بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

شہاب مرزا

علامہ اقبال کے ان گنت پہلو ہے۔ کبھی اقبال زندگی ہے تو کبھی موت ہے کبھی رمزہے تو کبھی سرور ہے کبھی رموز بے خودی ہے کبھی اسرار خودی ہے کبھی حقائق کے پردوں کو مجاز کے آئینے میں عیاں کرتا ہے تو کبھی مجاز کو آشنا کرتا ہے۔ اقبال کے ان گنت پہلوئوں کو واضح کرنا ممکن نہیں ہے۔ بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں۔  میں اس شخص کے لئے الفاظ کہاں سے لاؤں جس نے اپنے  اشعار میں آفاقی نقشہ کھینچ کر رکھ دیا تھا۔ اقبال کو بیان کرنے سے میں  عاجز ہوں کیونکہ اقبال کا اقبال تو اقبال ہی جانتا ہے۔ اس کا مذہب سیاست سے گذرتا ہے تو اس کی سیاست آتش نمرود کو سرد کرتی ہیں۔  کبھی سربسجدہ ہوتا ہے اور کبھی مٹی کا حرم طلب کرتا ہے ہر قدم پر اسے سجدوں کے نشان ملتے ہیں۔  اور ہر فضاء میں نعرہ تکبیر گونجتا ہے کبھی فتنہ گری کی آزمائش سے گزرتا ہے۔ اور کبھی فتنوں کے دریا کو پار کرتا ہے گنبدوں پر پہاڑوں کو ترجیح دیتا ہے۔ تو کبھی اس کا تخیل عرش میں گم ہوتا ہے اس کی بے خودی خودی میں بدل جاتی ہے۔ تو کبھی خودی پر بے خودی حاوی ہو جاتی ہے اقبال کیا ہے اس کا سِرا تلاش کرنا شائد کسی کے لئے ممکن نہ ہو ہمارے لئے سیاسی اقبال فلاسفر اقبال عاشق اقبال اور ہمہ  جہت اقبال موجود ہے۔ لیکن اقبال کے تخیل کا محور صرف اقبال ہے یہ تعارف ہے علامہ اقبال کا ان کی  شاعری نے جہاں میں دیدہ پیدا کئے اور جن کی بے نوری پر ہزاروں صدیاں روتی رہی اور صدیوں کے بعد پیدا ہونے والا دیدہ ور بھی صرف اور صرف اقبال ہی ہے۔ اقبال تو بس اقبال ہی ہے اقبال کے علاوہ کوئی اقبال نہیں۔

 یہ واقعہ۱۹۲۸کا ہے جب شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کے نام سے دنیائے فلسفہ میں سورج کی طرح روشن ہوا۔ اور انہو ں نے اپنی شاعرانہ نظر سے اس کائنات کے حقائق کو دیکھا تو اس کی  مجازی صورت پر زاروقطار روپڑا اس نے طئے کیا کہ اب میں کبھی شاعری نہیں کرونگا لیکن ا سکے ارادوں کو بھانپ کر اس کے فلسفی استاد نے اس میں موجود رموز واسرار کو بھانپتے ہوئے اسے اپنے ارادے سے بازرکھا اور اقبال نے جب قلم اٹھائی تو انہوں نے اپنے مجازی  تخیل کو حقیقت میں بدلنے کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے درکار نگاہ مومن پیدا کئے اور جمادات ونباتات سے پرے انسان کو تقدیر  کی غلامی سے بھی آزادی دی۔ اسی آزادی کی خاطر اقبال میدان جنگ میں ہر لمحہ اپنی شمشیر بے نیام کے گر دیکھتا نظر آتا ہے۔ اسلام عیسائیت بدھزم ہندوازم او ریہودیت کی تمام کڑیوں  کویک لخت توڑ کر کائنات کے حقیقی نظریے کو پیش کرتے ہوئے اللہ کی زمین  پراللہ  کے نظام کے قیام کے لئے اللہ کی زمین کو ہموار کیا اسی کے ساتھ فرعونوں قارونوں نمرودوں کے چہرے سے انا ربکم العلی کا نقاب پھاڑ دیا۔  اور کائنات کے ہر ذرے سے الحمد اللہ رب العالمین کی تسبیح بیان کروائی۔ حتی کے ہر شئے کو ہر انسان کو سراغ زندگی دکھانے کے لئے  خودی میں گم کردیا اور تو اور نالہ بلبل کی سننے کا شکوہ بھی کیا اور خوگر غم میں ہمنوائی جتلاتے ہوئے گویا بھی ہوئے۔

یہ1928کی بات  ہے جب علامہ اقبال نے انسانوں پر مذہبی تشددیکھا، ارباب اقتدار کی جانب سے انسانو ں کا استحصال دیکھا اور اس نمرودی آتش میں انسانو ں کی سلامتی تلاشنے لگے۔ توانہیں اعلائے کلمات اللہ یا دآیا پھر علامہ اقبال نے دیروحرم کا سفر کرتے ہوئے کنجش کر فروما کو شاہین سے لڑادیا۔ اور پھر مرمری سیلوں سے بیزار ہو کر مٹی کا وہ حرم تعمیر کیا کہ پوری انسانیت سلامتی میں پناہ تلاشنے لگی۔ اس   مشن کے تحت علامہ اقبال نے حزب اللہ قائم کی اسکی صدارت کا ذمہ اپنے دور کے مایہ ناز مفکر مولانا ابوالکلام آزاد کے سپوت کی لیکن  ترکی کے خاتمے کے بعد اس صدارت کے قدموں میں بھی لرزہ تاری ہوگیا اور آخر کار انسانوں کی خون ریزی سے خوفزدہ ہو کر مولانا ابوالکلام آزاد نے جمہوری نظام سے مجبوراً ہاتھ ملایا۔ لیکن علامہ اقبال نے ہمت نہیں ہاری اور فرمایا

کہاں کا سکون کیسی عافیت پوچھی ارے نادان

تیری کشتی کو ایک پرشور طوفان کی ضرورت ہیں

حالات بڑے سنگین تھے ملک کی آزادی اور تقسم ہند کے طوفان میں لوگوں کی زندگیا ں تنگ ہوچکی تھی نفسانفسی کا عالم تھا۔ ہندو مسلم فسادات کی آگ  نےپورے ملک  کو اپنی لیپیٹ میں لے لیا تھابڑے بڑے قائدین ملت ہمت ہار چکے تھے ایسے پر آشوب دور میں  مسلمانوں کا دینی اور ملی استحکام اور وجود قطرے میں پڑ گیا تھا۔ دینی وملی قیادت دم توڑچکی تھی فرقہ پرستی کے طوفان میں مسلمانوں کی حیثیت سوکھے پتے کی طرح بے وزن ہوچکی تھی۔ ایسے دور میں اسلام پر مسلمانوں کے وجود کی سلامتی کے لے درکار فکری مواد فراہم کرنے میں علماء اور ملی قائدین ناصرف ناکام ہوئے بلکہ کئیوں نے مسلمانوں کا اور اسلام کا سودا بھی کرلیا تھا۔ لیکن علامہ اقبال نے آخری دم تک اسلام ہی کو قوم کی  فلاح وبہبوداور نجات کا ذریعہ بتایا۔

خاص بات یہ ہے کہ اس پیشکش میں اقبال  نے وہ طرز استعمال کیا کہ نہ صرف مسلمان بلکہ دشمنان اسلام بھی اسلام کی سچائی کے سامنے زانوئے ادب طئے کرگئے۔ علامہ نے پیش کئے ہوئے اسلام کی اسی صداقت کو دنیا بھر میں تسلیم کیا گیا۔  ان کی پیش کش کے سامنے اسلام دشمن قوتیں منہ کے بل گرگئی اور مستشرقین ہاتھ ملتے رہ گئے حتی کہ مسلمانو ں میں سار دھن دولت اور جائیداد واملاک پر اسلام کو فوقیت دینے کا وہ جذبے پروان چڑھا کہ ۸۰ سال کا طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود انکا کلام مسلمانوں میں جوش ایمانی پیدا کرتا ہے اور یہی ہر دور میں نئے انقلاب کی روح پیدا کرتا ر ہے گا۔ افسوس صد افسوس۔

اسلام کی تاریخ کے عظیم مفکر دور اندیش فلسفی اور عظیم شاعر علامہ اقبال سے نسل نو واقف نہیں ہے اور ہم بھی انہیں یاد کرنے سے گریز کرتے ہیں۔  شائد ہی اب تا قیامت علامہ اقبال جیسا شاعر پیدا ہو۔

کیونکہ خود اقبال

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے پیدا ہوا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ڈاکٹر محمد اقبال جذبات(=عشق) کو عقل پر غلبہ دیتے تھے۔ اور یہی وہ فکری غلطی ہے جو افراد ہی نہیں اقوام کو بھی تباہ کرتی ہے۔
    در حقیقت عقل کو جذبات پر حاکم ہونا چاہیے۔ اسی میں انسانیت کی بقا اور فرد کی فلاح ہے۔

تبصرے بند ہیں۔