تاجدارِ ؐمدینہ کی گھریلو زندگی

 ڈاکٹر حافظ محمد سالم توحید ۔۔۔ترتیب: عبدالعزیز
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اسوۂ حسنہ کی حیثیت رکھتی ہے، آپؐ ساری دنیا والوں کیلئے مشعل ہدایت اور خضر راہ بن کر تشریف لائے تھے۔ دینی و دنیوی نقطہ نگاہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام پہلو مکمل تھے۔ آپؐ نہ صرف پیغمبر تھے کہ صرف تبلیغ پر اکتفا کرتے، نہ صرف عابد شب زندہ دار تھے کہ جنگل یا پہاڑ کے کسی کھوہ میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرتے رہتے، نہ دنیا دار تھے کہ زندگی کے طمطراق اور جاہ و جلال کا مظاہرہ فرماتے۔ آپؐ کو ہر مکتبہ خیال کے لوگوں کا علمی تعلیم دینا تھی تاکہ شاہ و گدا، امیر و غریب، ادنیٰ و اعلیٰ ہر حیثیت کے لوگ آپؐ سے فیض اندوز ہوسکیں۔
انسان کی زندگی اپنے گھر ہی کی چار دیواری کے اندر اپنے اصلی اور حقیقی رنگ میں نظر آتی ہے۔ کوئی خواہ کتنا ہی عظیم المرتبت انسان کیوں نہ ہو، اپنے گھر کے اندر قدم رکھتا تو پھر وہ بے تکلف ہوجاتا ہے اور عام و خاص کا فرق جاتا رہتا ہے۔ تصنع کا رنگ اُڑجاتا ہے۔ آئیے؛ دنیا کے سب سے بڑے بلند مرتبہ انسان کی خانگی زندگی کیا تھی اور گھریلو زندگی کا عنوان کیا تھا، تاریخ اسلام کی روشنی میں تلاش کریں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کاشانۂ اقدس میں بیک وقت مختلف المزاج، حیثیت او ر عمر کی چند بیویاں تھیں۔ ان میں رؤسائے عرب کی چشم و چراغ بھی تھیں، غریب و نادار لڑکیاں بھی، صاحب جمال بھی تھیں اور صاحب کمال بھی۔ سن رسیدہ بھی تھیں اور چودہ پندرہ برس کی عمر والی بھی، تیز مزاج بھی تھیں اور حلم و صبر والی بھی۔ گویا کاشانۂ نبوت میں مختلف الخیال عناصر کا اجتماع تھا۔
پہلی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ جب ان کی عمر چالیس سال اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف 25 برس تھی تو شادی ہوئی۔ نہایت شریف النفس، صاحب جمال اور مالدار بیوی تھیں۔ حضورؐ کے سرد و گرم زمانہ میں جان و مال سے ساتھ رہیں۔ ہر طرح کی اذیتیں برداشت کیں۔ دونوں میں انتہائی محبت تھی۔ غارِ حرا میں حضورؐ کو آپ ہی کھانا پہنچاتی تھیں۔ حلم و صبر کا پیکر تھیں۔ عورتوں میں سب سے پہلے آپؓ ہی نے اسلام قبول کیا۔ ان کے رہتے ہوئے حضورؐ نے دوسری شادی نہیں کی۔ کل اولاد آپؓ ہی کے بطن سے ہوئی۔ چار لڑکیاں اور دو لڑکے پیدا ہوئے۔ حضرت فاطمہؓ، زینبؓ، رقیہؓ اور اُم کلثومؓ جوان ہو کر بیاہی گئیں۔ حضورؐ کے وصال کے وقت صرف حضرت فاطمہؓ حیات تھیں، چھ مہینے کے بعد وہ بھی اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئیں۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی، جن کی عمر تقریباً 45 برس تھی۔ بہت فیاض و غیور خاتون تھیں۔ ابتدائے اسلام میں مسلمان ہوئیں اور عہد فاروقی میں وصال ہوا۔
تیسری بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی نو سال کی عمر میں بیاہی گئیں۔ علم و فضل میں یکتائے زمانہ تھیں۔ حدیث و فقہ، شعر و شاعری میں ثانی نہ رکھتی تھیں۔ 19 سال کی عمر میں بیوہ ہوگئیں۔ ان سے 2210 حدیثیں مروی ہیں(مسند ابن حنبل)، ترمذی شریف میں ہے کہ پیچیدہ مسائل صحابہ کرامؓ آپ ہی سے حل کراتے تھے۔ 66 سال کی عمر میں وصال ہوا۔
چوتھی بیوی حضرت عمر فاروق اعظمؓ کی صاحبزادی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا تھیں۔بڑی طمطراق کی خاتون تھیں۔ عہد امیر معاویہؓ میں وصال ہوا۔
پانچویں بیوی حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بہت غیور سیر چشم تھیں۔ غرباء پروری ان کا خاص شیوہ تھا۔ اس لئے ’اُم المساکین‘کے لقب سے پکاری جاتی تھیں۔ بہت اطاعت گزار خاتون تھیں۔ ازواجِ مطہراتؓ میں سب کے پیچھے 61ہجری میں بعمر 84 سال انتقال ہوا۔
چھٹی بیوی حضرت جویریہ رضی اللہ عنہااپنے قبیلہ کے سردار کی چشم و چراغ تھیں۔ حسین و خوبصورت خاتون تھیں۔ بہترین کھانا پکاتی تھیں۔ 65 سال کی عمر میں ان کا وصال ہوا۔
ساتویں بیوی حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا حضرت ابو سفیان رئیس اعظم قریش کی لخت جگر تھیں، ان کا نکاح حبشہ کے شاہ نے پڑھایا تھا اور حق مہر بھی انھوں نے ہی ادا کر دیا تھا۔ ایک مرتبہ ان کے والد ابو سفیان جو ہنوز مسلمان نہیں ہوئے تھے، بیٹی سے ملنے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر مبارک پر بیٹھنا چاہا تو انھوں نے حضورؐ کے بستر کو اُلٹ دیا اور کہاکہ آپ میں کفر کی ناپاکی ہے تو ان کے والد ناراض ہوکر چلے گئے۔ 24ہجری میں ان کا انتقال ہوا۔
آٹھویں بیوی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا قبیلہ بنو نضیر کے سردار کی بیٹی تھیں، جنگ خیبر میں گرفتار ہوکر آئی تھیں۔ حسن میں، تدبیر میں بہت ممتاز تھیں۔
نویں بیوی حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ مقام سرف میں شادی ہوئی۔ نیک شعار، کریم النفس خاتون تھیں۔
دسویں بیوی حضرت زینب رضی اللہ عنہا تھیں۔ جود و سخا، حسن و جمال میں یکتائے روزگار تھیں۔ اپنے دست و بازو سے کماتی تھیں اور فقراء و مساکین میں تقسیم کرتی تھیں۔ نہایت سیر چشم خاتون تھیں۔ 35 سال کی عمر میں شادی ہوئی۔ 53 برس کی عمر میں وفات پائی۔
گیارہویں بیوی حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا تھیں، جو حسن و جمال میں بے نظیر تھیں۔ (ان کے بطن سے ایک لڑکا تولد ہوا جو بچپن میں ہی گزر گئے)
یہ بیویاں مختلف المزاج کی ضرور تھیں مگر کل پاک سیرت، شریف النفس تھیں ۔ دیکھو کاشانۂ نبوت میں فکر و فاقہ کا دور دورہ تھا۔ دو دو ماہ چولھے نہیں سلگتے تھے، لیکن پھر بھی یہ نیک بیویاں صبر و تحمل سے کام لیتی تھیں۔ لب شکایت کبھی نہ کھولتی تھیں اور محبت میں سرمو فرق نہیں آتا تھا۔
یکساں سلوک: حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام بیویوں کے ساتھ یکساں سلوک اور برتاؤ کرتے تھے، مگر میلانِ طبع حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف زیادہ تھا، کیونکہ وہ بہت بڑی صاحب فضل و کمال خاتون تھیں۔ حدیث و فقہ میں آپ کو ید طولیٰ حاصل تھا کہ بڑے بڑے صحابہ کرامؓ ان سے فتویٰ پوچھتے تھے اور مسائل کی پیچیدگیاں ان کی خدمت میں جاکر سلجھاتے تھے اور یہ اس لئے نہیں تھا کہ آپؓ بہت کم عمر تھیں یا خوبصورت تھیں بلکہ حسن و جمال میں حضرت صفیہؓ ، حضرت زینبؓ آپ اپنی مثال تھیں۔ صرف علم و فضل کی وجہ سے حضرت عائشہؓ کی طرف میلانِ خاطر کچھ زیادہ تھا۔ بتقاضائے بشریت بعض بیویوں کو اس خصوصیت پر رشک آیا اور حضورؐ کی خدمت میں تمام بیویوں کی طرف سے حضرت زینبؓ نمائندہ بن کر گئیں اور کہاکہ جو مرتبہ عائشہؓ کو عطا کیا گیا ہے وہ اس کی مستحق نہیں ہیں۔ حضرت عائشہؓ چپ بیٹھی سنتی رہیں اور اشارہ پاکر وہ جواب دینے کو کھڑی ہوئیں تو وہ مدلل تقریر کی کہ حضرت زینبؓ لاجواب ہوگئیں۔
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہ ہو، عائشہؓ حضرت ابوبکرؓ کی تو بیٹی ہیں۔
ایک بار اتفاق سے حضرت عائشہؓ کسی بات پر حضورؐ کے سامنے تُرش رو ہوکر کچھ زور سے بول رہی تھیں کہ ان کے ابا جان حضرت ابوبکرؓ تشریف لے آئے اور غصہ میں آکر حضرت عائشہؓ پر ہاتھ اٹھایا۔ وہ جھٹ حضور کی آڑ میں آکر کھڑی ہوگئیں۔ کہنے لگے: اری بیوقوف! رسول ؐاللہ! کا ادب نہیں کرتی اور باہر چلے گئے۔ حضورؐ نے مسکراتے ہوئے فرمایا: ’’عائشہؓ! میں نے تم کو بچالیا‘‘۔ حضرت عائشہؓ نے شرم سے گردن نیچی کرلی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ تھوڑی دیر کیلئے تمام ازواجِ مطہرات کے گھروں میں جاتے اور کچھ دیر بیٹھ کر چلے آتے اور جن کے ہاں شب باش ہونے کی باری ہوتی، وہیں ٹھہر جاتے۔ عصر کی نماز پڑھ کر حضرت ام سلمہؓ کے حجرے سے شروع کرتے، جس کے یہاں حضورؐ شب باش ہونے کیلئے ٹھہرتے، سبھی بیویاں وہیں جمع ہوجاتیں۔ سب ہنستیں، بولتیں، باتیں کرتیں اور بڑی پر تکلف صحبت ہوتی اور پھر اس کے بعد سونے کے وقت واپس چلی آتیں۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بہت اچھا کھانا پکانا جانتی تھیں۔ ایک روز انھوں نے کوئی اچھی چیز پکائی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے بھیج دی۔ آپؐ اس وقت حضرت عائشہؓ کے یہاں تھے۔ حضرت عائشہؓ کو ناگوار معلوم ہوا اور پیالہ زمین پر پٹک ڈالا۔ حضورؐ خود دستِ مبارک سے پیالہ کے ٹکڑوں کو چنتے تھے اور مسکراتے ہوئے فرماتے تھے: ’’عائشہؓ! تاوان دینا ہوگا‘‘۔
اس طرح کے واقعات اکثر ہوتے رہتے تھے مگر آپؐ اپنے خلق عظیم کے باعث ہنس کر ٹال دیتے۔ آپؐ کو ازواج مطہراتؓ سے خاص محبت تھی۔ تعلقات بھی نہایت خوشگوار تھے، لیکن دنیوی طریق پر آپؐ نے کبھی بھی اس کا اظہار نہ فرمایا۔ حضرت عائشہؓ کتنی محبوب بیوی تھیں، لیکن حضورؐ کے رہتے ہوئے آپؓ کو نہ اچھا کپڑا نصیب ہوا نہ اچھی غذا، بلکہ زیور بھی نصیب نہ ہوا۔ عائشہؓ کو ایک مرتبہ طلائی کنگن حضورؐ نے پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اگر تمہیں جنت کی آرزو ہے تو پُر تکلف لباس اور زیورات سے پرہیز کرو، مگر مہندی لگانے کی تاکید فرماتے تھے۔ چوڑیوں کے بارے میں فرماتے کہ اس کی آواز سے گھر میں برکت ہوتی ہے اور یہ عورتوں کا سہاگ ہے۔
ابتدا میں جو کچھ مل جاتا، ازواج مطہراتؓ کھا پکالیتی تھیں مگر فتح خیبر کے بعد ہر بیوی کیلئے اَسی وسق کھجور، بیس وسق جَو کا سالانہ انتظام تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کثرتِ اشغال کے باعث حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ذمہ اس کا انتظام تھا۔ سادگی کا یہ عالم تھا کہ چھوٹا موٹا جو کچھ مل جاتا، خدا کا شکر بجا لیتے اور کھالیتے، جہاں جگہ مل جاتی بیٹھ جاتے۔ روٹی کا آٹا چھانا نہیں جاتا۔ کُرتہ میں گردن کے پاس کا بٹن کھلا رہتا۔ بستر کبھی کمبل کا ہوتا، کبھی چمڑے کا، جس میں کھجور کی چھالیں بھری رہتیں۔
کاشانۂ اقدس: 9 ہجری میں جبکہ ارضِ عرب سے یمن تک تمام ملک کے زیر نگین اسلام تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے واحد فرمانروا تھے، اس وقت بھی کاشانۂ اقدس میں صرف ایک چارپائی اور پانی کیلئے ایک سوکھا مشکیزہ تھا۔ یہ تھا شہنشاہؐ دو جہاں کے کاشانہ عالیہ کا نقشہ، جس کو زمین و آسمان پر تصرف حاصل تھا۔ مسجد نبویؐ کے متصل ازواج مطہرات کے خام حجرے تھے جو طول میں دس ہاتھ اور عرض میں چھ سات ہاتھ سے زیادہ نہ تھے۔ پردہ کے خیال سے دروازہ میں کمبل لٹکے ہوئے تھے۔
ایک بار (بزمانۂ ایلاء) حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے گئے تو دیکھا کہ سردارِ دوجہاںؐ نے ایک تہبند باندھا ہوا ہے، ایک کھردری چٹائی ہے، جس پر لیٹنے سے جسم مبارک پر اسی کے نشانات پڑے ہیں۔ ایک طرف گوشہ میں محض تھوڑا سا جَو رکھا ہوا ہے۔ مشکیزہ کی کھالیں کھونٹی میں لٹک رہی ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت عمرؓ بے اختیار روپڑے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’گھبراؤ نہیں، میرے لئے عقبیٰ ہے‘‘۔
مگر یاد رکھئے کہ یہ رہبانیت نہیں تھی، فقر پسندی کا جوش تھا۔ رہبانیت ہوتی تو معاملاتِ دنیا سے حضورؐ کنارہ کش ہوتے مگر آپؐ کے گھر میں ایک نہیں نو نو بیویاں تھیں، اولادیں تھیں، خویش و اقارب تھے، ملنے جلنے والے تھے۔ صاف بات یہ تھی کہ حضورؐ تصنع کو بالکل پسند نہ فرماتے تھے۔ حضورؐ کی توجہ قوم کی اصلاح و ترقی کی طرف تھی۔
صاف شفاف کپڑے پہنتے تھے اور اپنے جان نثاروں کو بھی اس کی تاکید فرماتے۔ ہدایت تھی کہ کپڑوں میں بہتّر پیوند کیوں نہ ہوں مگر صاف ستھرے ہوں۔ خوشبو کا استعمال زیادہ کرتے تھے۔ ویسے آپؐ نے قیمتی سے قیمتی کپڑا بھی استعمال کیا ہے اور اچھے سے اچھے کھانے بھی تناول فرمائے ہیں، مگر اس طرح کی عادت شریفہ نہ تھی۔
عظمت و محنت: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ آپؐ بے تکلف معمولی سے معمولی کام کرلیا کرتے تھے۔بازار سے سودا سلف خود لے آتے، کپڑوں میں پیوند خود لگالیتے، پھٹے جوتے گانٹھ لیتے، گھروں میں جھاڑو دے لیتے۔ غلاموں، مسکینوں کے ساتھ بیٹھ کر بلا تکلف کھانا کھالیتے اور حد تو یہ ہے کہ دوسروں کا بھی معمولی کام کر دینے میں کچھ تامل نہیں کرتے تھے۔
بعض صحابہ کرامؓ جو گھر پر نہ ہوتے تو ان کی بکریاں گھر جاکر دوہ دیا کرتے۔ مسجد قبا، مسجد نبویؐ اور غزوۂ خندق میں حضورؐ مزدورانہ حیثیت سے کام کئے ہیں۔ ادنیٰ ہو یا اعلیٰ سب سے حضورؐ خندہ پیشانی سے بات کرتے۔ ضعیف و کمزور کو حقیر نہ جانتے تھے اور یہ سب کچھ تعلیماً تھا کہ کوئی کسی کو پیشہ یا کام کی وجہ سے ذلیل نہ سمجھے اور جائز طور پر جو بھی پیشہ اختیار کیا جائے وہ اچھا ہے کیونکہ پہلے بھی اور آج کے دور میں بھی بعض معمولی پیشہ کے باعث اس کے کرنے والوں کو نیچی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس لئے حضورؐ نے کرکے دکھادیا کہ کوئی پیشہ ہو، اگر جائز ہے تو وہ ذلیل (گھٹیا) نہیں۔

تبصرے بند ہیں۔