تحفظ، سلامتی اور امن سب کے لیے انصاف ضروری !

عالم نقوی

تحفظ، سلامتی اور امن ہمارے ز،مانے کے اہم ترین مسائل ہیں لیکن یہ سب کے سب انصاف پر منحصر ہیں اور وہی آج دنیا میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ ظلم کے خاتمے اور انصاف کے قیام کے بغیر دنیا کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہونے والا۔ ظلم امید کا قاتل اور مایوسی کا جنم داتا ہے۔ کم و بیش پوری دنیا غربت اور سماجی و معاشی عدم توازن کی شکار ہے اور اس کے ذمہ دار دنیا کے مٹھی بھر مُسرِفین و مُترِفین فرعون اور قارون ہیں جن کو اپنی ناک کے آگے کچھ  دکھائی نہیں دیتا ۔ اب یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ اس میں مسلم عرب  ملوک بھی شامل ہیں جن کی زبان وہی ہے جس میں قرآن نازل ہوا تھا لیکن انہوں نے کنز، اسراف اور تبذیر کو اختیار کر کے قرآن کو عملاً مہجور بنا رکھا ہے اور سمجھتے ہیں کہ یہ دنیوی دولت و طاقت، آخرت میں بھی ان کے کام آئے گی  حالانکہ قارون اور شَدَّاد کل کے ہوں یا آج کے   انجام  سب کا ایک ہی ہے۔

دنیا سے اگر یہ اسراف اور نا انصافی ختم ہو جائے اور اس کی جگہ انفاق اور عدل کی بالادستی قائم ہو جائے تو دہشت گردی اور بد امنی کے تمام مسائل بھی حل ہوجائیں گے اور دنیا اپنے آپ امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے گی۔ انصاف کے بغیر امن اور ترقی کی  باتیں اور ساری  نام نہاد کوششیں مزید بد امنی اور مزید بد حالی کو جنم دے رہی ہیں۔ صاحبان اختیار غربت کے خاتمے کی بات تو کرنے لگےہیں لیکن انصاف کے ساتھ ترقی Growth with Justice کی بات کرنے والے اب بھی برائے نام ہیں۔ مثلاً فرانس کے سابق صدر ژاک شیراک  نے پندرہ سال پہلے ہی 22 مارچ 2002 کو میکسیکو میں منعقدہ بین ا لا اقوامی کانفرنس برائے ترقی میں یہ اعتراف کر لیا تھا کہ ’’غربت کے خاتمے کے لیے بھی ٹھیک ویسے ہی عالمی اتحاد و اشتراک کی ضرورت ہے جیسا اتحاد و اشتراک دہشت گردی سے مقابلے  کے لیے قائم ہوا ہے ‘‘اور تیرہ سال قبل 30 ستمبر 2004 کو عالمی بینک کے اس وقت کے صدر جیمس وولفنسن نے انٹر نیشنل ہیرالڈ ٹریبیون میں شایع اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ’’جنگوں سے گزر کر آنے والے ملکوں اور مایوسی میں ڈوبے ہوئے غریب ملکوں میں معاشی استحکام پیدا کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا دوسری جنگ عظیم  ختم ہونے کے بعد ضروری تھا جب پوری دنیاامن کے قیام اور کروڑوں لوگوں کی شندگی کی تعمیر ِنَو کے لیے جد و جہد کر رہی تھی۔ غربت و افلاس کے خلاف مؤثر امداد ہی بہترین سرمایہ کاری ہے جو ہمارے بچوں کو پُر اَمن دُنیا اور نسبتاً محفوظ مستقبل فراہم کر نے کے لیے کی جا سکتی ہے۔

ترقیاتی کاموں میں سرمایہ کاری ہی ایک محفوظ قدم ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک کو چاہیے کہ وہ دنیا میں سماجی و معاشی استحکام لائیں اور ہر طرف چھائی ہوئی مایوسیوں کو گھٹانے کے اقدامات کریں کیونکہ غربت اور مایوسی ہی لوگوں کو تشدد کی طرف لے جاتی ہے۔ ۔اگلے تیس برسوں میں ( 2005 تا 2035)اس کرہ ارض کی انسانی آبادی میں مزید دو ارب (دو سو کروڑ ) نفوس کا اضافہ ہو چکا ہوگا جن کی ستانوے (97) فیصد تعداد غریب اقوام میں آنکھیں کھولے گی۔ وہ انتہائی غربت اور مایوسی کے عالم میں پرورش پاکر جب سن شعور میں قدم رکھیں گے تو خود کو ہمیشہ سے زیادہ ظالمانہ اور غیر منصفانہ ماحول میں پائیں گے۔ سماجی عدم استحکام عموماً ایسے ہی مقامات پر پنپتا  اور پھیلتا ہے جہاں کی نوجوان آبادی لفظ۔ امید۔ کو وعدہ نہیں ایک طنز سمجھنے لگتی ہے۔ ‘‘

لیکن امریکہ اور حلیفوں دوستوں غلاموں اور چاکروں کے نام نہاد  ’’وار آن ٹیرر۔دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘‘ کے گزشتہ پندرہ سولہ سالہ اقدامات نے آج 2017 کے خاتمے  کے قریب دنیا کو محفوظ بنانے کے بجائے غریبوں، کمزوروں، عام آدمیوں، دبے کچلے ہوئے لوگوں  یعنی مُستَضعَفین َ فی ا لا رض۔ کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ غیر محفوظ بنا دیا ہے اور مستقبل  قریب  ان کے کے لیے  اس سے بھی زیادہ خراب  حالات اپنے جلو میں لے کر آرہا ہے کیونکہ قارونوں شدادوں، فرعونوں، نمرودوں اور یزیدوں  نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے   دوستوں، غلاموں اور چاکروں کی مدد سے   اپنے  غیر معمولی اسراف و تبذیر اور ظلم و شقاوت کے ذریعے دنیا کے کئی ارب غریبوں اور کمزوروں کو فلسطین و افغانستان، یمن و سیریا  اور رَخائن(میانمار ) و کشمیر    کی طرح جنگوں اور خانہ جنگیوں، نسل کشی اور نسلی صفائے  Ethnic Cleansing کا شکار بنا کر ختم کر دینے  کے ’صہیونی۔ ابلیسی ‘ ایجنڈے  پر عمل کر نے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ دنیا کے تمام  مسلم اکثریتی علاقوں میں جاری خونیں کھیل اسی شیطانی منصوبے کا حصہ ہے۔

ہمارے سمجھنے کی بات صرف اتنی ہے کہ ’مکرو ا و مکر ا للہ واللہ خیر ا لماکرین ‘ وہ اپنی سازشوں میں تھے اور اللہ کا اپنا منصوبہ ہے اور اللہ سے بڑھ کے منصوبہ ساز اور کون ہو سکتا ہے ! دنیا کو علم نافع  کے حصول و فروغ، خلق ا للہ کی بے غرض خدمت، دفاع ذات کے لیے  بقدر استطاعت حصول قوت،اور عدل و انصاف  کے بے لاگ قیام کی ضرورت ہےاور بظاہر چاہے اِس کے خلاف نظر آتا ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ دنیا جہل و ظلم سے علم و حکمت ظلم و جور سے عدل و انصاف ہی کی طرف  گامزن  ہے۔ اور یہ کہ اللہ کی سنت یہ ہے کہ ’’ جو جھاگ ہے وہ بے مصرف ہو کر اُڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نفع بخش اور فائدہ پہنچانے والی ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے (سورہ رعد آیت 17)‘‘رہے اہل ایمان کے دائمی و ازلی  دشمن ( یہود و مشرکین و ابلیس ) تو ’’ وہ ( تو یہی ) چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں لیکن اللہ تو اسے درجہ کمال تک پہنچا کے چھوڑے گا چاہے کافروں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو ( سورہ صف آیت 8) ‘‘ فھل من مدکر ؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔