ترکی میں لبرل فوجیوں کی ناکام بغاوت

سیکولرازم کے تابوت میں آخری کیل

ڈاکٹر ساجد خاکوانی
کمال اتاترک نے مسلمانوں کی خلافت کے مرکزمیں جس کفریہ نظریے ’’سیکولر ازم‘‘ کابیج بویا تھا آج تاریخ کاطالب علم اس نظریے کے زوال اور پھر اختتام کا بنظرغائرمشاہدہ کررہا ہے۔ ترکی کے مسلمانوں نے خاص طورپراور کل امت مسلمہ نے عام طورپرسیکولرازم سے عام برات کااعلان کیاہوا ہے۔ سقوط غرناطہ کے بعدسے خلافت عثمانیہ کے انجام تک سیکولرازم نے مختلف بھیس بدل کر انسانیت کاخون نچوڑااور ظلم و تعدی کاایک بازار گرم کیے رکھا۔ سوشلزم،کیمونزم،فاشزم،نیشنل ازم ،لبرل ازم،ایتھیسٹس اورہیومن ازم کے نام پرمیدان سیاست میں جمہوریت اورنظم معیشیت میں سرمایادارنہ نظام اور سودی معیشیت مسلط کر کے اس سیکولرازم نے انسانوں کاجس طرح استحصال کیے رکھا شاید اس کذب و نفاق کی مثال گزشتہ انسانی تاریخ میں عنقا ہو۔ خلافت عثمانیہ کی بچی کھچی ساکھ تک انسانیت کی بچت کسی حد تک ممکن رہی لیکن خلافت کے اختتام کے ساتھ ہی انسانیت پر مسلط کی جانے والی دو عظیم جنگوں میں تو اس سیکولرازم نے کل انسانیت کابھرکس ہی نکال دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعدسے اب تک ظلم کی ایک چکی ہے جس میں بڑی اور چھوٹی قوموں کے افراد پستے ہی چلے جارہے ہیں اور کل انسانیت آج علمی و تکنیکی ترقی کے باوجود بلامبالغہ چھٹی صدی عیسوی کے ننگ وتاریک دورانسانیت کامشاہدہ کیے چلے جارہی ہے۔
ترکی کی عوام نے موجودہ صدی کے آغاز سے ہی اپنے گوہرگم گشتہ کودوبارہ پایا اور سیکولرازم کو بالاجماع مسترد کر کے تووادی طیبہ مقدسہ کے شجرسایہ دارکی آغوش میں براجمان ہوئی۔ وقت کے سیکولر طاغوت کو ترک قوم کی یہ بیداری راس نہ آئی اور سازشوں کاایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیاگیا۔  اس سے قبل 2011ء میں بھی ایک فوجی بغاوت اپنے انجام کو پہنچی تھی اور طویل مقدمات کے بعد بہت سی اعلی فوجی قیادت سے استیفے لے کر انہیں گھروں میں بھیج دیاگیاتھااور ترکی کی منتخب اسلامی حکومت کو اﷲ تعالی نے سازشوں سے محفوظ رکھا۔  15جولائی 2016ء کو ترکی میں بچے کھچے سیکولرفوجی ایک بارپھر منتخب اسلامی حکومت کے خلاف آمادہ بغاوت ہوئے اور جمعہ پندرہ جولائی کی شام ساڑھے سات بجے اپنی کاروائیوں کاآغاز کردیا۔ ان باغی سیکولر فوجیوں نے استنبول جیسے مرکزی شہر پر قبضہ کی منصوبہ بندی کی اور شہر کے پلوں اور سڑکوں پر ٹینکوں کی تعداد تعینات کر کے پورے شہر میں فوجی گشت کاآغاز کر دیا۔ اس باغی سیکولرگروہ نے عوام کو خوفزدہ کرنے کے لیے ہوائی جہازوں کی نیچی پروازیں بھی شروع کر دیں تاکہ ترکی کے اسلام دوست عوام کو ہراساں و خوف زدہ کر کے تو گھروں میں دبک رہنے پر مجبور کر دیا جائے۔ اس تما تر تیاری کے بعد ایک سیکولرفوجی گروہ کی طرف سے ٹیلی وژن پرجھوٹااعلان کردیاگیا کہ ملک میں مارشل لاء نافذکردیاگیاہے،شہروں میں کرفیو لگادیاگیاہے اور ریاست کی باگ دوڑ ایک ’’امن کونسل‘‘نے سنبھال لی ہے۔ ان تمام اقدامات کے بعد انقرہ اور استنبول میں کہیں کہیں دھماکے بھی کیے گئے تاکہ عوام کوجان کاخوف لاحق ہواور وہ گھروں سے باہر نکلنے سے احتراز کریں۔
ان تمام امور کے لیے اس وقت کاانتخاب کیاگیاجب ملکی اعلی عوامی قیادت ملک سے باہر تھی۔ طیب اردگان جو ریاست کے براہ راست منتخب صدر ہیں اپنی تعطیلات کے سلسلے میں بیرون ملک تھے۔ بیدارمغزقیادت اور سرفروش عوام کااتحادبڑے سے بڑے طوفانوں کارخ بدلنے کے لیے کافی ہوتاہے،سیکولرازم تو پھرایک ناپختہ کچی ریت کاٹیلہ ہے۔ جناب طیب اردگان نے عوامی ذریعہ رسل (سوشل میڈیا)پراپنی قوم سے باہر نکل آنے کو کہا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پوری ترک عوام قرآن مجید کی اس آیت کی عملی تصویر بن گئی کہ ’’نکلو اﷲتعالی کی راہ میں ہلکے ہو یابوجھل‘‘۔ ہرگلی اور ہر کوچے سے اور محلے اور ہر سمت سے عوام الناس کا ایک جم غفیر تھا جو سیکولر باغی فوجیوں سے دودوہاتھ کرنے نکل کھڑاہواور پھر شہر کی سڑکیں اورمیدان انسانوں کے سروں سے بھر بھرگئے ۔ سیکولرفوجیوں کے وہم و گمان میں ہی نہ تھاکہ اتنا بڑا ردعمل بھی سامنے آسکتاہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ فوج فوج سے لڑ سکتی ہے لیکن کسی فوج کے لیے عوام سے نبردآزما ہونا ممکن نہیں۔ ترکی کے اسلام دوست عوام نے آؤدیکھانہ تاؤان مٹھی بھربزدل سیکولرفوجیوں کا گھیراؤ کر لیااورانہیں اپنے ٹینکیوں اور بکتربندگاڑیوں سے نکل کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ عوام الناس کے بپھرے ہوئے گروہ نے چن چن کر ان سیکولر فوجیوں کو پکڑااور انہیں باندھ بٹھایا۔ ترکی کے صدرطیب اردگان نے بار بار عوام سے یہ اپیل کی کہ ابھی گھرجانے کا وقت نہیں اور میدان میں جمے رہنا ہے۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ عالمی میڈیا کوشاید اس بغاوت کی خبر تھی چنانچہ شروع شروع میں تو بہت بڑھا چڑھا کر اس خبر کو نشر کیاجاتا رہا اور ساری دنیاکو یہ تاثردیے جانے کو کوشش کی جاتی رہی کہ ترکی کی اسلامی حکومت ختم ہو چکی ہے اور وہاں سیکولر فوج نے اقتدارپر قبضہ کرلیاہے اور وہاں امن کونسل نے ملک کا انتظام سنبھال لیا ہے اور وہاں کی سڑکوں اور پلوں پر فوجی گاڑیاں گشت کرتی نظر آ رہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جیسے ہی عوام نے اس بغاوت کا سر کچل کر رکھ دیا تو عالمی میڈیا نے خبروں کی بجائے صرف تصاویر دینا شروع کر دیں اور ہر کچھ وقفے کے بعد باغیوں کاموقف پیش کیاجاتارہاکہ اب انہوں نے فلاں جگہ پر قبضہ کر لیاہے تواب فلاں مقام پر گھمسان کی لڑائی ہو رہی ہے،اتنے قتل اور اتنے زخمی ہو چکے ہیں اور فلاں جگہ کے باغی کمانڈر نے یہ اور یوں اعلان بھی کر دیا ہے وغیرہ۔ گویا بغاوت کی مکمل فروکشی تک عالمی میڈیا کی سرتوڑ کوشش رہی کسی طرح سیکولرباغیوں کوکامیاب دکھائے یا پھر مملکت میں ہر طرف انارکی اور جنگ و جدل کا سماں بندھا ہی دکھاتارہے۔ چنانچہ بار بار ان الفاظ کی پٹی چلائی گئی ابھی بغاوت کو مکمل طور پر ختم نہیں جاسکا،ابھی فلاں جگہ اتنے یرغمالی باغیوں کے قبضے سے چھڑائے نہیں جا سکے اور ابھی باغیوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ عالمی میڈیا نے یہ خبر بھی نشر کر دی کہ ترکی کے عالمی ہوائی اڈے پر بھی سیکولرباغیوں کاقبضہ ہوچکاہے اوراسے آمدورفت کے لیے بندکردیاگیاہے اور دوسرے ملکوں سے آنے والی پروازوں کو واپس بھیجاجارہاہے ،جبکہ تھوڑی ہی دیر بعد دوسرے ملک سے ترکی کے صدر طیب اردگان ہوائی اڈے پر اترے انہوں نے صحافیوں سے ملاقات کی اور کہا کہ حالات مکمل طور پر حکومت کی گرفت میں ہیں اور باغیوں کو گرفتار کیاجارہا ہے۔ ترکی کے وزیراعظم بن علی یلدرم نے بھی کم و بیش انہی خیالات کااظہار کیاہے کہ ملکی نظم و نسق مکمل طورپر منتخب حکوت کی دسترس میں ہے۔ عالمی میڈیا نے بہت سے قتل،زخمی اور گرفتاروں کی تعدادبھی پیش کی ہے لیکن اس کی تصدیق اس وقت نہیں ہو سکتی جب تک کہ ترکی حکومت کامصدقہ موقف سانے نہیں آتا۔ عالمی میڈیا کی پیشہ ورانہ بددیانتی کا اس سے بڑھ کراور کیامظاہرہ ہوسکتاہے کہ باربار یہ امید نشر کی جاتی رہی ہے کہ اس طرح کی نئی بغاوت کسی وقت ہو سکتی ہے۔ اس سے قطعی طورپر ثابت ہوتاہے کہ عالمی میڈیاکو اس بغاوت کے ناکام ہونے کا کس قدر افسوس و تاسف ہے۔ عالمی میڈیا کا یہ رویہ کوئی نئی بات نہیں،کہنے کو یہ لوگ سیکولر اور لبرل ہیں لیکن جب اسلام اورمسلمانوں کی بات آتی ہے تودنیابھرکا تعصب ان کا حلق اگلنے لگتاہے اور اسلامی شعائرکو جلانے کے لیے ان کی آنکھوں سے شعلے برآمد ہونے لگتے ہیں۔ معاملہ اگر ہندومت کاہو،عیسائیت کاہو، یہودیت کا ہویاقادیانیت سمیت دنیاکے کسی مذہب کا،ان سیکولرلوگوں کی برداشت،ان کی محبت اور کے پیارکے جام بھربھرجاتے ہیں اور الفت و شادمانی کی صراحیاں چھلکنے لگتی ہیں،لیکن مسلمانوں اور اسلام کے معاملے میں ان کے پیمانے قوم شعیب سے جاملتے ہیں۔
ترکی کی قیادت اس لحاظ سے قابل ستائش ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں ان کے ہاتھ پاؤں پھول نہیں گئے۔ انہوں نے بروقت اور درست فیصلے کیے۔ تاریخ گواہ ہے کہ فوجی بغاوتوں کے وقت بزدل،بدعنوان اورغدار قیادت ملک سے فرارہوجاتی ہے،غیروں کے ہاں پناہ لیتی ہے اور ان ہی قوموں میں جاکر آباد ہوتی ہے جن کے مفادات کاتحفظ وہ اپنے دوراقتدارمیں کرتے رہے۔ فوجی بغاوت تو درکنار،ایسی کسی کسی بغاوت کی افواہ ہی اڑنے لگے تو ان کا جہازوطن کی حدود سے باہر جھانک رہا ہوتاہے اور جب تک ضمانتیں اورتسلیاں نہ دی جائیں انہیں واپسی درپیش نہیں ہوتی۔  لیکن ان حالات میں ترکی کی قیادت ملک سے باہر ہونے کے باوجود فوراََسے بیشتر اپنے وطن پہنچ گئی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق افواج کے سپہ سالاراعظم کو سیکولرباغیوں نے کسی محفوظ مقام پر نظر بندکررکھاتھا،اس صورتحال میں فوری طورپر ایک قائم مقام سپہ سالا اعظم کی تعیناتی عمل میں لائی گئی اور اس نئے سپہ سالا نے بڑی چابکدستی سے اپنی عسکری استعدادسے باغیوں کوقابوکیااور بغاوت کو بقوت وبزوربازوکچل کررکھ دیا۔ ملک کی سیاسی قیادت نے عسکری کمان کو شاباش دی ہے اورانہیں حالات کوسنبھال لینے پر آفرین کہاہے۔ سیکولراور اسلامی قوتوں کایہ ٹکراؤپوری اسلامی دنیاکے لیے مثال کی حیثیت رکھتاہے۔ اﷲتعالی کی ذات سے قوی امید ہے کہ ترکی کی اسلام دوست حکومت باقی رہے گی اوراس واقعے کے بعد ترکی کی اسلام پسند قوتیں اپنے اعتماد نفسی میں قوی تر ہو پائیں گی اور اپناتاریخی کردارایک بار پھر اداکریں گی کہ اسی ترکی نے کئی صدیوں تک اسلامی دنیاکی قیادت کی تھی اور اب بھی وہ اس کے لیے تیار رہے،ان شاء اﷲ تعالی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔