بے زبان کے نام پر سیاست،تباہی کا عندیہ!

فیضان شاہد قاسمی

یہ ملک بھارت یوں تو جمہوری ملک ہے اور یہاں سبھی کو اپنے مذہبی نقطہ نظر سے گذر اوقات کا مکمل حق ہے شاید یہی وجہ ہے کہ اس کی عظیم جمہوریت کو اقوام عالم میں قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس ملک کے نمائندہ افراد ملک کی جمہوری اور سیکولر تصویر دوسرے ملک کے معززین کو دکھاتے پھرتے ہیں ۔ہمارے ملک کے وزیر اعظم خود کہ جن کے دامن پر گجرات قتل عام کا داغ ہے،وہ بھی دیس بدیس سیکولر تصویر کیساتھ ہی دورے پر دورے کئے پھرتے ہیں ؛ لیکن انہیں اپنے دورہ انگلستان میں خفت کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ان سے ایک انگریز صحافی نے پوچھ لیا کہ ”آپ پرقصائی کا الزام کیوں ہے“۔

جب کہ ملک کی اندرونی اور اس مبینہ سیکولرشبیہ کی صورتحال بھی دگرگوں ہے اور ان کی پارٹی کے کارکنان جنہیں اپنی خود ساختہ ہندوتو شدت پسندی پر ازلی ایقان و اذعان ہے وہ ملک کی دوسری اقلیت پر اپنے افکار کی مشق اور اپنی برہنہ سوچ کے اظہار سے دریغ بھی نہیں کرتے ہیں ۔دادری سے لیکر الور تک اور الور سے لیکر بلند شہر تک ان کے متبعین و پیروکار کی برہنہ رقص کی تصویر زار زار نمایا ں ہے جس سے کم از کم ان کے مشتہرین میڈیائی کارکنان بھی انکار نہیں کرسکتے،البتہ ان کے نزدیک وہ افراد قصور وار اور گناہ گار ہیں جو ان حادثات کو کوریج دیتے ہیں اور پھر ان کے مشتہرافراد کو سیاہ کو سفید دکھلانے سے فرصت ہی کب ملتی ہے کہ وہ الور اور بلند شہر کے واقعات کو عوام کے سامنے لاتے رہیں ،اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو پھر انہیں ان کی زعفرانی صحافت ملامت کرے گی۔

مولانا ارشد مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند کا ایک بیان حالیہ وقت میں آیا ہے جب کہ اس دوران ملک میں گائے کے نام پر مسلمانوں اور دلتوں پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے اور ان کے زد و کوب کا کوئی موقعہ ہاتھوں سے جانے بھی نہیں دیا جا رہا ہے۔مولانا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ گائے کو قومی جانور کا درجہ دیا جائے تاکہ مکمل گائے کو تحفظ فراہم ہو سکے اور اس بے زبان کے نام پر کوئی سیاست نہ کی جاسکے۔صورتحال یہ ہے کہ ملک میں جب سے بھگوا سیاست برہنہ ہوئی ہے اور اس کے مفاد عامہ میں سیکولرزم حائل ہوا اس وقت سے نت نئے بیانات اور افعال دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں اور پھر گائے کو لیکر جس طرح کی لے دے مچی ہوئی ہے اس سے اچھا ہے کہ یکبارگی ہی یہ کہہ دیا جائے کہ گائے قومی جانور ہو تاکہ گائے کے نام پر چل رہی کشمکش اور مخمصہ ہمیشہ کیلئے ہی ختم ہوجائے۔مولانا اس بیان کو قدر اور حوصلہ افزائی کی نظروں سے دیکھنا چاہئے تاکہ پھر اس ملک میں بے زبان کے نام پر برہنہ سیاست نہ کی جائے اور تیس کروڑ مسلمان گائے کے نام پر بے قصور مارے نہ جائیں ۔یہ تو ان کی حالت اور صورت پر منحصر ہے کہ وہ اپنی رو میں کس کو معبود کا درجہ دے رہے ہیں ،کس کی پوجا کررہے ہیں ،تاہم تشویش کی بات تو یہ ہے کہ اس حب بقرۃ میں انسانیت دم توڑ رہی ہے اور دادری سے لیکر الور تک جس طرح کی دہشت گردی پھیلائی ہے وہ قابل مذمت ہے۔

ملک کی سیاست اب قومی مسائل کے حل و تصفیہ کے بجائے گائے،طلاق ثلاثہ،مسلم عورت کی بدحالی،بیف اور ووٹنگ مشین میں الجھ کر رہ گئی ہے جب کہ سرحد پر اور سرحد کے اندر بھارتی سرحدوں کے محافظوں کے ساتھ انسانیت سوز حرکتیں کی جارہی ہیں اور ملک کے محافظین ٹی وی اسکرین پر گائے کے تقدس کی قسمیں کھا رہے ہیں ۔گائے کا تقدس اور اس عظمت کا ہی اگر سوال ہے تو پھر ان گائے کا کیا ہوگا جو بوڑھی ہوکر دودھ دینے سے قاصر ہوگئی ہیں ؟اور اس سے بڑھ کر المناکی تو یہ ہے کہ ان بیکار گائے کے چارے اور گھاس کا انتظام کس فنڈ سے کیا جائے گا خود برسر اقتدار جماعت کیلئے درد سر اور مشکل معمہ ہے۔گائے اگر برادران وطن کی عقیدت کی رو سے ”ماں “کے درجہ کی حامل ہے تو یقینا ان کروڑوں سپوتوں سے سوال بھی کیا جانا چاہئے کہ بلا شبہ گائے کو ماں تسلیم کرت ہوئے بھی ”الکبیر“ کے علاوہ چوبیس بیف ایکسپورٹر جو ملک کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں وہ کس طرح اور کیوں ”ماں “ کے بیف عرب ملکوں میں بھیج کر اربوں ڈالر کما رہے ہیں ؟جب کہ وید اور پرانوں میں اس مبینہ ”ماں “ کی عقیدت و محبت کا حکم دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ جو بھی اور جہاں بھی بیف ایکسپورٹر ہیں وہ یا تو برہمن ہیں یا پھر ان کا تعلق ہندو دھرم کے کسی نہ کسی برادری سے ضرور ہے۔راقم نے خود خورجہ کے قیام میں دیکھا کہ کئی سلاٹر ہاؤس کے مالک ہندو ہیں ؛ لیکن ان کے یہاں کام کرنے والے مزدور مسلمان ہیں اور حیرت تو یہ ہے کہ ان بیف ایکسپورٹر ز اپنے سلاٹر ہاؤس میں امام و مؤذن کا بندوبست بھی کر رکھا ہے جو کم از کم ان مسلم مزدور کو تین وقت کی نماز ادا کراسکیں ۔ان تمام مکاریوں اور ریاکاریوں کا ایک فائدہ مجھے جو محسوس ہوا کہ دیکھنے والے مبادا سلاٹر ہاؤس مالکان کو غیر مسلم تصور نہ کرسکیں اور منطق بھی یہی کہتی ہے کہ بادی النظر میں وہی شی سمجھ میں آئے گی جو نگاہ میں ہیولی اور تجسیم کی صورت نظر آرہی ہے؛کیونکہ وقت کی سحرکاری ہرایک کے عقل و خرد کو مفلوج کر دیتی ہے۔

مولانا ارشد مدنی کے بیان کے تمام پہلوؤں کو پر کھنے کے بعد برملا کہنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے کہ یہ مطالبہ کسی کج نگاہ و عقل کا نہیں ہے؛ بلکہ گائے کو قومی جانورمان لینے کا مطالبہ دور رس نتائج و فوائد پر مشتمل ہے؛ کیونکہ مسلم قوم کا اس میں کوئی نقصان نہیں ہے؛ بلکہ سراسر اور براہ راست نقصان گائے کو ”ماں “ کہنے والوں کا ہی ہے اور ہندوتو کے نشہ میں دھت ارباب اقتدار کا ہے۔ذرا اس طرف توجہ مبذول تو کریں کہ ان کسانوں کا کیا ہوگا جنہیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے وہ کہاں سے اس مبینہ ”ماں “ کے چار وقت کے چارے کا انتظام کرسکیں گے۔ اور پھر گائے کو مکمل قانونی درجہ مل جانے کے بعد جس بد تمیز طوفان اپنی آمد کا عندیہ دے رہا ہے وہ یہ کہ ملک اورکسان آر ایس ایس کے متشددانہ رویہ کے تحت بے جان ہوں گے اور پھر ان کی تسلی اور داد رسی کیلئے کوئی بھی فرد آگے نہ سکے گا؛ کیونکہ گائے کے نام پر محض پروپیگنڈہ کے علاوہ نیز جذبات سے کھیلنے کے علاوہ ان کا کوئی اور مقصد نہیں ہوا کرتا ہے۔ ملک کے مفاد کی باتیں اس وقت کی جاسکتی ہیں جب ان باتوں میں اپنا کوئی ذاتی مفاد بھی پنہاں ہو۔

المیہ کی بات تو یہ ہے کہ اخلاق،نعمان اور پہلو خان کی المناک شہادت کے بعد بھی گؤ رکھشکوں کی دہشت گردی اپنے شباب پر ہے،حکومت اس کے خلاف ردعمل کے اظہار سے قاصر ہے۔ کیا بھگوا حکومت خود اسے تحسین کی نگاہوں سے دیکھ رہی ہے کہ جو کام از خود کر نے سے قاصر ہے اس کو اس کے کارکنان انجام دے رہے ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ قانون او رآئین کس ”رام غلام“ کے کھیت کی مولی ہے؟ آ ئین کی بالا دستی ہے یا پھر ان گؤ غنڈوں کی قلمروئے بے بساط؟ مطلع اسی وقت صاف ہوسکتا ہے جب از خود اقتدار پر متمکن افراد متحرک ہوں گے۔

یہ ایک معمہ ہی ہے کہ بھگوائیت کے نشہ میں دھت ارباب اقتدار اور ان کے کارکنان اس ”نشہ بیخودی“ سے خودکو نجات دلاسکیں گے،جب ملک کی یہ صورتحال ہے تو پھر عدالت،حکام،پولیس،افسران اور جمہوری آئین کی ضرورت ہی کیا ہے؟گائے کے نام پر اگر جمہوریت رسوا ہوتی ہے تو پھر جمہوریت کے نام نہاد علمبرداروں کو اس لٹی پٹی ”جمہوریت“ پر فخر کرنا بے سود اوران کیلئے فضیحت کی بات ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔