ماہِ رمضان: احتساب کا مہینہ

مرزا عادل بیگ

(پوسد)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ  سے روایت ھے کہ  رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :تم پر رمضان کا مبارک مہینہ آیا ہے جس میں اللہ تعالی نے تم پر روزے فرض کئے ہیں اس ماہ مبارک میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ اور سر کش شیاطین با ند ھ دیے جاتے ہیں۔ اس میں  اللہ  کی طرف سے ایک ایسی رات ہے جو ھزار مہینوں سے زیادہ بھتر ہے .جو اس رات کی بھلائی سے محروم رہا وہ بس محروم ہی رہ گیا (احمد نسائی)

اللہ کا شکر ہے پھر ایک بار برکتوں والا مہینہ ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے انشاءاللہ ہمیں روزے رکھنے کی سعادت نصیب ہو گی ہر جگہ (مساجد) میں تراویح کا اہتمام ہوگا۔ ہر وقت برکتوں کا فیضان ہوگا۔ ہمیں اللہ رب العزت ایک بار پھر رحمت برکت سمیٹنے کا موقع دے رہے ہیں۔ گردوپیش پر نظر ڈالیے کتنے افراد جو سال گذشتہ ہمارے ساتھ تھے اب اس دنیا میں نہیں رہے گویا وہ رمضان ان کی زندگی کا آخری رمضان تھا اور پتا نہیں یہ رمضان ہم میں سے کس کا آخری رمضان ہو۔ مختصر زندگی سرعت کے ساتھ ختم ہو رہی ہے ہر لمحہ ہم اپنی موت سے قریب ہو رہے ہیں دانشمند وہی ہے جو اپنی موت کو یاد رکھتے ہیں اور موت کے بعد کے مراحل کی تیاری کرتے ہیں رمضان کا مہینہ ہماری تربیت کے لئے بہترین موقع ہے اس سے بھرپور فائدہ اٹھا کر اپنی دنیا و آخرت کو سنوارنے کی کوشش کرے۔ جس شخص نے اس مہینے میں کوئی نیکی کرکے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہ اس شخص کے مانند ہوگا جس نے دوسرے دنوں میں کوئی فرض ادا کیا ھواور جس نے اس مہینے میں ایک فرض ادا کیا تو وہ ایسا ہے جیسے دوسرے دنوں میں اس نے ستر فرض ادا کیے۔ رمضان صبر و استقلال کا مہینہ ہے اور صبر و استقلال اور استقامت کا ثواب جنت ہے روزے دار کو اس مہینے میں کھانا کھلانے کا پانی پلانے کا اپنی استطاعت کے مطابق کھانا کھلانے والے کو آخرت میں بہت اجر و ثواب ہے یہ وہ مہینہ ہے جس کا آغاز رحمت درمیانی عشرہ مغفرت اور آخری عشرہ جہنم کی آگ سے نجات ہے۔

اس رمضان المبارک میں اہم مقصد روزے کو پیش نظر رکھ کر اپنا جائزہ لیں کہ ہمارے دل میں اللہ رب العالمین کا تقوی (پرہیزگاری )کا تناسب کتنا ہے ہم مختلف امور انجام دیتے وقت اللہ کو کتنا یاد رکھتے ہیں۔ کیا اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس ہمیں گناہوں سے باز رکھتا ہے روزے کا مقصد دل کو مستقل اللہ کے خوف سے آباد رکھنا ہے ہم اپنے دل کا مستقل جائزہ لیں کے ہمارے دل کی کیا کیفیت ہے۔ رمضان قرآن کا مہینہ ہے رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن پاک کا نزول ہوا ہے اس ماہ مبارک میں ہم غور کریں کہ قرآن سے ہمارا تعلق کیا ہے ہم روزانہ تلاوت قرآن کے لیے کتنا وقت فارغ  کرتے ہیں قرآن کا کتنا حصہ ہمیں حفظ ہے۔

قرآن کو سمجھنے کے لئے ہمارے اندر کتنی بے چینی اور تڑپ ہے ہم قرآن پر کتنا عمل پیرا ہے۔ روزہ بھترین تربیت کا ذریعہ ہے ہم روزے میں غور کریں گے بحیثیت مومن ہم کس حد تک تربیت کرنے میں کامیاب ہے ہماری زندگی کا کتنا حصہ اللہ کے احکام کا پابند ہے۔ روزہ ایک ڈھال ہے جس کا سھارا لے کر ھم برائیوں کی یلغار سے اپنے نفس کی حفاظت کرتے ہیں۔ کیا اس ایک ماہ مبارک کی تربیت کے نتیجے میں ہماری ایمانی قوت اتنی مضبوط ہو پاتی ہے کہ ہم سال کے بقیہ مہینوں میں اپنے آپ کو گناہوں کے وار سے محفوظ رکھ پاتے ہیں رمضان ہمدردی اخوت محبت اور سخاوت کا مہینہ ہے۔ روزہ رکھ کر ہمیں سماج کے محروم بھوکے پیاسے انسانوں کی تکلیفوں کا کس حد تک اندازہ ہوتا ہے۔ ہم لوگوں کی ضرورتوں کا احساس کر کے اسے پورا کرتے ہیں اور زکوتہ ادا کر کے ہم اپنے مال کو بڑھاتے ہیں۔

مسلم معاشرے کا جائزہ

آج ماہ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے دنیا کے تمام مسلمان چاند دیکھ کر روزہ رکھتے ہیں اور ٢۹,۳۰ دن  بعد چاند دیکھ کر عید الفطر کی نماز ادا کرتے ہیں یہ تیس دن تمام مساجد نمازیوں سے بھر جاتی ہے مسلمان بوڑھا بچہ نوجوان تمام افراد اذان کی آواز سن کر مسجد کا رخ کرتا ہے اس وقت مسجد دو خانوں میں بٹ جاتی ہےایک ہمیشہ کا نمازی اور دوسرا رمضان کا نمازی.ان دونوں کی کشمکش ہمیں دیکھنے کو ضرور ملتی ہے زیادہ طر لوگ صفوں کو چیرتے ہوئے پہلی دوسری صف میں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ظہر تا عصر زیادہ افراد کو مسجد میں قیام کرتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے بھولے بسرے دوستوں ہو اب ظہر تا عصر مسجد میں بیٹھ کر گپ شپ بحث و مباحثہ کرتے نظر آتے ہیں وہی مساجد کے منتظمین کو بہت سارا کام انجام دینا پڑتا ہے جگہ جگہ کولر لگانا پنکھے شروع کرنا ‘ مسجد کی صاف صفائی  وغیرہ بیچارے مؤذن اور ان کے ساتھیوں پر بہت زیادہ بوجھ بڑھتا ہے۔ بہت کم افراد مسجد میں ذکر و تلاوت مفہوم وظیفے وغیرہ کرتے نظر آتے ہیں ہم لوگ کہیں بار لوگوں کو لر کے سامنے سکون سے لیٹے ھوے دیکھ سکتے ہے روزے کی حالت میں انہیں  نیند سے بیدار کرنے کی کسی میں کہاں ہمت ہوتی ہے۔

اب رمضان میں بھی لوگوں کو رشتے داری دوستی وغیرہ نبھاتے دیکھا جا سکتا ہے گھر کی خواتین اسی گھر کو افطار کی پلیٹ بھیجتی ہے جہاں پلیٹ کے بدلے پلیٹ آنے کی امید ہو آپ کا پڑوسی کتنا ہی ضرورت مند کیوں نہ ہو کتنا ہی غریب کیوں نہ ہو اسے نظر انداز کرکے بڑے گھر کو افطار کی پلیٹ بھیجنے کا کام بخوبی انجام دیا جاتا ہے۔ دیکھتے دیکھتے پہلا آشرع ختم ہوتا ہے۔ دوسرے عشرے سے لوگوں میں تجسس پیدا ہوتا ہے کہ محلے میں کس نے روزہ رکھا یا نہیں۔ وہی محلوں میں افطار پارٹی کا انتظام کرنا ایک چلن بن چکا ہے محلے والوں سے چند ہ جمع کرکے افطار پارٹی اور کھا نے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اس کار خیر میں نوجوانوں کی ٹولی سرگرم رہتی ہے محلے کے امیر افراد اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ امیر افراد کا ایک دوسرے سے مقابلہ ہو۔ دوسرا عشرہ ختم ھونے سے پہلے طاق راتوں کا چارٹ بستی کے مساجد میں لگ جاتا ہے اس کام میں دینی جماعتیں اور تحریکات آپنی اپنی سہولت کے اعتبار سے مسجد کو منتخب کرکے طاق رات مناتے ہیں طاق راتوں میں تحریکی افراد کے ہاتھوں میں چندہ بک دیکھا جا سکتا ہے سال بھر تحریکی افراد اکڑ کر   رہنے والے اس وقت بہت ہی انکساری و عاجزی سے چندے کی رسید ہاتھ میں تھما دیتے ہیں زکوٰۃ ارکان اسلام میں سے ہے اس کا فرض ہونا کتاب و سنت کے کثیر دلائل سے ثابت ہے اگر کوئی اس کی فرضیت کا منکر ہو تو اسلام سے خارج ہوجائے گا اور اگر کوئی ادا نہ کرے تو سخت گنہگار ہوگا۔ آپ کسی بستی کا جائزہ لے جہاں صاحب حیثیت افراد بہت کم نظر آئیں گے-

الحمداللہ زکوۃ دینے والوں کی کوئی کمی نہیں صرف دینے میں تھوڑا وقت لگتا ہے کئی بار زکوٰۃ کے لیے گھر کو بار بار جانے کی نوبت آجاتی ہےصحاب حیثیت حضرات سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ ضرورت مند افراد کو نہ ستائے ان کے وقت کی قدر کریں۔ صحاب حیثیت افراد کو اپنے غریب رشتہ دار یتیم بے کس کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے زکوٰۃ دینے والے افراد زکوۃ خود لا کر جمع کرے تو بہتر ہوتا مگر اداروں کو تنظیموں کو بار بار جاکر زکوۃ کی ادائیگی کے لئے یاد دہانی کرانی پڑتی ہے کعی بار زکوٰۃ کی  بڑی رقم کی اداروں میں بٹ کر معمولی ہو جاتی ہے عید سے پہلے کی مانگنے والی ٹولی کو دیکھا جا سکتا ہے جو اناج کپڑا وغیرہ لے جاتے ہیں بعض دفعہ انہیں اناج وغیرہ کم قیمت میں بجتے  دیکھا گیا ہے ہم نے صرف ایک جائزہ کے طور پر یہ لکھا ہے اکثر و پیشتر ہر جگہ کا حال یہی ہوگا ہمارا مقصد کسی کی تنقید وہ بے عزتی کرنا نہیں ہے بلکہ اس کی اصلاح ہونا ضروری ہے اس ماہ رمضان المبارک میں اللہ رب العزت ہمیں نیک توفیق عطا فرمائے اور ہمارے کبیرہ و صغیرہ گناہوں سے نجات دلائے مسلمانوں پر رحمت کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے، آمین۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔