"”سات سمندر پار””

شیما نظیر، حیدرآباد

(1)

 صادق نے سودے کی تھیلی انوری کو تھمائی اور کہا مجھے ایک گھنٹہ میں جانا ہے جلدی سے کھانا دو

انوری نے کھانا پروسا اور کھانے کے دوران شوہر سے یوں.. گویا ہوئی

نجمہ کہہ رہی تھی کہ ایک اچھا رشتہ ہے لڑکا تجو کو باہر لے جائے گا….

کیا کریں دیکھنے بلالیں؟

صادق نوالہ منہ میں لے جاتے ہوئے……گہری سوچ سے بیدار ہوتے ہوئے آااں اااںں

ہاں بلالو ….مگر پہلے ہی بتادو کہ پانچ بیٹیاں اور ہے چھ بیٹے ان کے اخراجات ہی مشکل سے پورے ہوتے ہیں۔

لین دین کے لئے ہمارے پاس پیسہ نہی ہے ……..پھر تجو کی قسمت

یہ رشتہ بھی شائد چلا جائے کیسی عجیب قسمت ہے میری…..میں اپنے بچوں کے لئے سوائے دو وقت کی روٹی کے کچھ جٹا نہی پایا

آنکھیں ڈبڈبا گئیں……………….تو انوری نے کہا نہی تجو کے بابا دل چھوٹا مت کیجئے اللہ کی ازمائش ہے اللہ اچھا ہی کرے گا۔

پھر لڑکے والے آئے اسے پسند کرلیا اور بنا لین دین کے رشتہ طئے ہوگیا۔۔۔ صادق سے کہا کہ صرف شربت پلا کر شادی کردوکیونکہ لڑکا باہر ہے۔۔۔ وہیں سے فون پر عقد ہوگا ہمیں کچھ نہی چاہیئے، آپ کی لڑکی کو باہر بلا لیا جائے گا۔

والدین تو تجو کی اور اپنی قسمت پر رشک کر رہے تھے……………..شادی کے بعد تجو سسرال چلی گئی۔ کچھ دن بعد پاسپورٹ وغیرہ کی کارروائی کے بعد جلد ہی اس کے باہر جانے کا دن آگیا۔

جس دن وہ جارہی تھی ماں باپ بھائی بہنوں سے مل کر بہت روئی اور خود بھی اپنی قسمت پہ نازاں تھی۔

دبئی پہنچتے ہی ایک شخص نے اسے ریسیو کیا اور گھر پہنچادیا۔

تجو کی آنکھیں کھلی رہ گئیں گھر کیا وٍلّا تھا، تمام سہولیات سے آراستہ مکان پھر ایک بڑے سے کمرے میں اسے پہنچادیا گیا۔

کمرہ خوشبوؤں سے معطر تھا مسحور کن خوشبو کے درمیان اس نے اپنے ہمسفر کی جو تصویر بنائی تھی اسی کے تصور میں کھو گئی………….اللہ اللہ کر کے شام ہوئی کھانے کے بعد اسے عروسی لباس پہنا کر حجلہء عروسی میں بیٹھادیا گیا۔

جب دروازہ کی آہٹ ہوئی وہ خود میں اور سمٹ گئی اور انکھیں موند لیں لیکن چونک کر دیکھی جب ایک کرخت اور پختہ آواز  نے اس کے قریب سے سلام کے بعد عربی زبان میں اسے مخاطب کیا۔۔۔۔ اس کے نازک دل پر دھم سے بجلی گری جب اسنے نظر اٹھا کر دیکھا وہ تو …………وہ تو…………….

اور خود بخود اس کی آنکھوں نے نہ دیکھنے کی ہڑتال کردی مگر اسے انھیں سنبھالنا پڑا۔۔۔۔ بے شمار آنسو ہر رات اس کے تکیۂ میں جذب ہوتے گئے۔۔۔

سارے ارمان ساری خواہشات ساری تمنائیں اس کے شوہر کے مضبوط بازو کے حوالے ہوجاتے اور وہ بس بے بسی کے چند آنسو بہاتی اور سوجاتی۔۔۔

وہ تو اچھا ہوا کہ اس گھر میں خالہ تھیں جو اردو جانتی تھیں، باقی دب مرد و خواتین تو عرب ہی کی زبان بولتے تھے………… ….پھر …ایک دن خالہ نے کہا بی بی ‘ میاں کہہ رہے ہیں فون پر اپنے اماں سے بات کرو اور اپنے بھائی کو بولو پاسپورٹ بنوالے وہ انھیں یہاں کسی جاب سے لگانا چاہتے ہیں…..

یہ سن کر اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔۔۔

پھر اس کے بھائی کو بلالیا گیا۔

اس کے بعد آہستہ آہستہ اس کے گھر کے حالات بدلتے گئے؛ بدحالی خوشحالی میں’ غربت امیری میں’ تنگ حالی خوشحالی میں’ مصیبتیں خوشیوں میں…

قرضے ادا ہوگئے، فراخی آگئی اور بہنوں کے رشتے اچھے گھرانوں میں ہوگئے.

اس کا شوہر عرب ضرور تھا مگر اس سے بہت محبت کرتا تھا.

اب سب ٹھیک ہوگیا تھا.

ساری عمر کی ریاضتوں کا صلہ تھا کہ تجو نے اپنے بدحال گھرانے کو خوشحالی میں بدل دیا ـ

آج وہ کرب آمیز اطمینان محسوس کرتی تھی.

(2)

ساحر  جب سے باہر گیا تھا گھر کے حالات ضرور بدلے تھے اس سے سب مطمئن تھے…وہ بھی ـ

لیکن تین بہنوں کی شادیاں کرتے کرتے سب کا قرض ادا کرتے کرتے ساحر کی عمر، زندگی کے اس پڑاؤ پر پہنچ چکی تھی جہاں سے اسے اپنی زندگی شروع کرنی تھی۔۔۔ وہ پڑاؤ پیچھے پڑگیا پھر بھائیوں کو پڑھانا گھر کے اخراجات پھر ………

ان سب کے بعد  اس کے واپس آنے تک جب ماں اور بہنوں نے لڑکی کا جو معیار طئے کیا وہ لڑکی اس عمر میں ملنی مشکل ہوگئی…

بلکہ لڑکی ڈھونڈنے ڈھونڈنے میں ہی دو مرتبہ رسم ٹوٹ گئی… کئی جگہ رشتہ  کے لئے انکار کر دیا گیا..

اور پھر بہنوں کے بچوں کی شادیوں کا دور شروع ہوگیا… وائے رے ناکامی!  حسرت کے ساتھ اپنی زندگی کو خراب کیا.. محنت کرکے ساروں کا بھلا کرنے کے باوجود جب لڑکی ملی تو غریب گھر سے رنگ کم، سنجیدہ اور شریف ضرور تھی …….. دیگر خواہشات جہاں ادھوری رہیں وہیں فرمانبردار شریک حیات ضرور مل گئی مگر……..

جب بچے بڑے ہوئے اور اسکول چھوڑنے یا لانے جاتے تو بچوں کے دوسرے ساتھی کہتے تمھارے دادا تمھیں لینے آئے ہیں…

سفیدی بالوں میں اس قدر جھلک آئی تھی کہ لوگ

ساحر کو اس کی اپنے بچوں کا دادا سمجھنے لگے۔

(3)

سالم نے سعودی کی سرزمین پر قدم کیا رکھا گھر میں تبدیلی آتی گئی… تمام چھوٹے بھائی بہنوں کی ذمہ داری سر پر لیئے جب وہ پہنچے تو  بیوہ ماں کے دل کو ڈھارس بندھی۔۔۔

گھر کے حالات بدلے رہن سہن بدلا طور طریقہ بدلا…

یہاں تک کہ تہذیب بھی بدل گئی. اب سب کی شادیاں بھی  کرچکے۔۔۔

چار بھائیوں کو باہر بلالیا، بہنوں کو ان کے گھر کا کردیا …..خود کے چار بچے تھے جو بڑے ہورہے تھے ان کی ضروریات پورے کرنی تھی……

ایک دن ایسا حادثہ ہوگیا کہ ان کے پیر کی ہڈی ٹوٹی اور وہ وہیل چیئر کی زینت بن گئے… گھر واپس آگئے

چاروں بھائیوں نے مل بانٹ کر ان کا خرچ اٹھانے کی ٹھانی…

مگر یہ سلسلہ کچھ ہی دن تک چلا اس کے بعد سب بیزار ہونے لگے……

جہاں محبتوں کے قہقہے گونجتے تھے آج انہی در و دیوار میں نفرتیں پھیلی ہوئی تھیں. جس گھر کو والد کی زمین پر سالم نے بڑے چاؤ سے اپنے تمام بھائیوں کےلئے تعمیر کیا تھا آج وہاں دیواروں کے پارٹیشن ان کی نیتوں اور جھگڑوں پر قہقہہ لگا رہے تھے..

غم، خوشیوں کو منہہ چڑا رہے تھے…

اضطراب سکون کا مذاق اڑارہا تھا…

ایسے میں محنت کش سالم جو پیشہ سے میکینک تھے اپنی وہیل چیئر اور معذوری کے باوجود روزگار کی خاطر  پھر سے بازار میں نکلنے.. پیر  سے مجبور ہوگئے  عظیم شاہ راہ کے کنارے ٹاٹ کا چھپر ڈالے میکینک کی دکان کھول لی………

جب کبھی سوچتے ہیں کہ کیا حاصل ہوا دل عجیب طرح سے دھڑکتا ہےاور یہ شعر خود بخود زبان پر الفاظ کی جگہ لے لیتا ہے

بڑا ہی اچھا صلہ ملا ہے

عمر بھر کی ریاضتوں کا………

تبصرے بند ہیں۔