ملک میں جمہوریت کی بقاء کے لیے مضبوط اپوزیشن ضروری

جاویدجمال الدین

ملک میں پہلے 2014اورپھر 2019، میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کی شاندار کامیابی نے حزب اختلاف  کوایک کنارے کردیا ہے، اس کی وجہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان میں اپوزیشن نے ان آٹھ کے دوران شکست تسلیم کرتے ہوئے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔لیکن اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے بعد جونتائج سامنے أئے ہیں،ان سے اپوزیشن پارٹیوں کے رہنماؤں کو احساس ہوا کہ مستقبل میں اپنا سیاسی وجود برقرار رکھنے اور عوام کی نظر میں خودکو منوانے کے لیے نئی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔

حالیہ اسمبلی انتخابات کے بعدیہ لگ رہا ہے کہ ان جماعتوں کو ی‎‫ہ احساس ہو چکا ہے جب تک وہ عوام کے درمیان  سرگرم رہتے ہوئے، عوامی مسائل پر جدوجہد  نہیں کر لیں گے اس وقت‎ ‎‫تک انہیں عوام  تک عوام انہیں قریب پھٹکنے نہیں دیں گے۔کچھ عرصہ سے عام شکایت رہی ہے کہ اپوزیشن اپنی ذمہ‎ ‎‫داریوں کی تکمیل میں نا کام ہورہی ہیں ۔کیونکہ حکومت کی جانب سے عوام پرہفتے پندرہ دن میں ٹیکس میں اضافہ کیا جاتا ہے۔

حال میں مودی حکومت نے پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کیااور پھر رسوئی گیس کی قیمت‎ ‎‫بڑھادی، اس سے بھی بس نہیں تو تجارتی گیس کی قیمت میں بھی اضافی کردیاہے۔مسلسل کچھ نہ کچھ کیا جارہا ہے اور حکومت کی جانب سے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔جارہا ہے ۔ حکومت کے مختلف اقدامات ایسے ہیں جن کے نتیجہ میں عوام کو مسائل اور  پریشانیوں ‎‫کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ عوام کی مشکلات اور تکالیف کے خلاف آواز اٹھانے میں اپوزیشن کی ناکامی نظر آرہی ہے۔ عوام کو درپیش مسائل پر اپوزیشن  کی جانب سے صرف بیان ‎‫بازیوں پر اکتفاء نہیں جاسکتاہے۔مرکز میں حکومت جس انداز سے کام کر رہی ہے جس کو بیان بازیوں‎ ‎‫کے ذریعہ کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ۔دراصل عوام کے درمیان پہونچنے سے پہلے اپنی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔کیونکہ ذرائع ابلاغ نے یکسر حزب اختلاف کو نظر انداز کردیا اور اپوزیشن جماعتیں پتہ کس خام وخیال میں ہیں کہ حزب اختلاف کے مقصد کو پورا نہیں کرپارہی ہیں۔یوپی الیکشن کے نتائج نے ان کے ہوش ٹھکانے لگا دیئے ہیں اور ان کے تن مردہ میں جیسے جان سی آگئی ہے۔اپوزیشن نے  اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ پارلیمنٹ اور اسمبلی کے ایوانوں میں ہی نہیں بلکہ عوام کے درمیان  رہ کران کے مسائل کوسمجھنے اور انہیں حل کرنے کے ساتھ ساتھ ‎ ‎‫اجاگر کرنے اور حکومت رائے عامہ بیدار کرنے کی کوشش کی جانی چاہیئےاور اس میدان میں کچھ نہیں کیا گیا تو   اپوزیشن کے وجود پر ہی سوال اٹھتے رہیں گے ۔اپوزیشن کو بلاخوف وخطر  اپوزیشن کو حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں اور نہ گائی کے خلاف  احتجاج درج کرتے ہوئے پروگرام طئے کرنے کی ضرورت ہے، مذکورہ ‎‫احتجاج ایوان کے ساتھ ساتھ عوام کے درمیان سڑکوں پر بھی کیاجائے۔

اتر پردیش سمیت پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کے فوری بعد حکومت کی جانب سے مسلسل پٹرولیم اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے اور چنددنوں میں آٹھ‎ ‎‫مرتبہ قیمتیں بڑھائی گئی ہیں ۔ اس کے علاوہ رسوئی گیس کی قیمت بڑھا دی گئی ہے۔حالانکہ  کانگریس پارٹی  نے پارلیمنٹ میں احتجاج ضرورکیا ہے۔ پارلیمنٹ کے باہر بھی‎ایوان کے باہر بھی  ‎‫کانگریس کی قیادت میں احتجاج ہوا ہے، لیکن حکومت کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگی ہے۔

مودی حکومت کے اقدامات کے خلاف  اپوزیشن جماعتوں کو مشتر کہ حکمت عملی تیار‎ ‎‫کرتے ہوئے مسلسل عوامی مسائل پر جد و جہد کرنے کی ضرورت ہے ۔تاکہ عوام کی قربت حاصل ہو۔عوام کو بھی ان مظاہروں اور احتجاج کا حصہ بننا چاہئیے۔اگر اپوزیشن عوام کوحکومت ۔مخالف احتجاج کا حصہ بنالے لے گی تب ہی حکومت پر اس‎ ‎‫ کا اثرپڑ سکتا ہے اور انتخابات میں بھی اس کا اثر دیکھنے کو ملے گا۔

حکومت کی جانب سے جس قسم۔کے اقدامات کیے جارہے ہیں بلکہ‎ ‎‫دیگر کئی مسائل ہیں جن پر حکومت کو گھیر نے کیلئے حزب مخالف  کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت ہے‎ ‎اتحاد کی ضرورت ہے،اس کے لیے ریاستی سطح کی علاقائی اور غیر بی جے پی سیاسی جماعتوں کوساتھ لینا ہوگا،بی جے پی سے مقابلہ کے لیے  ایک مشترکہ حکمت عملی تیار کرنا ہوگا ۔ یہ حقیقت کو بھی فراموش نہیں کی جائے کہ  تمام جماعتیں مشتر کہ اور متحدہ طور پر ہی حکومت کے خلاف مقابلہ کرسکتی ہیں ۔ سبھی کیلئے ضروری‎ ‎‫ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقہ اثر میں عوام کو ساتھ لانے کی کوشش کریں۔ عوام میں اپنے طور بیداری پیدا کی جائے،انتخابی ہارجیت کا کھیل توہمیشہ سے جاری ہے،بس ایک جامع منصوبہ اور حکمت عملی کوترجیح دیتے ہوئے اپوزیشن کو آئندہ لوک سبھا کے لیے کسی قدآورلیڈر کی قیادت میں سوچ وچار سے آگے بڑھناہوگا، ورنہ کچھ ہاتھ نہیں لگے گا۔ملک میں جمہوریت کی بقاء کیلئے مضبوط اپوزیشن چاہئیے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔