بی جے پی کی کامیابی کے بعد مسلمان کیا کریں؟

عبد ا لصبور ابو بکر

لوک سبھا کے چناؤ میں بی جے پی کو واضح اکثریت مل چکی ہے۔ ایک بار پھر نفرت کی سیاست نے اپنا رنگ دکھا دیا ہے۔ کچھ لوگ مشینوں سے بے ایمانی کا شبہ ظاہر کر رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مشینوں کا کمال نہیں ہے۔ ای وی ایم کو دوش دینا سراسر غلط ہے۔ اپنی ناکامی کا پورا ٹھیکرا ان الکٹرانک مشینوں کے سر پھوڑنا نادانی اور جہالت ہے۔ اس دعوے میں اتنی جان نہیں کہ ای وی ایم کو ہیک کیا گیاہے۔ ان میں ٹیمپرنگ کی گئی ہے یا ان کا ڈاٹا چینج کردیا گیا ہے۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ یہ عظیم کامیابی فاتح پارٹی کی بیداری اور منظم پلاننگ کی مرہون منت ہے۔ اس کی سوجھ بوجھ، حکمت عملی اورچالاکی وچالبازی نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ ان لوگوں کی محنت رنگ لائی ہے۔ ان کے اتحاد واتفاق نے انہیں یہ بھاری اکثریت دلائی ہے۔ اس سے قطعا کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ انہوں نے اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لئے تمام اسباب اور وسائل اختیار کئے۔ ہر انداز اپنایا۔ کسی بھی ناحیہ کو کمتر اور معمولی نہیں سمجھا۔ وہ نہ باد مخالف سے گھبرائے اور نہ ہی غیروں کے طعنوں اور حملوں نے ان پر کچھ منفی اثر ڈالا۔ باد مخالف کو مات دینے کے یہ مجرب وکارگر نسخے ہیں۔

نتائج تو بعد میں آئے لیکن ان کی جیت واضح طور پر الیکشن سے قبل ہی ہر جگہ نظر آرہی تھی۔ اس کا اندازہ سوشل میڈیا سے ہو رہا تھا۔ لوگوں کے کمنٹ اور تبصرے اسی کی طرف اشارہ کررہے تھے۔ ان کی ریلیوں میں لوگوں کے ریلوں سے یہی اندازہ ہورہا تھا۔ گاؤں ، محلے، شہر اورقصبوں سے یہی آواز آرہی تھی۔ انفرادی ملاقات میں بھی صرف بی جے پی نظر آرہی تھی اور اجتماعی جلسوں میں بھی وہی آگے تھی۔ مودی کی لہر تھی، ہندتوا کا ماحول گرم تھا۔ نفرت کی سیاست کامیاب ہوتی نظر آ رہی تھی۔ جو اس کا انکار کرے وہ یا تو حقیقت پسند نہیں ہے یا حالات سے بیخبر ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ وہ سورج کی موجودگی کا انکار کر رہا ہے۔

 دوسری پارٹیوں کا پورا زور مودی کے کام کاج میں کیڑے نکالنے میں صرف ہو رہا تھا۔ وہ پندرہ لاکھ کا مطالبہ کررہے تھے۔ چوکیدار چور ہے کا نعرہ لگا رہے تھے۔بے روزگاری کو ایشو بنا تے نہیں تھک رہے تھے۔ اقتصادی بحران اور مہنگائی یاد دلا کر لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مگر یہ سب سراب ثابت ہوا۔ مودی کی آندھی کے سامنے کوئی نہیں ٹک سکا۔ کوئی مقابلے کے قریب بھی نہیں پہنچ سکا۔ اپوزیشن پارٹیوں کا اتحاد بھی اس میں خاطر خواہ دراڑ نہیں لگا سکا اور اپوزیشن کی کاوشیں بھی اس میں سیندھ لگانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔

بی جے پی اپنی پلاننگ میں کامیاب ہوگئی۔ اس پارٹی کو اگرچہ ملک چلانا نہیں آتا۔ یہ اس میں بالکل ناکام اور فلاپ ہے۔ لیکن انہیں لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا، ان کی نبض سمجھنا، انہیں اپنی طرف مائل کرنا خوب اچھی طرح سے آتا ہے۔ اس لئے انہوں نے پرچار کے درمیان نہ تو اپنے کام گنائے اور نہ ہی کام کرنے کے وعدے کئے۔ اور گناتے بھی کیا؟ جب پانچ سالوں میں انہوں نے کچھ کیا ہی نہیں تھا سوائے ایک کام کے کہ لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کیا، ڈر کا ماحول بنایا، دیش بھکتی کا کھوکھلا نعرہ دیا،ملک کو خطرے میں دکھایا، ہندتوا کو سنکٹ میں بتایا، بھکتوں کو مذہب کی بھانگ پلائی پھر انتخابی مہم میں ان چیزوں کو خوب بھنایا اور یہی ہے ان کی کامبابی کا راز۔ لوگوں نے سمجھ لیا کہ اگر ملک کو محفوظ رکھنا ہے، اگر ہندوتوا کو بچانا اور ہندو مذہب کو پروان چڑھانا ہے تو ان کے پاس مودی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ہمارے خواب صرف یہی شرمندہء تعبیر کرسکتا ہے۔ اسی لئے انہوں نے ہر طرح کی تکلیف اور مالی بحران کو گورا کرلیا، وہ اس بات پر سمجھوتے کے لئے تیار ہوگئے کہ نوکریاں جارہی ہیں تو جانے دو، روزگار چھن رہا ہے تو چھننے دو، مہنگائی بڑھ رہی ہے تو بڑھنے دو،لیکن ہندوتوا تو آگے بڑھ رہا ہے، ملک تو محفوظ ہاتھوں میں ہے، بھارت ہندو راشٹر بننے کی طرف تو بڑھ رہا ہے۔لہٰذا یہ ماننے کے باوجود کہ کانگریس اور دوسری پارٹیوں کے حملے صحیح ہیں ، ان کے اعتراضات بجا ہیں ، ان کی باتوں میں وزن ہے، ملک اقتصادی طور کمزور ہوا ہے، انہوں نے ان باتوں کا کوئی اثر قبول نہیں کیا۔ چوکیدار چور ہے کو سن کر ان سنی کردی۔ کیونکہ وہ ایسا ملک چاہتے ہیں جس کے عوام اگرچہ پریشان حال ہوں مگر اس کے قائد کے اندر پاکستان کو منہ توڑ جواب دینے کی شکتی ہو۔ وہ ان کے گھروں میں گھس کر مارنے کی جرأت وطاقت رکھتا ہو۔ اس کے اندر ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی ہمت وحوصلہ ہو۔ غیر ہندؤوں کو مٹانے کی اسٹراٹیجی پر کام کرتا ہو۔ اقلیتوں کو ہراساں وپریشان کرنے اور ان پر ظلم وستم کرنے والوں کی ہمت افزائی کرتا ہو۔ اور یہ تمام خوبیاں صرف اورصرف مودی اور بھاجپا میں موجود تھیں اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

مگر اب مسلمانوں کا کیا ہوگا؟ کیا بھاجپا کے جیتنے کے بعد مسلمان بھارت سے ختم ہوجائیں گے؟ انہیں یہاں سے بھگادیا جائے گا؟ان کے مال وجائداد سب چھین لی جائیں گی، وہ بے سہارا وربے یار ومددگار ہوجائیں گے؟! اورانہیں مزید ظلم وستم کا سامنا کرنا پڑے گا؟! یہ سب وہ خدشات  ہیں جو اس وقت مسلمانوں کے ذہن میں آرہے ہیں اور اس بات کا قوی خطرہ بھی ہے کہ اللہ نہ کرے اب مسلمانوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ انہیں مزید خوف وہراس کی زندگی گذارنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ ان کے ساتھ ظلم وناانصافی کا تناسب بڑھ سکتا ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ ان حالات کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا صرف فاتح پارٹی ہے؟ کیا صرف ہندووں کا اتحاد ہے؟ کیا صرف دیگر پارٹیوں کا نکماپن ہے؟ کیا اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے؟ ہمیں ان سوالوں پربہت ہی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے جواب اور موجودہ انحطاط وزوال کے اسباب وعلل پر گہری نظر ڈالنے کی سخت حاجت ہے۔

آج ہندوستان نہیں بلکہ پورے عالم میں نے مسلمان جس کس مپرسی کی حالت میں ہیں ، جس طرح انہیں ستایا اور مارا جارہا ہے اس میں کمی کی بجائے آئے دن اضافہ ہورہا ہے۔ ایک جگہ کی حالت سدھر نہیں پاتی کہ دوسری جگہ مسلمانوں پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ایک ملک میں جنگ بندی نہیں ہوتی ہے کہ دوسرے اسلامی ملک میں جنگ کا ماحول بن جاتا ہے۔ ان تمام حوادث و حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ابھی مسلمانوں پر اور بڑی آزمائشیں آنی والی ہیں۔ ابھی انہیں ابتلاء میں مزید مبتلا رہنا ہے۔ ابھی ان کے لئے کوئی راحت نہیں اور انہیں آزمائشوں کا ایک حصہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا بڑی اکثریت سے ہندستان میں فتح حاصل کرنا ہے۔

ایسے حالات میں مسلمانوں کو چاہیے کہ دل برداشتہ نہ ہوں ، صبر کا دامن ہاتھ نہ چھوڑیں۔ بلکہ ان آزمائشوں میں کھرے اترنے کی کوشش کریں۔ کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس کا خمیازہ بعد میں بھگتنا پڑے، جو فائدہ کی بجائے نقصان کا سبب بن جائے اور یہ ہرگز نہ تصور کریں کہ حالات ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ان شاء اللہ حالات ضرور بدلیں گے۔ یقینا اللہ کی مدد آئے گی۔ تنگی کے بعد وسعت وکشادگی کا آنا قانون آلہی ہے۔ مگر اس کے لئے ہمیں پہلے خود کو بدلنا ہوگا۔ اللہ سے اپنے تعلقات کو مضبوط کرنا ہوگا۔

 آج ضرورت ہے کہ ہم سیاسی پارٹیوں سے تعلقات کے بارے میں اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کریں۔ بابصیرت سیاست کرنا سیکھیں۔ ہوا کا رخ پہچانیں اور یہ جان لیں کہ کوئی پارٹی مسلمانوں کی اپنی نہیں ہے۔ کانگریس نے مسلمانوں کو کیا دیا؟ ان کے حقوق کے لئے کون سا قانون بنایا؟ کیا اسکیم لائی؟ یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس نے مسلمانوں کو ہمیشہ صرف ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجو د بے وقعت ہیں۔ ہم الیکشن میں بالکل غیر مؤثر ہوچکے ہیں۔ مگر ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم اقلیت میں ہیں۔ ہم بلا حکمت ودانائی صرف اپنی تعداد کی بنیاد پر اکثریتی طبقہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ صدمے سے باہر آئیں۔ ان کی جیت پر افسردہ وغمگین نہ ہوں اور اللہ کی ذات سے خیر کی امید رکھیں۔

ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ مسلمان اپنی قدیم سیاست میں تبدیلی لائیں۔ فاتح پارٹی سے اپنی نفرت ودوری کی سیاست پر مالہ وماعلیہ کے اعتبار سے غور کریں۔ نفرت کا جواب نفرت سے ہرگز نہ دیں۔ حالات سے سمجھوتہ کریں۔ میل ومحبت کا ماحول عام کریں۔ دشمنوں کی چالوں کو ناکام بنائیں اور اپنے اخلاق وکردار سے لوگوں کو اسلام کے قریب کریں۔ خود اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجائیں۔ حقیقی مسلمان بن جائیں۔ تعلیم پر زور دیں۔ دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیں اور اس بات پر کامل یقین رکھیں کہ اللہ کی مرضی کے بغیر نہ توکوئی کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی نقصان۔عین ممکن ہے کہ آج جسے ہم ناپسند کر رہے ہیں اسی میں کہیں خیر کا پہلو پوشیدہ ہو۔

اللہ مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔ ان کا حامی وناصر ہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔