تراویح میں قرآن عظیم سے کھلواڑ

حفیظ نعمانی

20 مئی کے روزنامہ انقلاب میں صفحہ 4 پر سب سے اوپر 6 کالمہ سرخی کے تحت گونڈہ کی ایک خبر چھپی ہے کہ وہاں جامع مسجد خواجہ غریب نواز میں مدرسہ کے پرنسپل قاری محمد الیاس مشاہدی تراویح میں قرآن شریف سنا رہے ہیں جو یومیہ 6 پارے کے حساب سے 5 راتوں میں ہی تراویح میں مکمل قرآن سنا دیں گے۔ کم وقت میں پورا قرآن سننے والوں کا اژدہام دیکھنے کو ملا۔ پوری مسجد بھری ہونے کے باوجود مسجد کے باہر بھی نمازیوں کے لئے انتظام کیا گیا تھا۔ لوگ آس پاس کے مکانوں کی چھت پر بھی جانماز بچھاکر تراویح میں قرآن سن رہے ہیں ۔

آپ کے ہاتھ میں جب یہ اخبار ہوگا تو قرآن عظیم کے نام پر لگنے والا یہ اژدہام ختم ہوچکا ہوگا۔ ہمارا اپنا 75  سال کا تجربہ ہے کہ اگر قرآن کو اس طرح پڑھا جائے کہ سننے والوں کو اس کے حروف سمجھ میں آئیں تو نماز سے باہر ایک پارہ پڑھنے میں 20  منٹ لگتے ہیں اور تراویح میں ایک گھنٹہ میں 20  بار الحمد شریف 20  بار التحیات 20  رکوع 40  سجدے ہر تراویح میں ہر چار رکعت کے بعد ترویحہ میں 5 منٹ کی وجہ سے لگتا ہے اگر قاری الیاس صاحب قرآن کو قرآن عظیم کی طرح پڑھیں تو جامع مسجد میں عشاء کی نماز اور تراویح بارہ بجے رات کو ختم ہونا چاہئیں ۔ اگر وہ اسی طرح پڑھتے تھے اور بارہ بجے رات کو عشاء کی نماز ختم ہوتی تھی تو ان کی خدمت میں ہمارا سلام اور اگر ان کی تراویح گیارہ ساڑھے گیارہ بجے بھی ختم ہوجاتی تھی تو ان کے ساتھ صاحب قرآن عظیم کیا سلوک کریں گے یہ یوم حساب میں معلوم ہوگا۔

1992ء کے بعد 15  سال تک ہم لوگ عیش باغ کالونی میں رہے وہاں کوئی مسجد نہیں ہے نماز کے لئے دوگانواں کی مسجد جاتے تھے۔ جب رمضان شریف کی آمد آمد کا چرچا ہوا تو ہم نے مسجد کے متولی صاحب سے معلوم کیا کہ تراویح میں امام کون ہوگا؟ انہوں نے بتایا کہ میرا بیٹا قرآن سنائے گا۔ ہم نے مزید تفصیل چاہی تو معلوم ہوا کہ اس نے ندوہ میں حفظ کیا ہے۔ یہ سن کر اطمینان ہوا کہ تراویح میں اچھا سننے کو ملے گا۔ ہماری طبیعت بھی سنبھل چکی تھی کیونکہ ایک سال پہلے ہی پیس میکر لگا تھا۔ مگر جب یہ سنا کہ وہ ڈھائی پارے روز پڑھیں گے تو فکر ہوگئی کہ ہم کمزوری میں اتنی دیر سن سکیں گے یا نہیں ؟

پہلی تراویح میں جب حافظ صاحب نے قرآن شریف شروع کیا تو معلوم ہوا کہ وہ پڑھ نہیں رہے اُڑ رہے ہیں ۔ ہم نے سلام پھیرنے کے بعد ٹوکا بھی تو ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور رفتار وہی رہی۔ زیادہ دخل اس لئے نہیں دے سکتے تھے کہ ہم مسجد میں نئے تھے اور امام متولی صاحب کے فرزند تھے۔

بات چونکہ گونڈہ کی ہورہی ہے اس لئے عرض کردوں کہ جب دارالعلوم ندوہ میں شعبۂ حفظ قرآن ’’تحفیظ القرآن‘‘ کے نام سے اپنی نئی عمارت میں شروع ہوا تو مولانا علی میاں نے والد ماجد مولانا منظور نعمانی سے مشورہ کیا کہ حفظ قرآن کے لئے بہت اچھا استاد کوئی آپ کی نظر میں ہے والد نے انہیں گونڈہ کے مدرسہ فرقانیہ کے استاد حافظ اقبال صاحب کے لئے مشورہ دیا۔ مولانا نے فرمایا کہ پھر آپ ہی انہیں بلا دیجئے۔ اور حافظ اقبال صاحب نے آکر سنبھال لیا۔ میں جو دوگانواں کی مسجد کا ذکر کررہا ہوں کہ تراویح میں قرآن عظیم سنانے والے امام نے کہا تھا کہ میں نے ندوہ میں پڑھا ہے وہ مجھے یاد تھا اور یہ بھی معلوم تھا کہ حافظ اقبال صاحب اب برسوں سے ندوہ میں نہیں ہیں ۔ حافظ اقبال صاحب جب والد کی علالت کے زمانہ میں عیادت کے لئے آئے تو میں نے ان سے معلوم کیا کہ آپ کے شاگرد بھی اب ایسا پڑھ رہے ہیں کہ ہم حافظ ہوتے ہوئے یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ امام قرآن پڑھ رہا ہے یا کوئی ملتی جلتی دوسری کتاب سنا رہا ہے۔ حافظ اقبال صاحب نے اس وقت بڑے دکھ کے ساتھ بتایا کہ میں نے ندوہ چھوڑنے کا فیصلہ مولانا نعمانی صاحب سے مشورہ کے بعد کیا تھا۔ اور بتایا کہ جب لڑکے بڑھ گئے تو ضرورت ہوئی کہ کم از کم دو استاد بڑھائے جائیں ، ان کا انتظام دارالعلوم نے کردیا۔ دو چار دن کے بعد میں نے محسوس کیا کہ یہ دونوں تو میری ساری محنت پر پانی پھیر دیں گے۔ میں نے اشاروں میں سمجھایا کہ ندوہ کا حفظ قرآن میں بھی امتیاز رہنا چاہئے بچوں کو تیز پڑھنے سے روکئے۔ لیکن وہ میرے ماتحت نہیں تھے۔ پھر میں نے دیکھا کہ اب ندوہ کے زیادہ بچے اتنا ہی تیز پڑھنے لگے کہ یالمون تالمون کے علاوہ کچھ سمجھ میں نہ آئے۔ میں نے حضرت مولانا علی میاں سے تنہائی میں عرض کیا کہ میں کیا کرتا تھا یا چاہتا تھا۔ اور جے نئے استاد آئے ہیں وہ کیا کررہے ہیں ۔ مولانا نے فرمایا کہ آپ یہ بات مہتمم صاحب سے کہئے۔

حافظ اقبال صاحب والد ماجد کے پاس آئے اور پورا مسئلہ سامنے رکھا اور کہا کہ میں تو اپنے مدرسہ فرقانیہ گونڈہ کو چھوڑکر آپ کے حکم کی تعمیل میں آیا تھا مجھے نہ مہتمم صاحب نے بلایا تھا اور نہ رکھا تھا۔ اور اب جو استاد آئے ہیں وہ مہتمم صاحب نے ہی رکھے ہوں گے۔ اس لئے میں اب اجازت لینے آیا ہوں ۔ اور والد ماجد نے ان سے کہا کہ اب آپ آزاد ہیں جو مناسب سمجھیں وہ کریں ۔ اس طرح میں واپس آگیا۔ اب آپ نے جس کا قرآن سنا اس نے ندوہ میں حفظ ضرور کیا ہوگا لیکن وہ میرا شاگرد نہیں ہے۔ اتنا عرض کردیں کہ اللہ ان کے درجات بلند فرمائیں وہ جیسا قرآن پڑھتے تھے اسے یا تو ان کے شاگرد جانتے ہیں یا جنہوں نے ان کو پڑھتے سنا ہے۔ آج اسی گونڈہ کی جامع مسجد میں 6 پارے یومیہ پڑھنے کی وجہ سے میلہ لگتا ہے۔

اللہ کی وحدانیت سے لے کر دین کی ہر بات حضور اکرمؐ نے سکھائی ہے اور حضور اکرؐم کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبرائیل ؑ نے سکھائی ہے۔ ایک صحابیؓ نے حضرت اُمّ سلمہ(اُمّ المومنین) سے دریافت کیا کہ آپؐ قرآن شریف کس طرح پڑھتے تھے۔ انہوں نے بتایا بھی کہ ایسے پڑھتے تھے کہ ہر حرف الگ الگ ہوتا تھا اور پڑھ کر بھی بتایا کہ ہر آیت پر رکتے تھے۔ جیسے الحمد لللہ رب العالمین، پھر الرحمن الرحیم، پھر مالک یوم الدین۔ حضرت انسؓ سے حضرت قتاوہ ؓ نے معلوم کیا کہ حضور اکرؐم کیسے تلاوت فرماتے تھے انہوں نے کہا کہ حضور اکرمؐ مد والے حروف کو کھینچ کر پڑھنے کا بہت اہتمام فرماتے تھے۔

حضور اکرمؐ کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ تک بھی تراویح کے نام سے کوئی نماز نہیں تھی جیسے تہجد کے بارے میں ہے۔ لیکن رمضان المبارک کی راتوں میں زیادہ سے زیادہ جاگنا اور عبادت کرنا عام بات تھی۔ حضور اکرمؐ جب نفل کی نیت باندھ لیتے تو آپ کے پیچھے صحابہ کرام ایک کے بعد ایک آتے اور نماز میں شریک ہوتے۔ اس میں نہ رکعات کی پابندی تھی نہ قرآن عظیم کی کہ ایک رکعت میں کتنا پڑھا جائے۔

یہ جو تراویح میں رکعات کا اختلاف ہے شاید اس کی وجہ یہی ہے کہ حضور اکرمؐ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ وہ کوئی نفلی عبادت مسلسل کریں تو کہیں وہ فرض نہ ہوجائے اور وہ آپؐ کی اُمت پر بار ہوجائے۔ یہ بات حضرت عمرؓ کے زمانہ کی ہے کہ عشاء کے بعد جماعت سے نماز ہو جس میں قرآن عظیم پڑھا جائے۔ تراویح میں پورا قرآن پڑھنا نہ فرض ہے نہ واجب نہ سُنت۔ نہ جانے وہ کون تھے جنہوں نے رمضان المبارک کی راتوں میں زیادہ سے زیادہ نفل پڑھنے اور زیادہ سے زیادہ قرآن عظیم کی تلاوت کرنے کو اور رمضان المبارک کی اس تقسیم کو جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے بتائی ہے کہ پہلا عشرہ رحمت ہے دوسرا عشرہ مغفرت ہے اور تیسرا عشرہ دوزخ سے نجات ہے۔ اس کو تو ایک کنارے رکھ دیا اور سارا زور اس پر دے دیا کہ رمضان کی راتوں میں جیسے بھی ہوسکے پورا قرآن کرایہ کے حافظ سے پڑھوا لیا جائے وہ چاہے سوا پارہ روز ہو یا دو پارے روز ہو یا تین پورے روز ہو یا پانچ پارے روز ہو یا شبینہ کے نام سے ایک ہی رات میں پورا قرآن پڑھا جائے اور یہ بھی چھوٹ دے دی کہ سننے والا سن پائے یا نہ سن پائے سمجھنے والا سمجھ پائے یا نہ سمجھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ پہلا عشرہ جسے رحمت کہا گیا ہے اس میں ہر مسجد میں نمازیوں کی کثرت ہوتی ہے اور جہاں پانچ پاروں کی بدعت ہوتی ہے ان مسجدوں کے باہر سڑک کنارے پر شامیانے لگ جاتے ہیں یا بہ روایت انقلاب مسجد کے چاروں طرف مکانوں کی چھتوں پر بھی جانماز بچھاکر لوگ تراویح پڑھتے ہیں اور جو آخری عشرہ دوزخ سے نجات ہے جو ہر مسلمان کی تمنا ہے اس عشرہ میں ایک امام اور گنتی کے مسلمان ہوتے ہیں اور امام صاحب الم ترکیف سے آخری سورت تک 10  سورتوں کو دو بار پڑھ کر تراویح کی رسم ادا کردیتے ہیں ۔ جبکہ 8 رکعت بھی ماننے والے مسلمان ہی ہیں ۔

جس نے بھی رمضان کے اس مبارک مہینے میں ایک قرآن ترویح کا کافی بتایا ہے اس نے اسلام کے سینہ میں خنجر مارا ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آخری عشرہ جس کی ایک رات لیلۃ القدر ہے جس میں عبادت ایک ہزار مہینے کی عبادت یعنی 83  برس اور 4 مہینے کی عبادت کے ثواب سے بھی زیادہ ثواب کا وعدہ پروردگار نے خود کیا ہے۔ اور یہ بھی حضور اکرؐم نے فرما دیا ہے کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرہ میں اور غالباً طاق راتوں 21 ، 23 ، 25 ، 27  اور 29  میں سے کوئی ایک رات ہوگی۔ یعنی اگر صرف پانچ راتیں ہم نے اس طرح گذاریں کہ نفل پڑھے تلاوت کی درود شریف پڑھا دعائیں مانگیں اور جو کلمہ زبان پر چڑھا ہے اس کی تسبیح پڑھی غرض کہ شب قدر کی تلاش میں گذاریں تو یہ تھا وہ موقع کہ مسجدوں کے باہر شامیانے لگتے اور چھتوں پر پارکوں میں سڑک پر غرض کہ ہر پاک جگہ جہاں جگہ ملے یہ سودا کرتے تو بیڑا پار تھا۔

اگر کسی مسجد میں پورے رمضان میں آدھا قرآن بھی نہ ہو تو گناہ نہیں ہے لیکن ایک قرآن ہو اور اس طرح پڑھا جائے کہ حروف سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں مگر ہوجائے اور پھر مسجد کو سلام تو اُن مسلمانوں سے بڑا بدنصیب کون ہے جنہیں آخری عشرہ کے دس دن اور دس راتیں اور لیلۃ القدر ملنے والی ہو وہ یہ سمجھ کر کہ ہم نے ایک قرآن سن لیا بس کافی ہے اور وہ محروم رہ جائیں اور لعنت ہو اس شیطان پر جس نے ان جاہل مسلمانوں کو یہ بتا دیا۔

انقلاب کی خبر میں یہ بھی ہے کہ سبھاش نگر میں جامع مسجد غریب نواز (جہاں دارالعلوم اسلامیہ خواجہ غریب نواز بھی ہے) اس میں قاری محمد الیاس مشاہدی نے 6 پارے روز پڑھے اور پانچ دن میں ختم کردیا۔ ہم نے لکھا تھا کہ جو کوئی اس طرح پڑھے کہ ہر حرف سننے والے کی سمجھ میں آئے تو ایک پارہ پڑھنے میں 20  منٹ لگتے ہیں ۔ جو قاری ہو وہ اگر واقعی قاری ہے خود بھی اس نے قرأت سیکھی ہے تو- ع اور الف، ح اور ہ ، ث س ص، ز ذ ض ظ کو اس طرح پڑھے گا کہ ہر حرف کا مخرج الگ سنائی دے گا اور ہر وہ حرف جس پہ مد ہے اسے کشش کے ساتھ پڑھے گا اور اگر اس کی پابندی کرے گا تو وقت اور زیادہ لگے گا۔ اب یہ سبھاش نگر کے مسلمان جنہوں نے 6 پارے روز سنے ہیں ان میں وہی بتائیں گے جو تلاوت کرتے اور قرآن سنتے رہتے ہیں ۔ لیکن وہ جو مدرسہ کی بات ہے تو یہ مدرسہ کی آمدنی کا تقاضہ ہے جس نے ایک قاری کو قرآن قربان کرنے کی ہمت دی اور انہوں نے کم سے کم یعنی قرآن عظیم کو پانچ دن میں اس لئے ختم کردیا کہ پانچ پارے سننے والے میری دُکان پر آجائیں اور جب میرے پیچھے صرف پانچ راتوں میں پورا قرآن سن لیں گے تو چندہ بھی صدقہ بھی اور قربانی کی کھال بھی میرے مدرسہ کو دیں گے۔ مدرسہ کہیں ہو اور کسی کا ہو دین کے نام پر جتنا غلط کام مدرسوں میں ہورہا ہے کہیں نہیں ہوتا اور قاری الیاس صاحب کو مدرسہ کی ضرورتوں نے ہی یہ گناہ کرنے پر آمادہ کیا۔

گونڈہ میں حافظ اقبالؒ کے نہ جانے کتنے شاگرد موجود ہوں گے یہ ان کا فرض ہے کہ وہ قرآن پاک کے ساتھ اس مذاق کی مخالفت میں سامنے آئیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کاتقاضہ ہے کہ ایسی حرکتوں سے عالموں اور حافظوں کو روکا جائے۔

حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا ہے کہ میں نے خود رسول اللہؐ سے سناہے کہ جب لوگوں کا یہ حال ہوجائے گا کہ وہ شریعت کے خلاف کام ہوتے دیکھیں اور اس کی اصلاح کے لئے کچھ نہ کریں تو قریبی خطرہ ہے کہ اللہ کی طرف سے ان سب پر عذاب آجائے، (سنن ابن ماجہ جامع ترمذی) ایک اور حدیث حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل ؑ کو حکم دیا کہ فلاں بستی کو اس کی پوری آبادی کے ساتھ الٹ دو۔ حضرت جبرائیل ؑ نے عرض کیا کہ اس شہر میں تیرا فلاں بندہ بھی ہے کہ جس نے پلک جھپکنے کے برابر بھی تیری نافرمانی نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اس بستی کو اس بندہ پر اور سب باشندوں پر اُلٹ دو کیونکہ کبھی ایک ساعت کے لئے بھی میری وجہ سے اس بندہ کا چہرہ متغیر نہیں ہوا۔

حضرت جریر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہؐ سے سنا آپ فرماتے تھے کہ کسی قوم یا جماعت میں کوئی آدمی ہو جو ایسے اعمال کرتا ہو جو گناہ اور خلافِ شریعت ہوں اور اس قوم یا جماعت کے لوگ اس کی قدرت اور طاقت رکھتے ہوں کہ اس کی اصلاح کردیں اور اس کے باوجود اصلاح نہ کریں اسے اسی حال میں چھوڑے رکھیں تو مرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کسی عذاب میں متبلا فرمائے گا۔ (سنن ابی دائود سنن ابی ماجہ)

اللہ ہمیں معاف کرے کہ ہم اپنی معذوریوں کی وجہ سے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کرسکتے کہ مسلمانوں کو دل چیرکر دکھادیں۔ ابھی کچھ نہیں بگڑا ہے عشرہ مغفرت بھی باقی ہے اور دوزخ سے نجات کا عشرہ بھی ہر مسلمان کو کوشش کرنا چاہئے کہ جس مولوی اور جس قاری کی شیطانی اپیل پر 6 دن میں قرآن اور 5 دن میں قرآن سنا ہے اس کی معافی مانگیں اور ہر رات جتنی دیر ہوسکے مسجد میں گذاریں اور آخری عشرہ میں ہر مسجد دوزخ سے نجات مانگنے والوں سے بھری رہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔