تجارت کے چند اہم اسلامی اصول (قسط ششم)

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

14۔ قسم کھانے سے اجتناب کرنا :

کچھ تاجروں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ گاہکوں کو مطمئن کرنے کے لئے بات بات پر قسمیں کھاتے ہیں، رسول اکرمؐ نے اس سے بھی منع فرمایاہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’إِیَّاکُمْ وَ کَثْرَۃَ الْحَلِفِ فِي الْبَیْعِ، فَإِنَّہُ یُنَفِّقُ ثُمَّ یَمْحَقُ‘‘ یعنی ’’ تم بیع میں بہت قسمیں کھانے سے اجتناب کرواس لئے کہ وہ (اولاً) مال کو تو نکلوادیتی ہے (فروخت کروادیتی ہے) پھر مٹادیتی ہے ( اس کی برکت کو)۔ (صحیح مسلم، کِتَابُ الْمُسَاقَاۃِ وَالْمُزَارَعَۃِ، بابُ النَّھْيِ عَنِ الْحَلِفِ فِي الْبَیْعِ، بروایت ابوقتادہؓ)۔ ایک روایت میں ہے کہ آپؐ فرماتے تھے: ’’الْحَلِفُ مَنْفَقَۃٌ لِلسِّلْعَۃِ مَمْحَقَۃٌ لِلرِّبْحِ‘‘ یعنی ’’قسم مال کو نکالنے والی ہے اور (بعد ازاں ) نفع کو مٹانے والی ہے ‘‘۔ (صحیح مسلم، کِتَابُ الْمُسَاقَاۃِ وَالْمُزَارَعَۃِ، بابُ النَّھْيِ عَنِ الْحَلِفِ فِي الْبَیْعِ، بروایت ابوہریرہؓ)۔ صحیح بخاری کے الفاظ ہیں : ’’الْحَلِفُ مَنْفَقَۃٌ لِلسِّلْعَۃِ مَمْحَقَۃٌ لِلْبَرَکَۃِ‘‘ یعنی ’’قسم مال کو نکالنے والی ہے اور (بعد ازاں ) برکت کو مٹانے والی ہے ‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع،بابٌ یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبَوٰاْ وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ، رقم ۲۰۸۷ )۔

           ان حدیثوں کا حاصل یہ ہے کہ قسم کھانے سے گرچہ ابتدا میں خریدار بھروسہ کرلیتاہے اور مال نکل جاتا ہے لیکن آئندہ نفع مٹ کرنقصان لاحق ہوتا ہے اور دکان برباد ہوجاتی ہے کیوں کہ دھیرے دھیرے لوگ اس کی اس عادت سے واقف ہوجاتے ہیں اور اس کی قسموں پر یقین کرنا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ دوسری برایٔ اس میں یہ ہے کہ دنیوی مفاد اور معمولی نفع کی خاطر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بابرکت نام کو بیچا جاتا ہے جو کہ ایک طرح سے اس کے پاکیزہ نام کی بے حرمتی ہے اور غالباً اسی وجہ سے اس کی برکت بھی ختم ہوجاتی ہے جیساکہ نبی کریم ﷺ نے آگاہ کردیاہے۔

          یہ سب نقصانات تو تب ہیں جب کہ قسم سچی ہو، اگر جھوٹی قسم کھایٔ تو اور بھی برا ہے۔ علماء نے اسے گناہ کبیرہ بتایا ہے۔ رسول پاکؐ سے بھی اس سلسلے میں سخت وعید مروی ہے۔ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا : تین شخص ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ تو کلام فرمائے گا، نہ ان کی طرف (نظر کرم سے) دیکھے گا اور نہ ان کو (گناہوں سے) پاک کرے گا اور ان (تینوں ) کے لئے دردناک عذاب ہے۔ حضرت ابوذرؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ! وہ کون شخص ہیں ؟ وہ تو نامراد ہوگئے اور خسارے میں پڑگئے۔ آپؐ نے فرمایا؛ اپنے ازار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا، اپنی عطا کردہ چیزوں پر احسان جتانے والا، اور جھوٹی قسمیں کھا کر اپنا مال تجارت فروخت کرنے والا۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات،بابُ مَاجَآئَ فِي کَرَاھِیَۃِ الْأَیْمَانِ فِي الشِّرَائِ وَالْبَیْع، رقم ۲۲۰۸)۔

15۔ جعلی کرنسی چلانے سے پرہیز کرنا :

جعلی نوٹ چلانے کا رواج بھی آج کی تجارت میں زوروں پر ہے۔ بعض لوگ منظم ڈھنگ سے اس دھندے کو چلارہے ہیں اور بعض نادانی میں اس کا شکار ہورہے ہیں۔ جو لوگ اس سازش کا شکار ہوجاتے ہیں وہ بھی اپنے نقصان کی تلافی کے لئے کسی دوسرے کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں، اس طرح فریب دہی کا یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ فریب دہی کی مذمت تو سطور بالا میں کی جاچکی ہے لیکن یہ چونکہ اس کی بدترین صورت ہے اس لئے اس کے چند خاص پہلوؤں کا ذکر یہاں ایک مستقل عنوان کے تحت کیا جارہا ہے۔ ایک تو اس عمل کے ذریعہ دوسرے کا مال بالکل ناحق اور باطل طریقے سے کھایا جاتا ہے جس سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری عز اسمہ ہے: {وَ لَا تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ باِلْبَاطِلِ۔۔۔۔الآیۃ۔ البقرۃ:۱۸۸} یعنیآپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ۔ اس لئے ایسے پیسوں سے حاصل کیا گیا مال بالکل حرام ہے۔ دوسرے یہ کہ اس اصول کے تحت کہ جس نے کسی گناہ کا کام جاری کیااس کو ان تمام لوگوں کے گناہ کے برابرگناہ حصہ میں آئے گا جو قیامت تک اس پر عمل کریں گے، بازار میں جعلی کرنسی چلانے والے کو بھی ان تمام لوگوں کے گناہ کے برابرگناہ ملے گا جو سلسلے کے اخیر تک اس میں شریک ہوں گے اور جو درمیان میں شامل ہوا اس کے ذمہ بھی اس کے بعد والوں کے گناہ کے برابر گناہ ہوگا۔ اسی لئے امام غزالیؒ نے کسی بزرگ کا مقولہ نقل کیا ہے کہ ایک کھوٹا درم بازار میں چلانا سو درم چُرانے سے بدتر ہے کیوں کہ چوری کا گناہ تو اسی وقت تک ہے جبکہ کھوٹے پیسے یا جعلی کرنسی چلانے کا گناہ ممکن ہے موت کے بعد تک جاری رہے اور وہ شخص بڑا ہی بدنصیب ہے جو خود تو مرجائے مگر اس کا گناہ نہ مرے اور اس گناہ کا سینکڑوں برس تک دنیا میں موجود رہنا ممکن ہے اور ایسے شخص کو جس نے اس کی ابتدا کی قبر میں عذاب ہوتا رہے گا۔ اس لئے ان کی رائے میں تاجر کے لئے کھوٹے سکے اور جعلی نوٹ کو پہچاننے کاہنر جانناواجب ہے، یہ اس لئے نہیں کہ وہ خود دھوکا نہ کھائے بلکہ اس لئے کہ لاعلمی میں وہ کسی اور کو دھوکا نہ دیدے۔ اگر کویٔ خود دھوکا کھاجائے تو اسے چاہیے کہ خود اپنے نقصان پر صبر کرلے اور اس نوٹ کو ضائع کردے تاکہ اس کے بعد فریب دہی کا یہ سلسلہ جاری نہ رہے۔ (کیمیای سعادت، صفحہ ۲۷۴)۔

16۔ ماپ تول کر لین دین کرنا :

تاجروں کونبی کریمؐ کی تعلیم یہ بھی ہے کہ وہ خرید و فروخت میں چیزوں کا تبادلہ ماپ تول کر ہی کریں۔ حضرت عثمانؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایاکہ جب تو کوئی چیز بیچا کرے تو ماپ کے دیا کر اور جب تو کوئی چیز خریدے تو اسے بھی مپوا لیا کر۔ (صحیح بخاری،کتاب البیوع، بَابُ الْکَیْلِ عَلَی الْبَائِعِ وَالْمُعْطِي)۔رسول اکرمؐ کے اس ارشاد میں دو حکمتیں پوشیدہ ہیں ؛ ایک تواس سے دھوکا دھڑی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اوردوسرے اس میں مستقبل میں رونما ہونے والے آپس کے اختلافات اور فتنوں سے حفاظت ہے۔ ساتھ ہی ایسے لین دین میں برکت کی بشارت بھی ہے۔ حضرت مقدام بن معدیکربؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’اپنے اناج کو ماپ لیا کرو، اس میں تم کو برکت ہوگی ‘‘۔ (صحیح بخاری،کتاب البیوع، بابُ مَا یُسْتَحَبُّ مِنَ الْکَیْلِ، رقم ۲۱۲۸)۔ اس لئے تاجروں کو چاہیے کہ اپنی تجارت میں اس اصول کا پورا لحاظ رکھیں۔ ہاں جو چیزیں ہمارے دیار میں تول کر نہیں بلکہ گنتی سے فروخت ہوتی ہیں ان میں اس حکم کا اطلاق گنتی پر ہی ہوگا۔ اسی سے یہ اصول بھی اخذ ہوتاہے کہ آپس میں پیسے کا لین دین بھی گن کر ہی کرنا چاہیے۔

17۔ ماپ تول میں کمی نہ کرنا :

ماپ تول میں کمی کرنا بھی ایک بدترین اخلاقی بیماری ہے جو آج کے بازاری نظام میں ایک وبا کی شکل اختیا ر کرچکی ہے۔ یہ بدترین قسم کی خیانت ہے کہ پیسے تو پورے لئے جائیں اور چیز کم دی جائے۔ قرآن کریم میں اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: {وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ ھ الَّذِیْنَ اِذَااکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ ھ وَ اِذَا کَالُوْھُمْ اَوْ وَّزَنُوْھُمْ یُخْسِرُوْنَ ھ اَلَا یَظُنُّ اُولٰٓئِکََ اَنَّھُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ ھ لِیَوْمٍ عَظِیْمٍ ھ یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ھ} (ترجمہ): ’’بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی کہ جب لوگوں سے ماپ کرلیتے ہیں تو پورا پورالیتے ہیں اور جب انہیں ماپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں، کیا ایسے لوگ یہ خیال (بھی) نہیں کرتے کہ وہ (اپنے مرنے کے بعد زندہ کرکے قبروں سے) اٹھائے جانے والے ہیں ؟ ایک عظیم دن (کی پیشی) کے لئے جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ‘‘۔ (المطفّفین: ۱-۶)۔ مطلب یہ ہے کہ اس طرح کی حرکت وہی لوگ کرتے ہیں جن کے دلوں میں اللہ کا خوف اور یوم آخرت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی کا یقین نہیں۔ دوسری جگہ صحیح وزن کرنے کی تاکید ان الفاظ میں کی گئی ہے: {وَ اَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا ھ}۔ (ترجمہ): ’’اور جب (کوئی چیز کسی کو)ماپ کر دینے لگو توبھرپور پیمانے سے ماپو اور (جب تول کر دو تو) سیدھی ترازو سے تولا کرو، یہ (فی نفسہ بھی) بہترہے اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت اچھا ہے‘‘۔ (بنیٓ اسرآء یل: ۳۵)۔ اس میں ایک بہتری تو اجر و ثواب کے لحاظ سے ہے جس کا انجام جنت ہے اور دوسری بہتری تجارت کے فروغ کے اعتبار سے ہے کہ ناپ تول میں دیانت داری سے گاہکوں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے اور تجارتی تعلقات زیادہ دنوں تک استوار رہتے ہیں۔

    ان دو کے علاوہ قرآن کریم میں چند دیگر مقامات پر بھی ماپ تول میں دیانت داری اختیار کرنے کی تاکید ملتی ہے مثلاً الانعام: ۱۵۲، الرحمٰن: ۷ – ۹، الاعراف: ۸۵، ھود: ۸۴ – ۸۶ وغیرہ جس سے اس مسئلہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سورۃ الاعراف اور سورۃ ھود کی مذکورہ آیات میں یہ ہدایت شعیب علیہ السلام کے تذکرہ میں ملتی ہے کیوں کہ ان کی قوم میں بھی یہ برایٔ عام تھی جس کے اصلاح کی فکر شعیبؑ نے کی لیکن جب وہ نہیں مانے تو ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب بھی نازل ہوا۔ اسی لئے رسول اکرمؐ نے اپنی امت کو اس سے متنبہ فرمایاکہ اس لعنت میں گرفتار ہوکر کہیں وہ بھی غضب الٰہی کا شکار نہ ہوجائیں۔ آپؐ نے ناپ تول کرنے والوں سے فرمایا: ’’تم لوگ دو ایسے کام کے ذمے دار بنائے گئے ہو (یعنی ماپنا اور تولنا) جن میں (کوتاہی کے سبب) تم سے پہلے کی (بعض) امتیں ہلاک ہوگئی ہیں ‘‘۔ (سنن ترمذی، ابواب البیوع،بَابُ مَاجَآئَ فِي الْمِکْیَالِ وَالْمِیْزَانِ، بروایت عبداللہ بن عباسؓ، رقم ۱۲۱۷؍ ۱۲۲۱)۔

          ایک بار آپؐ نے مہاجرین صحابہ کرامؓ کو مخاطب کرکے پانچ ایسے گناہوں پر متنبہ فرمایا جن کے ارتکاب پر کویٔ قوم دنیا میں اللہ تعالی کے عذاب کی مختلف شکلوں میں ضرور مبتلا کردی جاتی ہے اور آپؐ نے اس بات پر اللہ تعالیٰ کی پناہ بھی طلب کی کہ صحابہ کرامؓ (یا عام مسلمان) ان میں مبتلا ہوں جس میں آپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جب کویٔ قوم ماپ اور تول میں کمی کرتی ہے تو وہ قحط سالی، روزگار کی تنگی اور بادشاہ (حکمران وقت) کے ظلم و ستم میں مبتلا کردی جاتی ہے۔ (سنن ابن ماجہ، کِتَابُ الْفِتَنِ،بابُ الْعُقُوبَاتِ، بروایت عبداللہ بن عمرؓ، رقم ۴۰۱۹)۔ اس لئے ایک مومن تاجر کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں احتیاط برتے، دیانت داری کا رویہ اپنائے اور چند سکوں کی خاطر اللہ واحد القہار کے عذاب کا خود کو مستحق نہ بنائے۔

18۔ جُھکتی ڈنڈی تولنا:

کم تولنے کو اسلام میں جہاں ناپسند کیا گیا ہے وہیں جھکتا تولنے کو پسند کیا گیا ہے کیوں کہ اس میں ایثار اور احتیاط دونوں ہی پہلو شامل ہے۔ نبی کریم ﷺ سے اس سلسلے میں ہدایات بھی منقول ہے۔ سوید بن قیسؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے اور مخرفہ عبدی نے (بحرین کے ایک شہر) ہَجَرسے کچھ کپڑے خرید ے اور اسے (بیچنے کی خاطر) مکہ لے کر آئے تورسول اللہ ﷺ ہمارے پاس پیدل تشریف لائے اور ہم سے ایک پائجامہ کا سودا کیا جو ہم نے آپؐ کے ہاتھ فروخت کردیا اور وہاں ایک شخص تھا جو اجرت لے کر مال وزن کیا کرتا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’زِنْ، وَ أَرْجِحْ‘‘ یعنی ’’وزن کرو اور جھکتی ڈنڈی تولو‘‘۔(سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، بَابُ فِي الرُّجْحَانِ فِي الْوَزْنِ وَالْوَزْنِ بِالْأَجْرِ، رقم ۳۳۳۶)۔ دوسری روایت حضرت جابرؓ سے ملتی ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا: ’’إِذَا وَزَنْتُمْ فَأَرْجِحُوا‘‘ یعنی ’’ جب تم تولو تو جھکتا ہوا تولو‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، بَابُ الرُّجْحَانِ فِي الْوَزْنِ، رقم ۲۲۲۲)۔ ان احادیث کی بنیاد پرعلماء نے جھکتی ڈنڈی تولنے کو مستحب کہا ہے۔ اس لئے تاجروں کو چاہیے کہ کسی کو سامان دیتے وقت اس اصول کو بھی مد نظر رکھیں۔

19۔ ذخیرہ اندوزی سے پرہیز کرنا:

  تجارت میں زیادہ نفع خوری کے لئے ایک حربہ یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ ضروری اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کر کے بازار میں مصنوعی قلت پیدا کردیجاتی ہے جس سے مہنگایٔ بڑھ جاتی ہے اور چیزوں کے نرخ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ پھر گراں بازاری کے اس موقعہ سے ذخیرہ اندوز تجار خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ فقہی اصطلاح میں اس عمل کو احتکار کہا جاتا ہے جو شرعی نقطہ نظر سے حرام اور انتہایٔ ناپسندیدہ عمل ہے کیوں کہ اس میں انسانوں کی خدمت اور حاجت روایٔ کے جذبہ کے بجائے ضرر رسانی اور استحصال کا جذبہ داخل ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مَنِ احْتَکَرَ فَھُوَ خَاطِیئٌ‘‘ یعنی ’’جس نے ذخیرہ اندوزی کی وہ گناہ گار ہے‘‘۔ (صحیح مسلم، کِتَابُ الْمُسَاقَاۃِ وَالْمُزَارَعَۃِ، بابُ تَحْرِیْمِ الاِحْتِکَارِ فِي الْأَقْوَات، بروایت معمر ؓ بن عبداللہ)۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’لَا یَحْتَکِرُ إِلَّا خَاطِیئٌ‘‘ یعنی ’’گناہ گار کے سوا کوئی اور شخص ذخیرہ اندوزی نہیں کرتا‘‘۔ (صحیح مسلم، کِتَابُ الْمُسَاقَاۃِ وَالْمُزَارَعَۃِ، بابُ تَحْرِیْمِ الاِحْتِکَارِ فِي الْأَقْوَاتِ، بروایت معمرؓ بن عبداللہ)۔

          آپؐ کایہ بھی ارشاد ہے: ’’الْجَالِبُ مَرْزُوقٌ وَالْمُحْتَکِرُ مَلْعُونٌ‘‘ ’’جالب (یعنی دوسرے شہروں سے غلہ وغیرہ لاکر بازار میں بیچنے والا تاجر) مرزوق ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے رزق دیا جاتا ہے) اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی لعنت کا مستحق اور اس کی رحمت سے دور ہے)‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، بَابُ الْحُکْرَۃِ وَالْجَلَبِ، رقم ۲۱۵۳، بروایت عمرؓ بن الخطاب)۔ آپؐ سے یہ بھی منقول ہے کہ جو شخص مسلمانوں سے غلہ کا احتکار کرتا ہے( یعنی ان سے غذائی اشیاء روک کر بعدہ گراں نرخ پران کے ہاتھ فروخت کرتاہے) اللہ تعالیٰ اسے جذام اور افلاس میں مبتلا کردیتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، بَابُ الْحُکْرَۃِ وَالْجَلَبِ، رقم ۲۱۵۵، بروایت عمرؓ بن الخطاب)۔ آپؐ سے یہ بھی روایت ہے کہ جس شخص نے چالیس دن تک گرانی کے خیال سے غلہ کو روک رکھاوہ اللہ سے بیزار ہوا اور اللہ اس سے بیزار ہوا۔ (   مسند احمد، رقم ۴۹۹۰، بروایت عبداللہ بن عمرؓ)۔ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ جس شخص نے گراں فروشی کی نیت سے غلہ کو چالیس دن تک روکے رکھا اور پھر اسے (اللہ کی راہ میں ) صدقہ کردیا تو (بھی) وہ اس کے (اس گناہ) کے لئے کفارہ نہیں ہوگا۔(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب البیوع، باب الاحتکار، رقم ۲۸۹۸، بروایت ابوامامہؓ)۔

          مذکورہ بالا احادیث سے ذخیرہ اندوزی کی شنیعت بالکل واضح ہے۔ اس کے برعکس حاجت روایٔ کی نیت سے تجارت کرنے والے تاجر کے بارے میں آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اناج خریدا اور کسی شہر میں لے گیااور مروجہ نرخ پرفروخت کردیا وہ ایسا ہے جیساکہ اس نے وہ سارا اناج خیرات کردیا۔(احیاء علوم الدین للغزالیؒ، صفحہ۵۱۶)۔

          یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ زمانہ قدیم میں ذخیرہ اندوزی عام طور سے غلہ کی ہی ہوا کرتی تھی اس لئے مذکورہ بالا احادیث میں غلہ کا ہی ذکر ہے۔ اسی لئے احتکار کا اطلاق علماء عام طور سے غذایٔ اجناس کی ذخیرہ اندوزی پر ہی کرتے آئے ہیں۔ اس لئے ایسی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کو جو غذا یٔ ضرورت میں استعمال نہیں ہوتی، علماء نے حرام نہیں کہا ہے۔ (مظاہر حق، جلد ۳، صفحہ۵۲۲)۔ لیکن اس سلسلے میں چند اہم نکتوں پر غور کرنا ضروری ہے؛ اول یہ کہ ذخیرہ اندوزی خواہ کسی بھی چیز کی ہو اس میں استحصال اور موقعہ پرستی کا جذبہ شامل ہوتا ہے اور یہ انسانی حاجت روایٔ اور نفع رسانی کے جذبہ کے خلاف ہے۔ دوئم یہ کہ یہ رسول اللہ ﷺ کی لایٔ ہویٔ شریعت کے مزاج کے بھی خلاف ہے جس کا رخ یہ ہے کہ معاشی نظام ایسا ہو جس میں عوام خصوصاً غریبوں اور کم آمدنی والوں کا زندگی گزارنادشوار نہ ہو۔ اس لئے احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ ہر قسم کی ذخیرہ اندوزی سے بچنا چاہیے۔ رہا علماء کا فتویٰ تو یہ جاننا چاہیے کہ فتویٰ تو ظاہر پر ہوا کرتا ہے اسی لئے امام غزالیؒ نے فرمایا: ’’و بسیار معاملت بود کہ فتوی دھیم کہ درست است، ولیکن آنکس در لعنت بود: و آن معاملتی بود کہ در آن رنج و زیان مسلمانان بود‘‘ یعنی ــــــــ ’’ بہت سے معاملات (و مسائل) ایسے ہیں جن میں فتویٰ ہم تو یہی دیں گے کہ یہ  درست ہے لیکن اس معاملہ کا مرتکب (اللہ تعالیٰ کی) لعنت میں گرفتار ہوگا اور یہ وہ معاملہ ہے جس میں مسلمانوں کو تکلیف ونقصان پہنچتا ہو‘‘۔ (کیمیای سعادت، صفحہ ۲۷۲)۔

          اس لئے موجودہ دور میں رائج رسویٔ گیس، کراسن تیل، ڈیزل، پٹرول، دوا وغیرہ کی ذخیرہ اندوزی بھی قابل ملامت فعل ہے اور اس سے حتی الامکان پرہیز کرنا چاہیے۔ ہاں ایک کسان کو یہ اختیار ہے کہ اپنی زمین سے پیدا شدہ غلہ کی ذخیرہ اندوزی کرے اور حسب ضروت فروخت کرے۔ اس پر جلدی فروخت کردینا لازمی نہیں لیکن اگر بازار میں اناج کی قلت ہواور عوام کو پریشانی کاسامنا ہو تو اس کے لئے بھی اولیٰ اور بہتریہی ہے کہ فروخت کرنے میں تاخیر نہ کرے۔

20۔ خرید و فروخت میں نرمی کا رویّہ اختیار کرنا: 

یوں تو اسلام میں نرمی اور خوش خلقی کا رویہ اختیار کرنے کی عمومی تعلیم دی گئی ہے لیکن تجارت کے شعبے میں اسے خصوصاً پسند کیا گیا ہے۔ رسول اکرمؐ نے ایسے تاجر کے لئے جو خرید و فروخت میں نرمی کا رویہ اختیار کرتاہے، دعا فرمایٔ ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو بیچتے وقت، خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت فیاضی اور نرمی سے کام لیتاہے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، بابُ السُّھُوْلَۃِ وَالسَّمَاحَۃِ فِي الشِّرَائِ وَالْبَیْعِ، وَ مَنْ طَلَبَ حَقًّا فَلْیَطْلُبْہُ فِي عَفَافٍ، بروایت جابر بن عبداللہؓ، رقم ۲۰۷۶ )۔ ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا ؛ ’’بے شک اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے نرمی اور خوبی سے بیچنے کو، نرمی سے خریدنے کواور نرمی و آسانی سے قرض ادا کرنے کو‘‘۔ (سنن ترمذی، کتاب البیوع، باب ماجاء في سمح البیع والشراء والقضاء، رقم ۱۳۱۹، بروایت ابوہریرہؓ)۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو جو تم سے قبل (امت سے) تھا بخش دیا (اس لئے کہ) وہ آسانی اور نرمی کرتا تھا جب (کچھ) بیچتا تھا اور آسانی اور نرمی کرتا تھا جب (کچھ) خریدتا تھا اور آسانی اور نرمی کرتا تھا جب (قرض کی ادائیگی کا) تقاضہ کرتا تھا۔ (حوالہ سابق، رقم ۱۳۲۰، بروایت جابرؓ)۔ ایک اور روایت میں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل کردیا اس شخص کوجو بیچنے اور خریدنے میں نرمی کا معاملہ کیا کرتا تھا‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، بابُ السَّمَاحَۃِ فِي الْبَیْعِ، بروایت عثمانؓ، رقم ۲۲۰۲)۔

          ان روایتوں کا تقاضہ یہ ہے کہ ایک مسلمان تاجر کو خرید و فروخت میں نرمی ہی کا رویہ اختیار کرنا چاہیے اور حقیقتاً یہ ایک ایسی پالیسی ہے جس کے ذریعہ ایک تاجر بہت کم وقفہ میں گاہکوں میں اپنی ساکھ قائم کرسکتا ہے اور اس کی تجارت چمک سکتی ہے۔ اس طرح تجارت میں اس سنت کو اپنانے سے دنیوی اور اخروی دونوں فوائدہیں۔ لیکن افسوس کا پہلویہ ہے کہ مسلمان تاجر عام طور سے اس صفت سے خالی نظر آتے ہیں جبکہ دوسری قوموں کے تجار نے اس پالیسی کو سختی سے اپنا لیا ہے جس کے دنیوی ثمرات سے وہ مستفیض ہو رہے ہیں۔ (جاری)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔