چنئی: سیاسی اتھل پتھل اوربالادستی کاحصول

بچپن میں میری امی اکثرکہاکرتی تھیں کہ’’ سکہرٹوٹا بلی کے بھاگ سے‘‘ تو یہ مثل ہمیں اس وقت سمجھ میں اگر آتا بھی تھا تو اتنا نہیں آتا تھا جتنا آج کل آرہا ہے۔ ویسے یہ مثل امی ہم لوگوں سے جس تناظر میں بھی کہتی تھیں وہ تناظر شاید بہت چھوٹا ہوتا تھا مگر جب سے تھوڑی سی سیاسی سوجھ بوجھ پیدا ہوئی ہے، ہمیں اس مثل کی آفاقیت سمجھ میں آنے لگی ہے۔  گزشتہ سال 5؍دسمبر کی رات’ اماں ‘ کے انتقال کے بعدچنئی میں سیاسی رسہ کشی کا ایک خاموش دور شروع ہوا۔

کچھ دنوں کے بعد یہ رسہ کشی اتھل پتھل میں بدل گئی۔ اماں کی انتقال کے بعد ان کی ہمدم اور ہمراز ششی کلاکو وزیراعلیٰ نہ بنا کر ایک تجربہ کار اور پختہ لیڈر پنیر سیلوم کو کارگزار وزیراعلیٰ کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا۔ اس وقت ششی کلابھی پنیر سیلوم کی حمایت میں تھی۔ شاید اسی لیے جس وقت اماں کی لاش پر ششی کلابیٹھی رو رہی تھیں، سیلوم کی تاج پوشی کر دی گئی اور 6؍دسمبر کو وہ کار گزار وزیراعلیٰ کی حیثیت سے تسلیم کر لیے گئے۔ کارگزار وزیراعلیٰ اس لیے کی فی الوقت ان کو اسی انداز میں دیکھا جارہا ہے۔ سب لوگوں نے اماں کے انتقال کے بعد ششی کلاکی آنکھوں میں آنسو دیکھا مگر شاید پنیرسیلوم کے درد کا احساس نہیں ہوا۔ایک بات پہلے واضح کردوں کہ میرا کسی سے کوئی جائز اور ناجائز کسی بھی طرح کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔آج جس پنیر سیلوم کو غدار کہا جاتا ہے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اماں کو ان پر ششی کلا سے کہیں نہ کہیں زیادہ اعتماد تھا۔

2001-2کے درمیان جب اماں کو مقدمات کا سامنا ہوا تو اماں نے انھیں کو اپنی جانشینی سونپی تھی اسی طرح 2014-15میں بھی ہوا اور اس وقت بھی پنیر سیلوم نے ہی سب کچھ سنبھالا۔اماں کی موت کے فورا بعد شاید اسی لیے تما م ممبران اسمبلی بشمول ششی کلاکی رضامندی کے وہ وزیر اعلیٰ منتخب کر لیے گیے۔ پنیرسیلوم نے بھی وزیراعظم مودی کی طرح چائے بیچی ہے اور ابھی بھی ان کے بھائی ان کی دکان چلا رہے ہیں اگر چہ مودی کی نہ چائے بیچنے کا پتہ ہے اور نہ ان کی دکان آج تک کسی نے دیکھی ہے۔  سیلوم کو جب وزیراعلیٰ بنایا گیا تو سارے ممبران پارلیمنٹ اور اسمبلی ساتھ تھے لیکن سوال یہ ہے کہ جوشخص3؍ مرتبہ اماں کا جانشین بنا وہ یکا یک غدار کیسے ہوگیا۔اماں کی بیماری کے دوران انھوں نے اماں کا پوراکام کاج سنبھالااور اماں کے دور میں وزیر خزانہ بھی رہے۔

سیلوم نے وزیراعلیٰ بننے کے بعد جب کئی طرح کی باتیں ہونے لگیں اور اماں کی موت پر شکوک وشبہات کا اظہار ہونے لگا تو انھوں نے تحقیقات کے لیے کمیشن بٹھانے کی بات کی۔ کسی بھی طرح کا سیاسی تجربہ نہ ہونے کے باوجودششی کلا کو پارٹی کاجنرل سکریٹری منتخب کرلیا گیا اور سیلوم نے استعفیٰ دے دیا۔7؍فروری کو مرینا بیچ پر اماں کی سمادھی پر ماتھا ٹیکنے کے بعد انھوں نے کہا کہ میں اماں کی موت سے پردہ ہٹاؤ ں گاہمارے ساتھ 50؍ممبران اسمبلی ہیں۔ انھوں نے ساتھ ہی یہ کہا کہ مجھ سے زبر دستی استعفیٰ لیا گیا۔ صوبہ کے گورنراس وقت باہر تھے ان کے آتے ہی سب سے پہلے سیلوم نے مل کر اپنی حمایت کی تفصیل پیش کی اس کے بعد ششی کلا نے ملاقات کی اور اپنے ساتھ 130؍ممبران اسمبلی کواپنے ساتھ ہونے کی بات کہی۔ اماں کی موت کے تعلق سے پیدا شدہ شبہات کو لے کر سیلوم حامیوں نے وزیراعظم مودی سے بھی ملاقات کی تھی اورسیاسی بحران کے حل کے لئے مداخلت کی بھی اپیل کی تھی۔

مرکزی حکومت نے دھیان بھی دیا۔غیر محسوب اثاثہ کا کیس جو کہ تقریبا20؍سال سے چل رہا تھا اس کافیصلہ ایک ہفتہ کے اندر آگیا۔سیلوم کی حمایت میں بی جے پی اوراناڈی ایم کے ممبران اسمبلی بھی ہیں حالانکہ یہ ممبران اسمبلی زندگی بھر اماں کے حریفوں میں رہے مگر نہ جانے کیوں آج ان سب کو اماں کی موت کے فورا بعدان کے معتمدخاص سیلوم پر امنڈ امنڈ کر پیار آنے لگا ہے۔  گور نر صاحب بھی اس دھماچوکڑی کو پمپ مارتے رہے یہاں تک کہ ششی کلا کا ٹائر ہی پنکچر ہوگیا۔ 14؍فروری کوسپریم نے ششی کلا کو ان کے دورشتہ داروں سمیت 4؍سال کی سزا سنادی۔ لیکن ششی کلا نے کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا انھوں نے ریزارٹ میں ہفتہ بھر سے قیام پذیر تمام ممبران اسمبلی سے مل کر پلانی سوامی کو وزیراعلیٰ کیلئے منتخب کرلیا اور16؍فروری کو ان کی حلف برادی بھی عمل میں آگئی۔ ششی کلا نے جاتے جاتے پنیرسیلوم کو پارٹی سے باہر کردیااور اپنے بھتیجے کو اپناجانشین بنا دیا۔ خبر یہ بھی آئی تھی کہ ششی کلا نے اپنے بھتیجے کو پلانی سوامی کی وزرأکی کو نسل میں بھی شامل کیاتھامگر گورنر نے ان پر کیس ہونے کی وجہ سے ان کے نام کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔

یہ یاد رہے کہ ششی کلا نے اپنے جس بھتیجے کو پارٹی کاجنرل سکریٹری بنایا ہے اس کو اماں نے اپنے دور میں پارٹی سے باہر کردیا تھا۔گورنر کاعہدہ ایک قابل عزت عہدہ ہے۔ اس کی عزت انتہائی ضروری ہے، مگر آج کل گورنرکا جس طرح استعمال ہورہا ہے وہ اس عہدہ کی نہ صرف توہین ہے بلکہ جمہوریت کے لیے دن بدن خطرناک ہوتا جارہا ہے۔ اس سلسلہ میں سب عمدہ مثال صرف دہلی کی دے سکتا ہوں۔  مکل روہتگی کا گورنر کو ہدایت دینا اور ساتھ ہی سبرامنیم سوامی کو ایکٹیو ہوجانا اور بی جے پی کا یہ کہنا کہ مرکز کی اس میں کوئی مداخلت نہیں ہے، اس بیان بازی پر دل لٹانے کوجی چاہتا ہے۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ رجنی کانت وغیرہ یکا یک کہاں سے اور کس کے اشارے پر حرکت میں آگیے تو شاید آپ دیش دروہ ہوجائیں گے۔ گورنر نے تقریبا 10؍دن پورے معاملہ کو لٹکا کر رکھا اور ششی کلا اور پنیر سیلوم کو اعتماد ثابت کرنے کا موقع نہیں دیا۔طرفہ تماشا تو یہ کہ ششی کلا پر سپریم کورٹ کے فیصلہ سے ایک دن پہلے اٹارنی جنرل کا بیان آتا ہے کہ گورنر دونوں کو بلا کر اکثریت ثابت کرنے کو کہیں اورصبح ششی کلا کو جیل ہوجاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ پنیر سیلوم کو کہ اماں کے معتمد خاص تھے اماں کی موت کے بعد اس معتمد خاص پر بی جے پی کو اس قدر ٹوٹ کر پیار کیوں آنے لگا اور اس کی حمایت میں اتر گیے۔ ساتھ ہی یہ سوال بھی پوچھا جانا ضروری ہے کہ وہ پیا ر جو پنیر سیلوم پر آیا ششی کلا پر بھی تو آسکتا تھا مگر ایسا کیوں نہیں ہوا۔18؍فروری کو خصوصی اجلاس بلا کر پنیر سیلوم اور پلانی سوامی کواعتماد ثابت کرنے کا موقع بالآخر دے ہی دیا گیا۔اے آئی اے ڈی ایم کے کے  135ممبران اسمبلی میں سے122نے پلانی سوامی کوووٹ کیا۔اس سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ پنیر سیلوم کا یہ الزام کہ ریزارٹ میں ممبران اسمبلی کو قید کرکے رکھا گیا تھا اس کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا اور یہ الزام محض الزام رہ جاتا ہے۔ ساتھ ہی ریزارٹ میں قید ممبران اسمبلی کی اس بات کو تقویت مل جاتی ہے کہ ہم نے پنیر سیلوم کی دھمکی کی وجہ سے خود کو قید کر رکھا ہے۔

 ان سب باتوں سے یہ مطلب بالکل بھی نہیں نکالا جانا چاہئے کہ کسی نے اماں کے ساتھ غداری کی۔ اس بات کو ششی کلا بھی نہیں مانتی انھوں نے خود کہا ہے کہ سیلوم نیہمارے ساتھ غداری کی۔ اماں کی زندگی تک ایسا کچھ نہیں تھا سب اماں کی موت  کے بعد ہو ا ہے اس کامطلب واضح ہے کہ کوئی بھی اماں کا غدار نہیں ہے بلکہ ہر کسی کی کو شش ہے کہ وہ اماں کی وراثت کو سنبھالنے کا زیادہ حقدار وہ ہے۔ ششی کلا اور پنیر سیلوم میں مفاہمت نہ ہونے سے اتنا بڑا معاملہ ہوگیا۔ پنیر سیلوم کوواقعی اماں کی موت پراگر کوئی خدشہ تھا تو انھوں نے استعفیٰ مانگے جانے سے پہلے اس کاکہیں اظہار کیوں نہیں کیا۔ ممکن ہے کوئی مجبوری رہی ہو مگر وہ مجبوری کیا ہوسکتی ہے فی الحال یہ سمجھ سے باہر ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ پنیرسیلوم کا دعوی غلط ہے۔ششی کلا کا یہ الزام کہ پنیر سیلوم نے ہمارے ساتھ غداری کی، درست ہے مگر اس کا یہ بالکل مطلب نہیں سیلوم نے اماں سے بھی غداری کی۔ رہی بات سیلو م کو اناڈی ایم کے کی حمایت توسیاست میں دشمن کا دشمن دوست بہت اہمیت رکھتا ہے، اسی ضمن میں بی جے پی کی حمایت کو بھی رکھ سکتے ہیں۔

ماحصل یہ کہ پنیر سیلوم اماں کے معتمد خاص رہے ہیں  اور ششی کلازندگی بھر اماں کی ہمدم اور ہمراز رہی ہیں۔ دونوں کا پارٹی پر دعوی بھی غلط نہیں ہے اور اماں کی وفاداری کی تئیں دونوں پر شبہ بھی بجا نہیں ہوسکتا مگر بالادستی کے لیے جب سیاست میں کوئی چیز نہیں بچتی تو جذبات اور الزام بہت کام کر جاتے ہیں۔ اماں کا سہارا، ان کی سمادھی پر پھول چڑھانا اور ماتھا ٹیکنا سب اسی کا حصہ ہے اور دونوں نے ان سب میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ بس یہ سکہر ٹوٹاتو بلی کہ بھاگ سے مگر مشکل یہ ہوگئی کی بلیاں دو ہیں، دونوں کے معرکہ میں سیلوم پیچھے ہوگیے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔