بی جے پی کی منافرت پر مبنی مہم: آگ دنیا کو یہ لگا دے گا

نہال صغیر

اب نفرت کے کاروباریوں کا ایک ہی نام ہے بی جے پی۔ لوگوں نے اسے الگ الگ طرح تشریح کرنے کی کوشش کی ہے۔ کسی نے اسے بھارت جلائو پارٹی بھی قرار دیاہے۔ اس کی روز افزوں تعصب و نفرت پر مبنی مہم کو دیکھتے ہوئے اسے بھارت جلائو پارٹی کہنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ آدمی اچھا کام کرکے بھی نام کما سکتا ہے اور دنیا اس کے آگے احترام میں جھک سکتی ہے۔ مگر اس کو کیا کیجئے کہ اس دنیا میں ایسے افراد بھی وافر پائے جاتے ہیں جنہوں نے برائیوں کی حمایت کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنالیا ہے۔ بی جے پی انہی میں سے ایک ہے جس کےوابستگان نفرت کے علاوہ کچھ کرہی نہیں سکتے۔ مجھے امید ہے کہ ان کے متحرک وابستگان نفسیاتی مرض میں مبتلا ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو بہت زوروں کی سردی لگ رہی ہو اور وہ اپنے گھر کو جلا کر سردی سے بچنے کی کوشش کرے تو اسے نفسیاتی مریض ہی کہیں گے نا ، یا گھر میں آگ لگی ہو اور کئی افراد اس آگ پر پانی ڈالنے میں مصروف ہوں لیکن ایک دو ایسے افراد بھی ہوں جو اس میں تیل ڈال رہے ہوں تو اس کو آپ کیا کہیں گے؟ بی جے پی آگ میں تیل ڈالنے کا ہی کام کر رہی ہے۔ نریندر مودی جنہیں وزیر اعظم ہند لکھتے ہوئے قلم ساتھ نہیں دیتا کہ انہوں نے ملک کے سب سے اعلیٰ اور پروقار عہدہ کو اتنا بے وقار کردیا ہے کہ کوئی شریف انسان اس کی خواہش نہیں کرے گا۔ ان کے ایک چاہنے والے ڈی گریڈ کے ڈائریکٹر پروڈیوسر نے کشمیر ی پنڈتوں کی مظلومیت کا بہانہ بناکر ایک ایسی فلم بنا دی جس کے بارے میں جانکاروں میں سے کئی کی رائے ہے کہ یہ ایک پروپگنڈہ فلم ہے جو مسلمانوں کیخلاف نفرت میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے۔ کسی نے یہ بھی کہا کہ اس میں آدھا سچ یا سکہ کا ایک ہی رخ دکھایا گیا ہے۔ اس فلم کیلئے وزیر اعظم اپنی تقریر میں کہہ رہے ہیں کہ اسے دیکھئے یہ آپ کو سچائی بتائے گی۔ ان کے اس بیہودہ مشورہ پر تعلیم یافتہ اور دانشوروں کے طبقہ نے کہا کہ تاریخ کتابوں میں ملتی ہے فلموں میں نہیں۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کیلئے برابر ہے کہ کوئی ان کی تعریف کرے یا انہیں گالیاں دے۔ کیوں کہ وہ سچائی کوچھپانے اور جھوٹ کو پھیلانے کا کام کرتے ہیں  ؎ آگ دنیا کو یہ لگا دے گا/جو تعصب ترے بیان میں ہے۔

دی کشمیر فائلس میں کئی خامیاں ہیں جن کا متعدد مرتبہ تذکرہ ہوچکا ہے۔ وہ فلمیں جو تاریخی حقائق پر بنتی ہیں اس میں بھی یہ لکھا ہوا ہوتا ہے کہ یہ افسانوی کہانیوں پر مبنی ہے۔ خود بی جے پی نے دی سورڈ آف ٹیپو سلطان کی نشریات میں اس کا اضافہ کروایاتھا کہ اس کا تاریخی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے حالانکہ وہ تاریخی واقعات  پر مبنی فلم تھی۔ وزیر اعظم اپنی پارٹی اور اپنے نظریات کیلئے اظہار رائے کی آزادی کی گنجائش نکالنے میں ماہر ہیں لیکن وہ اور ان کے ہمنوا یہ گنجائش دوسروں کو دینے کو راضی نہیں ہیں۔ گجرات فسادات پر مبنی ڈاکیومنٹری فلم پرزانیہ کو انہوں نے گجرات میں بین کردیا تھاجو حقیقی واقعات اور شواہد کی بنیاد پر ایک دستاویزی فلم ہے۔ دی کشمیر فائل کی پہلی خامی ہی یہ ہے کہ نفرت اور فساد کیلئے مشہور بی جے پی اور سنگھ اس فلم کو مشتہر کررہے ہیں یعنی یہ ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے۔ جسٹس ابھے تھپسے کہتے ہیں کہ انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ اگر کسی سچ کے بھی کہنے سے نفرت پھیلے تو اسے بیان نہیں کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا نہ جانے کیوں اس فلم کو بغیر کسی کانٹ چھانٹ کے عوام کیلئے پیش کردیا گیا۔ ایک سمپوزیم میں معروف وکیل مجید میمن نے کہا کہ تاریخی حقائق  پر فلمیں بنانے والے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس میں غیر حقیقی اور غیر مصدقہ حالات و واقعات کو شامل نہ کرے۔ لیکن جن کا مقصد ہی جھوٹ کو سچ اور آسمانی سچائی بناکر پیش کرنا ہو وہ ان باتوں پر دھیان کب دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں خامی ان لوگوں میں بھی ہے جو آر ایس ایس کو برائی کا سرغنہ سمجھتے تو ہیں لیکن اس کی سرکوبی کیلئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جاتا۔

یونائیٹڈ اگینسٹ انجسٹس اور ڈسکرمنیشن نامی تنظیم کے ایک سمپوزیم ’’دی گجرات فائلس کے پس پردہ عزائم‘‘ میں اپنی تقریر میںجسٹس تھپسے نے کہا کہ آخر کیوں انہیں چیلنج نہیں کیا جاتا۔ ٹھیک ہے کہ یہ لوگ جھوٹ پھیلا رہے ہیں نفرت کو ہوا دے رہے ہیں جس کی وجہ سے مختلف کمیونٹی کے درمیان دوریوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ تو ہم اتنے کمزور کیوں ہوگئے کہ ان کی باتوں کا بروقت جوابنہ دے پائیں  اور انہیں عوامی پروگرام میں گھسیٹ کر لائیں کہ آئو ہم تمہارے جھوٹ کا یہاں پردہ فاش کرتے ہیں۔ ہم عوام کے سامنے تمہاری سچائی پیش کرتے ہیں۔ سمپوزیم میں موجود ایک تاریخ داں نے کہا کہ وہ لوگ کبھی ڈبیٹ کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔ یہ بات درست ہے کہ فساد ی اور جھوٹا شخص سچائی کا سامنا کرنے سے بھاگتا ہے۔ لیکن وہ کب تک بھاگے گا ؟ اگر وہ مسلسل اس سے بھاگتا ہے تو بھی اسے عوام الناس کے سامنے لایا جاسکتا ہے۔ یہی کوشش نہیں ہورہی ہے ، اسی لئے یہ لوگ جری ہوگئے ورنہ ہم گلی محلوں میں بھی دیکھتے ہیں کہ جو جھوٹ بولتا ہے شروع شروع میں تو اس کی باتیں لوگ نظر انداز کردیتے ہیں لیکن جب اس کی سرزنش کی جانے لگتی ہے تو پھر یاتو وہ وہاں سے رفو چکر ہوجاتا ہے یا پھر اپنی عادت خبیثہ سے توبہ کرلیتا ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے ساتھ بھی ایسا کیا گیا تو وہ یا تو خاموش ہوجائیں گے یا توبہ کرکے ملک کی تعمیر میں مثبت کردار ادا کرنے لگیں گے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ مخالف میں جو آوازیں اٹھتی ہیں وہ کمزور اور منتشر ہیں۔ سب اپنی اپنی راگ الاپنے میں مشغول ہیں ، سب کے اپنے اپنے ایجنڈے ہیں۔ کوئی کھل کر سامنے نہیں آتا کہ درپردہ وہ ان سے کچھ نہ کچھ فوائد حاصل کرنے کی جستجو میں رہتا ہے۔ سب یہ مانتے ہیں کہ آر ایس ایس اور بی جے پی جیسی فاشسٹ قوتیں ملک کو تباہ کررہی ہیں ، انہیں روکنا ضروری ہے ، مگر زبانی جمع خرچ سے کوئی آگے نہیں بڑھتا۔ جس چیز کو ہٹانے کیلئے جتنی قوت کی ضرورت ہوتی ہے اس میں اتنی ہی طاقت اور یکجائی دیکھائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس یہاں مانتے ہیں کہ انہیں روکنا چاہئے لیکن متحدہ کوششیں ندارد ہیں ؎  نفرتیں بے زاریاں بغض و تعصب دشمنی/زندگی کا بس یہی معمول ہو جائے تو پھر۔

سنگھ یا بی جے پی اور اس کی ذیلی تنظیموں پر بندھ باندھنے کیلئے سب سےپہلا کا م تو وہی ہے جو جسٹس ابھے تھپسے نے سجھائے ہیں کہ وہ ایسے کیسے جھوٹ پھیلاتے رہیں گے ان کو مجبور کیا جائے کہ وہ ڈائیلاگ کریں اور یہ بات عوامی طور ہو یا اسے عوام میں بڑے پیمانے پر مشتہر کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ مسلمان اور ان کی تنظیمیں اپنے طور پر تبلیغ اسلام کیلئے صرف دعوت دعوت کا گردان کرنے کی بجائے حقیقی معنوں میں اسلام کی دعوت دینے کا کام پوری شدت کے ساتھ شروع کردیں۔ یہ نہیں کہ انہیں خوفزدہ کرنے کیلئے حکومت نے کسی ایک شخصیت کیخلاف کوئی جال بُنا تو سب سہم کر خاموش ہوجائیں ، بلکہ ہر گرفتاری کے بعد مزید شدت سے باطل کو باطل کہا ہی نہ جائے بلکہ اسے ثابت بھی کیا جائے۔ اس کے لئے بہت سے راستے ہیں جس کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بلا شبہ چند ایک مسلم تنظیموں نے اس پر اچھا کام کیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک امت ہونے کا ثبوت دینے کیلئے اپنی اپنی دکان چلانے کی بجائے ایک دوسرے کی قوت بنیں ، کوئی شخص کوئی تنظیم پریشانی میں خود کو تنہا و نہتا محسوس نہ کرے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ دعوت و تبلیغ میں مصروف کئی شخصیت کو ابتلا و آزمائش میں مبتلا دیکھ کر دیگر تنظیموں اور شخصیتوں نے سہم کر خاموشی اختیار کرلی۔ یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ بھلا مسلمان کیوں کہ ان خش و خاشاک سے خوفزدہ ہونے لگا بقول اقبال ؒ ؎   کیونکر خس و خاشاک سے دب جائے مسلماں/مانا، وہ تب و تاب نہیں اس کے شرر میں۔ کسی کو سمجھ میں آئے یا نہ آئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں ۱۹۴۷ سے اب تک جس چیز کی مسلمانوں کو ضرورت ہے وہ دعوت دین کے کاموں میں مصروف ہونا۔ جسے ہنوز ٹھنڈے بستے میں ڈالا ہوا ہے۔ اب بھی وقت ہے ، کہتے ہیں جب جاگو تب ہی سویرا۔ سنگھ اور بی جے پی کے منافرت اور تعصب کیخلاف یہی ایک کارگر ہتھیار ہے۔ جب مسلمان اس عزم کے ساتھ اٹھیں گے تو دیکھ لیجئے گا یہ سمندر کی جھاگ کی طرح غائب ہوجائیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔