رسول اللہ حضرت محمدﷺ کے حقوق

ندیم احمد انصاری
محسنِ انسانیت، رحمۃ للعالمین سیدنا و مولانا حضرت محمدﷺ‘ جنھوں نے حیوانِ ناطق کو انسان بنایا، جنھوں نے بچیوں کو زندہ درگور کرنے والوں کو ان سے محبت کرنا سکھایا، جنھوں عورتوں کو معاشرے میں ’ایک چیز‘ سے بڑھا کر گھر کی ملکہ کے شرف سے نوازا، جنھوں نے بڑوں کے ادب و احترام کی تاکید کی، جنھوں نے چھوٹوں پر شفقت کرنے کی تعلیم دی، جنھوں نے بیواؤں، ضعیفوں اور کمزوروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا سکھایااور جنھوں نے مخلوں سے خالق کا تعارف کروایا۔۔افسوس صد افسوس آج ہم اُنھیں کے حقوق سے ناواقف ہو گئے!اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمارے قصور کو معاف فرمائے اور اپنے نبیﷺ کے حقوق ادا کرنے والا اور آپ کی ذاتِ والا صفات سے اپنا تعلق استوار بلکہ مضبوط کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین۔ رسول اللہﷺ کے جو حقوق امت پر لازم ہوتے ہیں، انھیں چند عناوین کے تحت بیان کرنی کی کوشش کی جاتی ہے:
آپﷺپر ایمان لانا
ایمان کے جو بنیادی ارکان ہیں، اُن میں رسول اللہﷺ پر ایمان لانا بھی داخل ہے، اگر کوئی شخص اللہ پر ایمان لانے کا دعوے دار ہو اور آپﷺ کی رسالت کا انکار کرے، اُسے مومن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ارشاد ربانی ہے:اے ایمان والو! ایمان لاؤ تم اللہ پراور اُس کے رسول پر الخ۔ (النساء:136)نیز ارشاد فرمایا:اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں، وہی اپنے پروردگار کے نزدیک سچے ہیں۔ (الحدید: ۱۹)احادیث کے مطابق بھی درجِ ذیل امور پر ایمان لانے کو ضروری ہے: (1) اللہ تعالیٰ پر (2) فرشتوں پر (3) (اللہ کی طرف سے نازل کردہ) کتابوں پر (4) رسولوں پر (5) آخرت کے دن پر (6) تقدیر اچھی ہو یا بری، اُس کے اللہ ہی کے طرف سے ہونے پر۔(بخاری)
آپﷺ کی اطاعت کرنا
رسول کی حیثیت اسلام میں محض پیام بر کی نہیں، بلکہ اُس کی اطاعت مستقلاًواجب ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی۔(النساء: 59) اس آیت میں اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کو مستقل طور پر واجب قرار دیا گیا، اس لیے کہ ان دونوں اطاعت کے لیے قرآن مجید میں مستقل طور پر لفظ (أطیعوا) استعمال فرمایا گیا۔ اطاعتِ رسول کے مستقل واجب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا ہر حکم مانا جائے، خواہ اُس کی اصل ہمیں قرآن میں معلوم ہو سکے یا نہ، اس کا یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہیے کہ بعض سنتوں کی اصل قرآنِ کریم میں موجود نہیں‘بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ رسول کی اطاعت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا ہمیں مکلَّف ہی نہیں بنایا کہ اس کی سنت میں تلاش کی جائے۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ رسول کی اطاعت بھی صرف اُن احکام تک محدود ہے، جن کا ذکر قرآن مجید میں صاف صاف موجود ہے، تو پھر اصلاً اِس آیت کا کوئی مفہوم ہی باقی نہیں رہتا‘ اس کے علاوہ بھی بیسیوں آیتیں ہیں، جن میں اطاعتِ رسول کا علاحدہ حکم دیا گیا ہے، جن کا مطلب یہی ہے کہ آپﷺ کی براہِ راست اطاعت کی جائے۔ یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ یہ حکم خود اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ہے، اس لیے اگر کوئی رسول کی اطاعت نہیں کرتا، وہ اصلاً اللہ کی اطاعت نہیں کرتا اور گویا رسول کی اطاعت میں بھی اللہ کی اطاعت کرتا ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے مزید وضاحت کے ساتھ یوں فرما دیا: جس نے رسول کی اطاعت کی، اُس نے اللہ ہی کی اطاعت کی۔(النساء: 80)نیز رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ (مسلم) معلوم ہوا کہ صرف اللہ پر یا رسول پر ایمان لانا کافی نہیں بلکہ اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت بھی واجب ہے۔
آپﷺ کا ادب و احترام کرنا
رسول اللہﷺ کا نہایت ادب و احترام بھی ایمان والوں پر لازم و ضروری بلکہ ایمان کا جز وہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ایمان والوں کے سامنے رسول اللہﷺ کے ذریعے ہی، رسولوں کو بھیجنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:بے شک ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، تاکہ تم لوگ اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ، اُس کا ساتھ دو اور اُس کا ادب کرو۔ (الفتح: 9-8) بلکہ آپﷺ کے غایت درجے احترام کی نسبت ایمان والوں کو سخت تنبیہ کی اور ارشاد فرمایا:اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو! اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبی کے ساتھ اونچی آواز میں بات کرو، جیسے کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمھارے (اس بے ادبی کے باعث) تمام( نیک) اعمال برباد ہو جائیں اور تمھیں شعور بھی نہ ہو۔ (الحجرات: 2)یہی وجہ تھی کہ حضرت مالک بن انسؓ جب حدیثِ رسول بیان کرنے کا ارادہ فرماتے تو پہلے غسل فرماتے، پھر عود کی دھونی لیتے، خوشبو لگاتے اور اگر کوئی اس دوران آپؓ سے اونچی آواز میں بات کرتا، تو فرماتے ’اپنی آواز پست رکھو‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو! اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو الخ۔ پس جس نے حدیثِ رسول سنتے ہوئے اونچی آواز سے کوئی بات کی، اُس نے گویا رسول اللہﷺ کی آواز سے اپنی آواز اونچی کی۔ (سیر اعلام النبلاء)
آپﷺ سے محبت کرنا
رسول اللہﷺ سے محبت کرنا بھی ایمان کا جزو ہے وہ بھی ایسی محبت جوانسان کے اپنے اہل و عیال بلکہ اپنے نفس پر بھی غالب ہو۔ ایمان والوں کی صفات بتاتے ہوئے قرآن مجید گویا ہے:نبی کی ذات مومنوں کے لیے اپنی جانوں سے بھی مقدَّم ہے۔ (الاحزاب: 6) اس کا حاصل یہ ہے کہ آپﷺ کا حکم ہر مسلمان کے لیے اپنے ماں باپ سے زیادہ واجب التعمیل ہے، اگر ماں باپ آپﷺ کے کسی حکم کے خلاف کہیں‘ اُن کا کہنا ماننا جائز نہیں، اِسی طرح خود اپنے نفس کی تمام خواہشات پر بھی آپﷺ کے حکم کی تعمیل مقدم ہے۔ (معارف القرآن) رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی، اُس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا، جب تک اُس کے نزدیک‘اُس کی اولاد سے زیادہ، اُس کے ماں باپ سے زیادہ اور تمام انسانوں سے زیادہ، میں محبوب نہ ہو جاؤں۔ (بخاری)البتہ محبتِ رسول میں حد سے بڑھ جانا بھی نامناسب عمل ہے یعنی شریعتِ اسلام میں رسول کی عظمت و محبت فرض ہے، اس کے بغیر ایمان ہی نہیں ہوتا، مگر رسول کو کسی صفت یا علم یا قدرت وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کے برابر کر دینا گمراہی اور شرک ہے۔ قرآن مجید نے شرک کی حقیقت یہی بیان فرمائی ہے کہ غیر اللہ کو کسی صفت میں اللہ کے برابر کریں۔(الشعراء: 98)
آپﷺ کا دفاع کرنا
رسول اللہﷺ کی عزت و ناموس کا دفاع کرنا تمام اہل ایمان پر ہر دم واجب ہے، جیسا کہ رسول اللہﷺ نے سیکڑوں مرتبہ عفو و درگزر کے باوجود حضرت نبی کریمﷺ نے حضرت حسانؓ کو حکم دیا تھا: (اُن ) مشرکوں کی ہجو کرو (جس نے تمھارے نبی کی شان میں نازیبا کلمات کہے، یا ہجو کی) یا فرمایا اس ہجو کا جواب دو (جو انھوں نے میرے بارے میں کی ہے)، جبریل ؑ تمھارے ساتھ ہیں۔ (بخاری) امت کو جو رسول اللہﷺ کے دفاع کا حکم دیا گیا‘ یہ خود امت کے حق میں درجات کی بلندی کا سبب ہے، ورنہ باری تعالیٰ کو کسی کی حاجت نہیں اور اُس نے اپنے حبیب کی حفاظت کی ذمّے داری خود لے رکھی ہے۔ ارشاد ربانی ہے: پس اب اللہ کافی ہے، آپ کی طرف سے اور وہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔ (البقرہ: 137) اس آیت میں واضح کر دیا گیا کہ آپﷺ اپنے مخالفوں کی زیادہ فکر نہ کریں، ہم خود اُن سے نمٹ لیں گے اور یہ ایسا ہی ہے، جیسے دوسرے مقام پر (المائدہ: ۶۷میں) اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ فرما دیا کہ آپﷺ مخالفین کی فکر نہ کریں، اللہ تعالیٰ اُن سے آپ کی حفاظت خود کریں گے۔ (معارف القرآن بتغیر)
آپﷺ کی نصرت و مدد کرنا
رسول اللہﷺکی بھر پور مدد و نصرت کرنا بھی ہر ایمان والے پر رسول اللہﷺ کا حق ہے،ارشادِ ربانی ہے: اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کون غیب کی باتوں کو بغیر دیکھے اُس کی اور اُس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے، بے شک اللہ تعالیٰ (اس کے ذریعے تمھیں آزمانا اور نوازنا چاہتا ہے، ورنہ) بے شک اللہ تعالیٰ تو بہت قوت والا اور غلبے والا ہے۔ (الحدید: 25) سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام سے بھی رسول اللہ حضرت محمدﷺ کی نصرت و حمایت کا عہد لیا گیا تھا، جیسا کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب و حکمت عطا کروں پھر تمھارے پاس ایک رسول آئے‘ جوتمھاری کتاب کی تصدیق کرے تو تمھیں ضرور اُس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اُس کی مدد کرنی ہوگی۔(آل عمران: 81) نیز اللہ کے فرشتے بھی رسول اللہ کے رفیق و مددگار ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے کہ بے شک! اللہ اور جبریل اور نیک مومنین اُس (رسول) کے حامی و دوست ہیں اور ان کے علاوہ (دیگر) فرشتے بھی۔ (التحریم: 4) اس لیے رسول اللہﷺ کی حیات میں اور وفات کے بعد قیامت تک مومنین پر لازم ہے کہ رسول اللہﷺ کی مدد و نصرت کریں۔ آپﷺ کی حیات میں توآپﷺ کے اصحابؓ نے اس نصرت کا گویا حق ادا کردیا، اب آپ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد مومنین پر لازم ہے کہ وہ مندرجۂ ذیل صورتوں میں رسول اللہﷺ کی مدد و نصرت کریں:(1)آپﷺ کی سنت کی باطل پرستوں کے ناجائز حیلوں، جاہلوں کی تحریف و تخریب سے حفاظت (2) طعن پرستوں کے طعن اور گستاخوں کی گستاخی سے دفاع۔
آپﷺ کے بعد کسی کو نبی نہ ماننا
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:محمدﷺ تمھارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، ہاں اللہ کے رسول اور سب نبیوں کے خاتم ہیں اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ (الاحزاب: 40)یعنی رسول اللہ حضرت محمدﷺ خاتم النبیین اور رحمۃ للعالمین ہیں، اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کو آپ پر ختم کر دیا ہے۔ آپ‘ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں، آپ کی نبوت کے بعد نبوت کا دروازہ بند کر دیا گیا، اب آپ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں ہو سکتا اور آپ کا لایا ہوا دین تمام گذشتہ دینوں کا ناسخ ہے، آپ کی لائی ہوئی کتاب ، تمام گذشتہ کتابوں کے احکام کی ناسخ ہے۔ قیامت تک کے لیے صرف آپﷺ کا دین اور آپ کی شریعت کا اتباع فرض ہے اور اس کے سوا تمام دینوں کا ترک کرنا لازم ہے۔ سوائے آپﷺ کی پیروی کے اللہ سبحانہ وتعالیٰ تک پہنچنے کی سب راہیں بند کر دی گئی ہیں اور آپ کی شریعت، تمام شریعتوں کی ناسخ ہے، اب قیامت تک آپ ہی کی شریعت رہے گی اور کبھی منسوخ نہ ہوگی۔ جو شخص آں حضرتﷺ کو خاتم النبیین نہ سمجھے، وہ بلا شبہ کافر ہے اور جو شخص آپ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے، وہ بلا شبہ کافر ہے۔ (عقائد الاسلام بتغیر)
آپﷺ کے اہلِ بیتؓ و صحابہؓؓسے محبت رکھنا
رسول اللہﷺ کی ازواجِ مطہراتؓ اہلِ بیت میں داخل ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے:(اے نبی کی گھر والیوں! )اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ وہ تم سے نجاست کو دور کر دے اور تمھیں خوب پاک کر دے۔(الاحزاب:33)اس آیتِ مبارکہ میں ازواجِ مطہراتؓ کو قطعی طور پر اہلِ بیت میں شمار کیا گیانیز اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: مومنین کے لیے نبی کی ذات، اُن کے اپنے نفس پر مقدَّم ہے اور نبی کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں۔ (الاحزاب:6)نیز مسلم شریف میں روایت ہے: حضرت نبی کریمﷺ ایک دن تشریف فرما ہوئے، آپ پر سیاہ بالوں کی بنی ہوئی منقش چادر تھی‘ اتنے میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما آگئے، آپﷺ نے اُن کو چادر میں لے لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے تو وہ بھی اس چادر میں داخل ہو گئے، پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تشریف لے آئیں تو آپﷺ نے اُنھیں بھی چادرِ مبارک میں داخل فرما لیا پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ پہنچ گئے تو آپﷺ نے اُنھیں بھی چادر میں لے لیا، پھر آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اے اہلِ بیت! اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ تم سے ہر بُری چیز کو دور فرما کر تمھیں خوب پاک صاف کر دیں۔(مسلم)اہلِ بیت و آلِ رسولﷺ کا مسئلہ امت میں کبھی زیرِ اختلاف نہیں رہا، باجماع و اتفاق اُن کی محبت و عظمت لازم ہے۔(معارف القرآن بتغیر)
صحابیؓ اسے کہتے ہیں‘ جس نے ایمان کی حالت میں حضرت نبی کریم ﷺ کی صحبت کا شرف حاصل کیا ہو اور اسی حالت میں وہ دنیا سے رخصت بھی ہوا ہو۔ صحابہ، صحابی کی جمع ہے۔ (تدریب الرا وی)حضرت نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:میرے صحابہؓ کو برا مت کہو، اگر تم میں سے کوئی شخص اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے تو میرے صحابہؓ کے خرچ کیے ہوئے ایک مد بلکہ اس کے نصف کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتا۔(بخاری)اور ایک حدیث میں فرمایا: میرے صحابہؓ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو! میرے صحابہؓ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو! میرے بعد انھیں’نشانہ‘مت بنالینا، کیوں کہ جو شخص ان سے محبت کرے گا، وہ میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا، جو ان سے بغض رکھے گا، وہ در حقیقت مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا، جس نے انھیں تکلیف پہنچائی، اس نے مجھے تکلیف پہنچائی، جس نے مجھے تکلیف پہنچائی، اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی تو اللہ تعالیٰ اسے جلد ہی اپنی گرفت میں لے لے گا۔ (ترمذی)
آپﷺ ہی کے لیے دوستی یادشمنی رکھنا
رسول اللہﷺ کا ایک حق اہلِ ایمان پر یہ ہے کہ آپﷺ کے دوستوں سے دوستی اور آپ کے دشمنوں سے دشمنی رکھی جائے۔ ظاہر ہے کہ جس سے محبت ہوتی ہے، اُس کے گلی کوچے اور در ودیوار سے بھی محبت ہوتی ہے، اس لیے یہ ضروی ہے کہ رسول اللہﷺ سے محبت کرنے والوں سے محبت کا اور آپ سے دشمنی رکھنے والوں سے دشمنی کا معاملہ کیا جائے۔ ارشادِ ربانی ہے:اللہ تعالیٰ تمھیں کافروں کے ساتھ دوستی کرنے سے منع کرتا ہے، جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا اور تمھارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی، جو لوگ ایسے کافروں سے دوستی کریں گے‘ وہ ظالم ہیں۔ (الممتحنہ: 9)خیال رہے اس آیت میں اُن کفار کا بیان ہے، جو مسلمانوں کے مقابلے میں جنگ و قتال کر رہے ہوں اور مسلمانوں کو اُن کے گھروں سے نکالنے میں کوئی حصہ لے رہے ہوں، اُن کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اُن کے ساتھ موالات اور دوستی سے منع فرماتا ہے، اِس میں برو احسان کا معاملہ کرنے کی ممانعت نہیں۔۔۔ محسنانہ سلوک بر سرِ پیکار دشمنوں کے ساتھ بھی جائز ہے، البتہ دوسری نصوص کی بنا پر یہ شرط ہے کہ اُن کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنے سے مسلمانوں کو کسی ضرر کا خطرہ نہ ہو، جہاں یہ خطرہ ہو، وہاں برّ و احسان اُن پر جائز نہیں، ہاں عدل و انصاف ہر حال میں ہر شخص کے لیے ہر وقت ضروری اور واجب ہے۔ (معارف القرآن بتغیر)اس آیت اور اُس کی تفسیر میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ مومنوں کو اُسی سے محبت و دوستی رکھنی چاہیے، جو اللہ اور اُس کے رسول اور مومنوں کا دوست اور چاہنے والا ہو۔اس پر وہ حدیث بھی واضح طور پر دلالت کرتی ہے، جس میں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: میرے صحابہؓ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو! میرے صحابہؓ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو! میرے بعد انھیں’نشانہ‘مت بنالینا، کیوں کہ جو شخص ان سے محبت کرے گا، وہ میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا، جو ان سے بغض رکھے گا، وہ در حقیقت مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا، جس نے انھیں تکلیف پہنچائی، اس نے مجھے تکلیف پہنچائی، جس نے مجھے تکلیف پہنچائی، اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی تو اللہ تعالیٰ اسے جلد ہی اپنی گرفت میں لے لے گا۔ (ترمذی)
آپ ﷺپرصلوٰۃ و سلام کا نذرانہ پیش کرنا
رسول اللہﷺ کی خدمت میں درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنا بھی مومنین کے لیے سعادت مندی کی بات اور آپﷺ کا حق ہے، قرآن مجید میں ہے: بے شک اللہ تعالیٰ اور اُس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اُن پر درود و سلام بھیجا کرو۔ (الاحزاب: 56)اس آیت میں صلوٰۃ و سلام کو امر کے صیغے کے ساتھ ذکر کیا گیااور چوں کہ اصول یہ ہے کہ امر وجوب کی دلالت کرتا ہے اور جب آیتِ مبارکہ سے تکرار کا وجوب ثابت نہیں تو زندگی بھر میں کم از کم ایک مرتبہ صلوٰۃ و سلام بھیجنا فرض ہوگا اور بار بار پڑھنا مستحب ہے۔ ( فتاوی اسلامیہ بتغیر)

تبصرے بند ہیں۔