بی جے پی کو 2019 کے انتخابات میں شمالی مشرقی ریاستوں سے توقع

سوربھ شکلا

(سوربھ شکلا این ڈی ٹی وی انڈیا میں رپورٹر ہیں)

ہفتہ کو بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ تین دن کے دورے پر شمال مشرق پہنچ گئے. وہاں پر پہلے میگھالیہ میں انہوں نے ایک ریلی سے خطاب کیا اور پھر دارالحکومت شیلانگ میں بی جے پی کے ریاستی دفتر کا افتتاح کیا. اس کے بعد وہ تری پرا جائیں گے. میزورم کے ساتھ ان دونوں ریاستوں میں اس سال انتخابات ہونے ہیں.

گزشتہ ماہ کی 16 تاریخ کو جب سیاسی پارٹیاں اور سیاسی پنڈت 19 دسمبر کو اعلان ہونے والے گجرات انتخابات کے نتائج کو لے کر قیاس آرائیاں کر رہے تھے تب وزیر اعظم مودی دو انتخابی شمالی مشرقی ریاستوں، میزورم اور میگھالیہ میں ریلی کر رہے تھے. معنی  صاف ہیں کہ بی جے پی کو بھی پتہ ہے کہ اگر لوک سبھا میں بی جے پی کو 2014 کی کارکردگی دہرانا ہے تو شمالی مشرقی ریاستوں میں اسے بہترین کارکردگی کرنی ہوگی. یہی وجہ ہے کہ بی جے پی شمالی مشرقی ریاستوں میں پہلی بار آسام  کیجیت سے کھلے دروازے سے تمام ریاستوں میں اپنی مضبوط گرفت بنانا چاہتی ہے. ملک کی تاریخ میں پہلی بار یکم جنوری کو شمال مشرق کی دو زبانوں آسامی اور منی پوری میں بھی وزیر اعظم کے دفتر کی ویب سائٹ شروع کی گئی ہے تاکہ لسانی بنیاد پر بھی شمال مشرق کو مرکزی دھارے سے منسلک کیا جا سکے.

سال 2014 میں بی جے پی میں ملک کی پانچ ریاستوں گجرات، راجستھان، مدھیہ پردیش، دہلی اور اتراکھنڈ میں کلین سویپ کیا تھا۔ لیکن گجرات انتخابات کے نتائج کے بعد بی جے پی کو توقع نہیں ہے کہ اس کی کارکردگی 2019 میں دہرائی جا سکے گی، جس کی تلافی بی جے پی شمال مشرق کے 7 ریاستوں سے کرنا چاہتی ہے، جس کی بنیاد اس سال میزورم، منی پور اور تریپورہ کے اسمبلی انتخابات میں جیت کے ساتھ رکھنا چاہتی ہے.

بی جے پی نے شمال مشرق کی ریاستوں میں جیت کے لئے مختلف حکمت عملی بھی بنائی ہیں جس کے تحت مئی 2016 میں ہیمنت بسوا کی قیادت میں نیڈا (نارتھ ایسٹ ڈیموکریٹک ایلانس) تشکیل دیا گیا جس میں شمال مشرق کی کئی اہم غیر کانگریسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کیا گیا. اس میں سکم ڈیموکریٹک فرنٹ، آسام گن پریشد، ناگا پیپلز فرنٹ، سنگما کی نیشنل پیپلز پارٹی اہم ہیں. ان چھوٹی جماعتوں کے اتحاد سے بی جے پی سکم، آسام، اروناچل پردیش اور منی پور میں اپنی حکومت چلا رہی ہے.

بی جے پی کو اچھی طرح پتہ ہے کہ شمال مشرق میں زمینی سطح پر نہ تو اس کے کارکن ہیں اور نہ ہی کیڈر. ایسے میں چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اور کانگریس کے ممبران اسمبلی کو بی جے پی میں ملا کر ہی وہ شمال مشرق میں پاؤں جمع سکتی ہے. اس کے لئے امت شاہ کی قیادت میں پارٹی کے جنرل سکریٹری رام مادھو اور ہیمنت بسوا مسلسل کام کر رہے ہیں.

سال 2014 میں آٹھ شمالی مشرقی ریاستوں کی کل 25 لوک سبھا سیٹوں میں سے بی جے پی نے صرف 8 سیٹیں ہی جیتی تھیں. اس سال بی جے پی کے سامنے عیسائی اکثریتی دو ریاست میگھالیہ اور میزورم کو جیتنا سب سے بڑا چیلنج ہوگا. اس کے لئے پارٹی نے آنجہانی پی ایس سنگما کی نیشنل پیپلز پارٹی کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے جس میں حال ہی میں کانگریس کے 5 ممبر اسمبلی اپنی پارٹی چھوڑ کر شامل ہو گئے ہیں. کانگریس بھی بی جے پی کے خلاف ماحول بنانے کے لئے گومانس کھانے کو لے کر بڑا مسئلہ بنا رہی ہے کیونکہ دونوں ہی ریاستوں میں لوگ روایتی طور پر گومانس کھاتے ہیں.

میزورم میں بھی روایتی طور پر چرچ کا دبدبہ رہتا ہے اور موجودہ کانگریس حکومت بی جے پی اور آر ایس ایس کی تقسیم کی سیاست کو جم کر ایشو بنا رہی ہے. سال 2013 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے میزورم میں زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کر کے 40 میں سے 34 سیٹیں جیتی تھیں. تریپورہ میں بی جے پی کی براہ راست لڑائی لیفٹ سے ہے جہاں کچھ دن پہلے ہی IPFT کے پانچ بڑے لیڈروں نے بی جے پی کا دامن تھاما ہے. بی جے پی مسلسل دوسری پارٹیوں کو توڑ کر اپنی پارٹی کو مضبوط کرنے کی حکمت عملی پر اب تک کامیاب رہی ہے، پر بی جے پی کا اصل امتحان میزورم اور تریپورہ میں ہوگا.

مترجم: محمد اسعد فلاحی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔