ترکی کا سبق

ممتاز میر

 ترکی کی فوجی بغاوت اور عوامی انقلاب کو اب تقریبا تین ہفتے ہو چکے ہیں۔ دل یہ چاہتا رہا کہ کچھ لکھیں مگر جانتے تھے کہ اب مضامین کا سیلاب آجائے گا  اسلئے کچھ صبر کر لیا۔ حسب توقع لکھاریوں نے خوب خوب لکھا۔ اس انقلاب پر علماء نے دانشوروں نے خوب خوب بغلیں بجائیں۔ مگر اپنے لئے یقین ہے کسی نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ہوگا۔ یہاں یاروں کا حال ایسا ہے ’’بیٹھے ہر محفل میں لیکن؍جھاڑ کے اٹھے اپنا دامن۔ خیر، کوئی شک نہیں کہ یہ دنیا کا انمول ترین انقلاب ہے۔ مسلمانوں کے کیا دنیا کے انقلابات میں اس کی مثال ملنا قریب قریب ناممکن ہے۔ مگر کم وبیش تمام مضمون نگار حضرات نے اس عوامی انقلاب کا تمام تر کریڈٹ ہمارے مطالعے کی حد تک رجب طیب اردگان کو دیا ہے جبکہ ترکی یا رجب طیب اردگان آج جو فصل کاٹ رہے ہیں اس کے بیج کم و بیش سو سال پہلے بدیع الزماں سعید نورسیؒنے بوئے تھے۔ مصطفیٰ کمال اتاترک کے سامنے بدیع الزماں سعید نورسیؒپوری ہمت پورے استقلال کے ساتھ کھڑے رہے اگر وہ پیچھے ہٹ جاتے تو ترکی کو یہاں پہونچتے پہونچتے شاید ایک آدھ صدی اور لگ جاتی۔ انھوں نے اپنی پوری عمر یا تو جیل میں گزاری یا جلا وطنی میں کاٹی مگر کسی حالت میں اپنے فرض سے غافل نہیں رہے۔ 1877 میں ترکی کے دور دراز مقام نورس میں کرد خاندان میں ان کا جنم ہواتھا۔

وہ جہاں بھی رہے جس حالت میں بھی رہے قرآن کی تفسیر لکھ کر اپنے متبعین تک پہونچاتے رہے جو ان تعلیمات کو اپنے ہاتھوں سے لکھ کر دوسروں تک پھیلاتے رہے۔ یہی وہ اقساط تھیں جو رسالہء نور کے نام سے مشہور ہوئی تھیں۔ کمال اتاترک نے سعید نورسی کو وزارت مذہبی امور کی بھی پیش کش کی تھی جسے انھوں نے پائے حقارت سے ٹھکرادیا تھا۔ 1958 میں جب ملٹی پارٹی سسٹم کے تحت انتخابات ہوئے تو انھوں نے عدنان مندریس کی حمایت کا اعلان کیا جنھوں نے منتخب ہو کر کافی مذہبی آزادیا ں فراہم کی۔ مگر پھر عربی میں اذان کی اجازت کی بنا پر فوجی جنتا نے عدنان مندریس کو پھانسی پر چڑھا دیا۔ پھر استاد اور انجینئرنجم الدین اربکان سیاست میں آئے۔ نجم الدین اربکان سعید نورسی کے شاگرد تھے۔ نجم الدین اربکان نے کئی سیاسی پارٹیاں بنائیں۔ بالآخر 97؍1996 میں وزیر اعظم بنے۔ نجم الدین اربکان کا سب سے بڑا کارنامہ D8 تنظیم کا قیام تھا۔ یہ معاشی تعاون تنظیم 8 ممالک پر مشتمل تھی جسمیں بنگلہ دیش، مصر ایران انڈونیشیا، ملیشیا، نائیجیریا، پاکستان اور ترکی شامل تھے۔ بالآخر نجم الدین اربکان کو بھی فوج نے 1997 میں اسلام کی جانب جھکاؤ کی بنا پر معزول کرکے داخل زنداں کر دیا۔ اربکان کے دور وزارت عظمیٰ میں جب ترکی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو ان کی پارٹی نے ترکی کی اکثر بلدیات پر فتح کا پرچم لہرایا۔ رجب طیب اردگان استنبول شہر کے میئر بنائے گئے۔ اس وقت استنبول شہر کے تین مسائل سب سے نمایاں تھے (1)آلودگی (2)ٹریفک (3)تقسیم آب، اردگان نے میئر بنتے ہی ان تینوں مسائل کو ٹارگٹ کیا اور دو سال کے اندر ہی ان تینوں مسائل کو بحسن و خوبی حل کر دیا۔ مگر اتنا سب کچھ کرنے کے بعد یا یہ سب کچھ کرنے میں کامیاب ہو جانے کی وجہ سے ہی ایک معمولی نظم کو بنیاد بنا کر انھیں بھی حوالہء زنداں کر دیا گیا۔ پھر جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی وجود میں آئی جس کے سربراہ رجب طیب ارودگان تھے اور وہ جیل سے تو چھوٹ گئے تھے۔ مگر انھیں عمر بھر کے لئے سیاست سے تڑی پار کردیا گیا اسی حالت میں نیا انتخاب لڑاگیا جس میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی اکثریت میں آئی۔ اور تخت اقتدار پر براجمان ہوئی۔ اپوزیشن پیوپلز ریپبلیکن پارٹی کی مدد سے قانون میں ترمیم کرکے ارودگان کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی۔ ادھر انتخابی عدالت نے ترکی کے ایک انتخابی حلقے کے انتخاب کو کالعدم قرار دیا۔ اس حلقے میں دوبارہ انتخاب ہوا اور وہاں سے ارودگان فتحیاب ہوئے۔ عبداللہ گل جو ارودگان کے نا ہونے سے وزارت عظمیٰ سنبھالے ہوئے تھے انھوں نے رجب طیب ارودگان کے لئے جگہ خالی کردی۔ تب سے لے کر آج تک گو کہ آج وہ ترکی کے صدر بن چکے ہیں، ان کی کارکردگی کیسی رہی کیا رہی اس کی مختصر روداد درج ذیل ہے۔ (1)ترکی میں ارودگان کے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد 2002 سے 2012تک جی ڈی پی میں 64فی صدی per capita incom میں 34 فی صدی کا اضافہ ہوا۔ (2) ارودگان سے قبل IMF کا ترکی پر قرض5ء23بلین ڈالر کا تھا جو 2012 میں 9ء بلین ڈالر رہ گیا۔ پھر کچھ عرصے بعد یہ قرض بھی ختم ہو گیا۔ کچھ عرصے بعد رجب طیب اردگان نے اعلان کیا کہ IMF کو ضرورت ہو تو ہم سے ْقرض لے(3)ترکی حکومت یورپی یونین کے 9ممالک اور روس سے بھی کم ریکارڈ 17ء1پر ٹریڈنگ کر رہی ہے(4)2002 میں ٹرکش سنٹرل بینک کے پاس زرمبادلہ کے 5ء26ارب ڈالر تھے جو ارودگان کی معاشی پالیسیوں کی بنا پر 2011 میں 2ء92ارب ڈالر تک پہونچ گئے۔ ارودگان کی پالیسیوں کی بنا پر افراط زر کی شرح صرف دو سالوں میں یعنی 2002 اور 2004 کے درمیان 23 فی صدی سے کم ہو کر 9 فیصدی رہ گئی۔ اب یقینا اور کم ہو گئی ہوگی۔ (5)ارودگان کے دور حکومت میں ترکی میں 24 نئے ایئر پورٹ بنائے گئے۔ جو پہلے 26 تھے اب 50 ہوگئے ہیں۔ (6) 2002 سے 2011 کے درمیان ترکی میں 13500کلو میٹر ایکپریس وے (موٹر وے )بنائے گئے جس سے ذرائع نقل حمل میں کافی ترقی دیکھنے کو ملی(7)2009 میں ترکی کی تاریخ میں پہلی بار ہائی اسپیڈ ٹرینوں کے لئے ہائی اسپیڈ ریلوے ٹریک بنائے گئے اور اس پر 250 کلومیٹر کی اسپیڈ سے ٹرینیں چلائی گئیں۔ صرف8 سالوں میں 1076 کلومیٹر نئی ریلوے لائینس ڈالی گئیں۔ اور 5449کلو میٹر ریلوے لائینوں کی جدید کاری کی گئی(8)ملکی تاریخ میں پہلی بار محکمہء صحت میں اربوں ڈالر خرچ کئے گئے اور عوام کے مفت علاج معالجے کے لئے گرین کارڈ اسکیم کا اجراء کیا گیا(9) 2002 میں تعلیم کا بجٹ5ء7 بلین لیرارکھا جاتا تھا 2011 تک اسے رفتہ رفتہ 34 بلین لیرا تک پہونچایا گیا۔ 2002 کی 98 یونیورسٹیوں کی تعداد کو بڑھا کر اکتوبر 2012تک 186 کردی گئیں (10)1996 میں ڈالر کے بدلے ترکی لیرا۔ 222ملتے تھے۔ آج وہی لیرا ایک ڈالر میں صرف تین آتے ہیں۔ لیرا کی قدر قیمت میں یہ اضافہ اتنا بڑا ہے کہ جس نے عالمی سامراج کی راتوں کی نیند اور دن کا چین اڑا رکھا ہے اور یہی وجوہات ہیں جن کی بنا پر مغرب رجب طیب اردگان کے پیچھے پڑا ہے۔ مگر یہ سمجھنا کہ یہ صرف رجب طیب اردگان کا ذاتی یا تنہا Achievment ہے غلط ہوگا۔ یہ پورا سو سالہ عمل ہے جس کے آخری سرے پر اردگان کھڑے ہیں ورنہ ان سے زیادہ قربانیاں سعید نورسی ؒ اور اربکان کی ہیں۔ بلا شبہ ارودگان نے بھی فوج اور سیکولرسٹوں کا ظلم و ستم سہا ہے اور حضور ﷺ کی حدیث کے مطابق اس راہ سے گزرے بغیر اسلام کی نشاۃالثانیہ ہو بھی نہیں سکتی۔ یہ بر صغیر کے ہمارے ان لیڈروں کے لئے سبق ہے جو ٹھنڈے ٹھار ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کر جلسے جلوسوں کے اسٹیج سجا کرانقلاب لانا چاہتے ہیں۔ بر صغیر کا شاید ہی کوئی لیڈر ہو جو جیل جانا پسند کرتا ہو۔ جیل یہ بھی جاتے ہیں مگر اپنے کالے کارناموں کے لئے، دین و ملت کے لئے نہیں۔ ایک بات اور کہہ دین کہ یہ جو رجب طیب ارودگان کی ایک کال پر ترکی عوام رات کے اندھیروں میں گرم بستر چھوڑکر فوج سے نبرد آزم ہو گئی تھی تو ان کے دماغوں میں صرف اسلام نہیں تھا۔ ساری رپورٹس یہ بتلاتی ہیں کہ فوج کے سامنے کھڑے ہونے والوں میں صرف اسلام پسند نہیں تھے بلکہ لادین عناصر بھی تھے۔ کیوں ؟ اسلئے کہ ایک اسلام پسند نے ان کے پیٹ کے مسائل کو اس طرح حل کیا تھا کہ گذشہ 100 سالوں میں کسی کمیونسٹ یا سیکولرسٹ نے حل نہیں کیا تھا۔ ان کی معاشی حالت کو صرف چند سالوں میں کئی گنا بلند کر دیا تھا۔ ہاں بلا شبہ یہ کام کوئی اسلام پسند یا خدا ترس حکمراں ہی کر سکتا تھا۔ مگر آج رجب طیب ارودگان کی عوام پر گرفت کا یہ عالم ہے کہ اگر ارودگان عوام سے پیٹ پر پتھر باندھنے کے لئے کہہ دے توعوام پیچھے نہیں ہٹے گی۔ اس کی سب سے بڑی مثال افغانستان کے طالبان تھے جو صرف 5 سال اقتدار میں رہے مگر صرف 5 سالوں میں جنھوں نے افغانستان کے چپے چپے سے پوست کی کاشت بند کروادی تھی۔ جب کے دنیا کے سپر پاور دہائیوں افغانستان پر قابض رہے اور ہیں مگر طالبان کے بعد کوئی اسے بند نہ کروا سکا۔ ایسا کیوں ہوا؟اسلئے کہ جتنے ننگے بھوکے عوام تھے اتنے ہی ننگے بھوکے وہاں کے حکراں بھی تھے۔ ملا عمر اور ان کے رفقاء ویسے ہی رہتے تھے جیسے عوام رہتی تھی۔ پھر یہ بات تو بڑی مشہور ہے کہ جیساراجہ ویسی پرجا۔

 دسمبر 2013 میں ارودگان اور ان کے وزراء پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے تھے۔ صرف تین مہینے بعد پورے ترکی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے اور جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو پچھلے 39 کے مقابلے ساڑھ چار فی صدی ووٹ زائد ملے تھے۔ یعنی عوام نے کرپشن کے الزامات کو جھوٹا سمجھا تھا۔ یہ اعتماد یونہی نہیں مل جاتا۔ امید تو یہی ہے کہ اب داخلی عناصر قریب قریب تمام ہی ارودگان کے قابو میں آچکے ہونگے۔ اب بیرونی عناصر کو داخلہ میں کالی بھیڑوں کا ملنا مزید مشکل ہو جا ئے گا۔ امید ہے کہ وہ ملکی تعمیر و ترقی پر مزید توجہ دیں گے۔ آج معاشی لحاظ سے ملک جہاں کھڑا ہے دفاعی لحاظ سے بھی اس کو وہاں پہونچا دیں گے۔ آخری بات یہ کہ آج ترکی اس مقام پر ہے کہ وہ IMF کو قرض دے سکتا ہے۔ اس کے بجائے ترکی یہ کرے کہ غریب اور کمزور ممالک کو بلا سودی قرض فراہم کرے۔ یہ اس کی شرعی ذمے داری ہے۔ ہاں قرض وصولی کی گارنٹی پہلے ہونا چاہئے۔

تبصرے بند ہیں۔