تحفہ

کلیم ثاقب

جمال اپنے ایک بھائی سے چھوٹا اور دوسرے بھائی سے بڑا تھا بڑے بھائی شہر کے ایک پرائیویٹ اسکول میں پرنسپل کے عہدے پہ فائز تھے اللہ نے انہیں علم کی دولت سے مالا مال کر رکھا تھا علم سماجیات اور ریاضیات پر۔اچھی پکڑ تھی تبھی تو وہ ایک ایسے پرائیویٹ اسکول کا پرنسپل تھے جہاں قریب چار ہزار طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کر رہے تھے جو شہر کا بہت ہی بڑا مانا جاتا تھا اس اسکول میں شہر کے بڑے افسران، سیاسی لیڈران اور تاجروں کے بچے پڑھا کرتے تھے پر نسپل صاحب کے علم کی دھاک تھی دیکھنے میں لمبے اور خوبصورت تھے جب بھی کوئی انہیں دیکھتا ایک ہی نظر میں انہیں اس اسکول کا قابل اور سینئر استاد میں شمار کرہی لیتا تھا جمال سے چھوٹا بھائی کسی بڑے شہر میں انجینیرنگ کا طالب علم تھا اسے بس اعلی تعلیم حاصل کرنے کی ایک تڑپ اور چاہت تھی وہ اسی تڑپ اور چاہت میں شب و روز لگا رہتا تھا وہ گاؤں جب بھی آتا بڑے چھوٹے سبھوں سے صرف سلام تک ہی محدود رکھتا بہت کم لوگوں سے باتیں کیا کرتا تھا بیجا کہیں وقت ضائع نہیں کرتا تھا لیکن ہاں ۔۔۔۔۔!

جمال کے اس چھوٹے بھائی کے اندر ایک بہت ہی اہم صفت یہ تھی کہ وہ  انجینرنگ کا طالب علم ہونے کے باوجود بھی علم سیاسیات پر بہت ہی اچھی پکڑ رکھتا تھا یہی وجہ تھی کہ کالج میں اسے اسٹوڈینٹ یونین انتخابات کے موقع پر  یونین کا انچارج بنا دیا گیا تھا کہا جاتا ہے کہ اسے سیاست کے موضوع پر کچھ بھی اور کبھی بھی کچھ بولنے کا موقع ملتا  تو وہ لوگوں کے سوالوں کا تشفی بخش جواب دے کر عوام کو خوش کردیتا تھا۔

لیکن جمال ان تمام چیزوں سے دور تھا دونوں بھائیوں سے بالکل ہی جدا تھا دیکھنے میں کالا ، لیکن دل کا بہت ہی صاف تھا یہی وجہ تھی کہ اس کے والدین نے کسی اچھے عالم سے مل کر اس کا نام رکھا تھا ۔۔۔۔۔جمال۔۔۔۔۔۔۔!!!

چھوٹا قد کا لمبا آدمی،چہرے پر داڑھی، مسکراتا چہرہ نہایت ہی شرمیلا کم گو لیکن وضع قطع سے کسی اچھے مدرسے کا فارغ التحصیل معلوم پڑتا تھا جمال کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ نماز کا پابند تھا سفر میں ہو یا حضر میں نماز وہ اپنے وقت پر ہی ادا کرتا تھا۔ جمال اپنے گاؤں سے میٹرک کر کے  ہندوستان کے اس شہر میں چلا گیا تھا جہاں کی تجارت پوری دنیا میں مشہور ہے جس شہر میں وہ رہ رہا تھا وہاں کی تہذیب و ثقافت اس طرح کی تھی کہ جمال وہیں کا ہوکر رہ گیا پینٹ شرٹ کو بالائے طاق رکھ کر ایک مولوی نما تاجر کے لباس میں ملبوس رہا کرتا تھا وہ اپنے کاروبار کے تئیں ہمیشہ سنجیدہ رہا کرتا تھا دن ورات اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے پسینہ بہاتا اللہ نے تجارت میں اس کو اتنی برکت دی  اتنا نوازا کہ شہر کے مشہور و معروف تاجروں میں اس کا شمار ہونے لگا  اس کی ترقی میں اس کی محنت سے زیادہ اس کی بہتر اخلاق کا عمل دخل تھا کیا ہندو کیا مسلمان جو ایک بار اس سے مل لیتا بغیر متاءثر ہوئے نہیں رہ پاتا محض پچیس سال کی عمر میں اس نے اس نے ترقی حاصل کرلی کہ عام لوگ پوری زندگی گزار کر بھی حاصل نہیں کرپاتے ہیں شہر میں جمال کی ایک منفرد شناخت بن چکی تھی اب جمال  کے پاس جب بھی کوئی آتا تجارتی معاملات کے ساتھ ساتھ اس کے منشی سے یہ بھی دریافت کرنےکی کوشش کرتا کہ  کیا جمال صاحب کی شادی ہوچکی ہے۔۔  ؟ اگر نہیں تو کب اور کہاں کریں گے وہ نہیں میں جوابات دے کر آنے والے ہر شخص کو رخصت کرکے بھیج دیتا اور منشی  پیغام لیکر آنے والے شخص کو بتا بھی دیتا کہ جناب سنئے ۔۔۔۔۔۔!!!

جمال صاحب اس بڑے شہر میں تجارت تو کرتے ہیں لیکن وہ یہاں شادی نہیں کریں گے کیونکہ وہ کہا کرتے ہیں کہ آج بھی ہمارے گاؤں کی تہذیب و ثقافت سے شہر بہت ہی دور ہے منور رانا کے اس شعر کے مصداق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمہارے شہر میں میت کو بھی کاندھا نہیں ملتا 

ہمارے گاؤں میں  مل کر سبھی چھپّڑ اٹھاتے ہیں 

آج بھی گاؤں کے لوگوں کا اخلاق شہروں میں بسنے والے لوگوں سے بہت اعلی ہوتا ہے ایک دوسرے سے ملاقات کرنے ،ان کے غم میں شریک ہونے ،ضرورت کے وقت کام آنے کا جذبہ باقی ہے اور  برسوں یہ روایت قائم رہے گی یہ وہ چیزیں ہیں جو گاؤں میں تو زندہ ہیں لیکن شہر میں دور دور تک کہیں اس کا اتہ پتہ نہیں اسی لیے جمال نے گاؤں میں ہی شادی کرنے کا پختہ ارادہ کرلیاتھا ۔

شہر سے جب وہ پہلی بار گاؤں آیا تو اس سے ملاقات کم اور انہیں دیکھنے والے لوگ زیادہ آتے تھے کیونکہ سب کو معلوم تھا کہ شریف چچا کا وہ لڑکا جو میٹرک کرکے ہی اپنے والدین سے کوسو دور چلا گیا شریف چچا کو شب وروز  اس کی فکر لگی رہتی تھی آج وہ اپنے گاؤں  آیا ہے چلو۔۔۔۔۔۔

دیکھتے ہیں

کسی نے کہا کہ ارے ۔۔۔۔۔۔

میں نے سنا ہے کہ آج کل وہ اچھا کمارہا ہے مزید جس شہر میں رہ رہا ہے اس نے اپنی اچھی خاصی پہچان بنالی ہے

چلو بھائی ٹھیک ہے

کسی بھی طرح اپنے  علاقہ کا نام تو روشن کررہا ہے نا بہت اچھی بات ہے ۔

 گاؤں میں جمال کو آئے ابھی دو مہینہ ہی ہوا تھا کہ یہاں بھی شادی کا پیغام آنا شروع ہوگیا کیونکہ سبھوں کو یہ معلوم تھا کہ جمال شہر کو چھوڑ کر گاؤں اسی لئے آیا ہے کہ اسے شادی کرنی ہے۔

ایک دو ہفتہ تک مہمانوں کا سلسلہ جاری رہا ایک سے ایک امیر کبیر شخص جمال کے یہاں رشتہ کے لئے آرہا تھا لیکن جمال کی سوچ و فکر سے سب دور جا رہا تھا اس نے اہل خانہ سے بھی یہ کہہ رکھا تھا کہ میں ہوں ایک بڑا تاجر یہ میں نہیں لوگ کہتے ہیں لیکن یاد رہے کہ میں شادی نہایت ہی سادگی اور سنجیدگی کے ماحول میں کرنے کی دلی خواہش رکھتا ہوں اور انشاء اللہ اسی پر عمل بھی کروں گا اس نے اپنی ماں سے کہہ رکھا تھا کہ امی میں ایک ایسی لڑکی سے شادی کروں گا جسے سچ میں میری ضرورت ہو کیونکہ اللہ نے مجھے جتنا دیا ہے بہت ہے اس کا جتنا بھی شکریہ ادا کروں کم ہے مجھے بس بے سہارا کو سہارا دینا ہے گھر کے سبھی لوگ پریشان ہوگئے کہ اب کیا کیا جائے لیکن سبھوں کی بات کو ٹھکراتے ہوئے جمال نے کہہ دیا  تھا کہ مجھے بس کسی کا سہارا بننا ہے آپ سبھی لوگ تلاش کیجئے کوئی ایسی لڑکی جو بے سہارا ہو گھر کے لوگ کہنے لگے جمال نے تو ہم سب کے ارمان پر پانی پھیر دیا چودھری صاحب کی بیٹی سے شادی کا ہم لوگوں نے ادارہ کر رکھا تھا چودھری صاحب کو زبان بھی دے رکھا تھا یا اللہ اب کیا ہوگا کون ان سے بات کرے گا، کون انہیں سمجھائے گا کشکمش کی کیفیت سب پہ طاری تھی تب جاکر جمال کے چچا انور میاں نے کہا: گھبرانے کی کوئ بات نہیں ہے میں سمجھاؤں گا چودھری کو ۔۔۔۔۔!

بازار جاتے وقت انور چچا نے ارادہ کیا کہ چودھری کو صاف منع ہی کردیتے ہیں ورنہ بعد میں اس جمال کے چکر میں بہت ہی رسوائی اٹھانی پڑےگی۔

گھر کے سبھی لوگ سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے کہ کیا کیا جائے کہاں شادی لگائی جائے کس کو بولا جائے

اتنا سنتے ہی ۔۔۔۔دس سال کی شبو۔۔۔۔۔۔۔نے کہاں مامی جان جمال انکل کی شادی ۔۔۔۔۔۔تحفہ باجی سے کردو ۔۔۔۔۔۔

سبھی نے مل کر شبو کو ڈانٹا چپ رہو ۔۔۔۔۔۔۔!!!

 اکیلے میں بلاکر شبو کا بڑا بھائی دانش اسے سمجھانے لگا شبو۔۔۔۔۔۔۔۔بڑے لوگوں کے بیچ میں بچوں کو نہیں بولنا چاہیے

شبو۔۔۔۔۔سر ہلاتے جی بھائی

اب کبھی نہیں بولوں گی

شبو ۔۔۔۔۔۔پھر کیا بولتی بالکل ہی خاموش ہوگئی

دو چار دن گزر جانے کے بعد پھر سبھی لوگ ایک ساتھ جمع ہوئے تاکہ جمال بابو کی شادی کے سلسلہ میں تبادلہء خیال کیا جائے پھر ایک بار جمال کی شادی کا تذکرہ چل نکلا تو کئی لوگوں نے کہا کہ ارے ۔۔۔۔۔!!!

سچ میں  شبو نے جو اس دن ۔۔۔۔۔۔ تحفہ ۔۔۔۔۔کے بارے میں کہا تھا

اس سلسلہ میں آپ لوگوں کی کیا رائے ہے؟ پھر کیا تھا سبھی لوگ خاموش تھے ہر کوئی ایک دوسرے کے جواب کا منتظر تھا اسی وقت جمال کی بوڑھی ماں نے کہا کہ سنو جی ۔۔۔.۔۔۔۔!!

وہ تو بہت ہی پیاری ہے۔۔۔۔۔!

 بیٹی تحفہ۔۔۔۔۔

اتنا سنتے ہی سبھوں نے ایک ساتھ کہا کہ ماشاء اللہ

پھر ایک بار جمال کی اماں بولی تو ٹھیک ہے نا

تحفہ کو بہو بنالیا جائے سبھوں نے ایک ساتھ کہا جی ہاں بہت۔اچھا رہے گا

اب کیا تھا اتنا سنتے ہی ۔۔۔۔شبو نے فریج میں رکھی ٹھنڈی مٹھائی سے تمام اہل خانہ کا منہ میٹھا کردیا اور سبھوں کے چہرے پہ تبسم کی لکیریں پھیل گئیں۔

تبصرے بند ہیں۔