سر سید احمد خاں: شخصیت,عقائد اور نظریات!

محمد خان مصباح الدین عالیاوی

سر سید احمد خاں کی ولادت 17؍اکتوبر1817ء کو دہلی کے ایک متوسط گھرانے میں ہوئی۔ جسکا تعلق مغلیہ خاندان سے کافی اچھا تھا  آباؤ اجداد شاہ جہاں کے عہد میں ہرات سے ہندوستان آئے۔ شاه غلام علی نقش بندی مجددیدی دہلوی نے ’’احمد‘‘نام رکھا اور بڑے ہونے کے بعد ابتدائی تعلیم بھی دی۔ سر سید کی ابتدائی تعلیم وتربیت خالص مذہبی اور روحانی ماحول میں ہوئی، کیوں کہ ان کے والد اور دیگر افراد خانہ کو دہلی کے دو اہم علمی وروحانی مراکز خانقاہ نقش بندیہ اور خانوادۂ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے گہری عقیدت اور والہانہ تعلق تھا۔ دستور زمانہ کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے نانا فرید الدین احمد خان سے بھی حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم میں آپ نے قرآن پاک ناظرہ پڑھا اور عربی اور فارسی ادب کا مطالعہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے حساب، طب اور تاریخ میں بھی مہارت حاصل کی

 سر سید کا تعلق اس خاندان سے تھا، جو صدیوں سے علم و حکمت، فلسفہ و روحانیت اور مریدی کا مرکز رہا۔ سر سید بے پناہ دنیاوی فضائل و کمالات کی شخصیت تھے۔ ہم ان کی کن کن خوبیوں کایہاں ذکر کریں۔ ان کے علمی افکار، اعمال کا پیمانہ جماعتی، گروہی تعصب سے پاک تھا۔ ان کا ظرف،  انتہائی اعلی اور ذہنی سطح انتہائی بلند و ارفع تھا۔ علم و فن، فلسفہ و معارف، کا عکس انکی باتوں میں عیاں تھی متعدد زبانوں پر دسترس ,کتنی ہی اہم باتیں سر سید کی شخصیت میں شامل تھیں۔ گویا متعدد کمالات ایک انسانی ڈھانچہ میں اتار دیا گیا ہو۔ سر سید کو سمجھنے کے لئے کافی وقت درکار ہے۔

منزل بہ منزل!

ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے اپنے خالو مولوی خلیل اللہ سے عدالتی کام سیکھا۔ پھر 1837ء میں آگرہ میں کمیشنر کے دفتر میں بطور نائب منشی کے فرائض سنبھالنےلگے۔ 1841ء اور 1842ء میں مین پوری اور 1842ء اور 1846ء تک فتح پور سیکری میں سرکاری خدمات سر انجام دیں۔ محنت اور ایمانداری سے ترقی کرتے ہوئے 1846ء میں دہلی میں صدر امین مقرر ہوئے۔ دہلی میں قیام کے دوران میں آپ نے اپنی مشہور کتاب "آثارالصنادید” 1847ء میں لکھی۔ 1857ء میں آپ کا تبادلہ ضلع بجنور ہو گیا۔ ضلع بجنور میں قیام کے دوران میں آپ نے اپنی کتاب "سرکشی ضلع بجنور” لکھی۔ جنگ آزادی ہند 1857ء کے دوران آپ بجنور میں قیام پزیر تھے۔ اس کٹھن وقت میں آپ نے بہت سے انگریز مردوں ، عورتوں اوربچوں کی جانیں بچاکر انسانیت کاثبوت دیا۔آپ نے یہ کام انسانی ہمدردی کیلئے ادا کیا۔جنگ آزادی ہند 1857ء کے بعد آپ کو آپ کی خدمات کے عوض انعام دینے کیلئے ایک جاگیر کی پیشکش ہوئی جسے آپ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

1857ء میں آپ کو ترقی دے کر صدر الصدور بنا دیا گیا اور آپ کی تعیناتی مراد آباد کر دی گئی۔ 1862ء میں آپ کا تبادلہ غازی پور ہو گیا اور پھر 1867ء میں آپ بنارس میں تعینات ہوئے۔

1877ء میں آپ کو امپریل کونسل کارکن نامزد کیا گیا۔ 1888ء میں آپ کو سر کا خطاب دیا گیا اور 1889ء میں انگلستان کی یونیورسٹی اڈنبرا نے آپ کو ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ اور1864ء میں غازی پور میں سائنسی سوسائٹی قائم کی۔

ان کی زندگی کے احوال کو چار حصوں  میں  تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا دور 1817 تا 1837 ہے جو ان کے بچپن جوانی اور تعلیم کا دور ہے جس دور میں  مغلیہ سلطنت کے زوال کے آثار دکھائی دے رہے تھے۔ دوسرا دور 1838 تا 1857 کا احاطہ کرتا ہے۔ اس دور میں  سرسید کی بہت سی مشہور تصانیف منظرعام پر آئیں۔ اس دوران انھوں  نے نوکری، دیگر ادبی خدمات انجام دیں۔ تیسرا دور 1877 تک محیط ہے۔ اس دور میں   انھوں  نے قوم کے مابین اتحاد و اتفاق میل جول اور بھائی چارے پر زور دیا ہے، اس دور میں  انھوں  نے لندن کا سفر کیا اور وہاں  کی یونیورسٹیوں  کے تعلیمی نظام سے بہت متاثر ہوئے، اور انھوں  نے لندن ہی میں  اپنے ذہن میں  ‘ایک خاکہ بنا لیا تھا کہ ہندوستان میں  ایک عظیم یونیورسٹی مسلمانوں  کے لیے قائم کریں  گے۔

علی گڑھ تحریک!

سرسید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کئے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے

1857 کی جنگ آزادی میں  آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی شکست ہوگئی، اور مکمل طور سے مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔ 1857 کی جنگ آزادی سے ہندوستانی مسلمانوں  کا جانی و مالی نقصان سب سے زیادہ ہوا، اس کی وجہ یہ تھی اس جنگ میں  مسلمانوں  نے سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور انگریزوں کا ماننا تھا کہ ہندوستانی مسلمان ان کے سب سے بڑے دشمن ہیں ،  اس جنگ آزادی کے ردِّعمل میں  مسلمانوں  کا سب سے زیادہ خسارہ ہوا۔ غدر 1857 نے حکومت کو ہندوستانیوں  خاص کر مسلمانوں  سے حد سے زیادہ برہم کردیا جس کے نتیجے میں  مسلمانوں  کی زندگی اس ملک میں  دشوار ہوگئی۔ کتنے مسلمانوں  کو غدر کے الزام میں  سزائے موت دے دی گئی کتنے کے گھروں  کو اجاڑ دیا گیا۔ ان کی جائیدادیں  اور ان کی املاک کو ان سے نہایت بے دردی سے چھین لیا گیا ان پر روزی روزگار کے تمام راستے بند کردئیے گئے مسلمان زمینداروں ،  تعلقہ داروں  اور اس قوم کے سربرآوردہ اشخاص کی عزت و آبرو سبھی کچھ برباد کردی گئی، غریب مسلمانوں کے چھوٹے موٹے پیشے اور کاروبار کو تباہ کردیا گیا جس سے صنعت گر، اور ہنرمند مسلمانوں  کی بھی روزی ماری گئی۔ اس طرح مسلمانوں  کے اندر معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی ہر اعتبار سے بدحالی پیدا ہوگئی۔

سرسیداحمد خان نے 1857 کی تباہی کو اپنی آنکھوں  سے دیکھا تھا۔ اس نازک دور نے سرسید کو ذہنی کشمکش اور عجیب پریشانی میں  مبتلا کردیا تھا۔ انھوں  نے ہندوستانی مسلمانوں  کی فلاح و بہبود کے لیے برطانوی نظر سے مسلمانو ں کے خلاف قائم کو دور کرنے کی پیہم کوشش کی اور مسلمانوں  کی فوز و فلاح کے لیے مشکل سے مشکل کام کرنے کا عزم مصمم کرلیا اور وہ اپنے اس عظیم مقصد میں  کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔

اس تحریک کےکئی پہلوئوں میں نئے علوم کا حصول،  مذہب کی تفہیم،  سماجی اصلاح اور زبان و ادب کی ترقی اور سربلندی شامل ہیں۔ جبکہ رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ اس تحریک کے مقاصد میں مذہب،  اردو ہندو مسلم تعلقات،  انگریز اور انگریزی حکومت، انگریزی زبان،  مغرب کا اثر اور تقاضے وغیرہ چند پہلو شامل ہیں

سرسید احمد خاں برصغیر میں مسلم نشاتِ ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار تھے۔ انہوں نے مسلمانوں میں بیداری علم کی تحریک پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ انیسویں صدی کے بہت بڑے مصلح اور رہبر تھے۔ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو جمود سے نکالنے اور انھیں با عزت قوم بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی آپ ایک زبردست مفکر، بلند خیال مصنف اور جلیل القدر مصلح تھے۔ ” سرسید نے مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کا بیڑا اس وقت اٹھایا جب زمین مسلمانوں پر تنگ تھی اور انگریز اُن کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ وہ توپوں سے اڑائے جاتے تھے، سولی پر لٹکائے جاتے تھے، کالے پانی بھیجے جاتے تھے۔ اُن کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی۔ اُنکی جائدادیں ضبط کر لیں گئیں تھیں۔ نوکریوں کے دروازے اُن پر بند تھے اور معاش کی تمام راہیں مسدود تھیں۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ اصلاح احوال کی اگر جلد کوشش نہیں کی گئی تو مسلمان ” سائیس، خانساماں ، خدمتگار اور گھاس کھودنے والوں کے سوا کچھ اور نہ رہیں گے۔ … سر سید نے محسوس کر لیا تھا کہ اونچے اور درمیانہ طبقوں کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے کارناموں پر شیخی بگھارتے رہیں گے۔۔۔۔ اور انگریزی زبان اور مغربی علوم سے نفرت کرتے رہیں گے اُس وقت تک وہ بدستور ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ اُنکو کامل یقین تھا کہ مسلمانوں کی ان ذہنی اور سماجی بیماریوں کا واحد علاج انگریزی زبان اور مغربی علوم کی تعلیم ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر وہ تمام عمر جِدوجُہد کرتے رہے اور اسی مقصد کو مد نظر رکھ کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی.

 افکار ونظریات!

سر سید کی نمایاں سرگرمیوں کی وجہ سے ان کی دو حیثیتیں متعین کی جاسکتی ہیں۔

(1) ایک تعلیمی معمار کی

(2) دوسری مذہبی مصلح کی

اپنی پہلی حیثیت میں سر سید نے تعلیم کے ذریعے مسلمانوں کی معاشرتی اور معاشی ترقی کے لیے متحدہ ہندوستان میں تحریک چلائی، اسے تاریخ میں ’’علی گڑھ تحریک‘‘ کے نام سے جانا جاتاہے، جو مدرسۃ العلوم (علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی)کی شکل میں بارآور ہوئی۔معرکۂ ستاون کے بعد مسلمانوں کی تعلیمی، معاشرتی اور معاشی بدحالی پر اس تحریک نے جس طرح قابو پایاہے، اس کا اعتراف بلا تفریق مذہب وملت سب کو ہے۔

سرسید کی دوسری حیثیت مذہبی مصلح کی ہے۔اپنی اس حیثیت میں انہوں نے مسلمانوں کی مذہبی اصلاحات کا آغازکیا اور مذہبی خیالات کے زیر اثر جو تعلیمی،  معاشی اور معاشرتی حد بندیاں مسلمانوں نے مقرر کی تھیں ، انھیں ختم کرنے کی کوشش کی، نیز عیسائی حکمراں اور مستشرقین اسلام کے جن اصولوں پر معترض تھے، ان کی توجیہہ وتشریح عقل وسائنس کے ذریعے کرنے کی بنا ڈالی۔جو ان کے مقاصد کی تکمیل میں مانع تھا، یہاں تک کہ ہندوستان میں اس طرح کے خلاف جمہور عقیدوں پر مشتمل ایک ایسا فرقہ ظہور میں آگیاجو اعتزال کی ایک نئی شکل تھی، جو بلا شبہ تعقل پسندی اور نیچرل سائنس پر استوار تھا جسے ’’فرقۂ نیچریہ ‘‘ سے تعبیر کیاگیا۔در اصل سرسید کا یہی فعل ان کی ذات سے شروع ہوکر ان کی تعلیمی تحریک کی مخالفت کا سامان بن گیا۔

اس اعتراض کو سمجھنے کے لیے سر سید کے مذہبی عقائد وافکار کوجاننا ضروری ہے، جس سے مسئلے کی سنگینی اور علما کے مخالفانہ رویے کی صحت اور جواز کا اندازہ ہوسکے گا۔سرسید کے چند مذہبی عقائد بطور منشے نمونہ از خروارے حسب ذیل ہیں :

(1) ملائکہ اور فرشتوں کا کوئی خارجی وجود نہیں ہے۔

(2) نبی پر متعارف فرشتوں کے ذریعے وحی نہیں ہوتی، بلکہ خارجی طور پر وحی کا سرے سے کوئی وجود نہیں۔

(3) معراج اور شق صدر کے واقعات رؤیا کا فعل ہے۔

(4) قرآن میں جن یا اجنہ کے الفاظ آئے ہیں ، ان سے مراد پہاڑی اور صحرائی لوگ ہیں ، نہ کہ وہ وہمی مخلوق جو بھوت اور دیووغیرہ کے الفاظ سے مفہوم ہوتی ہے۔

(5) جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس پتھر کے بنے ہوئے چوکھونٹے گھر(کعبہ)میں ایک ایسی متعدی برکت ہے، جہاں سات دفعہ اس کے گرد پھرے اور بہشت میں چلے گئے، یہ ان کی خام خیالی ہے۔کوئی چیز سوائے خداکے مقدس نہیں ہے۔

(6)متحنقۂ اہل کتاب یعنی ایسے پرندے یا جانور جسے اہل کتاب نے گلا گھونٹ کر ماراہو، اس کاکھانا مسلمانوں کو جائز ہے۔

(6)حساب کتاب، میزان اور جنت ودوزخ کا کوئی خارجی وجود نہیں ، ان سے متعلق قرآن میں جو ارشادات ہیں وہ بطریق مجاز، استعارہ اور تمثیل کے ہیں۔

(8) قرآن مجید کی کسی آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ حضرت عیسی بن باپ کے پیداہوئے یا آسمان پر اٹھالیے گئے۔

(9)اﷲ تبارک وتعالیٰ اپنی قدرت کاکوئی خارق عادت نشان دکھاہی نہیں سکتا۔کیوں کہ اگر ایساہواتو اس کی عظمت وقدرت وصنعت کو بٹالگے گا۔

سر سید کے یہ تمام عقائد ان کی تفسیر’’تفسیر القرآن‘‘سے ماخوذ ہیں ، جس کے بارے میں مولاناالطاف حسین حالیؔ نے اپنے ایک مضمون ’’سر سید اور مذہب‘‘میں لکھاہے جو مئی 1898ء میں علی گڑھ میگزین میں شائع ہوا:

’’بہت سے مقامات ان کی تفسیر میں ایسے موجودہیں ، جن کو دیکھ کر تعجب ہوتاہے کہ ایسے عالی دماغ شخص کو کیسے ایسی تاویلات باردہ پر اطمینان ہوگیا اور کیوں کر ایسی فاش غلطیاں ان کے قلم سے سرزدہوئیں ‘‘۔(حیات شبلی، ص:237)

* نتائج

آپ نے ایک بار پھر دین میں عقل کا دروازہ کھول دیا جس کے نتائج آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ آپ کے بعد آنے والوں نے آپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عقل کی بنیاد پر طرح طرح کے عقائدِ فاسدہ گھڑلئے۔ جن سے عوام میں کفرو شرک کی طرف لے کر جانے والے عقائد عام ہوئے اور بدعات کو عقلی تائید بھی حاصل ہو گئی۔ جیسے مرزا قادیانی کا قرآن کی عقلی تاویل کرنا اور خاتمِ نبوت کے عقیدہ سے انکار کرنا، مولانا احمد رضا خاں صاحب کا عقلی دلائل کی بنیاد پر جلوسِ میلاد، ختم اور چالیسواں جیسی رسوم کو پھیلانا، غلام احمد پرویز صاحب کا عقل کو کسوٹی بنا کر احادیث کا انکار کرنا اور جاوید احمد غامدی صاحب کاعقل و تدبراور اجتہادکے نام پر اجماعی اصطلاحاتِ دین اور اصول فقہ کی خود ساختہ تعبیرات پیش کرنا وغیرہ۔ ان سب صاحبان کے علم کا دروازہ جناب سر سید احمد خان سے ہی کھلتا ہے۔

تصانیف!

.آثارالصنادید

.رسالہ نمیقہ

.تاریخِ ضلع بجنور

.اسبابِ بغاوتِ ہند

.خطباتِ احمدیہ

.تفسیر القرآن

.تصیح آئینِ اکبری۔

.تاریخِ سرکشی بجنور

.لائل محمڈنز آف انڈیا، 1860 اور 1861۔ سلسلہ وار تھی، صرف تین نمبروں تک جاری رہی۔

.تحقیق لفظ نصاریٰ۔

.سلسلۃ الملوک، 1852ء۔ راجہ یدہشٹر سے ملکہ وکٹوریہ تک، دہلی کے بادشاہوں کا تذکرہ ہے۔

.قولِ متین در ابطالِ حرکتِ زمین۔

.فوائد الافکار فی اعمال الفرجار، ترجمہ 1864ء

.تصیح تاریخِ فیروز شاہی، 1862۔ ضیاءالدین برنی کی مشہور تصنیف کی سرسید نے تصیح کی۔

.تبئین الکلام، 1862

.علاج ہومیو پیتھک، 1867

.احکامِ طعام اہلِ کتاب۔

.سفر نامۂ لندن۔

.رسالہ ابطالِ غلامی

.النظر فی بعض المسائل۔

.سفر نامۂ پنجاب، 1884

.جواب امہات المومنین۔

.تسہیل فی جر الثقیل، 1844ء

.کلمۃ الحق، 1849ء

.رسالہ تہذیب

ان کے علاوہ سیرت فرید، جام جم بسلسلۃ الملکوت،  تاریخ ضلع بجنور اور مختلف موضو عات پر علمی و ادبی مضامین ہیں جو ’’ مضامین سرسید ‘‘ اور’’ مقالات سرسید ‘‘ کے نام سے مختلف جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔

سفر آخرت!

انسانیت کو دنیاوی ترقی اور عروج تک کا راستہ دکھانے والا یہ غواص بالآخر برطانوی سامراج میں 1898ء (80سال عمر) علی گڑھ کی سرزمیں پر فوت ہوگیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے حدود میں انہیں سپرد خاک کیا گیا.

 ‘ایسے گئے کہ سبکو رلا کر چلے گئے’

چاروں طرف تاحد نظر لوگوں کا ایک بےکراں سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ جدھر بھی نگاہ جاتی، لوگوں کے سر ہی سر دکھائی دیتے تھے۔ آگے دیکھئے یا پیچھے، دائیں مڑیے یا بائیں ، لوگ سر جھکائے، افسردہ و مغموم پریشان حال، درد و کرب میں غرق چلے جا رہے تھے، اس وسیع سمندر میں آہ و بکاکی آوازیں ، اس طرح انہیں گویا سمندر کی طوفانی لہریں پورے جوش و خروش سے ساحل کی طرف بڑھ رہی ہوں۔ یکایک ہر طرف سکوت مرگ طارق ہو جاتا اور لوگ غم و اندوہ کے سمندر میں ڈوب جاتے۔

سر سید احمد خاں کی علمی خدمات کا اعتراف کیے بنا ہندوستان کی علمی تاریخ ادھوری ہے اس لیے کہ سر سید احمد خاں نےجو کچھ ہندوستانی سماج کو دیا ہے اسے بھلانا آسان نہیں ہے انکی کاوش اور خدمات کا قائل ہر شخص ہے ہاں خامیاں بھی تھیں انکے اندر مگر اسکی وجہ سے انکی علمی کارناموں کا انکار نہیں کیا سکتا_

تبصرے بند ہیں۔