تاملناڈو میں آئین اور جمہوریت کا مذاق

  زیادہ دن نہیں ہوئے کہ رسم و رواج کے نام پر جلی کٹو جیسے حیوانی کھیل کے خلاف تاملناڈو کے لوگوں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو ماننے سے انکار کر دیا، بالآخر مرکزی او ریاستی حکومت کے تال میل سے حیوانی کھیل کو جاری رکھنے کیلئے نیا قانون تاملناڈو اسمبلی سے پاس کرایا گیا۔

 سابق وزیر اعلیٰ تاملناڈو جے للیتا کی بیماری کے دوران وی کے ششی کلا ہی مریض کی دیکھ بھال کیلئے 24گھنٹے نظر آنے لگیں ۔ بہت سے لوگوں کو جے للیتا کی عیادت سے محروم کیا گیا، یہاں تک کہ جے للیتا کے رشتہ داروں کو جے للیتا کے قریب جانے سے روکا گیا۔ اس طرح ششی کلا نے اپنے دشمنوں کی تعداد بڑھالی۔ لیکن ان سب کے باوجود جے للیتا کی موت کے دوماہ بعد اتفاق رائے سے انا ڈی ایم کے کے سب سے بڑے عہدہ جنرل سکریٹری کیلئے منتخب کرلیا گیا۔ پھر چند دنوں کے بعد انا ڈی ایم کے لیجسلیچر پارٹی (Lagislature Party) نے بھی اتفاق رائے سے پارٹی کا لیڈر نامزد کرلیا۔ کسی قسم کی نا اتفاقی یا ہنگامہ آرائی نہیں ہوئی۔ اپوزیشن پارٹیاں ششی کلا کی تاجپوشی پر چیں بہ جبیں تھیں ۔ خاص طور سے انا ڈی ایم کے کی حریف پارٹی ڈی ایم کے کچھ زیادہ نکتہ چینی کرنے لگی۔ ڈی ایم کے کے ساتھ ساتھ دیگر اپوزیشن پارٹیاں بھی میدان میں اتر آئیں ۔ بی جے پی نے سبرامنیم کے سوا پورے طور پر منصوبہ بنالیا کہ کسی طرح بھی ششی کلا کو وزیر اعلیٰ کی کرسی تک پہنچنے نہ دیا۔ یہاں تک کہ رسم حلف وفاداری کی تاریخ، وقت اور قیام طے ہوگیا لیکن مرکزی حکومت کے اشارے پر تاملناڈو کے قائم مقام گورنر ودیا ساگر راؤ رسم حلف وفاداری کیلئے تیار نہ ہوئے۔

جس دن اس رسم کی ادائیگی کی تھی اچانک شام کو قائم مقام وزیر اعلیٰ او پنیر سیلوم جے للیتا کی سمادھی پر پہنچے۔ 45 منٹ تک گیان دھیان کرتے رہے۔ جب سمادھی سے باہر آئے تو میڈیا کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ انھیں زبردستی وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دلایا گیا۔ ان کی کابینہ کے وزراء بھی ان کے خلاف ہوگئے اور ان کی ذلت اور رسوائی کی۔ پنیر سیلوم نے ششی کلا کو نشانہ بنایا کہ انھوں نے اپنے آپ کو وزیر اعلیٰ کی کرسی کیلئے یہ سب کچھ کیا دھرا ہے۔ ساتھ ہی ششی کلا کو جے للیتا کی موت کا ذمہ دار بھی قرار دے دیا۔ یہ سب اچانک ہونے کی وجہ سے سیاسی تجزیہ نگاروں کو اندازہ ہوگیا کہ اس کے پیچھے بی جے پی اور ڈی ایم کے کا ہاتھ ہے۔

بی جے پی بھی کھل کر دہلی سے چنئی تک ششی کلا اور ان کے لوگوں کے خلاف ہوگئی۔ ڈی ایم کے انا ڈی ایم کے کے اندر دراڑ پیدا کرکے صدر راج یا اسمبلی الیکشن کا خواب دیکھنے لگی۔ بی جے پی نے گورنر راؤ کے ہر قدم کی حمایت کی، حالانکہ جو بھی حالات پیدا ہورہے تھے وہ محض گورنر کی بے عملی کی وجہ سے۔ گورنر وہی کچھ کر رہے تھے جو انھیں دہلی کی طرف سے اشارہ ملتا تھا، تین دنوں تک جبکہ چنئی میں زبردست ہلچل مچی ہوئی تھی۔ گورنر صاحب بمبئی شہر میں بیٹھے تماشائی بنے رہے جو لوگ بھی ششی کلا کو کرسی پر براجمان دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے وہ ان کی بدعنوانی کے مقدمہ کے فیصلہ کا انتظار کرنے کو حق بجانب ٹھہرانے لگے۔

ششی کلا اپنے تمام ایم ایل اے کو بس کے ذریعہ چنئی سے دور دراز علاقہ کے ریسورٹ میں ٹھہرا دیا تاکہ ایم ایل اے کو بہکانے یا خرید وفروخت کا موقع انا ڈی ایم کے حریفوں کو ہاتھ نہ آئے۔ مقدمہ کا فیصلہ ششی کلا کے خلاف ہوا۔ انھیں بنگلور کی ایک جیل میں 4سال کی مدت کی سزا کاٹنے کیلئے قید کر دیا گیامگر ششی کلا نے جانے سے پہلے پلانی سوامی کو لیجسلیچر پارٹی کا لیڈر نامزد کر دیا۔ ممبئی سے چنئی آنے کے بعد بھی گورنر صاحب پلا نی سوامی کے مخالفوں کو پورا موقع دیا کہ وہ پارٹی میں شگاف ڈال کر پنیر سیلوم کو کامیابی سے ہمکنار کریں لیکن جب گورنر صاحب کو پورا اندازہ ہوگیا کہ 133 میں پنیر سیلوم 11 ایم ایل اے سے زیادہ لاکھ کوششوں کے باوجود اپنے کیمپ میں لانے سے قاصر رہے تو گورنر نے پلانی سوامی کو حکومت کی تشکیل کرنے کی دعوت دینی پڑی۔

 پنیر سیلوم کا دعویٰ تھا کہ جب ریسورٹ سے انا ڈی ایم کے ایم ایل اے آزاد ہوکر اسمبلی میں آئیں گے تو ان کو اکثریت حاصل ہوجائے گی کیونکہ انا ڈی کے لیڈر اسٹالین نے یقین دلایا تھا کہ ان کے 89 ایم ایل اے،  کانگریس کے 8 اور مسلم لیگ کے ایک ایم ایل اے حمایت کریں گے۔ مسٹر اسٹالین نے اسمبلی ہاؤس کے فلور پر جب دیکھا کہ پلانی سوامی کا ایک آدمی بھی انا ڈی ایم کے کے باغی کیمپ میں آنے کیلئے تیار نہیں ہے تو شورو غل اور ہنگامہ برپا کرنے پر اتارو ہوگئے۔ اسپیکر کی کرسی پر ڈی ایم کے کے تین ایم ایل اے بیٹھ گئے۔ ٹیبل توڑ دیا۔ کرسی پھینکنا شروع کیا۔ مائیک بھی توڑ دیا جس کی وجہ سے اسپیکر کو اسمبلی کے اجلاس کو ملتوی کرنا پڑا۔ ایک بجے ڈی ایم کے کے ایم ایل اے اسٹالین کی قیادت میں پھر وہی ماحول پیدا کرنا چاہا۔ اسپیکر کو پھر اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔ 3بجے جب اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو ڈی ایم کے کے تمام ایم ایل اے جو ہنگامہ آرائی کر رہے تھے مارشل کے ذریعہ باہر کر دیئے گئے۔ اسمبلی کے اجلاس کو Live Talecast  نہیں کیا جارہا تھا مگر اسمبلی کے باہر میڈیا تک نہ صرف ساری باتیں باہر آرہی تھیں بلکہ موبائل فون وغیرہ کے ذریعہ اسمبلی کے اندر کا سارا ڈرامہ اسکرین پر دیکھا جانے لگا۔

 بہر حال ڈی ایم کے ایم ایل اے کے بعد کانگریس کے ایم ایل اے بھی واک آؤٹ کر گئے۔ مسلم لیگ کا ایک ایم ایل اے نے بھی کانگریس کی پیروی کی اور وہ بھی اجلاس سے باہر آگیا۔ اسپیکر نے کارروائی شروع کی۔ چند منٹوں میں اسپیکر نے نتیجہ کا اعلان کردیا۔ 122 ایم ایل اے نے موشن کے حق میں یعنی وزیر اعلیٰ پلانی سوامی کے حق میں رائے دی جبکہ پنیر سیلوم کے کیمپ کے گیارہ ایم ایل اے نے وزیر اعلیٰ کے خلاف ووٹ دیئے۔ اس طرح پلانی سوامی اعتماد کا ووٹ جیت گئے۔ اس کے بعد ڈی ایم کے کے لیڈر مسٹر اسٹالین اندر جو کچھ کرکے آئے تھے اس کی الٹی تصویر پیش کرنے لگے۔ میڈیا اور عوام کے سامنے اپنی قمیص پھاڑ دی گئی۔ انھیں اور ان کے ایم ایل اے کو زبردستی اسمبلی سے باہر کر دیا گیا۔ ڈی ایم کے کے ایم ایل اے اور لیڈروں نے اپنے کردار سے جو تصویر پیش کی اسے دیکھ کر ہر جمہوریت پسند آدمی ڈی ایم کے اور خاص طور پر اس کے لیڈر اسٹالین کی سخت سے سخت الفاظ میں مذمت کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

پہلا کام تو انھوں نے اسپیکر کو کارروائی کرنے سے غنڈہ ازم کے ذریعہ روک دیا۔ ان کے ایک ایم ایل اے کی دھوتی بھی کھل گئی ۔ کئی منٹ تک وہ صرف قمیص پہنے نظر آئے۔ اس طرح اسمبلی جہاں قانون سازی ہوتی ہے قانون کی دھجیاں بکھیر دی گئیں ۔ بیوقوفی کا عالم یہ تھا کہ جو کچھ اسمبلی کے اندر ڈی ایم کے کے ایم ایل اے اسٹالین کی قیادت میں کر رہے تھے۔ وہ اپنی حماقت اور بیوقوفی سے یہ سمجھ رہے تھہ کہ باہر کی دنیا سے ان حماقتوں کے کارنامے پوشیدہ ہیں ۔ عام طور پر جو چیز سامنے آئی وہ کہ عوام کی اکثریت کو ورغلایا گیا اور ششی کلا کو ہر طرح کا نشانہ بنایا گیا۔ معاملہ تو یہ ہے کہ اگر جے للیتا بھی ہوتیں تو انھیں بھی آج جیل جانا پڑتا کیونکہ بدعنوانی تھیں کی اصل مجرم جے للیتا تھیں ۔ پنیر سیلوم جسے باغی ہونے کی وجہ سے پاک و صاف پیش کیا جارہا ہے۔ انھیں تو  جے للیتا اور ششی کلا نے ہی وزیر اعلیٰ کیلئے نامزد کیا تھا۔ ان میں سے ایک کی موت ہوگئی اور دوسری زندہ ہے۔

 انا ڈی ایم کے ہو یا ڈی ایم کے ان میں دودھ کا دھلا ہوا کوئی نہیں ہے۔ کرونا ندھی کا حال تو یہ ہے کہ 92برس کے ہوگئے ہیں ابھی پارٹی کے صدر ہیں اور ایک بار اور وزیر اعلیٰ بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں ، جبکہ ان کے ہاتھ پاؤں سب کانپ رہے ہیں مگر وہ کہہ رہے ہیں کہ ’’گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے- رہنے دو ساغر و مینا مرے آگے‘‘۔ انھوں نے بھی اپنی پارٹی کو جاگیر بنا رکھا ہے۔ اپنے بیٹے ہی کو اپنا جانشین قرار دیا ہے۔ اسے پارٹی کا کارگزار صدر بنایا تا کہ ان کی موت کے بعد وہ ان کی وراثت کو سنبھالے جب اسی حمام میں سب ہی ایک طرح سے ننگے دکھائی دے رہے ہیں تو کم سے کم اسمبلی میں جہاں قانون سازی ہوتی ہے وہاں تو قانونی کی دھجیاں نہ بکھیری جائیں اور جمہوریت کا کھلم کھلا مذاق نہ اڑایا جائے۔ جس کے پاس ایم ایل اے کی تعداد زیادہ ہے اسے زبردستی وزیر اعلیٰ بننے سے روکا جائے یہ کہاں کی جمہوریت پسندی ہے؟

یہ تو جمہوریت اور آئین کا سراسر مذاق ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایم ایل اے میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو جرائم پیشہ ہیں جنھیں آئین اور دستور کا کوئی پاس و لحاظ نہیں ہے۔ آئین ان کیلئے وہی ہے جو ان کے مطابق ہو اور ان کے فائدے میں ہو۔ تاملناڈو جلی کٹو کیلئے جو مظاہرے اور احتجاج ہوئے اور اسمبلی کے اندر جو کچھ ہوا ا س سے صاف پتہ چلتا ہے کہ تاملناڈو جمہوریت کشی اور آئین شکنی کی طرف گامزن ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔