے آزاد ہوکر نہرو کے عطا کردہ ’’اتساہ‘‘ میں ایسا ڈوبے کہ تا عمر اتساہی رہے اور ان کا یہی اتساہی رنگ ان کی شاعری کا طرۂ امتیاز ہے جو انہیں دیگر ہم عصر شعراء سے منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔

بیکل بہت زودگو شاعر تھے اور ایسی زودگوئی کی وجہ سے انہوں نے کل ۲۲ حسب ذیل شعری مجموعے تخلیق کئے۔

غزل -(۱) غزل سانوای۔ (۲)پروائیاں۔ (۳) موتی اگے دھان کے کھیت۔ (۴)موسموں کی ہوائیں۔

قومی شاعری- (۱) اپنی دھرتی چاندکا درپن (۲) رنگ ہزاروں خوشبو ایک۔ (۳)مٹی ریت چٹان۔ (۴)کوئل مکھڑے بیکل گیت۔ (۵)نظماوت۔

حمدو نعت۔ (۱)نغمۂ بیکل۔ (۲)حسن مجلی۔ (۳)تحفۂ بطخا۔ (۴)سرور جاوداں۔ (۵)بیان رحمت۔ (۶)جام گل۔ (۷)توشۂ عقبی۔ (۸)نور یزداں۔ (۹)والنجم۔ (۱۰)والفجر۔ (۱۱)والضحیٰ۔

دوہا-دوہا پورم۔

ادب اطفال-بچوں کی پھلواری۔

مذکورہ بالا تمام مجموعوں کو فاروق ارگلی نے ایک ضخیم کلیات کی شکل میں ’’کلیات بیکل‘‘ کے نام سے یکجا کر دیا جو ۱۱۰۵ صفحات پر مشتمل ہے اور فرید بک ڈپو دہلی سے شائع ہوچکی ہے۔

بیکل اتساہی مشاعروں اور کوی سمیلنوں کے مقبول عام شاعر تھے۔ اپنے مخصوص لب ولہجے اور خوبصورت ترنم کے باعث ہر جگہ یکساں مقبول رہے۔ ان کی شاعری نظم ہو یا غزل، گیت ہو یادوہاہر جگہ لفظی و معنوی ابہام سے سرا سادگی کا تمغہ ہے غم جاناں ہو یا غم دوراں انہوں نے ہر جگہ آپ بیتی کو جگ بیتی بنادیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ رہی ہے کہ انہوں نے قدیم اساتذہ فن کے ساتھ جدید شعرا سے بھی بھرپور استفادہ کیا۔ انہوں نے خسرو، پیر، نظیرو کبیرکے ساتھ ہی مومن، غالب، اقبال، حالی اور اصغر گونڈوی جیسے عظیم شعراء سے بھی فکر و فن فیلق حاصل کیا۔ جبکہ جگر مراد آبادی کے شاگرد ہونے کی وجہ سے لاشعوری طور پر ان سے متاثر رہے۔ بیکل نے اپنی شاعری میں مذکورہ اساتذہ فن کی ادبی حیثیت اور فنی عظمت کا جابجا اعتراف بھی کیا ہے۔

مومن نے ایمان دیا تھا غالب جان گنوائے تھے

ذوق غزل کامیر نہ ڈھونڈو آج سیاسی میرو میں

۔

اتنی رنگین تھی کب غزل پہلے

اصغر خوش کلام سے پہلے

۔

احساس ہمارا حامی ہے ایمان قلندر ہے اپنا

پانی پت سے کروک چیتر تلک اتہاس سخنور ہے اپنا

شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ان کلاسیکل شعراء کا رنگ جھلکتا ہے اور خالص اردو الفاظ و استعارات پر مشتمل ہندی کی آمیزش سے پاس اشعار ان کے مجموعوں میں جابجا نگینوں کی طرح جڑے ہوئے ہیں جو ان کے عمومی رنگ سے ایک نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔

سب کے ہونٹوں پر تبسم تھا میرے قبل کے بعد

جانے کیا سوچ کے روتا رہا قاتل تنہا

۔

اداس کاغذی موسم میں رن و بو رکھ دے

ہر ایک پھول کے لب پہ مرا لہو رکھ دے

سمندروں نے بلایا ہے تجھ کو اے بیکل

تو اپنی پیاس کی صحراء میں آبرو رکھ دے

بیکل کی پیدائش اگرچہ آزادی سے قبل ہوئی تھی لیکن ان کی فکری نشووی اور ذہنی تشکیل آزاد ہندوستان میں ہوئی اس ہندوستان میں جو اس وقت تقسیم کے درد کے ساتھ خاک اور خون میں ڈوبا ہوا تھا۔ انسانیت کراہ رہی تھی جذبات مجروح تھے۔ خاندان بکھرے ہوئے تھے۔ کسان مزدور سب پریشان حال تھے۔ اس درد اور کرب کے ماحول میں بیکل نے ہوش سنبھالا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں کھیت کھلیان تھا کسان مزدور کے ساتھ قومی و ملکی حالات اور انسانیت کا درد ہر جگہ نمایاں ہے۔ بقول بیکل:

’’میری تشکیل فکراس ہندوستران میں ہوئی جو غلامی کی بیڑیوں کو کاٹ چکا تھا مگر غلامی کی لعنتوں سے مکمل طور پر آزاد نہیں ہوا تھا۔ میرے سامنے حسن و عشق کے بنیادی جذبات کے ساتھ ساتھ وہ مسائل تھے جن سیہماری انسانیت مجموعی طور پر دو جاری رہی ہے۔ ‘‘(۵)

بیکل کی غزلوں میں واردات قلبی کے ساتھ ساتھ انسانیت کا درد، ملک کے حالات، سماجی انتشار، عوامی اضطراب، ظلم واسبتداد اور لاقانونیت کے خلاف پر زور احتجاج کی جھلکیاں نمایاں ہیں۔ ان تمام انسانی اور سماجی مسائل کو عصری حسیت کے شاعر میں بیکل اپنی تیکھی زبان اور منفرد اسلوب کے ساتھ غزل کے سانچے میں ڈھالنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔

یہ شہر منصفوں کا وہ نگر ہے مجرموں کا

یہاں قاتلوں کے جلسے وہاں سا دھوؤں کے بہرے

۔

اب تو گیہوں نہ دھان بوتے ہیں

اپنی قسمت کسان ہوتے ہیں

گاؤں کی کھیتاں اجاڑ کے ہم

شہر جاکر مکاں ہوتے ہیں

فصل تحصیل کاٹ لیتی ہے

ہم مسلسل لگان بوتے ہیں

حسن تھا حسن کشش تھاکہ ترا حسن ادا

جانے کیا بات تھی جو تجربہ مرا دل آیا

۔

عزم محکم ہوتو ہوئی ہیں ملائیں پسپا

کتنے طوفان پلٹ دیتا ہے ساحل تنہا

۔

ہنگاموں کے شہر میں کوئی دل کی بزم سجائے ہے

میراکی رچنائیں کھو گئیں جیسے ڈھول مجیروں میں

جلوۂ طور سے شمع حرم پاحلقۂ نور سے حسن صنم تک

ایک اکیلے تم ہو حقیقت باقی سب افسانے ہیں

اس طرح تغزل سے بھرپور خالص غزل کے اشعار جس سے کہیں اصغر کی سنجیدگی تو کہیں جگر کی شوخی سے بھرپور بیکل کے اتساہ کی مثال ہیں۔ بیکل کی غزلوں میں حب الوطنی اور قومی جذبہ بھی نمایاں ہے جو دراصل اردو زبان نے انہیں ودیعت کیا ہے اور اردو زبان کو ہی ملک کی عظمت کا شان سمجھتے ہیں :

گہرا طوفان میں حب بھی وطن آواز دی میں نے

ہوئی انسانیت حب نے کفن  آواز دی میں نے

میں اردو ہوں مجھی سے عظمت فضل بہاراں ہے

خزاں نے رخ کیا سوئے چمن آواز دی میں نے

اس طرح کے سنجیدہ اور صاف ستھری خالص اردو زبان پر مشتمل اشعار کے موتی ان کی شاعری میں مختصر سہی لیکن ادب کا اعلیٰ نمونہ ہیں جو اگرچہ ان کی شناخت سے تو نہ کرسکے نہ ہی اس لب ولہجے کو مستقل طور پر باقی رکھ سکے بلکہ وہ ہندی آمیز شاعری کے دیوانے رہے اور ان کی اس ہندی آمیز شاعری کا رنگ اتنا چوکھا رہا کہ اس کے سامنے خالص اردو شاعری کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔

لئے کائنات کی وسعتیں ہے دیار دل میں بسی ہوئی

ہے عجیب رنگ کی یہ غزل نہ لکھی ہوئی نہ پڑھی ہوئی

واقعی کائنات کی وسعتیں سمیٹے اردو غزل ان کے دل میں بس رہی لیکن ہندی کویتا اور گیت سر چڑھتے گئے سر کی سہلی تو شرمائی لجائی کونے میں ان کی منتظر رہی جبکہ کرشن کی گوپیاں انہیں پنگھٹ پنگھٹ گھماتی رہیں۔ مزید ستم یہ ہوا کہ ان کے سامعین، قارئین اور ناقدین بھی ان کی ان غزلوں کے بجائے ان کے ہندی گیت اور رچناؤں کے دیوانے رہے۔ ان کی جمالیات سے لطف اندوز ہوئے ان کی عنایت کو سراہا ان کی ایک ایک ادا پر قربان ہوئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خالص دو شیزۂ غزل پنگھٹ کی الہڑ گوپیوں کی بھیڑ میں کہیں کھو گئی اور ابھی تک اپنی بازیافت کی منتظر ہے۔

بیکل اردو غزل کے ساتھ بہت دور تک نہیں چل سکے اور بڑی ہنر مندی سے ہندی کی بانہوں سے جاگرے۔ ان کے دل میں بھلے ہی غزل سمائی رہی ہو لیکن دماغ پر ہندی رچنائیں ہی چھائی رہیں۔ غزل کی آڑ میں وہ گوپیوں کی نازبرداری کرتے رہے۔ اب سوال پیداہوتا ہے کہ اس دور میں جبکہ اردو فارسی کا غلبہ تھا۔ طبقہ اشرافیہ میں اردو کا بول بالاتھا۔ میر کی سہیلی خسرو کی پہیلی اور مومن کی غزل کا ہر آدمی دیوانہ تھا۔ اس دوراوراس ماحول میں بیکل اردو ہندی کی آمیزش پر مجبور کیوں ہوئے ایسا انہوں نے لاشعوری طور پر یا انجانے میں ہرگز نہیں کیا بلکہ جان بوجھ کرہوش و حواس میں کیا اس کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے بیکل خودرقم طراز ہیں :

’’میری زندگی کا زیادہ حصہ گاؤں کے حوالے رہا۔ گاؤں میں رہ کر لوک گائیکوں کی زبانی کبیر، تلسی، ملک محمد جائسی اور نظیر اکبرآبادی کا کلام سنا کرتا تھا اور سوچا کرتا تھا کہ آخر گاؤں میں غالب، مومن سے لے کر حسرت و فانی کا کلام کیوں نہیں گایا جاتا۔ آخر ان میں کیا کمی ہے کہ گاؤں کے لوگ ان عظیم قلم کاروں کو یا تو نہیں جانتے یا اردو زبان یہاں تک نہیں پہنچی ہے یہ ضرور تھا کہ گاؤں کے جاگیردار تعلقہ دار کے لواحقین اردو زبان میں بات کرتے تھے اور تیوہاروں میں شہروں و قصبوں سے مشہور مطرباؤں اور مغنیاؤں کوبلاکران کے رقص اور ان کی گائی ہوئی غزلیں تفریح کے طور پر سنا کرتے تھے۔ اس کے باوجود گاؤں والوں کی زبان پر کوئی غزل نہ چڑھ سکی۔ تاریخ اس کی بھی شاہد ہے کہ لگ بھگ ۹-۸ سوسال سے فارسی زبان گاؤں والوں کے درمیان پرانی حویلی میں پہنچ چکی تھی اورحکم نامے اردو زبان میں بلا کرتے تھے پھر عوام کی زبان پر علاوہ نظیر اکبر آبادی کے کسی عظیم شاعر کا کلام نہیں آسکا انہیں محسوسات و تاثرات نے مجھے اس طرف مائل کیا کہ اردو میں گاؤں کاماحول  کسانوں،  مزدوروں کھیتہروں کا کرب، جاگیرداروں زمینداروں کے ظلم و استبداد پر کچھ لکھاجائے اور اردو زبان کو گاؤں سے قریب کیاجائے۔ ‘‘ (۶)

بیکل کے مذکورہ بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا گاؤں انتہائی پسماندہ بالکل ٹھیٹھ دیہاتی علاقہ تھا جہاں کے لوگ اردو سے نا آشنا تھے جبکہ اسی مٹی سے ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری نے بھی جنم لیا اور عالمی سطح پر اردو کے حوالے سے مشہور ہوئے۔ وہیں دوسری طرف بیکل کا بھی کہناہے کہ پرانی حویلی میں صدیوں سے فارسی زبان رائج تھی اور حکم نامے اردو زبان میں ملا کرتے تھے۔ اس کے باوجود عوام الناس میں اردو کا نام و نشان نہ ہونا انتہائی حیرت انگیز ہے۔

بہرکیف بیکل نے اپنے گاؤں کو اردو سے آشنا کرانے اور اردو زبان کو گاؤں سے قریب کرنے کے لئے شاعری کا سہارا لیا جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے۔ اب اردو زبان ان کے گاؤں سے قریب ہوئی یا نہیں یہ تو ان کا گاؤں اور گاؤں کے لوگ ہی بتاسکتے ہیں لیکن اتنا ضرور ہوا کہ بیکل ہندی کو اردو سے قریب کرنے میں کامیاب رہے انہوں نے شعوری طور پر اردو ہندی کا ایسا آمیزہ تیار کیا کہ حکماء وقت بھی عش عش کراٹھے۔ اردو ہندی کی اس آمیزش پر روشنی ڈالتے ہوئے بیکل خود لکھتے ہیں کہ:

’’میں نے جس ہندوستان میں اپنی غزلیں کہی ہیں ان میں مجھے اس بات کا شدید احساس رہا ہے کہ اردو زبان کا رشتہ فارسی اور عربی سے کم ہندی اور دیگر علاقائی زبانوں کے ساتھ زیادہ استوار ہوتا نظر آرہا ہے۔ میں نے اپنی کچھ غزلوں میں اس بات کی شعوری کوشش کی ہے کہ ہند کے سبک اور سجل الفاظ جو ابھی تک غزلوں میں شامل نہیں ہوئے تھے ان کو شامل کروں اور ان کی تشبیت و بندش کچھ ایسی رکھوں کہ وہ عربی اور فارسی الفاظ کے ساتھ مل کر تاثر کو دو آتشہ بنائیں اور صوتی آہنگ کے اعتبار سے اپنے سیاق و سباق میں اس ہم آہنگ ہوجائیں کہ لفظی غرابت کا احساس باقی نہ رہے۔ ‘‘ (۷)

اپنی اس کوشش میں بیکل واقعی کامیاب رہے اور انہوں نے اردو ہندی کو اس طرح شیر وشکر کیا کہ دونوں کی تفریق مشکل ہوگئی۔ اپنی اس کوشش میں انہوں اردو مجروں کوتوڑ مروڑ کر نئے تجربات بھی کئے جس کا مقصد اردو ہندی کی یکجائی تھی۔ انہوں نے بلاتفریق مذہب و ملت ہندی زبان کو بحیثیت زبان بڑی خو ش اسلوبی سے اردو میں ضم کیا۔ بیکل اردو ہندی کو ہمیشہ ایک ہی ماں کی اولاد سمجھتے رہے۔

ان دونوں کی ایک ہی ماں ہے دو قالب ہیں ایک ہی جاں ہے

 اردو کو ہندی کے لوگ کہیں سوتیلی ہے

میری زبان ہر دل کی زبان ہے کوئلی کویل حسن بیان ہے

اس کالہجہ چنچل چنچل روپ کا درپن صورت کی صبل صبل

میری غزل کی مجرنہ دیکھو یہ تو میر کی چیلی ہے

        بیکل میر کی اس چیلی کو نازبرداری کرتے ہوئے کھیتوں کھلیانوں میں گھماتے، ندیوں تالابوں کی سیر کراتے ہوئے گاؤں کے پنگھٹ تک لانے میں کامیاب ہوگئے۔

یہ شہرکے باسی کیا جانیں کیا روپ ہے گاؤں کے پنگھٹ کا

کیا عشق ہے لاج کی ابھر کا کتا حسن ہے وہ کے نٹ کھٹ کا

شرمائی سی ماتھے کی بندیا اٹھلائی سی پاؤں کی پائیلیاں

السائی سے آنکھوں میں بندیا بے سدھ وہ سرکتا گھونگٹ کا

اس لاج کی الہڑ کو بیکل نے اردو، ہندی، اودھی، بھوجپوری لفظیات و تراکیب سے آراستہ کر کے گاؤں کی سوندھی مٹی میں ایسا ڈھالا کہ اس کا حسن دو آتشہ ہوگیا۔ جدید غزل اپنی جدت پسندی کو بھول کر اپنے اصلی رنگ روپ اور فطری جمالیات کے وحشی غزل بن کر کھیت کھلیانوں میں اٹکھیلیاں کرتی اور ندی تالابوں سے سیراب ہوتی رہی اور بیکل سود و زیاں کی پروا کئے بغیر اس کی آبیاری کرتے رہے بقول بیکل :

’’ میں تو ایک کسان ہوں۔ محنت اور لگن سے ادب کی دھرتی پر کشت قلم سے شعری فصل اگاتا رہا ہوں یہ کبھی بھی نہیں سوچا کہ بازار نقد و تبصرہ میں کس بھاؤ میری گاڑھی کمائی جائے گی۔ ‘‘ (۸)

گاؤں کایہ کسان شہروں کی چمک دمک سے دور مٹی ریت چٹان سے غزل اگاتا رہا۔ قحط و سیلاب سے جوجھتے ہوئے آپ بیتی کو جگ بیتی بناتا رہا یہی بیکل کی مصروفیت بھی رہی اور مشغلہ بھی۔ بقول بیکل:

’’میرا تویہی حال رہاکہ فن شعر و ادب کے سیاق و سباق، رمز و علائم کے دلکش و پرکشش شہر کے نگار خانوں تک پہنچ ہی نہیں پایا۔ ہاں ! گاؤں کی کھیتی کسانی میں مست مگن ہوکر کھیت کھلیان کو اپنا جیون سمجھتا رہا اورمٹی ریت چٹان کو اتنا گھروندہ کبھی ماٹی کی سوندھی سوندھی مہک نے بے سدھ کیا کبھی دھرتی پر قحط و سیلاب کی تباہ کاریوں نے دکھی۔ شعور کے کینوس پر جو نقوش ابھرتے رہے انہیں کاغذ پر اتارتا رہا۔ ‘‘

بیکل نے گاؤں کی دھول مٹی سے جو غزل تخلیق کی ہے دیہی لفظیات اور گنوئی اصطلاحات سے غزل کی جو میں نقش بنائے ہیں وہ بیکل کی انفرادیت کے ساتھ ساتھ غزل کو بھی نئی شناخت عطا کرتا ہے۔ بقول ابوالکلام قاسمی:

’’ بیکل صاحب نے اپنی غزلوں اور گیتوں میں صنعت غزل کی رائج لفظیات کے بجائے عوامی کہاوتوں اور لوک روایت سے لفظیات اور تراکیب کشید کی ہیں ان کو بیکل صاحب کی انفرادیت کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے اور خود غزل کے نئے لہجے کی پہچان کے طور پر بھی۔ ‘‘ (۱۰)

بیکل کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے گاؤں کی دھول مٹی میں پڑے ہوئے الفاظ کے موتی چن کر غزل کے ماتھے کا صوبر بنادیا ہے۔ دیہی الفاظ و اصطلاحات کو غزل کی چنری میں گوٹہ کنارے کی طرح ٹانک دیاہے کھیت کھلیان کے گردو غبار کو غزل کا غمازہ بنادیا ہے۔ کسانوں مزدوروں کے دکھ درد کو غزل کا روپ دے دیاہے اس طرح بحیثیت مجموعی ان کی غزل کا منظرنامہ مروجہ شعری رجحانات سے الگ اور مختلف ہے۔ ان کے فکر و فن کو سمجھنے اور ان کی شاعری سے لطف اندوز ہونے کے لئے دیہی ماحول اور لفظیات سے آشنائی ناگزیر ہے۔

بیکل کا دوسرا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اردو، ہندی، اودھی، بھوجپوری اور برج بھاشا کے خوبصورت امتزاج کے ساتھ ہی اردو غزل اور ہندی کویتا کو ایک دوسرے میں ضم کردیا ہے۔ غزل اور گیت کو اس طرح سے برتا ہے کہ غزل کو گیت تو کہیں گیت کو غزل کا رنگ دے کر قاری و سامع کو کشمکش میں ڈال دیا ہے۔ اس طرح جدیدیت و مابعد جدیدیت کے دور میں بھی بیکل نے نہ صرف اپنے اجداد کی قدیم شعری روایات اور فکر و فن کی متاع گمشدہ کو از سر نو بازیافت کیا ہے بلکہ اسے نکھارنے اور سجونے کا کام بھی کیا ہے۔ غزل اور گیت کو اس نئے رنگ و آہنگ سے روشناس کراتے ہوئے بیکل نے دونوں کو ایک دوجے سے قریب کردیا ہے۔ بقول ظ انصاری:

’’بیکل کی زیتل میں اودھی اور برج کے گیتوں کادوہوں کا، چوپائیوں کا ایسا رنگ برنگا خزانہ ہے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ وہ ان کی طلب میں گاؤں گاؤں نہیں پھرتے۔ اسے پیشہ نہیں بنایا۔ پبلسٹی نہیں کی۔ یہ گیت ان کی طلب صادق دیکھ کر خود ہی آئے زینل بھرتے گئے۔ بیکل غزلوں کو لوک گیتوں کی، گیت کو غزلوں کی چاشنی دے کر ایسا آمیزہ تیار کرتے ہیں جو زودہضم بھی ہو اور برکت بھی۔ ‘‘ (۱۱)

بیکل کی پوری شاعری میں ان کا یہ پہلو نمایاں ہے انہوں نے غزل کو گیت کے سانچے میں تو کہیں گیت کو، غزل کے روپ میں ڈھال کر مہارت فن کا ثبوت دیاہے۔ اس طرح انہوں نے غزل و گیت کو یکجاں کرکے ایک نئی راہ نکالی ہے جو اردو شاعری کے ساتھ ہی بیکل کوبھی منفرد مقام عطا کرتا ہے بقول ظ انصاری:

’’بیکل گیتوں اور غزلوں کو یک جاں کرکے نہایت کامیاب بلکہ کہوں گا کہ مستقبل کی عام پسند اردو شاعری کے دل ربا نمونے پیش کرچکے ہیں۔ بیکل کے یہاں گنہگار کی ترائی یا ویشالی کی اصل گپھا ہے۔ بلرام پور کے کھیتوں باغوں اور جنگلوں کی سگندھ ہے۔ بیکل کے پیش رو ہم فطن سردار جعفری نے بجا طور پر ان کا کلام کو ’’اردو گیت‘‘ کہا ہے۔ واقعی ان ردھات لوک گیت کی ہے قلعی اردو شاعری کی سرل سادھارن گیتوں میں تجلی فردوس کا بانکپن، مشعلوں کے سیال، جبین شفق جیسی تراکیب بھرنے سے نہیں جو کتے۔ غرض بحر طویل کے اس شتارر نے شاعری سے ایسی شرطوں کے ساتھ معاملہ کر رکھا ہے۔ ‘‘ (۱۲)

فکر وفن کی پختگی، قدیم اساتذۂ فن کی پیروی، جدید شعراء سے استفادے کے ساتھ ہی بیکل نے اپنی الگ راہ نکالی غزل گیت نظم ہر جگہ انہوں نے الگ شناخت اور پہچان بنائی اس کے باوجود نہ جانے کیوں عنبر بہرائچی کو ان کی شاعری میں ایک آنچ کی کمی کے ساتھ ساتھ برہنہ، گفتاری بھی محسوس ہوتی ہے۔ بقول عنبر بہرائچی:

’’غزل کی خارجی اور باطنی حسن کاری کے نقطۂ نظر سے ان کی غزلوں کی معمومی فضا ایک اور آنچ کی متقاضی رہی ہے کیوں کہ ان کی غزلوں میں برہنہ گفتاری در آئی ہے۔ پھر بھی یہ غزلیں اپنے مضامین، لہجہ اور آہنگ کے سبب اس لئے متوجہ کرتی ہیں کہ ان میں انفرادیت اور نیاپن ہے۔ ‘‘ (۱۳)

ایک آنچ کی کمی کے باوجود عنبر بہرائچی بیکل کی انفرادیت کے قائل ہیں۔ جہاں تک برہنہ گفتاری کا سوال ہے تو اگرتغزل سے بھرپور رومانی انداز میں حسن و عشق کا تذکرہ کرنا، دلی جذبات و احساسات کو غزل کا موضوع بنانا، محبوب کے حسن و جمال کو آئینہ بنانا برہنہ گفتاری ہے تو بلاشبہ یہ غزل کے بنیادی عناصر ہیں۔ رومانیت، عنائیت اور حسن تغزل و رنگین بیانی کے بغیر غزل کا وجود ادھورا ہے۔ غزل کے لغوی اور اصطلاحی معنی ہی محبوب سے یا محبوب کی باتیں کرنا ہے۔ جس کی وجہ سے بعض نقاد ان فن اسے ’’وحشی صنف سخن‘‘ قرار دیتے رہے ہیں۔ وہیں دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکارممکن نہیں کہ مذکورہ صفات کے بغیر غزل بے کیف ہوجاتی ہے۔ غزل کی شوخی ہی غزل کی جان ہے بیکل کی غزل میں غزل کے تمام مذکورہ عناصر اور خوبیاں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔

جب بھی مترم تخیل میں آئی غزل

من کے شہنازفن مسکرائی غزل

حسن کی انجمن رقص کرنے لگی

عشق نے جھوم کر گنگنائی غزل

ساتھ بیکل کے گیتوں کی پوشاک میں

انجمن انجمن جگمگائی غزل

اس طرح اپنی فنی مہارت اور زبان و بیان کی پختگی کے ساتھ بیکل نے بڑی خوش اسلوبی سے گیتوں کی پوشاک میں غزل کو سجا کر اورغزل کے روپ میں گیتوں کو ڈھال کر دونوں کو ایک دوجے سے اتنا قریب کردیا کہ پہلی نظرمیں دونوں میں تفریق کرپانا مشکل ہوگیا۔ بیکل کی اس فنی مہارت، جمالیاتی اسلوب اور تمثیلی اعجاز پر بحث کرتے ہوئے فراق گورکھپوری رقم طراز ہیں :

’’اس لحاظ سے یہ پہلے شاعری ہیں کہ جس نے فن ایجری کو صحیح اور پرمعنی صرف کیا ہے ابہام کو نئی جہت سے روشناس کیا۔ فرسودہ طلسم کو توڑ دیا۔ تمثیلی اعجاز کا حسین راستہ تراشا۔ موسیقیت اورجمالیاتی پہلوؤں پر توجہ دی۔ اگر ان کا کلام رہگزار شاداب کہا جائے تو ان کے گیت اور غزلیں رہ گذار حیات میں منزل نو امین بن سکتے ہیں۔ ‘‘(۱۴)

بیکل اتساہی نے واقعی منزل نو کے امین بن کر غزلوں اور گیتوں کو نئے موضوعات اور نئی جہتوں سے آشکار کیا۔ فکر و فن کی نئی بلندیوں سے ہمکنار کیا۔ فطری جمالیات، عنائیت و موسیقیت، ہندی لفظیات ودیہی تشبیہات و استعارات کی مددسے ایک نیا لہجہ ایجاد کیا جو اور شاعری میں بیکل کی شناخت بن گیا۔ بقول بشیر بدر:

’’بیکل نے جن نئے جیسی پیکروں،  خوبصورت استعاروں اور ذاتی تشبیہات سے اپنے اظہار کی اکائی بنائی ہے۔ وہی دراصل گیتوں کی جدید اور اچھی شاعری ہے۔ اس انفرادی گنائی اور پیکر ساز اظہار کی وجہ سے ان کا ایک خوبصورت لہجہ تشکیل پاتاہے جو انہیں گیتوں کے جدید و قدیم سرمائے سے الگ کرتا اور ان کی پہچان بنتا ہے۔ ‘‘(۱۵)

رات کی دیوی لٹ پھیلائے

جو رستے پر دیپ جلائے

کروٹ لیں آکاش کے سائے

تارے کریں کلول رے پنچھی

گیت بڑے انمول

ندیا کیا گئیں گاؤں

بادل پی گئے چھپر چھاؤں

گیت سے ڈوب گئے

ڈالی ڈالی پھول پھول کروٹ لیں انگارے

شبنم شبنم پتی پتی شعلے باہنہ پسارے

سانسوں سانسوں قید ہے خوشبو آنکھوں آنکھوں رنگ

میں کس کے گیت لکھوں

بیکل نے غزل، نظم اور گیت کو ہندی سانچے میں ڈھالنے کے ساتھ ہی دوہا جیسی خالص ہندی صفت سخن میں بھی نہ صرف طبع آزمائی کی بلکہ اس میں نت نئے تجربے بھی کیے۔ انہوں نے دوہا اور چھند کو جوڑ توڑ کر اور ہائیکو کی آمیزش سے ایک نئی صنعت سخن ایجاد کی جسے وہ ’’دوہیکو‘‘ کہتے تھے۔ ان کے دوہوں کے مجموعے ’’دوہا پورم‘‘ میں اس کی بہت سے مثالیں موجود ہیں اسی سے ماخوذ ایک مثال ملاحظہ ہو۔

گوری تیرے گاؤں میں

پیپل برگد ٹہل رہے ہیں

موسم باندھے پاؤں میں

دوہا دراصل خالص ہندوستانی اور ہندی صنف سخن ہے اس کو فروغ دینے میں چندر بردائی کا نام میر کارواں کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ امیر خسرو، کبیر داس، میرا بائی اور سورداس وغیرہ کے اسمائے گرامی سابقون الاوتون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دوہا کے دو مصرعے جو بہ مشکل مطلع ہوتے ہیں عموماً ۱۳+۱۱=۲۴+۲۴=۴۸ ماتراؤں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر اوزان میں بھی دوہے کہے جاتے ہیں لیکن اکثر شعراء نے انہیں ماتراؤں کو برتا ہے۔ دوہا کے دونوں مصرعے چار حصوں میں منقسم ہوتے ہیں اور دونوں مصرعوں میں ایک درمیانی وقفہ ہوتا ہے جسے ہندی میں وشرام کہتے ہیں۔

ایک طویل مدت تک دوہا متروک رہا۔ صدیوں کے بعد بیسویں صدی میں جمیل الدین عالی نے دوہا کو زندہ کیا اور اسے اپنے فکر و فن کا محور بنایا۔ ان کے بعد ندا فاضلی، بھگوان داس، اعجاز اور بیکل اتساہی جیسے شعراء نے اس کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ دور حاضر میں فراز حامدی، سیفی، شرویخی اور دیگر شعراء بھی اس صنف میں طبع آزمائی کررہے ہیں۔

بیکل نے اپنے برکیوں کی اس صنف کو نہ صرف عزیز رکھا بلکہ اس کو نیا رنگ روپ دینے کی بھی کوشش کی۔ بیکل کے دوہوں میں قدیم رنگ کے ساتھ جدید آہنگ بھی موجودنہ ے۔ جو انہیں دیگر ہم عصر دوہا نگاروں سے منفرد مقام عطا کرتاہے۔ بیکل نے دوہا نگاری کو اسلوب، زبان، ہیئت، ساخت اور لفظیات کے ساتھ ساتھ داخلی کیفیات اور خارجی امکانات سے بھی ہم آہنگ کیا ہے جو صنف دوہا نگاری میں ان کا بڑا یوگدان ہے۔ ان کے دوہوں کے مجموعہ ’’دوہا پورم‘‘ سے چند دوہے ملاحظہ ہوں :

دوجا ہوتا نہیں جب تم ہوتے پاس

رتبہ جر کو دے گیا مومن کا احساس

گوپی پنگھٹ سے چلی بھری گگریا نیر

غزل بھجن سب تیاگ دیں غالب اور کبیر

شبنم سیآتش ملے سنگ سے خون

دھوپ کہلائے چاند کو اندھے کا قانون

بیکل اتساہی ایک صاحب سلسلہ نہ ہی انسان تھے۔ وہ شاہ عبدالعزیز محدث مراد آبادی (بانی جامعہ اشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ) سے باقاعدہ بیعت اور مرید تھے۔ ان سے اپنی یک گونہ عیقدت وارادت کی وجہ سے ہی انہوں نے اپنے نعتیہ کلام کے مجموعہ ’’والصخی‘‘ کا انتساب ان کے نام کیا ہے۔

بیکل نے ابتداء نظم گیت اور غزل کی شاعری کی اور اپنے منفرد اسلوب اور لب و لہجے کی وجہ سے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ نعتیہ شاعری کا آغاز بہت بعد میں کیا اور مدح رسول کی لذت سے آشنائی کے بعد پیچھے مڑک نہیں دیکھا بلکہ حب رسول سے سرشاری کا عالم ان کے دل و دماغ پریوں چھایا کہ ان کی نعتیہ شاعری کی کمیت و کیفیت ان کے تمام شرمایۂ شاعری پر حاوی ہوگئی اور سارے عالم میں ایک نعت گو شاعر کی حیثیت سے مشہور ہوگئے۔ بقول مشتاق احمد نظامی:

’’۱۹۵۴ء میں جب بیکل جیل کی مشقت جھیل رہے تھے وہیں زندگی نے ایک نئی کروٹ لی اور یکایک ذہن و فکر کی ساری طاقت ہر طرف سے سمٹ کر گنبد خضریٰ کی طرف متوجہ ہوگئی اور وہیں سے نعت گوئی کا آغاز ہوا۔ دھیرے دھیرے یہ رنگ اتنا غالب آیا کہ اب پورا ملک انہیں ایک نعت گو شاعر کی حیثیت سے جانتا پہنچانتا ہے۔ ‘‘ (۱۶)

شاعری کی تو لڑکھڑائے قدم

نعت گوئی نشہ اتار گئی

اب تو آگے حضور کی مرضٰ

عمر اب تک گنہگار گئی

اس طرح جیل کی چہار دیواری بیکل کے لئے غار حرا بن گئی عشق رسول کا سرور اور ایمان کی تجلی ہے۔ ان کا دل و دماغ دونوں روشن ہوگیاا ور پھر اس تجلی سے انہوں نے مدحت رسول کے وہ نمونے تخلیق کئے کہ دنیا انہیں ’’حسان الہند‘‘ کے نام سے پکارنے لگی۔ انہوں نے حضرت لبید بن ربیعہ کی طرح غزل اور گیت سے توبہ تو نہیں کی بلکہ صنف نعت کو ایسے گلے لگایا کہ الہڑ گیت اور وحشی غزل ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے۔

نعت گوئی کا فن بڑا مشکل اور انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے۔ ذرا سی افراط و تفریط شاعر کو گنہگار بناسکتی ہے۔ بیکل نے بسیار گوئی کے باوجود بڑی خوش اسلوبی سے انتہائی محتاط انداز اختیار کیا اور اپنے مزاج اور نگ کے مطابق فن نعت گوئی میں بھی ایثار الگ انداز اور اسلوب برقرار رکھا۔ کیفیت اور کمیت دونوں لحاظ سے بیکل کی نعتیہ شاعری اردو ادب میں قیمتی اضافہ ہیں جس کی مثال ان کے ہم عصر شعراء میں شاذو نادر ہی ملے گی۔

جب حسن تھا ان کا جلوہ نما انوار کا عالم کیا ہوگا

ہر کوئی فدا ہے بن دیکھے دیدار کا عالم کیا ہوگا

جمال مصطفی کا نور ہے دل کے نگینے میں

سمندر میں سفینہ ہے سمندر ہے سفینے میں

میں مانتا ہوں اے عقل و الومرا محمد خدا نہیں ہے

مگر دلوں پہ یہ نقش ک وہ خدا سے جدا نہیں ہے

لذت یاد نبی، جب نبی، ذکر نبی

تو نہیں ہے تو دو عالم میں کوئی چیز نہیں

شاعری کی تمام مروجہ اصناف سخن میں طبع آزمائی اور ہمہ جہت فکری و فنی تنوعات و تجربات کے باوجود ادبی دنیا میں بیکل کو خاطر خواہ پذیرائی نہ مل سکی۔ ان کی تخلیقات کو نقد و تحقیق سے پرے رکھا گیا۔ ان کے فن اور شخصیت کو سرسری لیا گیا۔ ادب کے نقادوں اور فقہ کے پارکھیوں نے انہیں صرف مشاعروں کا شاعر اور گیت کار کہہ کر دامن بچالیا۔ بیکل کے ساتھ ناقدین ادب کا ایسا رویہ کیوں رہا؟ اس کے بنیادی اسباب پر بحث کرتے ہوئے بشیر بدر رقم طراز ہیں :

’’بیکل اتساہی جو ادبی سیاست سے دور ہیں اور جو اپنے شعری تجربات کو اپنے اظہار میں پیش کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں وہ ان مستند تنقید نگاروں کی نظر میں نہیں آسکے، میں اسے بیکل کی مجرومی نہیں سمجھتا بلکہ اسے نام نہاد تنقید اور ادبی گروپ بندی کی تنقید کی محرومی سمجھتاہوں۔ ‘‘(۱۷)

بشیر بدر کی مذکورہ رائے سے اتفاق ضروری نہیں اسلئے کہ جو شخص ابتداء عمر سے عملی سیاست کا حصہ رہا ہو۔ راجیہ سبھا کا ممبرہو وہ سیاست کے فن سے (خواہ ادبی ہو یا سیاسی) لا علم نہیں ہوسکتا۔ بیکل کی فنی حیثیت اپنی جگہ لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ مزاج میں سیاست کے جراثیم کی وجہ سے ہی وہ وارثی سے اتساہی ہوئے۔ پدم شری اور یش بھارتی حاصل کیا اور راجیہ سبھا تک پہنچے۔ یہ بیکل کی خوش بختی رہی کہ خدا نے انہیں فن کی دولت کے ساتھ ہی شہرت کی بلندی، خوش حالی اور مادی و سیاسی وسائل سے بھی بھرپور نوازا ورنہ نہ جانے کتنے بیکل معاشی بدحالی اور وسائل کی کمی کی بدولت انہیں کھیت کھلیانوں میں مر کھپ جاتے ہیں اور کوئی ان کا نام لیوا بھی نہیں ہوتا۔

بہرکیف۔ ۔ ۔ بیکل کی شاعری پر ان کے ہم عصر شعراء اور ناقدین فن نے حسب ضرورت مضامین بھی لکھے نقد و تبصرہ بھی کیا۔ ہاں ! اتنا ضرور ہے کہ مستند نقادان فن نے ان کی شاعری کو ذر خور اعتناء نے سمجھا۔ اس کے باوجود ان کی شاعری اور انکا فکر و فن عوام الناس کے ذہنوں کے ذہنوں میں زندہ رہے گا۔ بقول عنبر بہرائچی:

’’ان کا تخلیقی سرمایہ جمیل الدین عالی کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔ لیکن ابھی تک کوئی پروفیسر محمد حسن عسکری یا جمال پانی پتی ان کی نگارشات کی طرف متوجہ نہیں ہوسکاہے۔ بہرحال ان کایہ کارنامہ کم نہیں ہے کہ انہوں نے غنائی شاعری کیک ذریعہ اردو کی لوک روایات (وارث علوی جیسے تنقید نگار جنہیں ناپید سمجھتے ہیں )کی بازیافت پورے جاہ و چشم کے ساتھ  کی ہے۔ جس کے لئے وہ ہمیشہ یاد کئے جائیں گے۔ ‘‘(۱۸)

بیکل کا شعری سرمایہ ان کے فکری و فنی رجحانات، تخلیقی امکانات سے بھرپور فکر ونظرکے لحاظ سے وسیع بعد فنی لحاظ سے ہمہ جہت اصناف سخن پر مشتمل ہے۔ انہوں نے غزل، گیت، نظم، دوہا، قصیدہ، مرثیہ وغیرہ تمام اصناف سخن کو صالح اقدار و روایات اور مثبت نظریات کے ساتھ اسلامی فکر کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ انہوں نے جس طرح اردو شاعری کوہندی لفظیات اور دیہی تشبیہات و استعارات سے مالا مال کرنے کے ساتھ ہی قدیم اسلوب اور پرکتوں کی روایات کو برتا اور سجویا ہے اس کے لئے وہ ہمیشہ یاد کئے جائیں گے۔

چھڑے گی دیر و حرم میں یہ بحث سرے بعد

کہیں گے لوگ کہ بیکل کبیر جیسا تھا

مصادر و مراجع

۱-     ماہنامہ اردو دنیا۔ اتساہت بیکل۔ امتیازی رومی، جنوری ۲۰۱۷ء

۲-     نعت روزہ جدید مرکز۔ لکھنؤ۔ ۱۱دسمبر ۲۰۱۶ء

۳-     نعت روزہ ہماری زبان۔ انجمن ترقی اردو ہند۔ ۱۵ تا ۲۱دسمبر ۲۰۱۶ء، ج ۷۵، شمارہ ۴۷، ص ۵

۴-     موتی اگے ادھان کی کھیت۔ بیکل اتساہی۔ کاں ا ٓفسیٹ پرنٹرس، دہلی ۲۰۰۳ء، ص۱۵

۵-     ایضاً ص ۲

۶-     ایضاً ص۵

۷-     ایضاً ص۳

۸-     مٹی ریت چٹان۔ بیکل اتساہی۔ ہریانہ اردو اکیڈمی، ہریانہ، ۱۹۹۲ء، ص ۱۷

۹-     ایضاً ص۱۷

۱۰-   موتی اگے دھان کے کھیت، ص ۱۰

۱۱-   رنگہزار خوشبو ایک۔ بیکل اتساہی، اردو اکادمی، دہلی، ۱۹۸۹ء، ص ۱۲-۱۱

۱۲-   ماہنامہ شاعر جنوری، ۲۰۱۰ء، ص ۱۵

۱۳-   مٹی اگے دھان کے کھیت، ص ۱۸

۱۴-   مٹی ریت چٹان، ص ۱۲

۱۵-   ایضاً ص۱۶

۱۶-   والضحی۔ بیکل اتساہی۔ اے ون آفسیٹ پرنٹرس، دہلی ب ت، ص ۱۷-۱۶

۱۷-   مٹی ریت چٹان، ص۱۵

۱۸-   مٹی اگے دھان کے کھیت، ص ۱۹-۱۸

تبصرے بند ہیں۔