ترکی میں ناکام بغاوت اور جمہوریت 

عبدالعزیز
ترکی میں فوج کے ایک حصہ کی طرف سے ناکام بغاوت کی وجہ سے پوری دنیا کے حق پسندوں میں خوشی اور مسرت کی لہر دوڑ گئی۔  جب سے مصر کے صدر محمد مرسی کو دنیا بھر کے اسلام اور مسلم دشمن طاقتوں نے فرعونیت کے علمبردار عبدالفتاح السیسی کے تعاون اور مدد سے حکومت سے بے دخل کیا ہے کوئی اچھی خبر سننے یا پڑھنے کو نہیں مل رہی تھی۔  حق پسندوں پر دنیا بھر میں ظلم و ستم کی بارش ہورہی ہے۔  کہیں بھی ظالموں کو نہ صدمہ پہنچ رہا ہے اورنہ ہی ظالموں کے ظلم و ستم کرنے میں کمزوری یا مغلوبیت ہوتی نظر آرہی ہے۔  بہت دنوں کے بعد ایک اچھی خبر سننے کو ملی ہے۔
اس وقت ترکی کے صدر اردگان کی سربراہی میں جو حکومت قائم ہے۔  اس پر دشمنوں کی نظر تھی بالآخر اپنوں نے فوج کے ایک حصہ کی مدد سے ایک جمہوری اور منتخب حکومت کو زور زبردستی ہٹانے کی کوشش کی لیکن قابل تحسین اور قابل قدر ہیں ترکی کے عوام جو بدبخت فوجیوں کے ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہو گئے اور حقِ جمہوریت کیلئے اپنی قیمتی جانوں کو نچھاور کرنے کیلئے بھی تیار ہوگئے۔  عوامی طاقت اور جمہوریت کو فتح نصیب ہوئی اور اسلام دشمن کے اشاروں ناچنے والے فوجیوں کو مغلوبی اور محکومی ہاتھ آئی۔
فوج، پولس، عدلیہ جسے Deep State کہا جاتا ہے اس میں ابھی بھی بددین کمال اتاترک کے اثرات پائے جاتے ہیں۔  دنیا جانتی ہے کہ کمال اتاترک نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف وہ کام کیا جو کسی یہودی اور نصرانی نے بھی نہیں کیا۔  ترکی سے اسلام کو بالکل نکال باہر کیا۔  ہزاروں علماء کو تہ تیغ کر دیا۔  اسلامی شکل و صورت کو مکروہ بتانے میں کامیاب ہوا۔  اسلام کا نام لینا ترکی میں دشوار ہوگیا تھا۔  اسکول، کالج، یونیورسٹی، پارلیمنٹ یا کسی بھی عوامی جگہ میں لڑکیوں کو اسکارف میں جانا ممنوع قرار دیا گیا۔  اسلام کے خلاف ہر قسم کے مظاہرے کئے گئے۔  پردہ کو حرام اور مکروہ قرار دیا گیا۔  طوائفوں کو برقعہ پہنا کر سڑکوں پر مظاہرہ کرایا گیا تاکہ پردہ، نقاب یا برقعہ کا کوئی غلطی سے بھی نام نہ لے۔  اللہ تعالیٰ نے ترکی کو اسلام کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے اللہ کے نیک بندوں کو جرأت و ہمت سے نوازا۔  سعید نورسی، نجم الدین اربقان، عبداللہ گل اور طیب اردگان جیسے لوگوں نے دل و جان سے کوشش کی۔  اللہ نے ان کی کوششوں اور جدوجہد کو قبول فرمایا۔
صدر طیب اردگان نے نہایت حکمت عملی کا مظاہرہ کیا۔  زندگی کے ہر شعبہ حیات پر اپنا اثر ڈالا۔  Deep State کو بھی اپنے کاموں کی وجہ سے خاص طور سے ترکی کو معاشی ترقی کے لحاظ سے اونچا کرنے اور خوش حال بنانے میں جو کوششیں کیں ان سے بھی عوام بیحد متاثر ہوئے۔  یہی وجہ ہے کہ فوج کے اعلیٰ افسران نے بغاوت کرنے والے فوجیوں کا ساتھ نہیں دیا بلکہ عوامی جدوجہد اور جمہوریت کا ساتھ دیا۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ باغی فوج کی ناکامی اللہ کی طرف سے تھی۔  صدر ترکی طیب اردگان کی یہ ایک غیبی مدد ہے۔  اس واقعہ کے بعد وہ مضبوط سے مضبوط تر ہوں گے اور دشمنوں کو زیر کرنے میں بھی کامیاب ہوں گے۔  فتح اللہ گولن پر فوجیوں کی بغاوت پر اکسانے کا الزام صدر ترکی اور ان کی حکومت لگا رہی ہے، حالانکہ فتح اللہ گولن بغاوت میں حصہ لینے یا اکسانے سے انکار کر رہے ہیں۔  ضرورت اس بات کی ہے کہ غیر جانبدارانہ انکوائری ہو اور جو لوگ بھی مجرم پائے جائیں انھیں سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ مستقبل میں ایسا کرنے والوں کو عبرتناک سبق ملے۔
مسلم ملکوں کی بدقسمتی ہے کہ مسلم ملکوں کی فوجیں جو سرحد کی حفاظت اور امن و امان کیلئے ہوتی ہیں۔  وہ اپنے ملکوں پر غیروں کے اشارے پر قبضہ کرتی ہیں جس کی وجہ سے مسلم ملکوں میں جمہوریت پنپنے اور برگ و بار لانے نہیں پاتی۔  اسلام دشمن طاقتیں خاص طور سے امریکہ مسلم ملکوں میں اپنی حکمرانی چاہتا ہے اور یہ حکمرانی فوجیوں کو ہم نوا بنانے سے آسانی سے حاصل ہوجاتی ہے جو عوامی یا جمہوری حکومت سے ممکن نہیں ہوتی۔  پاکستان یا دیگر ملکوں کا المیہ یہی ہے کہ فوج نے بار بار منتخب حکومت کو بے دخل کیا جس کی وجہ سے عوام کا عمل دخل آج تک ٹھیک سے نہیں ہوسکا۔  پاکستان میں وکلاء اور ججوں کے ایک گروپ نے مشرف کی آمریت ختم کرنے میں جان کی بازی لگا دی جس کی وجہ سے مشرف کو جھکنا پڑا اور جمہوریت کی راہ پھر ایک بار ہموار ہوئی۔  عمران خان اور مولانا طاہر الحق قادری نے اودھم ضرور مچایا تھا مگر پاکستانی فوج ان کے بہکاوے میں نہیں آئی۔  عمران خان کو سازشی کہنا تو مشکل ہے مگر مولانا طاہر القادری جو کنیڈا میں رہتے ہیں اور غیر ملکی طاقتوں کے اشارے پر کام کرتے ہیں۔  مودی جی کے بلانے پر ہندستان بھی صوفی کانفرنس کو تقویت پہنچانے آئے تھے۔  ان جیسے لوگوں سے پاکستان کو بچانے کی کوشش کرنا تھا۔  جب تک مسلم ملکوں میں جمہوریت کے ذریعہ عوام کو عمل دخل نہیں ہوگا۔  مسلم ممالک مضبوط اور مستحکم نہیں ہوں گے۔  ترکی اور ایران میں انتخابات ہوتے ہیں پر امن اور آزادانہ ماحول میں اس لئے ان دو ممالک کی حکومتوں پر دشمنوں کی نظر ہے۔  ترکی میں جو دشمنوں کو ناکامی ہوئی ہے اس میں عوام کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔  اسی طرح امام خمینی کے انقلاب اسلامی کو جوکامیابی ملی تھی اور امریکہ کو سر نگوں ہونا پڑا تھا۔  اس میں بھی عوامی طاقت ہی کا زبردست حصہ تھا۔  اس کے بغیر ایران میں جمہوری اور اسلامی انقلاب برپا نہیں ہوسکتا تھا۔  مصر اور الجزائر میں کامیابی ضرور ہوئی تھی مگر اسرائیل، امریکہ، شیخوں اور بادشاہوں نے اسے ناکام بنادیا۔ الجزائر کی فوج فرانس کے اشارے پر اسلام پسندوں کو الیکشن میں کامیابی کے باوجود پیچھے دھکیل دیا۔  مصر میں جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہورہا ہے اس سے فرعونیت اور نمرودیت بھی شرمندہ ہے۔  السیسی نے مصر میں فرعونیت کو بھی مات دے دی ہے۔  ترکی میں جو کچھ ہوا اسے دنیا بھر کے مسلم ممالک کے عوام کو حوصلہ ضرور ملے گا۔  وہ بھی جمہوریت کیلئے آگے آئیں گے اور فوج کو بیرکوں میں رہنے پر مجبور کریں گے۔  ترکی کی فوجی بغاوت کی ناکامی سے امید ہے مسلم ملکوں کی افواج بھی سبق حاصل کرے گی۔

تبصرے بند ہیں۔