انسان اور زمین کی حکومت (قسط 117)

رستم علی خان

ایک دن جب کہ آپﷺ حسب معمول غار حرا میں مراقبہ میں مصروف تھے ایک فرشتہ غیب نظر آیا کہ آپﷺ سے کہہ رہا ہے؛ "پڑھ اس رب کے نام کے ساتھ جس نے کائنات کو پیدا کیا، جس نے آدمی کو گوشت کے لوتھڑے سے پیدا کیا، پڑھ تیرا رب کریم ہے، وہ جس نے انسان کو قلم کے زریعہ سے علم سکھایا، وہ جس نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو اسے معلوم نہ تھیں-"

آپﷺ گھر تشریف لائے تو جلال الہی سے لبریز تھے- آپﷺ نے حضرت خدیجہؓ سے تمام واقعہ بیان کیا- وہ آپﷺ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں- جو عبرانی زبان جانتے تھے اور تورات و انجیل میں ماہر تھے- انہوں نے آنحضرتﷺ سے واقعہ کی کیفیت سنی تو کہا یہ وہی ناموس ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر اترا تھا- روایت میں ہے کہ آنحضرتﷺ کو ڈر پیدا ہوا- حضرت خدیجہؓ نے کہا آپﷺ متردد نہ ہوں، خدا آپﷺ کا ساتھ نہیں چھوڑے گا- پھر وہ آپﷺ کو ورقہ کے پاس لے گئیں- انہوں نے آپﷺ کی نبوت کی تصدیق کی- آنحضرتﷺ کی زبان سے بےشبہ یہ الفاظ نکلے؛ "مجھ کو ڈر ہے-” لیکن یہ تردد، یہ ہیبت، یہ اضطراب، جلال الہی کا تاثر اور نبوت کے بارگراں کی عظمت کا تخیل تھا- آپﷺ نے کیا دیکھا، ناموس اعظم نے کیا کہا، یہ وہ نازک باتیں ہیں جو الفاظ کا تحمل نہیں کر سکتیں-

آنحضرتﷺ نے جب فرض نبوت ادا کرنا چاہا تو سخت مشکلیں پیش آئیں- اگر آپﷺ کا فرض صرف اس قدر ہوتا کہ مسیح علیہ السلام کی طرح دعوت تبلیغ پر اکتفا فرمائیں، یا حضرت موسی علیہ السلام کی طرح اپنی قوم کو لیکر مصر سے نکل جائیں تو مشکل نہ تھی- لیکن حاتم النبینﷺ کا کام خود سلامت رہ کر عرب اور نہ صرف عرب بلکہ پورے عالم کو فروغ اسلام سے منور کرنا تھا- اس لیے نہایت تدبیر اور تدریج سے کام لینا پڑا- سب سے پہلا مرحلہ یہ تھا کہ یہ پرخطر راز سب سے پہلے کس کے سامنے پیش کیا جائے- اس کے لیے صرف وہ لوگ منتخب کیے جا سکتے تھے جو فیض یاب صحبت رہ چکے ہوں- جن کو آپﷺ کے اخلاق اور عادات کی تمام حرکات و سکنات کا تجربہ ہو چکا تھا- جو پچھلے تجربوں کی بنا پر آپﷺ کے صدق دعویٰ کا قطعی فیصلہ کر سکتے تھے- یہ لوگ، حضرت خدیجہؓ آپﷺ کی حرم محترم تھیں، حضرت علیؓ تھے جو آپﷺ کی آغوش تربیت میں پلے تھے، حضرت ذیدؓ تھے جو آپﷺ کے آزاد کردہ غلام اور بندہ خاص تھے، حضرت ابوبکرؓ تھے جو برسوں سے فیض یاب خدمت تھے- سب سے پہلے آپﷺ نے حضرت خدیجہؓ سے بیان فرمایا جو سننے سے پہلے مومن تھیں- پھر اور بزرگوں کی باری آئی اور سب ہمہ تن اعتقاد تھے-

حضرت ابوبکرؓ، دولتمند، ماہر انساب، صاحب الرائے اور فیاض تھے- ابن سعدؒ نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ جب ایمان لائے تو ان کے پاس چالیس ہزار درہم تھے- غرض ان اوصاف کی وجہ سے مکہ میں ان کا عام اثر تھا اور معززین شہر ان سے ہر بات میں مشورہ لیتے تھے- ارباب روایت میں بیان ہے کہ کبار صحابہ میں سے حضرت عثمانؓ، حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف، حضرت زبیرؓ، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص، فاتح ایران حضرت طلحہؓ سب انہی کی ترغیب اور ہدایت سے ایمان لائے- ان کی وجہ سے یہ چرچا چپکے چپکے اور لوگوں میں بھی پھیلا اور مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا- ان سابقین اول میں، حضرت عمارؓ، حضرت خبابؓ بن الارت، حضرت عثمانؓ بن عفان، حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص، حضرت طلحہؓ، حضرت ارقمؓ، حضرت سعید بن زید، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عثمانؓ بن مظعون، حضرت عبیدہؓ اور حضرت صہیبؓ رومی (رضوان اللہ علیہم اجمعین) زیادہ ممتاز ہیں-

لیکن جو کچھ ہوا پوشیدہ طور پر ہوا- نہایت احتیاط کی جاتی تھی کہ محرمان خاص کے سوا کسی کو خبر نہ ہونے پائے- جب نماز کا وقت آتا تو آنحضرتﷺ کسی پہاڑ کی گھاٹی میں چلے جاتے اور وہیں نماز ادا کرتے- چاشت کی نماز آپﷺ حرم میں ہی ادا کرتے کیونکہ قریش کے مذہب میں یہ نماز جائز تھی- ایک دفعہ آپﷺ حضرت علیؓ کے ساتھ کسی درہ میں نماز ادا کر رہے تھے کہ اتفاق سے آپﷺ کے چچا ابوطالب ادھر آ نکلے- انہیں اس جدید طریقہِ عبادت پر تعجب ہوا- چنانچہ وہیں کھڑے ہو کر دیکھنے لگے- جب آپﷺ نماز ادا کر چکے تو پوچھا کہ یہ کونسا دین ہے- آپﷺ نے فرمایا ہمارے دادا ابراہیم علیہ السلام کا یہی دین تھا- ابوطالب نے کہا میں اس کو اختیار نہیں کر سکتا لیکن تم کو اجازت ہے اور کوئی شخص تمہارا مزاحم نہ ہو سکے گا-

یہ تاریخِ اسلام کا اہم مسئلہ ہے کہ اسلام کیونکر پھیلا- مخالفین نے اس کا زریعہ تلوار بتایا ہے- لیکن ہم یہاں مفصل بحث میں نہ پڑتے ہوئے چند خاص پہلو بیان کرنا ضروری خیال کریں گے- یعنی یہ کہ اس اسلام میں جب کہ اسلام لانا جان و مال سے ہاتھ دھونا تھا کون اور کس قسم کے لوگ ایمان لائے-

١: اکثر وہ لوگ ایمان لائے جو پہلے سے تلاش حق میں سرگرداں اور فطرتا نیک طبع اور پاکیزہ اخلاق تھے-

٢: بعض صحابہ ایسے تھے جو اخناف کے تربیت یافتہ تھے- یعنی وہ لوگ جو زمانہ اسلام سے قبل بت پرستی ترک کر چکے تھے اور خود کو حضرت ابراہیم کا پیرو سمجھتے تھے- لیکن اس اجمالی اعتقاد کے سوا ان کے پاس کچھ نہ تھا اس لیے تلاش حق میں سرگرداں تھے-

٣: اس کے علاوہ یہ امر سب میں مشترک تھا کہ یہ لوگ قریش کے مناصب اعظم میں سے کوئی منصب نہیں رکھتے تھے- بلکہ اکثر ایسے تھے مثلا عمارؓ، حبابؓ، صہیبؓ وغیرہ جن کو دولت و جاہ کے دربار میں جگہ بھی نہیں مل سکتی تھی- چنانچہ جب رسول اللہﷺ ان لوگوں کو ساتھ لیکر حرم میں جاتے تو روسائے قریش ہنس کر کہتے؛ "یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے ہم لوگوں کو چھوڑ کر احسان کیا ہے-” (القرآن)

کفار کے نزدیک ان کا اخلاص ان کی تحقیر کا سبب تھا- لیکن یہی وہ چیز تھی جس کے سبب ایمان کی دولت سب سے پہلے ان لوگوں کے ہاتھ آ سکتی تھی- دولت و مال ان کے دلوں کو سیاہ نہیں کر چکا تھا- فخر و غرور ان کو انقیاد حق سے روک نہیں سکتا تھا- ان کو یہ ڈر نہیں تھا کہ اگر بت پرستی ترک کر دیں گے تو سرداری یا کعبہ کا کوئی منصب ہاتھ سے چلا جائے گا- غرض ان کے دل ہر قسم کے زنگ سے پاک تھے اور حق کی شعاعیں ان پر دفعتہً پرتو افگن ہو سکتی تھیں- یہی سبب ہے کہ انبیاء علیہ السلام کے پہلے پیروکار  ہمیشہ مفلس اور نادار لوگ ہوا کرتے ہیں- عیسائیت کے ارکان اولین ماہی گیر تھے- حضرت نوح علیہ السلام کے پیروکاروں کے متعلق کفار اعلانیہ کہا کرتے تھے؛ "اور ہم تو بظاہر دیکھتے ہیں کہ تیری پیروی انہی لوگوں نے کی جو رذیل ہیں، اور ہم تو تم میں کوئی برتری نہیں پاتے بلکہ ہمارے نزدیک تو تم سب جھوٹے ہو-” (القرآن)

القصہ رسول اللہﷺ نے تین برس تک نہایت رازداری سے فرض تبلیغ ادا کیا- لیکن جب آفتاب رسالت بلند ہو چکا تو صاف حکم آیا؛ "اور تجھ کو جو حکم دیا گیا ہے واشگاف کہہ دے-” نیز حکم ہوا؛ "اور اپنے نزدیک کے خاندان والوں کو خدا سے ڈرا-” (القرآن)

آنحضرتﷺ نے کوہ صفا کے پہاڑ پر چڑھ کر پکارا؛ یامعشر القریش ! جب لوگ جمع ہو گئے تو آپﷺ نے فرمایا؛ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے عقب سے ایک بڑا لشکر تم پر حملہ کرنے کو تیار کھڑا ہے تو کیا تم میری بات مانو گے- تو سب نے یک زبان ہو کر کہا؛ بیشک، ہم نے ہمیشہ تجھے ہر بات میں سچا پایا ہے- تب آپﷺ نے فرمایا تو میں یہ کہتا ہوں کہ کلمہ پڑھ کر ایمان لے آو، اگر تم ایمان نہیں لاو گے تو تم پر عذاب شدید نازل ہو گا- یہ سن کر سب لوگ جن میں آپﷺ کا چچا ابو لہب بھی تھا آپﷺ سے سخت برہم ہوئے اور آپﷺ کو دیوانہ وغیرہ کہہ کر پتھر مارے اور وہاں سے واپس چلے آئے-

چند روز کے بعد آپﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ دعوت کا سامان کرو- یہ درحقیقت تبلیغ اسلام کا پہلا موقع تھا- تمام خاندان عبدالمطلب مدعو کیا گیا- حضرت حمزہؓ، ابوطالب، عباس سب شریک تھے- آنحضرتﷺ نے کھانے کے بعد کھڑا ہو کر فرمایا؛ میں وہ چیز لیکر آیا ہوں جو دین اور دنیا دونوں کی کفیل ہے- اس بارگراں کے اٹھانے میں کون میرا ساتھ دے گا- تمام مجلس میں سناٹا تھا، دفعتہً حضرت علیؓ نے کھڑے ہو کر فرمایا؛ گو مجھ کو آشوب چشم ہے، گو میری ٹانگیں پتلی ہیں، اور گو میں سب سے نوعمر ہوں، لیکن اس سب کے باوجود میں آپﷺ کا ساتھ دوں گا-

قریش کے لیے یہ ایک حیرت انگیز منظر تھا کہ دو شخص جن میں سے ایک ابھی بلکل بچہ تھا دنیا کی قسمت کا فیصلہ کر رہے ہیں- حاضرین کی بیساختہ ہنسی چھوٹ گئی- لیکن آگے چل کر وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ سراپا سچ تھا-

تبصرے بند ہیں۔