رمضان المبارک،کیا کھویا کیا پایا؟

ساجدہ ابو اللیث فلاحی

رمضان المبارک جس کا استقبال ہم مسلمانوں نے بہت ہی ذوق و شوق اور پرجوش طریقے سے کیا تھا ،چند روز قبل رخصت ہو چکا ہے۔یہ مہینہ اہلِ ایمان کے لیے بے پناہ خوشیاں، مسرتیں،متنوع قسم کی نعمتیں اور سب سے بڑھ کر نیکیوں کے حصول کے لیے مختلف النوع اسباب فراہم کرتا رہا۔اب جب کہ یہ مبارک مہینہ گذر گیاتوہم سب کواپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور غور کرنا چاہیے کہ ہم نے اس دوران بارگاہِ الٰہی میں کیسے اعمال پیش کیے ہیں۔ارشادِ ربانی ہے:
یا ایھا الذین آمنوااتقوا اللہ ولتنظر نفس ما قدمت لغدو اتقوا اللہ ان اللہ خبیر بما تعلمون(الحشر:18)
’’ائے ایمان والو!اللہ سے ڈرتے رہواور ہر شخص دیکھ(بھال)لے کہ کل (قیامت)کے واسطے اس نے(اعمال کا)کیا(ذخیرہ)بھیجا ہے۔اور (ہروقت)اللہ سے ڈرتے رہو۔اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے۔‘‘
اس سلسلے میں ہمیں عید الفطر کی خوشیاں مناتے ہوئے دو باتوں کا جائزہ لینا چاہیے۔
اول یہ رمضان میں ہماری مصروفیات کیا رہیں؟اوقات کا صحیح استعما ل ہوا یا نہیں؟غیر ضروری امور میں لگ کر کہیں ہم نے نیکیوں کے حصول کے مواقع ضائع تو نہیں کر دیے،افطار کے رنگ برنگے پکوان نے حدِّ اعتدال سے نکال کر ہمیں عبادتوں سے غافل تو نہیں کردیا۔آیا ہم اس مبارک مہینہ کو پا کر اللہ کے حضور اپنی بخشش کرا سکے یا نہیں؟ حدیث میں آتا ہے کہ :
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے،آپؐ نے منبر کی پہلی سیڑھی پر آمین کہا ،دوسری سیڑھی پر آمین کہا اورپھر تیسری سیڑھی پر بھی آمین کہا اور فرمایا:میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے، انہوں کہا اے محمدؐ!اللہ اس کو ہلاک کرے جس نے رمضان کا مہینہ پایا پس اس کی مغفرت نہیں کی گئی تو میں نے آمین کہا،پھر حضرت جبرئیلؑ نے فرمایا:اللہ اس کو ہلاک کرے جس نے اپنے والدین کو یا ان دونو ں میں سے کسی ایک کو پایا پھر بھی جہنم میں داخل ہواتو میں نے آمین کہا،پھر حضرت جبرئیلؑ نے کہا:اللہ ہلاک کرے اس کو جس کے پاس آپؐ کا ذکر کیا گیا پس اس نے آپؐ پر درود نہیں بھیجا پھر حضرت جبرئیلؑ نے مجھ سے آمین کہنے کے لیے کہا تو میں نے آمین کہا۔(صحیح ابن حبان:409)
دوم یہ کہ رمضان المبارک کے گذرنے کے بعد اب ہماری اور ہمارے گھروں کی دینی واخلاقی صورت حال کیا ہے ؟استقبال رمضان کے موقع پر ہم نے رمضان کی اہمیت و فضیلت اور روزوں کی فرضیت کے مقاصد کے تعلق سے قرآن وسنت سے جو جان کاری حاصل کی تھی،ان کے حصول کی تکمیل میں کہاں تک کام یاب ہوسکے؟آیا ایک ماہ کے روزوں اور فرائض کے علاوہ نوافل و قیام اللیل،تلاوت وتدبر قرآن،خیر خواہی،صلہ رحمی،انفاق فی سبیل اللہ و دیگر اعمال صالحہ جن کی انجام دہی کی ہم نے کوششیں کی تھیں،کیا رمضان کے اختتام پر بھی ہم اس پر قائم ہیں؟یا پھر نوافل نہ سہی کم از کم فرائض و سنن میں پابندی کی جارہی ہے یا ان سے بھی غافل ہو چکے ہیں؟امورِ دنیا میں بھی اللہ تعالی کی منہیات سے بچنے کا داعیہ اور خوف و خشیت کیا واقعی ہمارے ذہنوں میں جاگزیں ہے یا یہ تمام چیزیں رمضان المبارک کے ایام کے لیے وقتی و عارضی تھیں اور اب ہم پھر نعوذباللہ آزادانہ اور بے لگام زندگی گذارنے پر آمادہ ہیں اور رمضان کے رخصت ہوتے ہی ہم نے روزوں کے اثرات کو بھی اپنے قلب و ذہن نے کھرچ کر نکال پھینکا ہے۔ہماری عبادتیں قبول ہوئیں کہ نہیں؟اس سلسلے میں شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ نے فرمایا:
’’اگر دیکھنا ہو کہ کسی کی رمضان المبارک کی عبادتیں قبول ہوئی یا نہیں؟تو اس کے رمضان کے بعد والے اعمال دیکھو،اگر رمضان بعد بھی نیک اعمال پر اس کی استقامت اسی طرح باقی ہے جیسے رمضان میں تھی تو سمجھ لو کہ اللہ تعالی نے اس کی رمضان کی عبادتوں کو قبول کر لیاہے۔جس کی وجہ سے اسے ان اعمال کو تسلسل کے ساتھ باقی رکھنے کی توفیق عطا کی۔لیکن اگرمعاملہ اس کے برعکس ہو اور وہ دوبارہ گناہوں کی طرف مائل ہو گیا ہو تو سمجھ لو کہ اس کی عبادتوں میں کمی رہی ہے۔‘‘
غور کیا جائے تومسلمانوں کی موجودہ صورت حال عموماًکچھ ایسی ہے کہ رمضان کے جانے کے ساتھ ہی مساجد کا قدرے ویران ہو جانا،نمازیوں کا کم ہوجانا،قرآن کریم کی تلاوت و تدبر کے اہتمام کے بجائے جزدان میں اسے لپیٹ کر اگلے رمضان تک کے لیے گرد وغبار سے اَٹ جانے کے لیے چھوڑ دینا،ٹی وی اور موبائل کے ذریعہ فحش مناظر و گانوں سے لطف اندوز ہونا،لڑائی جھگڑوں اور فسق و فجور کا بازار گرم ہونا وغیرہ عام ہو چکا ہے۔یہ وہ امور ہیں جو افرادِ امت کو غور و فکر کی دعوت دے رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’سن لو خالص اطاعت تو اللہ ہی کے لیے ہے۔‘‘(الزمر:3)
رمضان المبارک کے ایک ماہ کے روزوں کی فرضیت سے اہلِ ایمان کی تربیت مقصود ہوتی ہے ۔یہ روزے ہمیں اطاعت کی تربیت دیتے ہیں۔محدود و متعین اوقات میں اللہ تعالی کی بے شمار نعمتوں سے لطف اندوز نہ ہونا،انسان کو ناجائز،حرام اور معصیت پر مبنی امورسے باز رکھنے کی عمدہ تربیت ہے۔اس کے ذریعہ اللہ تعالی بندے میں ایسی قوت و استعداد پید کرنا چاہتا ہے جو اسے اگلے گیارہ مہینوں میں حرام و ناجائز چیزوں سے دور رکھے اور تقویٰ کی زندگی گذارنے پر آمادہ کردے۔ تقویٰ کی تفسیر میں حضرت ابی ابن کعبؓ سے مروی ہے کہ حضر ت عمرؓ نے ان سے پوچھا:
’’تقویٰ کیا ہے؟انہوں نے سوال کیا کہ کیا آپ ایسے تنگ راستے سے گذرے ہیں جس کے دونوں طرف خاردار جھاڑیاں ہوں ؟حضرت عمرؓ نے کہا ہاں !بارہا ایسا ہوا،انہوں نے پوچھا تو آپ اس موقع پر کیا کرتے ہیں؟انہوں نے جواب دیا ،میں دامن سمیٹ لیتا ہوں اور بچتا ہوا چلتا ہوں کہ دامن کانٹوں میں نہ الجھ جائے۔حضرت ابی بن کعبؓ نے فرمایا بس اسی کانام تقویٰ ہے۔‘‘
زندگی کا یہ راستہ جس پر انسان سفر کر رہا ہے،خواہشات وترغیبات،وساوس ومیلانات ،گم راہیوں اور خاردار جھاڑیوں سے گھرا ہوا ہے چناں چہ اس راستہ پر ان کانٹوں سے اپنے دامن کو بچا کر چلنا،اطاعت حق کی راہ پر ثابت قدم رہنااور گم راہی،کج روی اور نافرمانی کی جھاڑیوں میں نہ الجھنا ہی دراصل تقویٰ ہے اور اسی مقصد کے حصول کے لیے روزے فرض کیے گئے ہیں۔اس کے ذریعے اگر اللہ تبارک و تعالیٰ کی الوہیت و ربوبیت کا احساس اور اپنی عبدیت کا شعور دل میں جاں گزیں ہو جائے تو اطاعت و فرمابرداری کا جذبہ انشاء اللہ العزیز خود بخود پیدا ہوجائے گا ،یہی وہ چیز ہے جو ہمیں راہ حق پر گامزن رکھنے میں ممدود ومعاون ثابت ہوگی اور اسی میں دنیا وآخرت کی کام یابی ہے۔
****

تبصرے بند ہیں۔