بائک والی لڑکی!

ایم ودودساجد

کوئی چھ برس پہلے کی بات ہے۔ میں نے +2  (سیکنڈری اسکول) علی گڑھ کے اس وقت کے پرنسپل خواجہ افتخار احمد سنبھلی سے اپنے بڑے بیٹے کے داخلہ کے سلسلہ میں مشورہ کیا۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ’’ آپ اپنی بیٹیوں کے بارے میں غور کیجئے۔کیونکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلہ میں آج بھی بہت محفوظ اور بہت بہتر ہے۔‘‘

آج سوچتا ہوں کہ اگر میں نے اپنی بیٹیوں کو اس وقت اے ایم یو میں داخل کرادیا ہوتا اور میری بیٹیاں وہاں جاکر اخبارات اور چینلوں کو یہ بیان جاری کرتیں کہ ’’ہم قدامت پرست گھرانے سے آتی ہیں اور ہمیں سروں پر دوپٹہ ڈالنے کو کہا جاتا ہے لیکن ہم اپنے سروں پر دوپٹہ نہیں ڈالتیں ‘‘توان کا یہ بیان پڑھ اور سن کر میرا رد عمل کیا ہوتا۔

مجھے نہیں معلوم کہ ایک ماہ قبل یونیورسٹی کے وومن کالج کی بعض لڑکیوں کے اس طرح کے بیانات پڑھنے اور سننے کے بعد ان کے والدین کا کیا رد عمل رہا۔لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ اب یونیورسٹی میں لڑکیوں کے لئے بھی وہ ماحول نہیں رہا جس کا ذکر خواجہ افتخار احمد سنبھلی نے مجھ سے کیا تھا اور جس کیلئے یونیورسٹی مشہور تھی۔یہ تبدیلی کیوں آئی؟اس پر والدین کو ہی غور کرنے کی ضرورت ہے۔اس کیلئے براہ راست ‘میں ان لڑکیوں کو قصور وار تسلیم نہیں کرسکتا۔اس لئے کہ میں اپنے بعض احباب کی ان لڑکیوں کو جانتا ہوں جنہوں نے ماں باپ سے دور جاکر دوسرے کالجوں میں بھی اپنا وہی وقار برقرار رکھا جس کی انہیں گھروں میں تربیت دی گئی تھی۔

پچھلے دنوں 11دسمبرکو یونیورسٹی کے وومن کالج کا الیکشن ہوا۔اس کالج میں33کورسز میں 2767 لڑکیاں زیر تعلیم ہیں۔ بی کام (دوسرے سال) کی 19سالہ شاربہ تسنیم نے کالج کی صدر اور یونیورسٹی یونین کی کیبنیٹ پوسٹ کے لئے الیکشن لڑا۔ انہوں نے زور دار انداز میں بائک ریلی بھی نکالی جس میں بہت سی لڑکیوں نے Enfield اورBullet سمیت کئی بڑی اور مہنگی بائکوں پرسوار ہوکراور بعض لڑکیوں نے الٹی طرف بیٹھ کر خوب دھماچوکڑی مچائی۔ وہ وومن کالج کی صدر کا الیکشن جیت بھی گئیں۔ انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق انہیں یہ کامیابی لڑکوں کی طرح ’’بولڈ‘‘ ہونے اور ہفتہ کے ساتوں دن ہاسٹل کی لڑکیوں کو گھومنے پھرنے کی اجازت دلوانے کے وعدے کے سبب ملی۔ اب شاربہ کا سارا زور اس پر صرف ہوگا کہ لڑکیوں کو بھی لڑکوں کی طرح آزادی کے ساتھ ساتوں دن باہر گھومنے پھرنے کی اجازت دی جائے۔ (فی الحال لڑکیوں کو یہ سہولت صرف اتوار کے روز حاصل ہے)۔

بی اے (اکونومکس) کی19سالہ طالبہ اریشا خان یونیورسٹی یونین کی سینئر کیبنٹ ممبر ہوگئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام ممبرطالبات کو سفید لباس ہی زیب تن کرنا ہوتا ہے لیکن میں نہیں پہنتی۔ میں سیاہ لباس پہنتی ہوں۔ انہوں نے یونین کی میٹنگ میں یہ سوال بھی اٹھایا کہ آخر لڑکیوں کو سرڈھانکنے پرکیوں مجبور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے صاف طورپر کہہ دیا ہے کہ میں ہرگز سر پر دوپٹہ نہیں ڈالوں گی۔ اسی دوران دوسری ممبر17سالہ فبہا نے فوراً اریشا کو کاؤنٹر کرتے ہوئے کہا کہ نہیں سر ڈھانکنا تو روایت کا حصہ ہے۔ یہ تو کرنا چاہئے۔ لیکن ہاں دوسرے امور کیلئے ہمیں لڑنا ہوگا۔ یہ تمام طالبات کئی امور پر متفق ہیں۔ یہ کہ بائک کیا صرف لڑکے ہی چلاسکتے ہیں؟ اور یہ بھی کہ کیا گھومنے پھرنے کی پابندی صرف لڑکیوں پر ہی عاید ہونی چاہئے۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق علی گڑھ کے مکین ’ بائک والی لڑکیوں‘‘ کو دیکھ کرحیرت زدہ تو ہیں لیکن انہیں یہ تبدیلی اچھی لگ رہی ہے۔

اپنی بچیوں کو اعلی سے اعلی تعلیم دلوانا کوئی بری بات نہیں ہے۔ لیکن ابتدائی تعلیم کے دوران ان کی اخلاقی تربیت نہ کرنا مجرمانہ فعل ہے۔ شاربہ اور اریشا کے خیالات سن کرایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ گھروں میں ان کی تربیت اس طرح نہیں ہوئی جو اسلام اور مسلم معاشرہ کومطلوب ہے۔ اگر ان کی اخلاقی تربیت ہوئی ہوتی تو وہ بھی فبہا کی طرح سر پر دوپٹہ ڈالنے کو معیوب نہ سمجھتیں اور فوراً ایسے افکار کا رد کرتیں۔ آج گھروں میں ماں باپ نے اپنے بچوں کی تربیت کا فریضہ ترک کردیا ہے۔ مسلمانوں کیلئے اخلاقی تربیت کے بغیر اعلی تعلیم کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ ایسے میں یہی ہوگا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسی جگہ پر ہماری لڑکیاں سربازار اپنے سروں پر سے نہ صرف دوپٹہ اتارپھینکیں گی بلکہ فخریہ طورپراس کا اعلان بھی کریں گی۔ مجھے ماں باپ سے بس ایک ہی سوال کرنا ہے۔ کیا اس صورت حال کا ذمہ دار بھی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ہے؟ اور کیا علماء کو مطعون کرکے صورت حال بدل سکتی ہے؟ غور ضرور کیجئے گا۔

تبصرے بند ہیں۔