غزل – توجّہ میں تری تبدیلیاں معلوم ہوتی ہیں

افتخار راغبؔ، دوحہ قطر

توجّہ میں تری تبدیلیاں معلوم ہوتی ہیں
مجھے گھٹتی ہوئی اب دوریاں معلوم ہوتی ہیں

درختوں پر کچھ ایسا آندھیوں نے قہر ڈھایا ہے
ہواؤں سے خفا سب پتّیاں معلوم ہوتی ہیں

عجب یلغار ہے چاروں ہی جانب سے اُجالوں کی
فنا ہوتی ہوئی پرچھائیاں معلوم ہوتی ہیں

تکبّر کرنے والو کھول کر آنکھیں ذرا دیکھو
خمیدہ کب شجر کی ٹہنیاں معلوم ہوتی ہیں

حقیقت کھُل کے تیری سامنے جس دن سے آئی ہے
دکھاوا سب تِری ہمدردیاں معلوم ہوتی ہیں

جو سچ پوچھو تو ساری تیسری دنیا کی سرکاریں
کسی کے ہاتھ کی کٹھ پُتلیاں معلوم ہوتی ہیں

تمھارا مشورہ لگتا ہے جیسے حکم صادر ہے
تمھاری التجائیں دھمکیاں معلوم ہوتی ہیں

ہمیں تو آپ بھی اپنی خبر ہوتی نہیں راغبؔ
ہماری سب اُنھیں سرگرمیاں معلوم ہوتی ہیں

تبصرے بند ہیں۔