’’امن وانسانیت مہم ‘‘ اورخوف ودہشت کا ماحول

عـبـدالـعـزیز

            اس وقت آر ایس ایس  اوران کی ذیلی تنظیموں مثلاًوشوہندوپریشداوربجرنگ دل وغیرہ کی جانب سے مرکزی اورریاستی حکومتوں کے تعاون اورمددسے پورے ملک میں خوف، دہشت اورعدم تحفظ کاماحول طاری ہے جب تک مسلمانوں کے خلاف خوف زدگی اوردہشت گردی کاماحول تیاری کیاجارہاتھاملک میں تھوڑی بہت چیخ وپکارہوئی تھی مگرمودی حکومت اورآرایس ایس نے کوئی اثرنہیں لیاتھابلکہ بی جے پی کے پارٹی کے ایم پی اورایم ایل اے حالات کوبدسے بدتربنانے میں سرگرم عمل تھے۔ مودی کابینہ کے کلچرل منسٹرمسٹرمہیش شرمانے دادری کے محمداخلاق کوگائے گوشت کے شبہ میں قتل کوحق بجانب ٹھہرایااوربی جے پی کے کئی لیڈروں نے کھلم کھلاگائے ماتاکی حمایت میں مسلمانوں کے قتل کوجائزقراردیا۔ جموں وکشمیراسمبلی کے آزادامیدوارعبدالرشیدکوبھری بزم میں یعنی ریاستی اسمبلی میں بی جے پی کے ایک ایم ایل اے نے زوردارطمانچہ رسیدکیااورکہاکہ آئندہ کوئی بیف فیسٹیول یااس قسم کی حرکت کرے گاتواسے اپنی جان سے ہاتھ دھوناپڑے گا۔ آندھراپردیش کے بی جے پی کے ایک ایم ایل اے نے بھی اسی قسم کی بات گائے ماتاکی محبت میں کی۔ جب گائے پرستوں کے اندرڈھٹائی اوربے حیائی حدسے زیادہ پیداہوگئی توان کارخ دلتوں کی طرف ہوگیا، گجرات کے اونامیں چاردلت نوجوانوں کی برہنہ پیٹھ پرلکڑی کے ڈنڈے اورلوہے کی چھڑسے پٹائی کی گئی محض اس بات پر کہ وہ گائے کی کھال اتاررہے تھے جس گائے کوکسی شیرنے مارمارکوچھوڑدیاتھا۔ اسی دوران مایاوتی کوبھی بی جے پی اترپردیش کے صدرنے فاحشہ کہہ کرخطاب کیاجس نے آگ میں تیل ڈالنے کاکام کیا۔ پنجاب اوردیگرریاستوں میں دلتوں پرجبروستم جاری تھا۔ گجرات کے دلت اُٹھ کھڑے ہوئے اورپورے ملک میں دلتوں کااحتجاج بڑے پیمانے پرہونے لگا۔ جواہرلال نہرویونیورسٹی کی تحریک اورروہت ویمولاکی خودکشی کے پس منظرنے دلتوں کے ضمیرکوبیدارکردیالڑنے مرنے کے لئے وہ تیارہوگئے، ان کے دل سے خوف جاتارہا۔ وزیراعظم جوکئی روزسے تماشادیکھ رہے تھے جب ان کی پارٹی کے اندرسے بھی دلتوں کی آوازاُٹھنے لگی تووہ حرکت میں آگئے اور سیاسی حالات کوسنبھالنے کی کوشش کی۔ گائے کے نام نہادمحافظوں کوغنڈے سے تعبیرکیااورکہاکہ دلت بھائیوں کوگولی سے مارنے کے بجائے انہیں گولی ماردی جائے یہ کسی حکمراں کی بیچارگی یابیوقوفی کایہ کھلم کھلاثبوت تھالیکن اس سے یہ حقیقت سامنے آگئی کہ اپنے تحفظ اوربچاؤکے لئے اگردلت فرقہ اُٹھ کھڑانہیں ہوتااوربی جے پی کواپنے پاؤں تلے سے زمین سرکتی نظرنہ آتی توشایدمودی کے منہ سے سیاسی مکالمہ دنیاکوسننے کونہیں ملتا۔ مودی جی کے بعدآرایس ایس کے لیڈروں کی طرف سے بھی دلتوں پرجبروظلم کی زبردست مذمت کی گئی۔ اچھاہواکی دلت تحریک کے لیڈران مودی یاآرایس ایس کے جھانسے میں نہیں آئے اپنی مہم یاتحریک جاری رکھی۔

            دلتوں سے کہیں زیادہ گائے کے نام پرمسلمانوں پرظلم وستم ڈھایاگیااورمسلم فرقہ کی طرف سے آوازضروراُٹھی مگرکمزوراورمدھم۔ محمد اخلاق کوبہیمانہ طورپرقتل کیاگیاان کے خاندان کو اپناگھربارچھوڑنے پرمجبورہوناپڑا۔ کچھ مہینوں بعدان کے خاندان کے خلاف ایف آئی آردرج کیاگیااورانہیں ہرطرح سے ڈرایادھمکایاگیا۔

            مسلم فرقہ خاموش رہا۔ نہ اترپردیش کی سطح پرکوئی مظاہرہ ہوااورنہ ملک گیرپیمانے پرکوئی مہم اس کے خلاف شروع ہوئی۔

            شایدیہ اندیشہ دامن گیرتھاکہ مسلمان اگراپنے دردوغم کوظاہرکریں گے توسنگھ پریوارکوفرقہ پرستی کی آگ کوبھڑکانے کاموقع ملے گا، اس کی وجہ سے ملک کی تمام مسلم تنظیموں کے اندرتذبذب کی کیفیت طاری رہی کوئی فردیاجماعت آگے نہیں بڑھی نہ کوئی مسلم قیادت نے پرزورآواز بلندکی مضامین ہم جیسے لوگ لکھتے رہے مگراس کابھی خاطرخواہ کوئی اثرنہیں پڑا۔

            جماعت اسلامی ہندمرکزی مجلس شوریٰ کے غوروفکرکے بعد’’امن اورانسانیت ‘‘کے نام پرپورے ملک میں جماعت کی جانب سے مہم کاآغازکرنے جارہی ہے۔ جماعت کی جانب سے جوسرکلرجاری ہواہے اس میں ہدایت کی گئی ہے کہ ہرریاست میں مجلس استقبالیہ کی تشکیل ہوجس میں مسلم اورغیرمسلم سرکردہ افرادشامل ہوں اوران کی طرف سے پروگرام کے دعوت نامے جاری کئے جائیں۔ میرے خیال سے یہ بات بہت اہم تھی مگرمرکزنے کوئی اس قسم کے کسی استقبالیہ کی تشکیل نہیں کی جس کی وجہ سے ریاستوں میں تشکیل شایدنہیں کی گئی یا اس کی اہمیت کوبالکل نظراندازکردیاگیا۔ اس کی وجہ سے مہم کے جواثرات ملے جلے ماحول میں پیداہوتاوہ ہونے سے رہا۔

            جہاں تک مسلمانوں کے اندرمہم کے اثرات کامعاملہ ہے یقیناکچھ نہ کچھ حرکت ہوگی مگرجب پورے ملک میں انسانی حقوق سلب کئے جارہے ہیں اورخوف دہشت اورعدم تحفظ کاماحول پیداہوگیاہے مسلمانوں کے اندرتھوڑی بہت بیداری یاحرکت سے مہم کاکوئی قابل ذکراثرنہیں پڑے گا۔ جماعت نے کچھ نہیں سے کچھ کرناچاہااس کے لئے وہ قابل مبارکبادضرورہے مگراگروہ پہلے ملی تنظیموں کے سربراہوں اورملت کی چیدہ شخصیتوں کامشاورتی اجتماع منعقدکرتی اورامن وانسانیت کی مہم کے مقاصداورطریقہ کارکوصلاح ومشورہ سے طے کرتی اورپھرمسلم اورغیرمسلموں کے اجتماع میں بھی صلاح ومشورہ سے استقبالیہ کی تشکیل کرتی توشایداس کی نقل ریاستوں میں بھی کی جاتی۔ پھریہ مہم پراثرہوتی اوراس کے اثرات بھی مرتب ہوتے۔ مہم کے بعدجائزہ لیاجاتااگراس سے جواثرات مرتب ہوتے اس پربحث ومباحثہ، غوروفکرکے بعددہشت اورعدم تحفظ کے ماحول کوملی جلی طاقت کے ذریعہ جمہوری طریقہ سے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی توحالات میں یقیناتبدیلی پیداہوتی، دلتوں کوخاص طورسے ہرمہم کاحصہ بنانے سے شرپسندوں کے شرسے نمٹنے میں آسانی ہوتی۔ جمہوریت میں کسی کاکچھ نہ بگاڑوتوکون ڈرتاہے بالکل صحیح ہے۔ دلتوں کے متحداورمنظم ہونے سے سنگھ پریوارکی سیاسی پارٹی بی جے پی کوخطرہ لاحق ہوگیاجس کی وجہ سے اسے نرم ہوناپڑا۔ گاؤپرستوں کے عزائم میں ویسے کمی نظرنہیں آرہی ہے وہ اب بھی گاؤپرستی کی رٹ لگائے ہوئے ہیں اورمودی کوللکاررہے ہیں۔ دیکھنایہ ہے کہ مودی کی حکومت شرپسندوں کے سامنے جھکتی ہے یاشرپسندمودی حکومت کے سامنے سرنگوں ہوتے ہیں۔ امن کی بحالی اورانسانیت کاتحفظ نرمی اورگرمی کے بغیرممکن نہیں ہے۔ دیس کے ہرطبقہ کاضمیرجب جاگے گااوربدامنی اورفسادوفتنہ پھیلانے والوں کے خلاف سب اکٹھاقدم اُٹھائیں گے جب ہی شرپسندوں کی سرکوبی ممکن ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔