تحفظ

شہلا کلیم

حیوانیت اگلتی آنکھیں اور اس پر شیطانی قہقہوں نے انکے وجود کو مزید بھیانک بنا دیا تھا وہ ان انسان نما درندوں کے بیچ بے بسی سے زمین پر پڑی انکی ماں بہنوں کی عزتوں کا واسطہ دیکر ان سے عفت و  عصمت کی بھیک مانگ رہی تھی۔

 ***

وہ قسمت سے ہارا ہوا ایک نوجوان شہزادہ تھا۔ دشمن سے شکست کے بعد سلطنت جاتی رہی خاندان قتل کر دیا گیا۔ وہ اور اسکی شہزادی بہن کسی صورت فرار ہونے میں کامیاب تو ہو گئے مگر جلد ہی گرفتار کر لۓ گۓ۔۔۔ دشمن کے مسلح سپاہیوں نے انھیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔ شہزادے کو بیڑیاں پہنا دی گیٸں ،پا با زنجیر کر دیۓ گیۓ۔۔۔مسلح سپاہیوں نے دونوں بازوٶں سے جکڑ لیا۔ بے بسی کا یہ عالم کہ ایک بھاٸ کے سامنے بہن کی رِدا نوچ لی گٸ۔ شاہی خون رگوں میں تیزی سے گردش کرنے لگا اور اسکی تپش سے شہزادے کا وجود جلنے لگا۔ وہ سر کٹا کر عزت و عصمت کی شان برقرار رکھنے والوں میں سے تھا۔۔

فرار کی کوٸ صورت نہ تھی اسے یقین تھا کہ وہ قتل کر دیا جاۓ گا اور پھر اسکی بہن۔۔۔۔۔!!

اس خیال نے ہی اسکے وجود پہ لرزا طاری کر دیا۔ اسکی رگیں بہن کے تحفظ میں جوش مارتے خون کی گرمی سے پگھلنے لگیں۔ بے بسی اور غصہ کے ملے جلے اثرات نے اسکی صورت کو ہیبت ناک بنا دیا۔۔۔۔ اگلے ہی پل وہ بڑی پھرتی سے پاس کھڑے سپاہی کی تلوار پہ جھپٹا اور  تمام  بیڑیوں اور زنجیروں کے باوجود سامنے دشمنوں کے نرغے میں پھنسی بہن کا سر دھڑ سے الگ کر دیا۔۔۔۔۔!!

***

یوں تو امی کی یہ کہانی اور اسکے ساتھ ڈھیروں نصیحتیں عام تھیں مگر دن بدن درندگی سے بھرے واقعات نے جس سرعت کے ساتھ ٹی وی چینلوں اور اخبارات کی ہیڈ لاٸنز میں اضافہ کیا تھا اس سے خوفزدہ ہو کر امی کی یہ کہانی، بچاٶ کے طریقے اور ڈھیر ساری نصیحتیں بھی عروج پہ تھیں۔۔۔۔

مگر عفت یہ کہانی سن کر ہمیشہ ہی تُنک جاتی۔۔

”اففف امی یہ تو خلیل جبران کے فلسفوں کی سی انتہا پسندی ہے۔۔۔“

اور جواب میں امی اسے گھور کر رہ جاتیں۔۔۔۔!!

***

عفت پوسٹ گریجویشن کے فاٸنل ایٸر کی طالبہ تھی آج اسکا تاریخ کا آخری پیپر تھا۔۔۔ایکزام ٹاٸم پہ وہ ہمیشہ ہی پریشان رہتی۔۔۔ اس کے محلہ سے ایک تانیہ ہی تھی جو اسکی ہم عمر اور گہری دوست ہونے کے ساتھ ساتھ کلاس میٹ بھی تھی دونوں ساتھ کالج جاتیں مگر دونوں کے سبجیکٹس چینج ہونے کی وجہ سے ایکزام ٹاٸم پہ عفت کو بڑی دشواری ہوتی۔۔۔۔اور اس پر یہ سیکنڈ میٹنگ کے ایکزامس۔۔۔۔۔  کوٸ بڑا بھاٸ ہوتا تو بھی مسٸلہ حل ہو جاتا۔

وہ صبح سے ہی پیپر کی تیاریوں میں لگی ہوئی تمام نوٹس پر آخری نظر ڈالنے میں مصروف تھی۔۔۔۔۔!!

ایکزام چونکہ سیکنڈ میٹنگ میں تھا اور  تقریباً ریویزن بھی مکمل ہو چکا تھا وہ بوریت سے بچنے کے لۓ ٹی وی روم میں چلی گٸ جہاں پہلے ہی نیوز چینل آن تھا اور وہی درندہ صفت حیوان چینلوں کی سرخی بنے ہوۓ تھے۔ جنکی حیوانیت کے ظلم و ستم اور معصوموں کی مظلومیت پر لمبی لمبی دیبات جاری تھیں۔

”آخر الیکشنس کے دنوں میں برساتی مینڈکوں کی طرح آکر ٹرٹر کرنے والے سیاستدانوں کی زبانوں پر ان سنجیدہ معملات کے سلسلے میں قفل کیوں لگ جاتے ہیں۔۔۔۔؟؟ کیا یہ سیاستدان عوام کی بہن بیٹیوں کو بھی اپنی وی آٸ پی سواریوں والی بہن بیٹیوں کی طرح سمجھتے ہیں جنکی وی آٸ پی گاڑیوں کے لۓ گھنٹوں پہلے ٹریفک جام کرکے ٹریفک کے اصولوں کو تہنس نہس کر دیا جاتا ہے۔۔۔۔“

عفت نے غصہ سے ٹی وی بند کرتے ہوۓ لمبی اسپیچ دے ڈالی۔

”نہیں بیٹا غلطی ہماری بھی ہے اگر تمام والدین اپنی اولادوں کی بہتر تعلیم کے ساتھ بہترین تربیت بھی کریں تو یہ نوبت نہ آۓ۔۔۔۔۔کیوں والدین اپنی جوان بیٹیوں کو عریاں لباس میں بازاروں کی زینت بننے دیتے ہیں۔۔۔۔؟؟“

 ”اپیا شاید ہمیں اپنی حفاظت خود کرنی ہوگی۔ مجھے لگتا ہے اب وہ زمانہ آچکا کہ ہر بھاٸ کو اپنی بہن کی عزت کے تحفظ میں اسکا سر دھڑ سے الگ کر دینا چاہیۓ۔۔۔۔۔ ہر بیٹی کو اپنی حفاظت خود کرتے ہوۓ اپنی نسوانیت کے تحفظ میں خود کو قربان کر دینا چاہیۓ۔۔۔۔تب شاید زمانہ ٕ جاہلیت کی طرح صنفِ نازک کے خاتمہ پر اسکی بقا کے لۓ کوٸ تو اس تاریک دور میں مشعلِ تدبیر لیکر نکلے گا۔۔۔۔۔“

چھوٹی بہن نے تقریباً امی کی کہانی کی تایٸد کر ڈالی۔عفت نے گھڑی دیکھی اور الله حافظ کہہ کر عبایا سنبھالا۔۔۔۔!!

***

آج وہ بے بس تھی۔ انکی تعداد اور طاقت کے سامنے اسکی ساری ذہانت اور بہادری دھری رہ گٸ۔ اسکا وجود کانپ رہا تھا روح نکلنے کو بے تاب تھی۔ ہونٹ نیلے پڑ گئے تھے جسم سے جیسے سارا خون چوس لیا گیا ہو اس پر نیم بیہوشی طاری تھی۔

یک لخت امی کی اس کہانی کی انتہا پسندی اور چھوٹی بہن کے آخری الفاظ نے اسے عجیب تقویت بخشی۔ وہ لرزتے وجود اور چکراتے سر کے ساتھ اٹھی اور پوری قوت و تواناٸ سے داٸیں جانب  تقریباً ایک فٹ باہر کو نکلی لوہے کی سریا والی دیوار کی طرف دوڑتی چلی گٸ۔۔۔۔۔۔۔۔!!

***

عفت نے اپنی نسوانیت پہ تو آنچ نہ آنے دی مگر اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ گٸ جن میں سب سے اہم سوال یہ تھا۔۔۔

”کیا وہ عریاں لباس تھی۔۔۔۔؟؟ “

تبصرے بند ہیں۔