بے حسی و خود غرضی

عالم نقوی

ہم سب بلا تفریق رنگ و نسل و مذہب و قوم، بے حسی و خود غرضی کے قومی  بلکہ عالمی   دھارے میں بہہ رہے ہیں۔ مسائل خواہ انفرادی ہوں یا اجتماعی اُن کی جڑ میں  بیشتر، اپنی ذات اور اپنے مفاد کو ہمیشہ دوسروں پر ترجیح دینے والا ہمارا  یہی غیر اسلامی  رویہ رہتا  ہے۔ کیا امیر اور کیا غریب، ایثار و قربانی کی روح سے مطلق نا آشنائی  ہی ہماری پہچان   بن چکی ہے۔

دس ذی ا لحجہ کو بنام قربانی جو کچھ ہم کرتے ہیں اُس میں بھی، شاید نوے  فی صد سے بھی زائد، اللہ معاف کرے، خود نمائی و خود غرضی ہی غالب رہتی ہے۔ ایثار و قربانی کے الفاظ  ہمارے روز مرہ سے خارج ہو چکے ہیں۔ بول چال میں بھلے ہی یہ الفاظ  مستعمل ہوں، لیکن، ہم اُن کے اصلی معنیٰ و مفہوم سے  مطلق بے خبر اور یکسر  بے بہرہ ہیں اور ستم یہ ہے کہ ہمیں اپنے اس نقصان ِعظیم کا احساس تک نہیں ہے۔ ہم نے  عید قرباں کے دوسرے دن  خوشحال مسلمانوں کے محلے میں  ’دو بوٹی گوشت ‘ مانگنے والوں  کی آواز کو بھی صدا بصحرا ہوتے دیکھا ہے !

ہم لکھنو، کلکتہ (جو اب کولکاتہ ہو چکا ہے ) دہلی، بمبئی (جو ہمارے سامنے ہی ممبئی ہوا ہے ) اور ممبرا(کوسہ، تھانے ) سے ہوتے ہوئے  اب   مادر علمی علی گڑھ مسلم  یونیورسٹی کے جوار میں آباد ہیں۔ لیکن ہم نے منصور نگر، پل غلام حسین اور  نخاس )لکھنؤ) خضر پوراور کولو ٹولہ (کلکتہ) سوئیوالان اور خورَیجی (دہلی)مدن پورہ(ممبئی) ممبرا(تھانے) اور دودھ پور،سر سید نگر، جمال پور  اور شمشاد (علی گڑھ) میں کوئی فرق نہیں پایا۔ کیا امیر اور کیا غریب کیا بوڑھے اور کیا جوان، کیا مرد اور کیا خواتین جو ہے وہ بے حسی اور خود غرضی سے  آلودہ  نظر آتا ہے۔

ممکن ہے ہمارے کچھ قارئین کو یہ پڑھتے ہوئے غصہ آرہا ہو اس لیے بطور صفائی پہلے  ایک کلیہ بیان  کر دینا ضروری  سمجھتے ہیں کہ  اِس دنیا میں  ہر کلیے کا استثنیٰ اصولاً اور لازماً موجود ہوتا ہے۔ لہٰذا ہم نے جو کچھ بھی اوپر بطور کلیہ عرض  کیا ہے بلا شبہ اُس کے بھی استثنیٰ موجود ہیں۔ لیکن بات جب کلیے کی ہو رہی  ہو تو یہ ضروری  نہیں ہوتا کہ بلا فاصلہ اُس کلیے کے مستثنیات   کا بیان بھی ضرورکیا جائے ۔

اب آئیے ہم نے اوپر جو کچھ  لکھا ہے اُس کی سیکڑوں میں سے  کچھ  مثالیں ملاحظہ ہوں !

گندگی، بد نظمی اور بے ترتیبی مسلم اکثریتی علاقوں کی بنیادی شناخت ہیں۔ ’سُوَچّھ بھارت ‘کے نعروں اور نام نہاد متعلقہ  اسکیموں کے آثار مسلم  محلوں میں کہیں  نظر نہیں آتے۔ گندے پانی کی نالیاں کوڑے سے بھری رہتی ہیں نتیجے میں ہلکی سی بارش بھی گلی اور سڑک پر گندے پانی کے سیلاب کا سبب بن جاتی ہے۔ نصف صدی قبل کے باضابطہ کوڑا گھروں کے بجائے، تراہوں، چوراہوں اور گلیوں کے نکڑ، کوڑا گھر اور کچرے کے’ ڈلاؤ ‘بنا دیے  گئے ہیں۔ نتیجے میں اُن مقامات پر گلی اورسڑک کا دوتہائی  حصہ آمد و رفت کے لائق نہیں رہتا۔ علی گڑھ میں دُوہَرَّہ معافی، جمال پوراور میڈیکل کالج کیمپس کے دونوں جانب پچیس تیس فٹ چوڑے اور کئی کلو میٹر طویل دو عدد  نالے بہتے ہیں۔ ’’بہتے ہیں‘‘ تو ہم نے عادتاً لکھ دیا ہے کہ ندی نالوں کا کام ہی بہنا اور بہتے رہنا ہے اور ہونا چاہیے، لیکن دودھ پور کی نالیوں کی طرح یہ دونوں  نالے بھی ’جامد‘ ہو چکے  ہیں، اس لیے کہ یہ بھی کوڑے (اور کچرے) سے لَبا لَب بھرے ہوئے ہیں !اب کوئی کہے کہ نالیوں اور نالوں کی صفائی نہ ہونے کا مسلمانوں سے اور وہ بھی اُن کی بے حسی اور خود غرضی سے کیا تعلق ؟ صاف صفائی تو میو نسپلٹی  اور کارپوریشن کے کام ہیں۔ درست۔ لیکن، جہاں تک سرکاری اداروں کا تعلق ہے، غیر تحریری احکامات کی بنا پر، اُن کی تو غیر اعلان شدہ حکمت عملی  عرصہ دراز سے یہی ہے کہ مسلمانوں کے محلوں  میں حتی ا لمقدور  صفائی نہ کی جائے یا بس برائے نام اور محض دِکھاوِے کے لیے، سطحی اور وقتی طور پر۔ جیسے عید، بقر عید کے موقعوں پر، اوپر  اوپر کی ظاہری صفائی اور سڑکوں اور گلیوں کے دونوں کناروں پر چونے کا چھڑکاؤ وغیرہ وغیرہ !

سڑکوں اور گلیوں کے ڈلاؤ سے کوڑا اٹھایا جاتا ہے لیکن اس طرح کہ پانچ  دس فیصد وہیں اور طدور تک پھیل جاتا ہے یا  پھیلا  دیا جاتا ہے کہ کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو نے پائے  کہ اب یہاں سے ’ڈلاؤ‘ ختم کر دیا گیا ہے ! یہ علاقے پچہتر  سے  ایک سو فی صد تک مسلم اکثریتی علاقے ہیں۔ اِن میں’ دوہرّا معافی‘ کو تو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ایشیا کے سب سے زیادہ پڑھے لوگوں  کے ’گاؤں‘ کی حیثیت سے گنیز بک آف ریکارڈ میں اُس کا اندراج ہے۔ اور جن دو نالوں کا اوپر  ہم نے ذکر کیا ان کےایک جانب سڑک اور دونوں جانب صد فیصد مسلمانوں کی آبادی ہے۔ اور نچلے یا  متوسط طبقے کی نہیں، صد فیصد اَپَر کلاس ، اعلیٰ تعلیم یافتہ، بیشتر پروفیسر حضرات کے بنگلے یا ڈوپلکس Duplexہیں !

صفائی کرمچاری دوسرے علاقوں کا کچرا لاکر یہاں نالوں میں ڈالتے ہیں یا نہیں یہ تو وہاں رہنے والے ہی بتا سکتے ہیں لیکن طبقہ امرا کے بنگلوں کا ساراکوڑا وہیں نیچے یا سامنے نالوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اسی طرح  دودھ پور (امیر نشاں ) چوراہے سے جامعہ اردو ہوتے ہوئے میڈیکل کالج تک کی کئی کلو میٹر طویل سیدھی سڑک کے دونوں جانب بلڈنگوں، کثیر منزلہ عمارتوں  کے مکین اور دوکانوں کے مالکان کی نوے پچانوے فیصد تعداد مسلمانوں پر مشتمل ہے یعنی یہ جیون گڑھ جیسی غریبوں کی بستی بہر حال نہیں ہے۔

ہمارا  معروضہ  بس اتنا ہے کہ  نالوں کے دونوں کناروں پر رہنے والے  اُمرا ء اور پروفیسر حضرات اور سڑک کے  دونوں کناروں پر واقع دوکانوں کے  خوش حال مالکان، سرکاری صفائی کرمچاریوں کی مدد کے بغیر بھی، کیا  اپنے نالوں اور نالیوں کی صفائی خود  نہیں کرواسکتے ؟کیا اپنے گھر اور اپنی دوکان کا کوڑا خود ہی اپنے گھر کے سامنے کے نالے اور اپنی دوکان کے سامنے کی نالی میں ڈال کر اُنہیں بند کردینا،کسی مسئلے کا حل ہے ؟کیا یہ  حد درجہ بے حسی اور  انتہائی حماقت کی دلیل نہیں ؟اور کیا یہ پڑھے لکھے، تعلیم یافتہ، ملکی قوانین سے واقف، بااثر، خوش حال اور امیر کبیر لوگ اور پروفیسر حضرات  اپنے علاقے کے کارپوریٹر، ممبر اسملی اور ممبر پارلیمنٹ پر ’’بامعنی اور پُراَثر دَباؤ ‘‘ڈال کر اُن سے اپنے اپنے  علاقوں کے، جو اُن سبھوں کے ووٹ بینک بھی ہیں، نالوں اور نالیوں کی بامعنی صفائی (مودی اینڈ کمپنی کے  نام نہاد سوچھتا ابھیان والی نمائشی صفائی نہیں) کراسکتے؟

ہم نے کئی سال قبل علی گڑھ کے  ایک مشہور مقامی ممبر اسمبلی  کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ  وہ اگر چاہیں تو سر سید نگر اور  دُوہَرّا کے دونوں نالوں کی صفائی کرا کے انہیں کنکریٹ کی بڑی بڑی سِلَیبُوں سے ڈھک کر، اُسی طرح اُن کے اوپر سے دو چوڑی  سڑکیں نکال سکتے ہیں جس طرح لال جی ٹنڈن نے  (جو ابھی چند روز قبل ہی بہار کے گورنر نامزد کیے  گئے ہیں) مغربی  لکھنو کے اپنے حلقہ انتخاب میں عبد العزیز روڈ (جھنوائی ٹولہ) سےمَعالی خاں کی سرائے (ہردوئی روڈ) تک  مشہور ’سر کٹے نالے ‘ کو  بند کر کے اُس پر ایک چوڑی سڑک تعمیر کروا دی ہے، جہاں صرف ایک گندا نالہ اور نہایت  تنگ اور پتلی گلیاں تھیں کہ جن میں سائکل رکشہ تک  نہیں جا سکتا تھا۔ سول لائنس علی گڑھ کے ممبر اسمبلی صاحب نےہماری تجویز پر  غور کرنے کا وعدہ تو کیا تھا لیکن اس کے لیے کسی کوشش کی ابتدا  تک نہیں کی اور اب تو وہ پچھلا الکشن بھی ہار چکے ہیں۔

بے حسی اور بد ترین خود غرضی کا ایک اور نمونہ روزانہ، سڑکوں اور اُن کے چوراہوں اور تراہوں پر ’جام‘(Road Jam)  کی صورت میں کوئی بھی دیکھ سکتا ہے جس کے ذمہ دار  دو، تین اور چار  پہیہ گاڑیوں کے ڈرائور حضرات  ہوتے ہیں ! جام کا سبب صرف یہ ہوتا ہے کہ اُن میں سے ہر ایک دوسروں سے پہلے اور دوسروں سے آگے نکل جانا چاہتا ہے !اُن میں سے کوئی ایک بھی کسی دوسرے کو راستہ دینے  کا روادار نہیں ہوتا بلکہ خود ذرا ٹھہر کے کسی دوسرے کو راستہ  دے دینا اپنی توہین سمجھتا ہے! سڑکوں اور چوراہوں وغیرہ پر جام لگنے کے سب سے زیادہ ذمہ دار وہ موٹر سائکل سوار ہوتے ہیں جو اپنے آگے بڑی گاڑیوں کو رُکا ہوا   دیکھ کر ذرا صبر کرنے اور پیچھے ہی ٹھہر کر تھوڑا انتظار کرنے کی زحمت اٹھا لینے کے بجائے، جھٹ ، مخالف سمت سے آنے والوں کے لیے مخصوص، دائیں جانب کے خالی راستےپر پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ اپنی گاڑی ڈال دیتے ہیں۔ ٹھیک یہی کام سامنے سے آنے والے ٹو وہیلر سوار بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ نتیجہ ؟ کیا آپ بھی روزانہ یہ منظر  نہیں دیکھتے ؟ جب دونوں طرف کے لوگ  اپنی اپنی لین (Lane)میں رہتے ہوئے تھوڑا صبر کرنے کے بجائے ’رانگ سائڈ ‘ لے کر آگے نکلنے کی کوشش کریں گے تو جام تو لگے گا ہی !

 ہم سعودی عرب، ایران اور عراق جا چکے ہیں۔ ان تینوں ملکوں میں ہندستانیوں کی کوئی کمی نہیں اور تینوں ہی جگہ فی کس گاڑیوں کی تعداد بھی ہندستان سے زیادہ ہی ہے لیکن ہم نے کہیں بھی سڑکوں پر  اپنے ملک جیسا  بے ترتیب اور بے ہنگم جام  لگتے نہیں دیکھا !ریڈ لائٹ پر لمبی لمبی لائنیں  وہاں بھی لگتی   ہیں لیکن کوئی کسی کو خواہ مخواہ اُووَر ٹیک کرنے اور ہمارے شہروں کی طرح  ’رانگ سائڈ ‘سے نکلنے کی کوشش  تو ہر گز  نہیں کرتا۔ جس کا واضح  نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گرین سگنل ملتے ہی سب گاڑیاں جس طرح ایک دوسرے کی پیچھے سکون سے کھڑی ہوتی ہیں اُسی طرح smoothly آگے بڑھ جاتی ہیں اور کسی بھی شور شرابے، گالم گلوچ یا ہنگامے کے بغیر ‘ جام ‘ختم ہوجاتا ہے۔

    دوسری خصوصیت اُن تینوں ملکوں کی یہ ہے کہ وہاں سڑکوں پر’شور ‘ نہیں ہوتا ! یعنی کوئی بھی ہارن نہیں بجاتا جبکہ ہمارے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ہر دو تین چار پہیہ ڈرائور اپنی ایک انگلی ہارن ہی پر رکھنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں  ۔ سبب اس کا بھی وہی ہے جو ’جام ‘ کا سبب ہوتا ہے یعنی حد درجے کی خود غرضی و بے حسی کا ننگا مظاہرہ  اور ایثار و قربانی کا مطلق فقدان ! جن سڑکوں اور گلیوں پر بیس کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار بھی زیادہ ہوتی ہے وہاں  بے حس اور خود غرض والدین کی ان سے زیادہ بے حس اور خود غرض اولادیں اور پڑھے لکھے جاہل استادوں کی اُن سے زیادہ جاہل شاگردوں کی ٹولیاں بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں بھی ایک ہاتھ ہارن پر رکھ کر ساٹھ ستر بلکہ اَسّی کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنی موٹر سائکلیں دوڑاتی ہیں۔ اور اب نئے زمانے کا ایک نیا عذاب اوپر سے مستزادکہ جسے دیکھو وہ موبائل پر بات کرتے ہوئے ڈرائیو کر رہا ہے اور خود کشی کرنے یا دوسروں کی جان لینے پر آمادہ ہے۔ (جاری)۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔