ترکی کا تلاطم : سادگی اپنوں کی دیکھ!

عبیدالکبیر

گذشتہ ماہ ترکی میں پیش آنے والے فوجی بغاوت کے بعد سے ترک صدر طیب اردگان  جو اقدامات عمل میں لا رہے ہیں  ان پر مختلف قسم کے تبصرے کئے جا رہے ہیں۔ ترکی کے حالات اور وہاں کی تبدیلیوں پر کچھ لوگ جہاں صدر طیب اردگان کی نکتہ چینی کرتے نظر آتے ہیں وہیں کچھ لوگ ترکی میں بغاوت کے جراثیم کو ختم کرنے کے لئے  طیب اردگان کے اقدامات کو حق بجانب تسلیم کررہے ہیں۔ ترکی جو کسی زمانے  میں سلطنت عثمانیہ کا مرکز رہا ہے اپنی سیاسی اور جغرافیائی حیثیت سے عالم اسلام میں بڑی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردگان جنھیں دنیا  بھر میں ایک اسلام پسند رہنما کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے ایک طویل عرصے سے ملک میں اپنی اصلاحات کی وجہ سے  کا فی مقبول ہیں۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ 15 جولائی کی فوجی کاروائی میں عوام  کی حمایت سے بخوبی لگا یا جا سکتا ہے۔ آج کی دنیا میں جہاں عوام اور حکمران گویا 26 کے عدد کی طرح اکثر متقابل نظر آتے ہیں ترک صدر کی بے انتہا مقبولیت کسی کرشمہ سے کم نہیں۔ ترکی میں ہونے والی حالیہ بغاوت کے پس پشت  صدر اردگان اور ان کی جماعت  کے بقول امریکہ میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن کا ہاتھ ہے ،اور اسی بنا پر ترک حکام امریکہ سے گولن کی حوالگی کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ بغاوت کسی بھی مملکت اور اس کے سربراہوں کی نظر میں ایک خطرناک جرم قرار پاتا ہے۔ کوئی بھی حکومت خواہ اس کی تشکیل غیر آئینی ذرائع سے ہوئی ہو اپنے خلاف کسی متوازی جماعت کے فیصلہ کن اقدامات کو خندہ پیشانی سے گوارا نہیں کر سکتی۔ اس سلسلہ میں وہ ممالک طبعاً زیادہ حساس ہوں گے جہاں بغاوت کی لہر وقفے وقفے سے اٹھتی رہی ہے۔ ترکی کی تاریخ میں بغاوت کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی وہاں بغاوت کا معاملہ پیش آچکا ہے اور مجموعی طور پر باغیوں کے بر سر اقتدار آنے کے بعد ملک عدم استحکام سے دو چار ہو اہے۔ ماضی میں قائم حکومتوں کا  تختہ پلٹ کرنے والوں نے مذہب پسند طبقہ کو جس انداز سے نشانہ بنایا اس سے یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ بغاوت کرنے والے خواہ جو بھی ہوں مگر بغاوت کی سازش  کے پس پردہ جو ذہنیت کارفرما ہے وہ بلا شبہ ترکی کو ایک اسلامی جمہوریہ کی حیثیت سے برداشت کرنے کی تاب نہیں رکھتے۔ ترکی کی منتخب حکومت جو ذرائع کے بقول اپنی پالیسیوں کی بدولت ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن رکھنے میں کامیاب رہی ہے اور اس کے جھنڈے تلے وہاں کی عوام چین وسکون کی زندگی بسر کررہے ہیں اس میں اختلال برپا کرنے کی کوشش یقیناً ایک بد تریں جرم ہے۔ اس صورت حال سے نپٹنے کے لئے اور بغاوت  کے محرک عناصر کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ترکی حکام عوام اور ارکان سلطنت کی حمایت سے جو سزائیں تجویز کریں اس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ معاملہ ان کی داخلی سیاست سے تعلق رکھتا ہے۔ مگر ترکی صدر نے جس طرح باغیوں  پر شکنجہ کسنے کا عندیہ دیا ہے اس پر عالمی برادری کی جانب سے ترک حکومت خصوصاً صدر اردگان کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ بغاوت کی واردات کو جس طور پر پائے تکمیل تک پہچانے کی کوشش کی گئی تھی اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ فوج کے وہ سپاہی جنھیں ملک اور قوم کی سلامتی کے لئے آئینی طور پر خصوصی مراعات دی جاتی ہیں جب انھوں نے عوام کی خدمت کے بجائے عوام پر اپنے تسلط اور آئین  شکنی کا راستہ اختیار کیا تو  ایسے وقت میں کیا کسی زندہ قوم سے یہ توقع کرنا مناسب ہو گا کہ وہ ان باغیوں کو اپنے عزائم میں کامیاب ہونے کا موقعہ دیں گے۔ جمہوریت کا غلغلہ بلند کرنے والے جو عوام کے لئے عوام کے ذریعہ اور عوام کی حکومت کی وکالت کرتے ہیں ان کی نظر میں ملک کی عوام کیا صرف حکومت کا نظام چلانے کے لئے ڈھلے ڈھلائے پرزوں کی حیثیت رکھتے ہیں کہ جب جب جہاں جہاں اور جس جس کو حکومت قائم کرنے کا شوق ہو وہ اٹھ کرعوام پر اپنا قبضہ جمالے۔ اگر واقعہ یہ نہیں ہے تو پھر انصاف کا تقاضہ یہ ہوگا کہ ان حالت پر غیر حقیقت پسندانہ طرز فکر سے گریز کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق بغاوت کے بعد ترک انتظامیہ نے ملک کی فکری قیادت کے اہل عناصر کی تفتیش میں تیزی دکھائی ہے۔ ترکی میں جس طرح فوج ،تعلیمی اداروں ،عدالت اور پریس سے متعلق مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا اس کو دیکھتے ہوئے بعض حضرات  کے یہ تاثرات ہمیں بھی پڑھنے کو ملے کہ یہ در اصل اردگانی بغاوت کا شاخسانہ ہے۔ ان حضرات کے بقول طیب اردگان اپنی آمرانہ پالیسیوں  کو بزور نافذ کرنے کے خواہاں ہیں اور اس واقعہ سے ان کے لئے اپنے حریفوں کو راستے سے ہٹانا مزید آسان ہو گیا ہے۔ اس سلسلہ میں بعض لوگ فتح اللہ گولن اور ان کی خدمات کی دہائی دے رہے ہیں ،ان کے بقول ترک صدر اپنے سابق رفیق کار سے انتقام لینا چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اگر ہم ترکی کے حالات کا منصفانہ جائزہ لیں تو اس بات میں کوئی شک باقی نہیں رہتا کہ ترکی میں صدر اردگان کی پارٹی اور اس کے اثر ورسوخ کی نوعیت اور حیثیت موجودہ زمانے کی سیاست سے کافی مختلف ہے۔ ترکی موجودہ زمانے میں اسلام پسند فکر کے غلبہ و قیام کی جانب جس انداز سے پیش قدمی کرتا نظر آرہا ہے اس کی مثال کم دیکھنے میں آتی ہے۔ چنانچہ صدر اردگان کی مقبولیت ترکی کے لئے خواہ کتنی ہی مفید ہو مگر عالم اسلام کو عدم استحکام کا شکار دیکھنے والے حضرات اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کر پائیں گے۔ ترکی میں جو کچھ ہوا اس پر عالمی رہنما ؤں کے  رسمی تاثر کا خلاصہ یہی تھا کہ باغیوں کے ساتھ ایک گونہ نرمی کا برتاو کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ ترکی کی عوام جنھوں نے جان پر کھیل کر ملک مخالف عناصر سے لوہا لیا کیا ان  کی قربانیوں کے مقابلے میں باغیوں کے تئیں ہمدردی جتانا مبنی بر انصاف ہے؟ فتح اللہ گولن کے تعلق سے اگر ترکی حکومت کو شک ہے تو اس کے لئے تحقیقات کا راستہ ہموار کرنے سے پہلے اس چیز کو یقینی بنانے کی آخر کیا جلدی تھی  کہ باغیوں کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔ غور کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ آج کی دنیا میں سیاسی اثر ورسوخ قائم کرنے  کے لئے جن اسبا ب کو بظاہر بڑی نیک نیتی اور خدمت خلق کے جذبے سے اپنایا جاتا ہے کیا اس میں تعلیمی اداروں پر اختیار شامل نہیں ہے۔ کسی بھی ملک کا   فوجی ،تعلیمی اور عدالتی نظام  جس فکر کی پرورش اور فروغ  کا ذریعہ بن جائے اس کا  اقتدار کی کرسی پر قابض ہو جانا نسبتاً آسان ہو جا تا ہے۔ واضح رہے کہ ترکی میں جو بھی اقدامات کئے جا رہے ہیں ان میں آمریت سے کہیں زیادہ جمہوریت کا عنصر شامل ہے۔ 15 جولائی کے بعد سے اب تک وہاں کئی ایک عوامی ریلیاں منعقد ہوئیں جن میں عوام نے ترک حکومت کے اقدامات کی حمایت بھی کی۔ ترک صدر نے اس پورے دورانیے میں حذب اقتدار اور اوپوزیشن دونوں جماعتوں کا اعتماد بھی برابر  حاصل کیا۔ البتہ اتنی بات ضرور تسلیم کی جا سکتی ہے کہ صدر اردگان بغاوت کو صرف اپنے لئے خطرہ جان کر ٹالنا نہیں چاہتے بلکہ وہ اس روش کو ترکی کے مستقبل کے لئے ایک خطرے کی گھنٹی سمجھتے ہیں اور اسی لئے وہ اس کا قلع قمع کرنے میں کسی لاگ لپیٹ کے روادار نہیں ہیں۔ فتح اللہ گولن اگر چہ بغاوت کے الزام سے خود کو بری قرار دیتے ہیں اور انھوں نے اس واقعہ کی مذمت بھی کی ہے مگر ان کی خدمات کو تسلیم کرنے کے باوجود ان کے طریقہ کار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ذرائع کے بقول ان کی خدمات تعلیمی میدان میں نمایاں ہیں وہ ترکی سمیت مختلف ممالک میں اپنے تعلیمی ادارے چلاتے ہیں۔  ان کی خدمات کا دائرہ کافی پھیلا ہوا ہے جو مختلف تنظیموں فلاحی اداروں اور مالیاتی اداروں  پر مشتمل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ترکی میں ذرائع ابلاغ کے اداروں پربھی  ان کی گرفت کافی مضبوط ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ جس شخصیت کو ایک صوفی منش آدمی قرار دیکر بے ضرر ثابت کرنے کی وکالت کی جاتی ہے اس کی دلچسپیوں کا میدان اتنی وسعت رکھتا ہے کہ خدمت خلق  کے اداروں سے لے کر ذہن سازی  اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کے وسائل تک اس میں شامل ہیں۔ اس پہ طرہ یہ کہ ایسا شخص خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی بھی بسر کررہا ہے۔ بلا شبہ  فتح اللہ گولن اور طیب اردگان کے مابین یہ چپقلش ترکی کے لئے کوئی اچھا شگون نہیں ہے تاہم اگر وہ خدشات درست ہوں جن کے پیش نظر  ترک جمہوریہ بیک آواز  طیب اردگان اور ان کی پالیسیوں کی حمایت میں سامنے آیا ہے تو  ان کو نظر انداز کرنا  انجام کے لحاظ سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس وقت ترکی جن حالات سے گذر رہا ہے وہ کوئی معمولی حالات نہیں ہیں۔ اپنے مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ جب جان کی حفاظت پیش نظر ہو تو جسم کے ساتھ ہر قسم کی جراحت روا رکھی جاتی ہے۔ اس لئے ترکی انتظامیہ اپنے دفاع اور تحفظ کے پیش نظر جو اقدامات کرے ان میں غیر ضروری رنگ آمیزی کی کوشش کو مطلقاً سراہا نہیں جا سکتا۔ ترکی میں بغاوت  کے پیچھے جو فکر کام کررہی ہے وہ ممکن ہے ترکی کو بحیثیت ایک ملک کے مزید ترقی یافتہ دیکھنا چاہتی ہو مگر یہی فکر اگر پنپتی رہی تو ترکی بحیثیت ملت باقی نہیں رہ پائے گا۔ ترکی موجودہ حالات میں جو کچھ کررہا ہے اگر کوئی دوسرا ملک ہو تا تو وہ بھی ایسا ہی کچھ کرتا۔ ہمیں اس حساس مسئلے کے ہمہ جہت پہلوؤں کا بغور جائزہ لے کر ہی کوئی رائے اپنانی چاہئے اور کسی قسم کی جلد بازی  سے بچنا چاہئے۔

تبصرے بند ہیں۔